Tuesday, June 28, 2022

Lhore Darbar, Anti Punjab Syndrome and flawed narratives

 


Lhore Darbar, Anti Punjab Syndrome and flawed narratives 

Blaming the Punjab and Punjabis is a latest fashion and you may find many Punjabis & Non Punjabis in it, partly due to ignorance & partly due to various biases & prides. Just to deconstruct misleading narratives I wrote this article for a Lhore based magazine Depak in its June 2022 Issue. You feel free to ask any question or share your thoughts. 

گمشدہ  تاریخ کے اوراق

لہور دربار، پنجاب مخالفت اور ہمارا المیہ

عامر ریاض


پنجاب اور پنجابی کی مخالفت اک جدید فیشن ہے کہ اس میں بڑے بڑے جگادری حاضریاں بھرنا ضروری گردانتے ہیں کہ اس 

  مہم میں پنجابی اور غیر پنجابی بھی شامل ہیں۔ انگریزوں کے خلاف مسلح و  جمہوری جدوجہد ہو یا پھرپاکستان  میں سیاسی لہر ، پنجابی ہر جگہ پیش پیش رہے کہ غدر پارٹی، بنئیے کے خلاف تاریخی فتح سے ذولفقار علی بھٹو کو قائد عوام بنانے اور ضیا شاہی کے خلاف

 جدوجہد سے تادم تحریر مزاحمتی جدوجہد میں  پنجاب اور پنجابیوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ مگر جنھیں اپنی ہی مزاحمتی تاریخ بارے علم نہیں وہ کہتے ہیں کہ پنجاب اور پنجابیوں نے کبھی مزاحمت نہیں کی۔ یہی وجہ ہے آپ کو اس تحریر کے ذریعے

 معلومات دی جا رہی ہیں کہ اپنی گمشدہ تاریخ بارے جانتے ہوئے ہی آپ انگریزی علم کے کھلار  کو سمجھ پائیں گے۔



دنیا بھر میں پھیلے 20 کروڑ سے زیادہ پنجابیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ جنوبی ایشیائی باشندوں کے لیے 29 مارچ کا دن بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ دن ہے جب برصغیر کی آخری دیسی ریاست کو گورے حکمرانوں نے سر نگوں کیاتھا۔ وہ دیسی ریاست جس کا نام ”لہور دربار“ تھا اور جو پورے 50 برس کشمیر سے فاٹا تک برقرار رہی اور جس کا اثر شکار پور، کابل، قندہار اور قلات تک پھیلا تھا۔ اس ریاست کا ساتھ دینے والوں میں پنجابی’پٹھان، کشمیری،بلتی بھی تھے، ہندو، سکھ اور مسلمان بھی تھے’جٹ’راجپوت’ارائیں اور گجر بھی’پوربی اور افغان بھی اور یورپی و امریکی فوجی بھی۔ مگر انگریزوں اور ان کے ہمنوا لکھاریوں نے یہی جھوٹ پھیلایا کہ لہور دربار کی حکومت تو سکھوں کی بادشاہی تھی۔ ہشیار انگریز دانشوروں نے سکھ مسلم اور پنجابی’غیر پنجابی تضاد کو خوب استعمال کیا اور اس کے تحت مطلبی تاریخ لکھوائی جو آج بھی ہمارے محققین کا منہ چڑاتی ہے۔ اس مطلبی تاریخ کو کون آگے بڑھا رہا ہے؟یہ اپنی جگہ عجب داستان الم ہے کہ پاکستان، بھارت اور افغانستان کے سرکاری نصابوں میں سرکار انگلشیہ کا نقش پا  ''نئی قوم پرستیوں'' کی صورت صاف نظر آتا ہے۔ حتاکہ آکسفورڈ، کیمرج اور امریکی علم بھی اس کی وٹوانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک مثال افغان لٹریچر کی ہے کہ افغانستان کے بادشاہ  دوست محمد خان( 1792 تا 1863) کا بھائی سلطان محمد  خان طلائی تو آخر تک لہور دربار کا سجن رہا جبکہ باجوڑ’خیبر اور دیر کے خان لہور دربار کے ساتھ رہے۔ 1830 کی دہائی میں بریلی سے لاہور آ بسے دیوی پرشاد کی کتاب 1850میں چھپی کہ جس میں دوست محمد خان کے اس فرزند کا ذکر ہے جو جنوری 1849 میں گجرات کے پاس ہونے والی خونی جنگ میں انگریزوں کے خلاف  پنجابیوں کے روبرو لڑا۔

جب 1790 کی دہائی میں نوجوان مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنی بادشاہت بنا رہا تھا تو کسی بھی بادشاہت کی طرح اس  کے سکھ مثلوں کے پنجابی  سرداروں، مسلمان پنجابی راجوں اورپٹھانوں و دیگر سے ٹاکرے ہوئے مگر ان میں کئی تھے جو ان لڑائیوں کے بعد طویل عرصہ مہاراجہ کے ساتھ رہے مگر انگریز سکالرشپ نے باوجوہ اس کا ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا کہ وہ صرف لڑائیوں بارے ہی بتانا چاہتا تھا۔ایک مثال قصور کے حکمران خاندان کی ہے کہ  ایک مہم میں قصور کے خان مہاراجہ کے ساتھ لڑے مگر بعد میں وہ تادیر مہاراجہ کے ہمرکاب رہے،کشمیر کی مہم میں تو یہ خان صاحب مہاراجہ کی طرف سے بڑی بے جگری سے لڑے۔لاہور کے فقیر خاندان بارے تو ہم سب جانتے ہی ہیں مگر امرتسر کے میاں غوثا’ملتان کے سانول مل اور مول راج ہوں یا کشمیر کے شیخ برادران  اور یونینسٹ پارٹی کے میاں فصل حسین اور شاہنواز ممدوٹ  کے بزرگ یہ سب لہور دربار کے ساتھ مل کر انگریزوں سے برسرپیکار رہے۔نور خان کا ذکر تو محمد شاہ کی مشہور رزمیہ ”جنگ ہند پنجاب“ میں محفوظ ہے جو پنجاب پر قبضہ کے بعد لکھی گئی۔ مگر ہمیں یہی سبق پڑھایا گیا کہ لہور دربار تو سکھوں کی بادشاہی تھی۔



شاہ شجاع سمیت احمد شاہ ابدالی کے تینوں پوتوں کو پناہ و جاگیریں دینے والے لہور دربار کو گرانے کے لیے انگریزوں کو تین خوفناک جنگوں سے گزرنا پڑا۔ گجرات کے قریب چیلیانوالہ کے مقام پر جو خوفناک لڑائی ہوئی اس میں پنجابیوں کے ہمراہ دوست محمد خان کا بیٹا بھی انگریزوں کے مخالف لڑا۔ اس جنگ کی بڑی یادگار چیلیانوالہ کا ”گورا قبرستان“ہے۔ فیصل آباد کے مرحوم  میجر معین باری نے چلیانوالہ پر باکمال کتاب چھاپ رکھی ہے۔ ان جنگوں میں حصہ لینے والے کپتان کنگھم نے جب کتاب میں اعتراف کیا کہ یہ جنگیں سازشوں سے جیتیں گئی تھیں تو انگریزوں نے اس کتاب پر پابندی لگا دی تھی۔اس کی بیوی نے یہ کتاب تین بار چھپوائی مگر آزادی اظہار کے عملبرداروں نے اس پر ہر بار پابندی لگائی۔ یاد رہے کہ ہمارے بچوں کو یہ تاریخ نہیں پڑھائی جاتی۔ انگریز دانشوروں نے مسلمانوں کو ”سکھا شاہی“ اور سکھوں کو ”مسلم حملہ آوروں“ کی اصطلاحیں دیں تاکہ یہ آپس میں دست و گریباں ہی رہیں اور پنجابی پختون تضاد اور سکھ مسلم تضاد پھلتا پھولتا رہے۔ لہور دربار کی 90 فی صد آبادی تو ان دونوں مذاہب کے ماننے والوں پر مشتمل تھی کہ ان میں اختلافات ایجنڈے کا خصوصی حصہ رہا۔ مسلم اور سکھ بنیاد پرست و انتہاپسند گروہ آج بھی اُسی انگریز پالیسی کے اسیر ہیں کہ اس میں وہ قوم پرستوں کی جتھے بندیاں بھی پیش پیش رہیں۔

27 جون 1839 وہ دن تھا جب 1799 سے برسراقتدار گوجرانوالہ کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا انتقال ہوگیا۔ 1803 میں دلی پر قبضہ کے بعد للچائی نظروں سے پنجاب پر قبضہ کے خواب دیکھنے والے انگریزوں  کے راستے کی سب سے بڑی اور دیوقامت دیوار گر گئی۔ایک سال کے بعد قلات(بلوچستان)’پھر قندہار اور کابل،چار سال کے بعد سندھ’سات سال کے بعد کشمیر اور 10 سال کے بعد پنجاب بشمول فاٹا پر انگریز کا قبضہ ہوگیا۔ پرنسپ’دیوی پرشاد’برائن ہیوگل’سٹین بیچ’گاڈنر’کپتان کنگھم’گنیش داس’شہامت علی سمیت لاتعداد لکھاریوں نے 1850 تک لہوردربار بارے بہت سی کتب لکھیں۔ ان کتب کو پڑھنے سے ہمیں انگریزوں سے پہلے کے سیاسی’سماجی حالات بارے جاننے میں مدد ملتی ہے۔ اس دور میں ہمارے خطوں میں سب سے بڑی زبان فارسی تھی اور فارسی کا ہمارے خطہ کی مادری زبانوں سے گہرا رشتہ بھی تھا۔ خدا بھلا کرے اگروال صاحب کا جن کی وجہ سے گنیش داس کی فارسی میں 18ویں صدی کے پنجاب پر لکھی  کتاب ”چار باغ پنجاب“ پنجابی و انگریزی میں ترجمہ ہوگئی۔ مقصود ثاقب نے اسے شاہ مکھی میں بھی چھاپ کر لاہور کی لاج رکھ لی۔ مگر تاحال ہمارے خطہ بارے کتنی ہی فارسی کتب ترجمہ نہیں کروائی گئیں۔ لہور دربار پر قبضہ کے بعد انگریزوں نے مرحلہ وار انداز میں فارسی کو ختم کرنے کی مہم شروع کی۔ 1865 کے بعد پنجاب بشمول پشاور’کشمیر اور قلات میں اُردو کا نفاذ فارسی کو ختم کرنے کی مہم کا خاص حصہ تھا۔ اس تاریخ کو ہمارے ہاں جان بوجھ کر چھپایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان’بنگلہ دیش اور بھارت کی گذشتہ ہزار سال کی تاریخ فارسی اور ترکی زبانوں ہی میں محفوظ ہے۔





 

29مارچ کا دن اس لیے اہم ہے کہ یہ ہمیں اپنی تاریخ کو جاننے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایک مثال بادشاہی مسجد کے میناروں کے شہید ہونے کی ہے جو 1827 کے زلزلے کے بعد اپنی اصلی حالت میں نہیں رہے تھے کہ اس کے بعد 1839 میں ایک اور زلزلہ آیا تھا۔ اس زمانے میں آنے والے زلزلوں کے ریکارڈ کے حوالہ جات زلزلوں کے حوالوں سے موجود بین الاقوامی ویب سائٹ پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ 1873 کا گیزیٹر بھی 1839 میں بادشاہی مسجد کے میناروں کے زلزلہ کے بعد شہید ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ مگر بہت سے لکھاریوں نے میناروں کے شہید ہونے کا الزام سکھوں پر دھردیا۔ یہ کہانی گھڑی گئی کہ راجہ جموں گلاب سنگھ کے سپاہی توپیں لے کر شاہی مسجد کے میناروں پر چڑھ گئے تاکہ شاہی قلعہ کے اندر گولے برسا سکیں۔ آپ میں سے جس نے بھی بادشاہی مسجد کے میناروں کی سیڑھیاں دیکھی ہیں وہ با آسانی اس جھوٹ کو سمجھ سکتے ہیں۔ ان تنگ سیڑھیوں میں سے تو پیں لے جانا تو دور کی بات’وہاں سے تو دو انسان اکٹھے بھی نہیں جاسکتے۔ اگر توپیں ہی لے جائی گئیں تھیں تو پھر مسجد کے پچھلے مینار گرانے کی تو ضرورت نہ تھی کیونکہ وہ تو قلعہ کی طرف نہیں تھے۔ اسی طرح 1827 کے زلزلے میں لاہور کی بہت سی تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا۔ زلزلوں سے ہوئے ان نقصانات کو بھی سکھوں کے کھاتے ڈال دیا گیا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ لہور دربار کی حکومت میں مسلمانوں کا تناسب 70 فی صد سے بھی زیادہ تھا۔ اگر مہاراجہ مسلمانوں کا دشمن ہوتا تو اس کی حکومت 3 سال بھی نہ چل سکتی۔ اسی طرح سکھوں کو مسلمانوں سے متنفر کرنے کے لیے احمد شاہ ابدالی کے حملوں اور میر منو کے دَور کے واقعات کو مرچ مصالحہ لگا کر پیش کیا گیا۔ احمد شاہ ابدالی اور میر منو تو مسلمانوں اور پٹھانوں کے ساتھ بھی لڑتے رہے تھے مگر سکھوں کو یہ باتیں نہ بتائی گئیں۔یہ سب جیمس مل کی تقلید تھی جس نے جنوبی ایشیا بارے1824 میں کتاب لکھی اور ہندو دور اور مسلم دور کی گمراہ کن اصطلاحیں ایجاد کیں۔ بھلا ہو رومیلہ تھاپڑ کا جس نے اس کی کاٹ کی مگر بھارت اور پاکستان کے نصابوں میں اس عبقری کی تحقیق کو باوجوہ جگہ نہ مل سکی۔ جو سکول سسٹم ہمارے خطوں میں انگریزوں نے بنایا اس میں مادری زبانوں یعنی پشتو’بلوچی’براہوی اور پنجابی کو دیس نکالا دیاگیا تھا تو دوسری طرف ان کی تیار کردہ نصابی کتب میں صوفیا اور بھگتوں کی تعلیمات شامل ہی نہ تھیں۔

بنظر غائر دیکھا جائے تو1854 کے ووڈزڈسپیچ سے لے کر جی ڈبلیو لائیٹنر کی 1882 کی تعلیمی رپورٹ تک بہت سے انگریز تھے جنھوں نے ان اقدامات کی مخالفت کی۔ اس تعلیمی بندوبست کی خوبیوں اور گھاٹوں پر ہم نے تاحال کچھ کام نہیں کیا اور اس کا الزام انگریزوں پر قطعاً نہیں ڈالا جا سکتا۔ لائیٹنر نے تو اپنی شہرہ آفاق کتاب ”پنجاب میں دیسی تعلیم“ میں نہ صرف پنجابی زبان کے چھ رسم الخطوں کا ذکر کیا ہے بلکہ پنجابی’فارسی سلسلوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ مگر برٹش انتظامیہ نے بوجوہ ان باتوں کو ضروری نہ گردانا۔ دیکھا جائے تو فارسی نے اس خطہ کو جوڑا ہوا تھا جو ایک طرف وسط ایشیا و ایران تک جاتا تھا تو دوسری طرف کشمیر تک مگر اس جڑت کو توڑنا نو آبادیاتی مفادات کا بڑا مقصد ٹھہرا کہ وہ سلک روٹ کے رستوں کو برباد کرنے یا ان پر قابض ہونے ہی آئے تھے۔ یہ سب تو گورے حکمرانوں کے کارنامے تھے مگر ہم نے 75 سالوں میں اسی سلسلہ کو کیوں جاری رکھا؟ یہ ہے وہ سوال جس کو آج ہم نے دوبارہ سے دیکھنا ہے۔ 29مارچ کا دن اس کھوج کی طرف رخ کرنے ہی سے عبارت ہے۔”لہور دربار کے واقعات1810 تا1817“وہ قابل ذکر کتاب ہے جس کا مسودہ پٹنہ سے ملا تھا اور 1930 میں اس فارسی مسودے کو پنجاب ریکارڈ آفس بھیج دیا گیا تھا۔1933 میں اسے انگریزی میں چھاپا گیا جس کو پڑھ کت چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔دربار میں پنڈی داس بھی بیٹھا ہے جو بکھر ٹھٹہ آبی گذرگاہ کے ٹھٹہ میں  حکمران راجہ کا نماہندہ ہے اور  ٹھٹہ سے سمندر کو ملاتی گذگاہ پر بنی اس خطہ کی واحد تجارتی بندرگاہ ”لہوری بندر“ کا امین ہی نہیں بلکہ دریائی تجارتوں کا نگہبان بھی ہے۔تجارتوں کو چالو رکھنے کے لیے مہاراجہ اسی کو ہنڈی کروانے کے لیے رقمیں دیتا ہے۔ 1538 میں لکھی فارسی کتاب تاریخ طاہری میں لہوری بندر کا ایک پرانا نام لہورہ داہڑو بھی لکھا ہے اور یہ بھی کہ اس بندرگاہ کو1538سے قبل پرتگالی تین بار آگ لگا چکے تھے۔ 1332 میں ابن بطوطہ  یہاں 5دن رہا تھا کہ انگریزوں نے سندھ پر1843 میں قبضہ کیا اور دریاوں سے جڑی قدرتی بندرگاہ کو برباد کر کے کراچی پر بظاہر اک حفاظتی بندگاہ بنائی۔ اسی کتاب میں قاضی فقیر اللہ کا واقعہ بھی لکھا ہے جنھوں نے1811 میں  بادشاہی مسجد کو پہلی دفعہ عوام  کے لیے کھولا اور یہاں عید کی نماز کروائی۔ مگر انگریزوں نے اپنے درباری لکھاریوں جیسے جج لطیف اور کنھیا لال کے ذریعے یہ لکھوایا کہ سکھوں نے مسجدیں برباد کر دیں۔




مذہبوں ’فرقوں ’زبانوں اور رسم الخطوں سے خوب کھیلا گیا۔ لہور دربار میں مسلمانوں کے بعد عددی اعتبار سے دوسرا بڑا مذہبی گروہ سکھ تھے۔ انگریزوں نے پہلے کشمیر کو لہور دربار سے الگ کیا اور 1850 کی دہائی کے اولین سالوں میں ستلج پار سے دلی تک کا علاقہ پنجاب میں شامل کردیا۔ اب پنجاب میں دوسرا بڑا مذہبی گروہ سکھوں کی بجائے ہندو بن گئے۔ سکھوں کو تو تادیر اس کی سمجھ ہی نہ آئی۔1941کی مردم شماری کے مطابق بھی پنجاب میں ہندو 22فی صد جبکہ سکھ 11فیصد تھے۔ ان اعدادو شمار سے اکھاڑ بچھاڑ کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ 29 مارچ کا دن ہمیں اس سماجی اتھل پتھل یعنی سوشل انجینئرنگ کی یادلاتا ہے جس سے ہمارے بچوں کا آگاہ ہونا ضروری ہے۔ یہ مسئلہ محض پنجاب کا نہیں بلکہ خیبر پی کے’بلوچستان اور سندھ کا بھی ہے

 اور مشرقی پنجاب اور کشمیروگلگت بلتستان کا بھی۔ افسوس ہمارا باخبر اور مقتدر میڈیا بھی 29 مارچ کے دن کی اہمیت سے تاحال ناآشنا ہے۔ ہم جانتے یا ناجانتے ہوئے سکھ مسلم اور پنجابی غیر پنجابی تضادات کے مہلک اثرات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مذہبی بنیاد پرست اور انتہا پسند تو انہی تضادات کو استعمال کر رہے ہیں مگر ترقی پسند، قوم پرست اور لبرل دانشور بھی اسی مطلبی تاریخ کے اسیر نظر آتے ہیں۔ آج اگر ہماری یونیورسٹیاں اور میڈیا اس بارے غور کریں تو کوئی وجہ نہیں ہم اپنی تاریخ سے آگاہی حاصل کرنے کی طرف سکیں۔ کیا آپ یونیورسٹیوں میں پنجاب سٹیڈیز کے نام سے شعبہ جات نہیں بناسکتے؟ کیا آپ تاریخ  ' سماجیات’سیاسیات اور جغرافیہ کے شعبہ جات میں ایم فل’ایم اے اور پی ایچ ڈی کے لیے پنجاب کی تاریخ و ثقافت کے حوالہ سے مقالے تجویز نہیں کر سکتے؟ آجا کر ہمیں 1857 جیسے واقعات ہی یاد رہتے ہیں جنھیں 1948 کے بعد بھارتی قوم پرستی کا جزو لاینفک بنالیا گیاحالانکہ خود نہرو اس کے حق میں نہیں تھے۔ ہندو بنیاد پرست ساور کر وہ پہلا شخص تھا جس نے 1857 کو جنگ آزادی کہاتھا اور حوالہ اس کا ہندو قوم پرستی تھی۔ انگریز اگر 29 مارچ کو یاد نہیں رکھنا چاہتے تھے وہ تو سمجھ آتا ہے مگر ہم آخر کیوں تاحال انگریزی پالیسیوں کے اسیر ہیں؟ ہم اپنے بچوں کو بابا فرید’بابا نانک’مادھو لال حسین’بابابلھے شاہ’وارث شاہ’بابافرید’میاں محمد بخش کے متعلق نہیں بتانا چاہتے۔ ان باکمال بزرگوں کے لازوال کلام کو نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ انگریزی کی 8 ویں کی کتاب میں میلہ چراغاں پر سبق شامل ہوتا تھا مگر اب وہ بھی نکال دیا گیا ہے۔ حسن نظامی کی پنجابیوں کے خلاف لکھی تحریروں کو تونصابی کتب میں ہشیاری سے شامل کیا جاتا ہے مگر امرتا پریتم کی ”اج آکھاں وارث شاہ نوں۔۔۔ کھتے قبراں وچوں بول“ کو نصابی کتابوں میں شامل کرنا گناہ عظیم ہے۔ ایک زمانہ میں تیسری سے 8 ویں جماعت تک ہر ضلع کی الگ الگ کتب چھپتی تھیں جو کسی حد تک طالب علم کا اپنی دھرتی سے تعلق جوڑتی تھیں۔ مگر اب ان کتب کو چھاپنابھی بند کر دیا گیا ہے۔ اگر ہمارے بچوں کو یہی معلوم نہ ہو گا کہ انگریزوں کے قبضہ سے قبل پنجابی وسیب کیا تھاتو وہ احساس کمتری کا شکار رہیں گے۔ بس 75 سالوں سے اس احساس محرومی کو بڑھاوا دیا جاتا رہا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ بس اس لیے 29 مارچ کے دن کو یاد رکھنا ہم سب پر لازم ہے۔

 

 














Sunday, June 19, 2022

FATF, Changed realities & Pakistan (ایف اے ٹی ایف، بدلدا ویلہ اتے پاکستان)

 


FATF, Changed realities & Pakistan 
(ایف اے ٹی ایف، بدلدا ویلہ اتے پاکستان)

 سال 1989 وچ چین امریکہ مل کے ایف اے ٹی ایف بنایا پر سرد جنگ وچ مزے لین والی ریاستاں اتے جتھے بندیاں سنے مالیاتی اداریاں نوں سمجھ نہ آئی کہ ویلہ بدل رہیا ہے،2008، 2012 تے 2018 وچ سانوں کیوں ''گرے لسٹ'' وچ رکھیا، قوم نوں کون ''سچ'' دسے گا؟کس پاکستان نوں  مروان دے جتن کیتے تے کیہڑے پاکستانیاں ملک نوں بچاون دا آہرکیتا کہ اس سب ۔بارے جاننا لوڑی دا ہے۔ 


قدیمی ریشمی رستے دے لانگیاں نال جڑیا جنوبی ایشیا مڈھ قدیم توں تجارتاں دا اک بھنڈار رکھدا سی پر نوآبادیاتی قبضیاں بعد ایس دا بوتھا وگاڑیا گیا اتے 19ویں صدی دے اخیر اتے 20ویں صدی دے شروع وچ ڈیورنڈ لین(1894) اتے میک ماہون لین(1914) بنا کے ایس خطے نوں تبت، چین، سنٹرل ایشیا توں وانجھا کر دتا گیا اتے  اپھیر 1947 وچ ریڈ کلف لین نے ایس نوں پکا کرن دا کم پورا کیتا۔ جے کانگرس کابینہ مشن نوں لت نہ کرائی ہوندی تاں ہوورے اسی ایس تریجی لین دے پاڑ توں بچ جاندے۔پئی ایہہ سب تے 1947 وچ ورثے وچ ملیا سی کہ ڈیورینڈ لین دا باڈر2670 کلو میٹر اتے میک ماہون لین دا باڈر890  کلو میٹر سی کہ ایڈے وڈے باڈراں دا برٹش ٹیچا ایہو سی کہ قدیمی ریشمی رستے یعنی سلک روٹ نوں توڑ بھن دتا جائے۔ چین نے تے 1962 وچ میک ماہون لین دا کم پورا کردتا تے ایس دا اعلان انہاں 1947 وچ کردتا سی جداں چینیاں برٹش انڈین سرکار نوں خط لکھیا سی کہ ساڈی تھاواں موڑ دیو۔ پاکستان بھارت بنن بعد سرد جنگی بندوبست وچ انہاں باڈراں تے سمگلنگ جاری رہی اتے عام تجارتان دے بندوبست نہ بنائے گئے۔ ایہہ اوہ نرم باڈر سن جتھوں سمگلر، انقلابی وی آندے جاندے سن تے پھیر ایہو رستے منی لانڈنگ تے دہشت گرداں لئی وی کھلے سن۔ پر 1989 وچ جو بندوبست نواں بننا شروع ہویا اوس وچ ایس سب دی گنجائشاں گھٹ ہون لگیاں۔ ایہو اوہ ویلہ سی جداں ایس بارے غور کرنا لوڑی دا سی۔ چیتے رہے کہ 1989 ہی اوہ سال ہے جداں پاکستانی وزیراعظم بی بی بے نظیر ہوراں ملک دے پردھاناں نوں کوک ماری سی کہ اوہ '' نواں سوشل کانٹریکٹ'' کرن کہ ہن پرانا چلے گا نہیں۔ پر اوس ویلے حمید گلی سوچ حاوی سی تے اوی کابل نوں 5واں صوبہ بناون دے سفنے ویکھدے سن۔ افغان جہاد دی برکتاں نال اک پاسے ہیروئن ایجاد ہو چکی سی تے دوجے پاسے یورپ تک سمگلنگ دا رستہ انہاں نوں سی آئی اے وکھا گئی سی۔ ایہہ اوہی گروہ سی جو ڈکٹیٹر ضیا الحق نوں جنیوا معاہدے تے دستخطی نہ ہون دا کہندا رہیا سی پر دستخطی ہون والے پاکستانی پردھان جاندے سن کہ جے ایہہ نہ کیتا جو چین، امریکہ، سویت یونین (روس) کہہ رہے جے تے پھیر ملک وی فارغ ہو سکدا ہے۔ 1989 تے 2022 وچ لنگے 33 سال گواہ جے کہ ساڈے کول لمیرا ویلہ سی کہ اسی ویلے دا نال آپ سب کجھ بدل دئیے پر کمائیاں کرن والے ایس پرانے سلسلیاں نوں ریاست دے وجود توں وی زیادہ اہمیتاں دیندے سن۔ 1990 دے دہاکے وچ آف شور کمپنیاں دا بھنڈار سامنے آیا تے ایس بعد منی لانڈنگ وچ وی وادھے ہونا لازم سی۔ پوری دنیا توں مالداراں ایس وچ غوطے لائے کہ ٹیکس دی وی چھوٹاں سن۔ نو گیارہ ویلے وی کجھ پردھاناں ایہہ دسیا کہ ویلہ ہے ہلے وی سرد جنگی بندوبستاں وچوں نکل آو پر جلال آباد تے کارگل تے مہماں کرن والے بدلدے ویلے نال بدلن لئی تیار نہیں سن۔ 

پئی سوچن والی گل ایہہ ہے کہ 2008 دے سال پاکستان نوں ایف اے ٹی ایف جداں ''گرے لسٹ'' وچ پایا تے اوس دی کیہہ وجہ سی؟ پاکستان کوئی اکلا ملک تے نہیں جس دا ناں گرے لسٹ وچ ہے، بس لسٹ دے باقی 22 ملکاں دے ناں ویکھو تے پتہ چل جائے گا کہ وجہ کیہہ ہے۔ ایہہ وی پتہ چل جائے گا کہ یو اے ای کیوں اسرائیل ول ڈلیا ہے۔ 

Albania, Barbados, Burkina Faso, Cambodia, Cayman Islands, Haiti, Jamaica, Jordan, Mali, Malta, Morocco, Myanmar, Nicaragua, Pakistan, Panama, Philippines, Senegal, South Sudan, Türkiye, and Uganda. For these countries, updated statements are provided below. The United Arab Emirates chose to defer reporting to focus on its efforts;


پاکستان نوں 2008 وچ ایف اے ٹی ایف  گرے لسٹ وچ پایا تے 2010 وچ جداں اسی کم ٹھیک کیتا تے کڈ دتا گیا۔ پھیر 2012 وچ اک وار پھیر ساڈا ناں مڑ آگیا گرے لسٹ وچ، پر کیوں؟ ایہہ سوال تے کسے پچھیا ہی نہیں ، نہ ساڈے ہشیار میڈیا نوں خیال آیا؟ 2015 تیک اسی اک وار پھیر گرے لسٹ توں نکل آئے پر 2018 وچ مڑ کیوں ساڈا ناں آیا، ایہہ اصل تے مڈھلے سوال جے جنہاں بارے کوئی گل نہیں  ہو رہی۔ ایہہ گل اپنی تھاں ٹھیک ہے کہ جی ایچ کیو وکھرا تے تگڑا سیل بنا کے ایس مسلہ تے کم کیتا کہ  گل بہوں خراب ہو رہی سی پر ایس وچ چار سال کیوں لگے؟گھٹ و گھٹ عمرانی سرکار ایس نوں  ٹھیک کرن دی بجائے کم ہر تھاں خراب کیتا۔ عمران خان کس تے آکھن تے ایہہ سب کردا رہیا؟ ایہہ سوال ہمش سب نوں تنگ کردا رہے گا۔ ہن وی اکتوبر تیک دا ویلہ اہم ہے کہ جو پرانی بندوبست دے مفادی جے اوہ کسے ہور شکل وچ ڈنگ مار سکدے جے کہ انہاں نوں ملک تے ریاست دی پروا نہیں ۔ 

Friday, June 10, 2022

Dollar, Petrol , Corona & Imran Khan ( July 2017-April 2022)


 Dollar, Petrol , Corona & Imran Khan ( July 2017-April 2022)

In July 2017, thanks to misleading Panama Case, the longest serving Prime Minister Mian Nawaz Sharif was removed but the reason of removal was not tricky Panama Papers but Iqama. It was beginning of the Naya Pakistan project that unfolded after July 2018 and proved a shame for all his Pasdarans. But here we will only analyses it as par Oil Prices and huge increase of Dollar and massive rather unprecedented depreciation of Pak Rupee. No doubt, in post 1970 world, Dolar & Oil are big realities and both can play more dangerous role than weapon of mass destruction. 
When Nawaz Sharif was removed Dollar rate was 104 Pak rupees and it was due to a declared policy by than Finance Minister Ishaq Dar who want to ensure progress of the country by controlling $. He successfully did it but what happened after July 2017 is history. 
As par credible data when Imran Khan took office Oil prices were as high as 102 $ per barrel but till December same year it decreased to 64$. Till December 2019, it remained fluctuating between 67 and 76 but thanks to Corona it unprecedented decreased till 22$ in April 2020. In December 2020 it was 47 $ yet till one year back it reached till 76$. In January 1st 2022, the price was 72$. 

For Oil prices CLICK HERE


From 2013 till 2017 he controlled Dollar at Rs 106, and it had disturbed UK, US returned economists very much and when time came IMF too took the revenge and Pakistani media, as usual sided with post colonial economic god. Mr Shahbaz Rana story IMF distances itself from Ishaq Dar's 'Finance Minister of the Year' award in the Tribune was a proof. NAB was there to fix him. If Pakistan had Dollar Rate of 106 rupee in 2019, 2020, 2021 Pakistan can benefit a lot and IMF lost its importance too. 


Both charts proved that when oil prices were low we had increased Dollar price and under IMF instructions PTI government stop both the State & the government for interference in dollar price control. It was a complete departure from Dar doctrine. 
In January 1st the oil price in international market was 72 $ per barrel but if you scan January chart there was a continuous rise in oil prices and till 31st Jan it reached at 84 $. On the other hand Dollar was increasing, thanks to IMF hitman, appointed by Imran Khan as head of State Bank of Pakistan in May 2019. In October 2021, it was same Raza Baqir who nakedly advocated depreciation of Pak rupee and praised increase in dollar prices. His logic shocked many in Pakistan including Yousaf Nazar of The Friday Times. Dawn reproduced Raza Baqir below the belt statement at 21 October 2021 as, 


It clearly shows the priorities of IMF, Imran Khan etc. Till October the dollar rate was 171 rupee and in Jan it crossed 175. So in Jan both rates of $ as well as Oil were started increasing simultaneously. Had Pakistan purchased LNG from Qatar timely, Oil prices could not bother her but same Imran Khan did not do it. Did IMF stopped him? or he had some problem with Qatar? 
January 2022 was beginning of the end of Imran Khan order. May be he was fully aware from it because when both Oil and Dollar will increase it would disturb all power players too. In May 06, 2022 he said I became aware of conspiracy against my govt last year: Imran Khan. At international front everyone was taking about Russia Ukraine conflict. It was clear that in this situation Pakistan will be in deep sea within 6 months. At February 02, 2022, The Executive Board of the International Monetary Fund (IMF) concluded the 2021 Article IV Consultation with Pakistan. The Executive Board also completed the sixth review under the Extended Fund Facility (EFF) for Pakistan, allowing the authorities to draw the equivalent of SDR 750 million (about US$1 billion).
In such a crucial times, as par agreement Government of Imran Khan had to do many things as
At February 24, Russian Iron man Putin announced a special military operation  to "demilitarise and denazify" Ukraine and at that time Imran Khan was in Moscow and the visit proved an all time failure. It was a time when he was losing his partners and joint opposition was ready to launch final move of No-Confidence against Imran Khan. Newspaper wrote at 23rd February 2022 as
it was much before Donald Lu infamous letter presented by PTI Chairman as an American conspiracy in late March. In the first week of March Oil prices jumped at 118 $ and Dollar rate was Rs 179. it is interesting to know that instead of promoting alternative energy , the government of Imran Khan had imposed sales tax on Solar Panels. 
The anxiety of isolated Imran Khan much before March 7 was visible. He knew that it is result of its bad economic policies and even his supporters are very angry but like an over smart guy (Siana Kaan in Punjabi) he had floated a novel idea of international American (noted not British) conspiracy against him and linked no-confidence move with it. He knew that he had lost confidence of majority MPs in the National Assembly so he tried his best to delay the assembly session. Now a regime change was essential to change all bad policies but Imran Khan had used al unconstitutional, undemocratic methods to stop his constitutional removal. 

At June 9, 2022 Oil rat is 122 dollar, it slightly decreased at 10 june till 120 $. Similarly $ rate was 202 rupees till 31 May but at june 10 it is 198 but it needs little attention 


عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں، ڈالر کی اونچی پرواز اور حکمرانوں کے غلط فیصلے۔ ڈالر کی قدر

 بڑھنے اور تیل کی قیمت میں اضافے سے پاکستان پر دہرا معاشی حملہ ہو رہا تھا مگر سابق

 وزیراعظم ٹس سے مس نہ ہوئے تھے۔ تیل کی عالمی مندی میں بلوم برگ کی ویب سائٹ کے مطابق جنوری 2022 سے اضافوں کا رجحان تھا کیونکہ روس یوکرین تنازعہ بگڑ رہا تھا، یکم جنوری

 کو تیل کی قیمت 72 الر فی بیرل تھی جس میں آج تک پورے 50 ڈالر کا اجافہ ہو چکا ہے۔ 31

 جنوری تک تیل کی قیمت 12 ڈالر بڑھ کے 84 الر تک پہنچ چکی تھی۔ فروری میں یہ تیزی برقرار

رہی کہ 24 فروری کو روس کی یوکرین میں کاروائی کے بعد دو مارچ کو یہ قیمت 105 ڈالر تک جا پہنچی۔ ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنے اور تیل کے متبادل ذرائع اور بچت کی طرف قوم کو متوجہ

 کرنے کی بجائے عمران خان نے تیل کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرتے ہوئے ریاست کو مزید

 مشکلات میں ڈال دیا۔ معیشت سے کھلواڑ جیسے فیصلوں سے وہ عدم اعتماد کو تو نہ ٹال سکے البتہ پاکستان اس سے دوہرے معاشی ھملے میں گھر گیا اور وسط اپریل میں بننے والی نئی حکومت اج

 بھی اس سے نمٹنے میں لگی ہے۔

 

جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو تیل کی قیمت 102 ڈالر فی بیرل تھی جو دسمبر2018 تک

 64 ڈالر تک گر گئی تھی۔ دسمبر 2019 تک یہ قیمت 76 ڈالر تک پہنچی۔ کرونا کی وجہ سے 30 اپریل 2020 تک تیل کی قیمت 22 ڈالر پر آ چکی تھی۔ جنوری 2021 تک تیل کی قیمت 47

 ڈالر تک رہی۔ ایک سال پہلے تک یعنی 30 جون 2021 کو بھی عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 65 ڈالر تک ہی بڑھی تھی۔ اگست 2018 سے اپریل 2022 تک پاکستان میں روپئے کی قدر کم کی گئی کہ جو 115 روپئے سے 190 تک جا پہنچی کہ 75 روپئے بڑھنے سے تیل کی کم قیمت کا جو

 ملک کو فائدہ ہونا تھا وہ نہ ہو سکا۔ ذرا سوچیں اگر ڈالر 106 روپئے ہوتا اور تیل کی قیمت 22 ڈالر ہوتی تو پاکستان اس دوران کسقدر معاشی فوائد سمیٹتا۔ آج ڈالر 202 روپئ ہے جبکہ تیل 122

 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچا ہے کہ ڈالر کی قیمت کو اگر پاکستان قابو کر لے تو اس کی معاشی مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔

 



Barah Mah & story of Punjabi magazines in Pakistan (A radio prog)

  Barah Mah & story of Punjabi magazines in Pakistan (A radio prog) The struggle for the Punjabi language, its literature, folk & m...