Saturday, March 28, 2015

29th March: A Day when Britain annexed The Punjab 166 years back and jeopardized the whole region

29th March

A Day when Britain annexed The Punjab

166 years back and jeopardized

the whole region

Pentapotamia, an ancient Greek name of Punjab or Punjnad was centre of excellence in the whole region since centuries.  It had short-cut branches of Silk route, fertile lands, forests and home of ancient Pre-harappan settlements.  Before 9th century it was home of peace loving Buddhists and after 10th century it was remembered as land of Yogis, Sufis and traders.  Due to trade it was linked with South Asia, West Asia, Central Asia and China.  From 1799 till 1849 it enjoyed an independent monarchy and was prepared to enter in the world of Nation States due to its institutions. It was a time when Afghanistan, Qallat and Sind were also following it. Many travellers like German descent Brian Hugel recorded presence of trade centers not only in the Punjab ( Lhore, Moltan, Khewra, Sialkot) but also in Sind Baluchistan border( Shikarpur), KyberPK (Peshawar, D I Khan) and Kashmir (Seri-nagar, Jammu). G W litner wrote about three commercial Punjabi scripts in the whole region known as Sarafa, Mahajni and Landay in his famous report published in the form of book under the title “ History if indigenous education of the Punjab” which showed business activity in pre British period.  There was a decentralize State in pre British times yet colonial masters imposed an over centralized state structure and played with languages, religions, sub religions, cultures which jeopardized the region. From trade centre it became a garrison state. It is high time that we should revisit our history for once and the day of 29 March provides this opportunity to us. Read the piece I wrote for weekly Humshehri at this special day. Thanks رب راکھا

The article link is 

دنیا بھر میں پھیلے 20 کروڑ سے زیادہ پنجابیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ جنوبی ایشیائی باشندوں کے لیے 29 مارچ کا دن بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ دن ہے جب برصغیر کی آخری دیسی ریاست کو گورے حکمرانوں نے سر نگوں کیا۔وہ دیسی ریاست جس کا نام ’’لہور دربار‘‘ تھا اور جو پورے 50 برس کشمیر سے فاٹاتک برقرار رہی۔ اس ریاست کا ساتھ دینے والوں میں پنجابی، پٹھان مسلمان بھی تھے، جٹ، راجپوت، ارائیں اور گجر بھی، پوربیوں کی بٹالین بھی اور یورپی و امریکی فوجی بھی۔ مگر انگریزوں اور ان کے ہمنوا لکھاریوں نے یہی جھوٹ پھیلایا کہ لہور دربار کی حکومت تو سکھوں کی بادشاہی تھی۔ ہشیار انگریز دانشوروں نے سکھ مسلم اور پنجابی، غیر پنجابی تضاد کو خوب استعمال کیا اور اس کے تحت مطلبی تاریخ لکھوائی۔ اس مطلبی تاریخ کو کون آگے بڑھا رہا ہے ؟یہ اپنی جگہ عجب داستان الم ہے۔ افغانستان کے دوست محمد خان کا بھائی سلطان محمد تو آخر تک لہور دربار کا سجن رہا جبکہ باجوڑ، خیبر اور دیر کے خان لہور دربار کے ساتھ رہے۔ ایک مہم میں قصور کے خان مہاراجہ کے ساتھ لڑے مگر بعد میں وہ تادیر مہاراجہ کے ہمرکاب رہے۔ کشمیر کی مہم میں تو یہ خان صاحب مہاراجہ کی طرف سے بڑی بے جگری سے لڑے۔لاہور کے فقیر خاندان بارے تو ہم سب جانتے ہی ہیں مگر امرتسر کے میں غوثا، ملتان کے سانول مل اور مول راج ہوں یا کشمیر کے شیخ برادران یہ سب لہور دربار کے ساتھ مل کر انگریزوں سے برسرپیکار رہے۔نور خان کا ذکر تو محمد شاہ کی مشہور رزمیہ ’’جنگ ہند پنجاب‘‘ میں محفوظ ہے جو پنجاب پر قبضہ کے بعد لکھی گئی۔ مگر ہمیں یہی سبق پڑھایا گیا کہ لہور دربار تو سکھوں کی بادشاہی تھی۔ - 

شاہ شجاع سمیت احمد شاہ ابدالی کے تینوں پوتوں کو پناہ و جاگیریں دینے والے لہور دربار کو گرانے کے لیے انگریزوں کو تین خوفناک جنگوں سے گزرنا پڑا۔ گجرات کے قریب چیلیانوالہ کے مقام پر جو خوفناک لڑائی ہوئی اس میں پنجابیوں کے ہمراہ دوست محمد خان کا بیٹا بھی انگریزوں کے مخالف لڑا۔ اس جنگ کی بڑی یادگار چیلیانوالہ کا ’’گورا قبرستان ‘‘ہے۔ فیصل آباد کے میجر معین باری نے چلیانوالہ پر باکمال کتاب چھاپ رکھی ہے۔ ان جنگوں میں حصہ لینے والے کپتان کنگھم نے جب کتاب میں اعتراف کیا کہ یہ جنگیں سازشوں سے جیتیں گئی تھیں تو انگریزوں نے اس کتاب پر پابندی لگا دی تھی۔ مگر ہمارے بچوں کو یہ تاریخ نہیں پڑھائی جاتی۔ انگریز دانشوروں نے مسلمانوں کو ’’سکھا شاہی‘‘ اور سکھوں کو ’’مسلم حملہ آوروں‘‘ کی اصطلاحیں دیں تاکہ یہ آپس میں دست و گریباں ہی رہیں۔ لہور دربار کی 90 فی صد آبادی تو ان دونوں مذاہب کے ماننے والوں پر مشتمل تھی کہ ان میں اختلافات ایجنڈے کا خصوصی حصہ رہا۔ مسلم اور سکھ بنیاد پرست و انتہاپسند گروہ آج بھی اُسی انگریز پالیسی کے اسیر ہیں۔ 27 جون 1839 وہ دن تھا جب 1799 سے برسراقتدار گوجرانوالہ کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا انتقال ہوگیا۔ ایک سال کے بعد قلات(بلوچستان)، چار سال کے بعد سندھ، سات سال کے بعد کشمیر اور 10 سال کے بعد پنجاب بشمول فاٹا پر انگریز کا قبضہ ہوگیا۔ پرنسپ، دیبی پرشاد، برائن ہیوگل، سٹین بیچ، گاڈنر، کپتان کنگھم، گنیش داس، شہامت علی سمیت لاتعداد لکھاریوں نے 1850 تک لہوردربار بارے بہت سی کتب لکھیں۔ ان کتب کو پڑھنے سے ہمیں انگریزوں سے پہلے کے سیاسی، سماجی حالات بارے جاننے میں مدد ملتی ہے۔ اس دور میں ہمارے خطوں میں سب سے بڑی زبان فارسی تھی اور فارسی کا ہمارے خطہ کی مادری زبانوں سے گہرا رشتہ بھی تھا۔ خدا بھلا کرے اگروال صاحب کا جن کی وجہ سے گنیش داس کی فارسی میں لہور دربار پر لکھی کتاب ’’چار باغ پنجاب‘‘ پنجابی و انگریزی میں ترجمہ ہوگئی۔ مقصود ثاقب نے اسے شاہ مکھی میں بھی چھاپ کر لاہور کی لاج رکھ لی ۔ مگر تاحال ہمارے خطہ بارے کتنی ہی فارسی کتب ترجمہ نہیں کروائی گئیں۔ لہور دربار پر قبضہ کے بعد انگریزوں نے مرحلہ وار انداز میں فارسی کو ختم کرنے کی مہم شروع کی۔ 1865 کے بعد پنجاب بشمول پشاور، کشمیر اور قلات میں اُردو کا نفاذ فارسی کو ختم کرنے کی مہم کا خاص حصہ تھا۔ اس تاریخ کو ہمارے ہاں جان بوجھ کر چھپایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کی گذشتہ ہزار سال کی تاریخ فارسی اور ترکی زبانوں ہی میں محفوظ ہے۔ 29 مارچ کادن اس لیے اہم ہے کہ یہ ہمیں اپنی تاریخ کو جاننے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایک مثال بادشاہی مسجد کے میناروں کے شہید ہونے کی ہے جو 1839 کے زلزلے کے بعد اپنی اصلی حالت میں نہیں رہے تھے۔ اس زمانے میں آنے والے زلزلوں کے ریکارڈ کے حوالہ جات زلزلوں کے حوالوں سے موجود بین الاقوامی ویب سائٹ پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ 1873 کا گیزیٹر بھی 1839 میں بادشاہی مسجد کے میناروں کے زلزلہ کے بعد شہید ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ مگر بہت سے لکھاریوں نے میناروں کے شہید ہونے کا الزام سکھوں پر دھردیا۔ یہ لکھا گیا کہ راجہ جموں گلاب سنگھ کے سپاہی توپیں لے کر شاہی مسجد کے میناروں پر چڑھ گئے تاکہ شاہی قلعہ کے اندر گولے برسا سکیں۔ آپ میں سے جس نے بھی بادشاہی مسجد کے میناروں کی سیڑھیاں دیکھی ہیں وہ با آسانی اس جھوٹ کو سمجھ سکتے ہیں۔ ان تنگ سیڑھیوں میں سے تو پیں لے جانا تو دور کی بات، وہاں سے تو دو انسان اکٹھے بھی نہیں جاسکتے۔ اگر توپیں ہی لے جائی گئیں تھیں تو پھر مسجد کے پچھلے مینار گرانے کی تو ضرورت نہ تھی کیونکہ وہ تو قلعہ کی طرف نہیں تھے۔ اسی طرح 1827 کے زلزلے میں لاہور کی بہت سی تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا۔ زلزلوں سے ہوئے ان نقصانات کو بھی سکھوں کے کھاتے ڈال دیا گیا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ لہور دربار کی حکومت میں مسلمانوں کا تناسب 70 فی صد سے بھی زیادہ تھا۔ اگر مہاراجہ مسلمانوں کا دشمن ہوتا تو اس کی حکومت 3 سال بھی نہ چل سکتی۔ اسی طرح سکھوں کو مسلمانوں سے متنفر کرنے کے لیے احمد شاہ ابدالی کے حملوں اور میر منو کے دَور کے واقعات کو مرچ مصالحہ لگا کر پیش کیا گیا۔ احمد شاہ ابدالی اور میر منو تو مسلمانوں اور پٹھانوں کے ساتھ بھی لڑتے رہے تھے مگر سکھوں کو یہ باتیں نہ بتائی گئیں۔یہ سب جیمس مل کی تقلید تھی۔ جو سکول سسٹم ہمارے خطوں میں انگریزوں نے بنایا اس میں مادری زبانوں یعنی پشتو، بلوچی، براہوی اور پنجابی کو دیس نکالا دیاگیا تھا تو دوسری طرف ان کی تیار کردہ نصابی کتب میں صوفیا اور بھگتوں کی تعلیمات شامل ہی نہ تھیں۔ 1854 کے ووڈزڈسپیچ (Woods Despatch)سے لے کر جی ڈبلیو لائیٹنر کی 1882 کی تعلیمی رپورٹ تک بہت سے انگریز تھے جنھوں نے ان اقدامات کی مخالفت کی۔ اس تعلیمی بندوبست کی خوبیوں اور گھاٹوں پر ہم نے تاحال کچھ کام نہیں کیا اور اس کا الزام انگریزوں پر قطعاً نہیں ڈالا جا سکتا۔ لائیٹنر نے تو اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’پنجاب میں دیسی تعلیم‘‘ میں نہ صرف پنجابی زبان کے چھ رسم الخطوں کا ذکر کیا ہے بلکہ پنجابی، فارسی سلسلوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ مگر برٹش انتظامیہ نے بوجوہ ان باتوں کو ضروری نہ گردانا۔ دیکھا جائے تو فارسی نے اس خطہ کو جوڑا ہوا تھا جو ایک طرف وسط ایشیائی و ایران تک جاتا تھا تو دوسری طرف کشمیر تک مگر اس جڑت کو توڑنا نو آبادیاتی مفادات کا بڑا مقصد ٹھہرا۔ یہ سب تو گورے حکمرانوں کے کارنامے تھے مگر ہم نے 68 سالوں میں اسی سلسلہ کو کیوں جاری رکھا؟ یہ ہے وہ سوال جس کو آج ہم نے دوبارہ سے دیکھنا ہے۔ 29مارچ کا دن اس کھوج کی طرف رخ کرنے ہی سے عبارت ہے۔ - 

مذہبوں، فرقوں، زبانوں اور رسم الخطوں سے خوب کھیلا گیا۔ لہور دربار میں مسلمانوں کے بعد عددی اعتبار سے دوسرا بڑا مذہبی گروہ سکھ تھے۔ انگریزوں نے پہلے کشمیر کو لہور دربار سے الگ کیا اور 1850 کی دہائی کے اولین سالوں میں ستلج پار سے دلی تک کا علاقہ پنجاب میں شامل کردیا۔ اب پنجاب میں دوسرا بڑا مذہبی گروہ سکھوں کی بجائے ہندو بن گئے۔ سکھوں کو تو تادیر اس کی سمجھ ہی نہ آئی۔1941کی مردم شماری کے مطابق بھی پنجاب میں ہندو 22فی صد جبکہ سکھ 15فیصد تھے۔ ان اعدادو شمار سے اکھاڑ بچھاڑ کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ 29 مارچ کا دن ہمیں اس سماجی اتھل پتھل یعنی سوشل انجینئرنگ کی یادلاتا ہے جس سے ہمارے بچوں کا آگاہ ہونا ضروری ہے۔ یہ مسئلہ محض پنجاب کا نہیں بلکہ خیبر پی کے، بلوچستان اور سندھ کا بھی ہے اور مشرقی پنجاب اور کشمیروگلگت بلتستان کا بھی۔ افسوس ہمارا باخبر اور مقتدر میڈیا بھی 29 مارچ کے دن کی اہمیت سے تاحال ناآشنا ہے۔ ہم جانتے یا ناجانتے ہوئے سکھ مسلم اور پنجابی غیر پنجابی تضادات کے مہلک اثرات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مذہبی بنیاد پرست اور انتہا پسند تو انہی تضادات کو استعمال کر رہے ہیں مگر ترقی پسند اور لبرل دانشور بھی اسی مطلبی تاریخ کے اسیر نظر آتے ہیں۔ آج اگر ہماری یونیورسٹیاں اور میڈیا اس بارے غور کریں تو کوئی وجہ نہیں ہم اپنی تاریخ سے آگاہی حاصل کرنے کی طرف سکیں۔ کیا آپ یونیورسٹیوں میں پنجاب سٹیڈیز کے نام سے شعبہ جات نہیں بناسکتے؟ کیا آپ تاریخ - 

،سماجیات، سیاسیات اور جغرافیہ کے شعبہ جات میں ایم فل، ایم اے اور پی ایچ ڈی کے لیے پنجاب کی تاریخ و ثقافت کے حوالہ سے مقالے تجویز نہیں کر سکتے؟ آجا کر ہمیں 1857 جیسے واقعات ہی یاد رہتے ہیں جنھیں 1948 کے بعد بھارتی قوم پرستی کا جزو لاینفک بنالیا گیاحالانکہ خود نہرو اس کے حق میں نہیں تھے۔ ہندو بنیاد پرست ساور کر وہ پہلا شخص تھا جس نے 1857 کو جنگ آزادی کہاتھا اور حوالہ اس کا ہندو قوم پرستی تھی۔ انگریز اگر 29 مارچ کو یاد نہیں رکھنا چاہتے تھے وہ تو سمجھ آتا ہے مگر ہم آخر کیوں تاحال انگریزی پالیسیوں کے اسیر ہیں؟ ہم اپنے بچوں کو بابا فرید، بابا نانک، مادھو لال حسین، بابابلھے شاہ، وارث شاہ، بابافرید، میاں محمد بخش کے متعلق نہیں بتانا چاہتے۔ ان باکمال بزرگوں کے لازوال کلام کو نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ انگریزی کی 8 ویں کی کتاب میں میلہ چراغاں پر سبق شامل ہوتا تھا مگر اب وہ بھی نکال دیا گیا ہے۔ حسن نظامی کی پنجابیوں کے خلاف لکھی تحریروں کو تونصابی کتب میں ہشیاری سے شامل کیا جاتا ہے مگر امرتا پریتم کی ’’اج آکھاں وارث شاہ نوں۔۔۔ کھتے قبراں وچوں بول‘‘ کو نصابی کتابوں میں شامل کرنا گناہ عظیم ہے۔ ایک زمانہ میں تیسری سے 8 ویں جماعت تک ہر ضلع کی الگ الگ کتب چھپتی تھیں جو کسی حد تک طالب علم کا اپنی دھرتی سے تعلق جوڑتی تھیں۔ مگر اب ان کتب کو چھاپنابھی بند کر دیا گیا ہے۔ اگر ہمارے بچوں کو یہی معلوم نہ ہو گا کہ انگریزوں کے قبضہ سے قبل پنجابی و سیب کیا تھاتو وہ احساس کمتری کا شکار رہیں گے۔ بس67 سالوں سے اس احساس محرومی کو بڑھاوا دیا جاتا رہا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ بس اس لیے 29 مارچ کے دن کو یاد رکھنا ہم سب پر لازم ہے۔ - 

Friday, March 27, 2015

Discussion on Punjabi Novel MadhuLal Hussain ...Listen and comment


Discussion on 

Punjabi Novel MadhuLal Hussain 

Listen and comment


At FM 103 a program was recorded 25th of March 2015 late night from 12.15 till 2.00. The program was based on a discussion about Punjabi Novel MadhuLal Hussain. The recently published Novel is a mixture of literature and history so one can get two benefits in one ticket. The plot of the Novel is designed in the back ground of love between Madhu and son of sheikh Usman(1538-99), a weawer known in history as MahduLal Hussain. The Novel is infact unusual socio-political history of the Lhore written by advocate Khalid Mahmud under the pen name Nainsukh. Afzal Sahir is conducting. Punjabi Short story writer Zubair Jan was on the Phone while the Author, Iqbal Haider Butt and Aamir Riaz are in studio. listen and share your comments




Monday, March 23, 2015

23 March: Timing and Vision plays more important role then chew mere Principals.


23 March

 Timing and vision plays more important role then chew mere Principals.


If one has larger vision and can wait for appropriate timing and one has ability not only to learn from past experience but also to strike when iron is hot than he can play his role potently. Otherwise the leader not only creates hopelessness among workers but also push the movement in footnotes rather than text.  The lesson Jinnah learned from defeat of 1937 elections enable him to revisit his over emphasis on Muslim minority provinces and during 1938 he got support from the Punjab and Bengal and then waited for the appropriate time. At 23rd March 1940 he had inroads via Jinnah Sikander Pact in the Punjab while A K Fazle Haq had joined Muslim Language. It was turning point for ML. Read and learn


سیاست میں اصولوں سے زیادہ اہم بات سیاسی بصیرت ہوتی ہے اور سیاسی بصیرتوں سے اہم بروقت فیصلہ کہ اگر ترتیب غلط ہوجائے تو بڑی بڑی سیاسی تحریکیں بھی محض کتابوں کے فٹ نوٹ میں جگہ پاتی ہیں اور ان کے رہنما سبق آموز کہانیوں کے ایسے کرداروں کا روپ دھار لیتے ہیں جنھیں قابل تقلید مثال نہیں سمجھا جاتا۔

23 مارچ 1940 کا دن ایک سیاسی تسلسل کا حصّٰہ تھا کہ 13 اپریل 1919 سے 23 مارچ 1940 تک پھیلے 21 سالہ سیاسی مدوجذر پر جس کسی کی بھی پر نظر تھی اس کے لیے یہ دن اچھنبے کی بات نہیں تھا۔امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں جس طرح دن دہاڑے میلہ منانے آئے پنجابیوں کو انگریز افسر نے بھون ڈالا تھا اس کے ردعمل میں ایسا طوفان آیا جس نے تھمنے کا نام ہی نہ لیا۔ عوامی ردعمل کے ہاتھوں روایتی کلب سیاست کا خاتمہ ہوا۔ مہاتما گاندھی نے تو 5 دن بعد اپنے اخبار ’’ہریجن‘‘ میں مضمون کے ذریعے جلیانوالہ باغ کے واقعہ میں مرنے والوں کو ’’شہید‘‘ ماننے سے انکار کر دیا مگر موچی دروازہ میں میاں فصل حسین کی صدارت میں ہونے والے جلسہ میں علامہ اقبال نے امریکی صدر وڈروولسن کے 14شہرہ آفاق نکات کا حوالہ دے دیا جو چند ماہ پہلے 1918 میں رقم ہوئے تھے۔

1937 کے انتخابات کے نتائج میں سیاسی بصیرت رکھنے والوں کے لیے واضح اشارے موجود تھے۔ مگر آل انڈیا کانگرس اور اس کے ہمنوا جعلی تفاخر میں غلطاں رہے۔ کل گیارہ صوبوں میں ہونے والے ان انتخابات میںکل 1585 سیٹوں پر معرکہ ہوا۔ کانگرس نے 707 سیٹیں جیتیں جو 50 فی صد سے بھی کم تھیں۔ مگر ہوشیار کانگرس نے تاثریہ دیا کہ پورا برصغیر ان کے پیچھے ہے۔ کانگرس کے حمایتی دانشور تو آج بھی جب تجزیہ کرتے ہیں تو صوبائی نشستوں کی بجائے صوبوں کی گنتی کرتے ہیں اور برملا لکھتے ہیں کہ کانگرس گیارہ میں سے 7صوبوں میں جیت گئی تھی۔ جبکہ انتخابی نتائج پر نظر ڈالیں تو آسام میں 108 میں سے 33 ، صوبہ سرحد میں خدائی خدمت گاروں کی مدد کے باوجود 50 میں سے 19، سندھ میں 60 میں سے 7، بنگال میں 250 میں سے 54 اور پنجاب میں 175 میں سے کانگرس کو محض 18 سیٹیں ملیں تھیں۔
مسلم لیگ اور کانگرس کے علاوہ گیارہ صوبوں میں 397 نشستیں دیگر پارٹیوں نے جیتیں تھیں جبکہ آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والوں کی تعداد 385 تھی۔ 50 فی صد سے بھی زیادہ نشستوں پر وہ لوگ جیتے تھے جونہ مسلم لیگی تھے نہ کانگرسی۔ خود کو برصغیر کی عوام کی واحد نمائندہ جماعت سمجھنے والی کانگرس نے ان انتخابی نتائج سے سبق نہ سیکھا۔ حد تو یہ ہے کہ سیکولر، ترقی پسندو قوم پرست دانشور تاحال ’’بغض مسلم لیگ‘‘ میں 1937 کے انتخابی نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے حقائق کو مدنظر نہیں رکھتے۔ صوبہ سرحد کی مثال بھی دلچسپ تھی کہ یہاں تقریباآدھے اْمیدوار آزاد حیثیت میں جیتے تھے جن کی تعداد 24 تھی۔

For easy reading click here

http://www.express.pk/story/339994/

Friday, March 20, 2015

Extremism in Yuhanabad: A Double Edge Weapon



Extremism in Yuhanabad 

A Double Edge Weapon

Lesson from the ground


 Question of Pakistani citizenship is at stake? No common Muslim Pakistani can favour attack on the churches neither no common Christian Pakistani can support burning of men yet both things happened in Lhore, Pakistan and it raised serious concerns rightly. Like Taliban the crowed took the Law in their hands and burnt two people. Was there any conspiracy? Or killing and burning helps some groups to justified and further raise their funding in future? Government and State of Pakistan through a judicial commission must find it sooner or later. Some private media channels too played badly and promoted communalism which was also very bad. Yet presence of sane and rational journalists played vital role which is very good. Attributing terrorist attacks with Sunni, Shia or Christian killing always supported terrorist point of view. It is time to call terrorist attacks as acts of terrorism and one should analyze it under the rule of Law. Either the incident or subsequent events were planned or not, but it reminds street destruction in past too. From civil disobedience of Mahatma Gandhi till recent Container speeches in Islamabad,we have a past record to link politics with destruction which is self negation of democratic rights itself. According to information 21 people died, 14 Christian and 7 Muslim Pakistanis. Among Muslims two policemen and 3 common shopkeepers died on the spot and two were burned by the crowd. It is time to rethink what is happening on the ground. Raed and unlearn. 

Click for reading article published in Humshehri

another link of magazine is

http://issuu.com/hum_shehri/docs/23.03.2015/56?e=12088494/11937212



اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کو منظر عام پر لانا تو ایک حوالہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے اقدامات اٹھانے سے ہی مستقبل میں ایسے حالات سے بچنے کی پیش بندی کی جاسکتی ہے۔ پشاور چرچ پر حملہ کے بعد بالخصوص خیبر پی کے اور بالعموم ملک بھر میں ایسی پیش بندیاں کرلی جا تیں تو آج ان حالات سے ہمیں نہ گذرنا پڑتا۔ پشاور میں سکول پر حملہ کے بعد قومی ایکشن پلان تو بنا مگر اس پلان پر صوبوں، اضلاع، سرکاری محکموں اور نجی شعبہ بالخصوص میڈیا میں کیسے عمل ہوگا؟ یہ ہے وہ سوال جس پر آج فوری عمل کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اُردو کی ساتویں جماعت میں صلیبی جنگوں کا سبق پڑھاتے ہیں تو پھر مذہبی ہم آہنگی کا دعوےٰ کہاں جاتا ہے ؟ حد تو یہ ہے کہ ہماری نصابی کتب میں مختلف مسلم فرقوں کے خلاف بھی مواد شامل ہے۔ تاریخ کے اوراق سے مطلبی تاریخی واقعات ڈھونڈ کر نکالے جاتے ہیں اور پھر انہیں کسی ایک سبق میں جڑ دیا جاتا ہے۔ اگر مطلب پورا نہ ہو تو پھر خود ہی گھڑ لیا جاتا ہے۔ میں نے 2010 اور 2014 میں نصابی کتب کا تفصیلی جائزہ لیا کہ ان میں قرار داد لاہور، خطبہ الٰہ آباد اور قائداعظم محمد علی جناح کی تقریروں کے غلط ترجموں کی نشاندہی بھی کی اور اقلیتوں کے خلاف لکھی گئی تحریروں کو ضبط تحریر میں لایا۔ غلط ترجموں پر مشتمل تحریریں وضاحت سے اس مائنڈسیٹ یعنی ذہنی رجحان کی نشاندہی کر رہی تھیں جن کے تحت نصابی لکھاریوں نے اقبال و جناح کو بھی نہ بخشا۔ انگریز مصنفین کی گمراہ کن تاریخ کو سامنے رکھ کر ہندو، مسلم اور سکھ دور جیسی گمراہ کن اصطلاحوں کوہی استعمال نہ کیا بلکہ مسلم فرقوں کے متنازعہ واقعات کو بھی نصابی کتب میں ڈالا۔ صوبوں میں موجود تعلیم کی سٹینڈنگ کمیٹیاں جب تک صنفی ، مذہبی، فرقہ وارانہ، لسانی، شہری تعصبات کے حوالہ سے نصابی کتب کا جائزہ نہیں لیں گے اس وقت تک مذہبی ہم آہنگی کے ذریعہ پاکستان کو مضبوط کرنے کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ ایسا مواد انگریزی میڈیم سکولوں کی نصابی کتب میں بھی ہے اور سرکاری سکولو ں کی کتب میں بھی۔ انہی نصابی کتب کو پڑھ کر جوان ہونے والے آج چینلوں پر اینکریاں بھی کر رہے ہیں اور تبصرے بھی کہ مذہبی منافرت کا زہر پھیلانے میں ہمارا میڈیا بھی کسی سے کم نہیں ہمارے ملک میں مذہبی، فرقہ وارانہ، لسانی اور قومیتی انتہا پسندوں کا اک جم غفیر مجتمع ہے کہ جس کی پرورش ضیا الحق تا مشرف، خیبر سے کراچی تک تواتر سے کی جاتی رہی۔ محض افغان جہاد ہی نہیں بلکہ مشرف دور میں ایم ایم اے اور ایم کیو ایم کے ذریعے انتہاپسندیوں کو سیاست میں خوب ورتا گیا۔ - 

میڈیا ہاؤسوں کو بھی خبریں چھاپتے یا نشر کرتے ہوئے ازخود یہ خیال کرنا ہوگا کہ وہ فرقہ وارانہ منافرت اور متشدد سیاست کو بڑھاوا نہ دیں۔ جب تک ان نقاط کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا تب تک پاکستانی سٹیزن شپ کا تصور پنپ نہیں سکے گا۔ یہ بات عملی طور پراپنانی پڑے گی کہ قانون کی نظر میں تمام پاکستانی برابر ہیں اور کسی شخص کو بھی کسی دوسرے پاکستانی کے عقائد میں دخل دینے یا اس کے مذہبی و فرقہ وارنہ جذبات کی تضحیک کی اجازت نہیں۔ ریاست پاکستان کی عملداری اور اخلاقی جواز کے لئے پرویز مشرف کا مقدمہ ایک امتحان سے کم نہیں۔ قانون کی حکمرانی کا سبق عدالتوں کے احترام سے منسلک ہے۔ محض پھانسیوں اور پکڑ دھکڑ سے یہ دیرینہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اب ہمیں ’’مٹی پانے‘‘ کی پالیسی ختم کرنا ہوگی بصورت دیگر کسی نئے واقعہ کے بعد بھی یہی تحریر دوبارہ سے چھاپنی پڑے گی۔ شاید سانحہ یوحنا آباد کے بعد آپ کو قائداعظم کی 11 اگست1947 کی تقریر میں کی گئی باتوں کی حقانیت زیادہ سمجھ آنے لگے۔ اگر ہمارے دانشور اور اینکر حضرات اس تقریر کو خطبہ الٰہ آباد کے ساتھ رکھ کر ایک دفعہ پڑھ لیں تو انہیں یہ بات سمجھنے میں زیادہ دقت نہیں آئے گی کہ وہ جو کچھ لکھ، چھاپ یا کہہ رہے ہیں اس میں گمراہیوں کا کتنا عمل دخل ہے۔ نواز شریف یا زرداری کی مخالفت آپ ضرور کریں مگر اس مخالفت میں ’’لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ‘‘ کی عملی تفسیر نہ بنیں کہ آپکی’’ افسریاں‘‘ اسی وطن کی وجہ سے ہیں۔ ماردھاڑ، گھراؤ جلاؤ اور افراتفری کا کلچر آپ کو مالی یا سیاسی فائدہ تو دے سکتا ہے، آپ کے ’’ویریوں‘‘ کو نکرے بھی لگا سکتا ہے مگر یہ بربادی پھر’’ نہ رکنے والا طوفان‘‘ بن جائے گی۔ اس لیے جتنا جلدی ہو تعصب و تقاخر کی اندھی گلی سے نکل آئیں اور پاکستانی سٹیزن شپ ہی کو اولین ترجیح دیں - 

Friday, March 13, 2015

Right Choice: Strengthening of Elected Tier in Pakistan & a Challenge too


Right Choice

Strengthening of Elected Tier

in Pakistan and a Challenge too

Choice of Mian Raza Rabbani as Chairman of Senate shows the maturity of elected tier in Pakistan. There are reservations regarding selection of deputy chairman yet unopposed election of a person who has history to challenge both Zia and Musharaf is an achievement of Pakistani political system. Informed & smart media persons tried to play as usual with the Senate Election but the result proved them wrong again. Born in a family of Jalandri arians at Lhore, Raza played an important role not only regarding restoration of democracy, provincial harmony but also keeping the right direction of his comrades. His father, an officer of Air force was ADC of Jinnah and he worked under Z A Bhutto and Benazier Bhutto and with such legacy he is now sitting on the seat of Chairmanship of Senate. It is the 3rd important seat after PM and President and out of three the important seats two are from Karachi yet Punjab, KPK, Baluchistan did not object on it which is a good signal. Federalism and provincial harmony are two loves of Raza and he should play his role in reducing provincial tensions. From the early tears our establishment has a colonial legacy of centralism and to protect centralist mindset they remained busy in playing with provincial differences. For this they coined Big province versus small provinces tactics and played against the biggest province Bengal till 1971. Post 1971 scenario showed that they are still playing with the tactics as usual. Zia played with Punjab versus three provinces and during his last days Bazenjo realized that game plan and said
“Keeping all these possibilities in mind, and the objective conditions around us, I had reached the conclusion that the aim of our mobilization should not be predicated on Punjab-Bashing and Secession. On the contrary, we should unite and fight for the political and economic rights of different nationalities within the framework of Pakistan.”
Page 214, In Search of Solutions: An autobiography of Mir Ghaus Baksh Bazenjo edited by his political advisor B.M.Kutty published by Pakistan Study Centre University of Karachi & Pakistan Labour Trust, Karachi Sindh in 2009.
From Kalabagh dame, breaking of provinces till playing with languages and dialect issues we have a history of unresolved things but it is a time to resolve such issues at federal level and senate can play an important role in this regard. The issue of more powers for senate is important and one should adopt election of Senate issue on similar line as we elect women seats in National Assembly.  Mixture of Presidential and Parliamentary form of government is a twist. But some forces are still reluctant to strengthen elected tier and political parties in Pakistan. Raza’s selection is a test rather than luxury for him. 


For easy reading click here
http://humshehrionline.com/?p=10147

الندھر کے آرائیں خاندان میں پیدا ہونے والے رضا ربانی کا شمار پیپلز پارٹی کے ان مستقبل مزاج سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے نہ تو کبھی کسی چوہدری کی طرح بیچ طوفان پارٹی کو چھوڑا، نہ کبھی پارٹی کی پیٹھ میں کسی لغاری کی طرح چھرا گھونپا اور نہ ہی رات کی تاریکیوں میں کسی مخدوم کی طرح آمروں یا ان کے حواریوں سے ملاقاتیں کیں۔ یہی ان کا ’’جرم‘‘ ہے اور یہی ان کی صفت۔ -

سینیٹ انتخابات سے قبل میڈیا نے جو ’’طوفان بدتمیزی‘‘ چائے کی پیالی میں برپا کیا تھا اس کے اختتام پر رضا کی آمد شاندار جواب کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ 2006 کے بعد تسلسل سے پاکستانی سیاستدان وطن عزیز کو آمریتوں کی گو دی سے نکالنے میں کامیاب ضرور ہیں کہ یہی عمل پاکستان کے وقار کی ضمانت ہے۔ آصف زراری نے رضاربانی کے بطور چیرمین سینیٹ انتخاب اور نواز شریف نے بروقت اس کی تائید سے ’’عزت سادات‘‘ قائم رکھی مگر رضا کو نئے امتحانوں سے دوچار کر دیا کہ اب رضا صوفی کے’’ کرب‘‘ اور جوگی کی ’’کوک‘‘ کو سمجھ پائیں گے۔ - 

Soft Image of Pakistan and Role of Youth & Civil Society


Soft Image of Pakistan and Role of Youth & Civil Society


Umeed Jawan is an initiative of 80 civil society organizations working in South Punjab and Lhore. It is reporting of the meeting in which NGOs showed their work so far and shared their efforts to tackle numerous forms of extremism in Pakistani society. Along with Minister of education in the Punjab, Sarwat Jahan, Mr Achery, Abdus Sabor, Muhamad Ali, MPAS Mehwish Sultan, Farah Manzor, Marry Gil and Sabiha Shaheen were at the stage.  IRC performed a Darama in Punjabi with its Bhawalpur University team. 

















Wednesday, March 11, 2015

A Song For Punjabis by the Punjabis and of the Punjabis Listen and read and think about it for once


A Song 

For Punjabis by the Punjabis

and of the Punjabis

A song written in lines of Amrta patetam

Listen and read and think about it for once

For listening the Link is


پنجاب اور پنجابی زبان کا نوحہ غلام حسین ندیم کے قلم سے
ماں بولی
اُٹھ شاہ حُسینا ویکھ لے اسّی بدلی بیٹھے بھیس
ساھڈی جِند نمانی کُوکدی اسی رُلّ گئے وِچّ پردیس
ساھڈا ہر دم جی کُرلاوندا ، ساھڈی نِیر وگاوے اَکّھ
اساں جیوندی جاندے مر گئے، ساھڈا مادھو ہویا وکھ
سانوں سپّ سمے دا ڈنّگدا ، سانوں پَل پَل چڑھدا زہر
ساھڈے اندر بیلے خوف دے ، ساھڈے جنگل بن گئے شہر
اساں شوہ غماں وِچ ڈُبدے، ساھڈی رُڑھ گئی نائو پتوار
ساھڈے بولنّ تے پابندیاں ، ساھڈے سر لٹکے تلوار
اساں نیناں دے کھوہ گیڑ کے کِیتی وتّر دل دی پَؤ
ایہہ بنجر رھئی نماننڑی ، سانوں سجّن تیری سَونھ
اساں اُتوں شانت جاپدے، ساھڈے اندر لگی جنگ
سانوں چُپ چپیتا ویکھ کے ، پئے اکھن لوک ملنگ
اساں کُھبے غم دے کُھبڑے ، ساڈے لمے ہو گئے کیس
پا تانے بانے سوچدے، اساں بُندے ریندے کھیس
ہُن چھیتی دوڑیں بُھلیا ، ساھڈی سولی ٹنگی جان
تینوں واسطہ شاہ عنائت دا ، نہ توڑیں ساھڈا مان
اساں پیریں پا لئے کُنگھرو ، ساڈی پاوے جِند دھمال
ساھڈی جان لباں تے اپّڑی ، ہُن چھیتی مُکھ وکھال
ساھڈے سر تے سورج ہاڑھ دا ، ساھڈے اندر سیت سیال
بن چھاں ہُن چیتر رُکھ دی ، ساھڈے اندر پانبڑ بال
اساں مچ مچایا عشق دا ، ساھڈا
لوسیا اِک اِک لُوں
اساں خُود نوں بُھلّے سانولا، اساں ہر دم جپّیا توں
ساھنوں چِنتا چِیخا چڑاھون دی، ساھڈے تِڑکن لَگے ھَڈّ
پَھڑ لیکھاں برچھی دُکھ دی ساھڈے سینے دیتی کَڈ
اساں تُر تُوں دُکھڑے چاھگدے ساھڈے لیکھیں لِکھیا سوگ
ساڈھی واٹ لمیری دُکھ دی،ساھڈے عُمروں لمے روگ
ساڈھے ویھڑے پھوھڑی دُکھ دی،ساھڈا رو رو چویا نور
ایہہ اوکڑ ساھڈی ٹال دے، تیرا جیوے شھر قصور
آ ویکھ سُخن دیا وارثا تیرے جنڈیالے دی خیر
اَج پُتر بولی ماں دے پئے ماں نال رکھن وَیر
اَج ہیر تیری پئی سہکدی، اَج قَیدو چڑھیا رنگ
اَج تخت ہزارے ڈھیہہ گئے،اَج اُجڑیا تیرا چَنگ
اَج بیلے ہو گئے سونجڑے، اَج سُکیا ویکھ چنا
اَج پِھرن آذُردہ رانجھڑے، اَج کھیڑے کر دے چا
اَج ٹُٹی ونجلی پریت دی، اَج مُکے سُکھ دے گِیت
بَن جوگی دَر دَر ٹولیا، ساھنوں کوئی نہ مِلیا مِیت
اساں اکھر موتی رول دے اساں در در لاندے واج
کوئی لبھے ہیر سیالڑی جیھڑی رنگے اپنا تاج
ساھڈے ہتھ پیالا زہر دا اساں ویلے دے سُقراط
اساں کَھنڈ بنادے کھار نوں ساڈھی جگ توں وکھری بات
اُٹھ جاگ فریدا سُتّیا ھُن کر کوئی تدبیر
جِند ہِجر کریرے پَھس کے اَج ہو گئی لیر و لِیر
ساھنوں جوبن رُتے ویکھ کے سَبھ آکھن بابا لوگ
کِس کھویا ساھڈا جوبنا ساھنوں لگا کیہا روگ
اساں پیڑاں دا وَنجھ پالیا ساھنوں دُکھاں چاہڑی پان
ساہنوں غم دا پینجا پِنجدا ساڈھے تُنبے اُڈدے جان
اساں بِیجے رُکھ انار دے ساہنوں لبھے تُمے کَوڑ
اساں مرن دیہاڑے اُڈیکدے ساھڈی وَدّدی جاوے سَوڑ
ساہڈے سِر تے رُکھ بلور دے ساھڈی تُپوں گھیری چھاں
ساھڈے تَنبو ساڑھے سورجے ساھڈی لُوسے دھرتی ماں
ساھڈی اُجڑی حالت ویکھ کے پا رحمت دی اِک چات
ساھڈے سر توں اَنھی رات نوں ہن کر سائیاں شبرات
ھُن آ باہو سُلطانیا ساھنوں درداں لیا لتاڑ
اَج توڑ زنجیری دُکھ دی اَج ہُو دا نعرہ مار
ساھنوں الف بنا دے پیاریا ساھڈی مُک جائے بے دی لُوڑ
مَن مُشّکے بوٹی عشق دی سب نِکلے دل دی کوڑ
ایتھے تِڑ دے سب ایمان تے ایتھے اُڈدی عشق دی تُوڑ
جو عشق سلامت منگدا پھڑ اُس نوں لیندے نُوڑ
ساھڈا تالو جاوے سُکدا ساھڈی ودھدی جاوے پیاس
بن بدل ساون ماہ دا ساھڈی پوری کر دے آس
اساں اپنی قبرے آپ ہی لئے لہُو دے دیوے بال
اساں بے بُریاں دے شھر وِچ ایھہ کیتا نواں کمال
سائیں دمڑی شاہ دیا پیاریا تیرا جیوے سیف ملوک
ساھڈے دیدے ترسن دید نوں ساھڈے دل چوں اُٹھدی ہوک
ساھنوں گُڑھتی دیدے سُخن دی ساھڈی کر دے صاف زبان
ساھنوں بُکّل وِچ لپیٹ کے ھُن بخشو عِلم گیان
اساں راتیں اُٹھ اُٹھ پِٹدے ساھڈے کالجے پئے گئی سوج
اساں چَھم چَھم روندے پیاریا ساھنوں ھر دم تیری کھوج
اساں موہرا پِیتا سچ دا ساھڈے نِیلے ہو گئے بُل
اساں رہ گئے کلّم کلّڑے ساھڈا ویری ہویا کُل
ساھڈے نَینِیں نِیندر رُس کے جا پُہنچے کیھڑے دیس
ہر راتیں چَھویاں مار دے ساھنوں لیف سرھانے کھیس
آ کوٹ مِٹھن دیا والیا لے جبدے ساھڈی سار
ہک تِکھڑا نین نکِیلڑا ساھڈے دل تِھیں ہویا پار
ساھنوں چڑھیا تَیھا ہِجر دا ساھڈا کر لے کوئی توڑ
ساھنوں بِرھن جوکاں لگیاں ساھڈا لِتا لہو نچوڑ
اساں اپنے ہی گل لگ کے نِت پائیے سو سو وَین
ساھڈی یا قسمت نوں چِمڑی اِک پُکھاں ماری ڈین
ایہنوں کِیلے منتر پھوک کے ایھنوں کڈھو دیسوں دور
ایہہ پِچھل پیری اوتری ایتھے بن بن بیٹھے حور

Monday, March 9, 2015

Mollana Sindhi (10th March): Extremism, Afghanistan and Great Game




Extremism, Political Islam, Afghanistan and Great Game
Secret missions, Pitfalls, misleading history and modernity
A piece written on the 143rd birthday of Mollana Ubaid ullah Sindhi

Bota Singh or Mollana Sindhi was product of his times(1872-1944). Born in Sialkot at March 10th 1972 and converted his nationality and religion yet remained linked with his past. He was very happy when he heard news of Maharaja Duleep sigh’s return. In Punjab everyone was happy that son of Maharaja Ranjeet Singh would come and destroyed colonial masters. It was 1886 and Bota Singh had a hope but when they heard that he was halted at port of Aden (which remained part of British India till 1935) they felt bad. So Mollana was anti-colonial occupation when he was not Muslim. Exactly one year before his birth, Otto von Bismarck had established his rule in Germany. It was Bismarck who introduced male franchise first time in Europe in 1872 and it was Engels, friend of Karl Marx who greeted him too in a letter. It was Bismarck who became fierce critic of colonialism. He had to follow clergy due to internal political mechanics yet his opposition to colonial rule was clear. There were close association between Neutrality concept of Franklin Benjamin and Bismarck’s opposition of colonialism.
It was a time when British masters had annexed the Punjab (1849) and were busy in their Frontier Forward Policy. The policy was coined in 1800 yet Government of the Punjab remained basic obstacle for 50 years. Till 1879 colonial masters want to capture historic Silk route yet after rise of Bismarck they postponed it after tripartite agreement between Russia, France and Britain in 1882. In 1879 colonial masters inaugurated a railway station at RUK, mean stop, near sukkar at Sindh. Till mid 1990s I personally read a board at that railway station in which next destination was mentioned as Qandahar. Till that time British policy makers had a plan to built road to Europe via Qandahar, Iran and Turkey yet they abundant that plan in 1880s in order to fix Germans.
After annexation of the Punjab they wanted to build a monolithic, unitary government in India and it was John Bright who warned colonial masters timely and advised them not to respect religious, cultural and linguistic diversity of subcontinent. His 1858 speech in House of Commons is reproduced by Beverley Nicholas in his famous book “Verdict on India” published in 1944. The extract of that speech was provided by Muhammad ali Jinnah. But British policy makers remained busy in developing One Nation Theory in India. The theory was further picked and expanded by Hindu Nationalists like Bippan chandar Pal, BAL Ganga dhar tilak and Lala Lajpat Rai and all three were founding fathers of all India Congress. The triangle is known in history as Bal-Pal-lal. It was a time in which young Sindhi grew.
After 2nd Anglo Afghan war Afghanistan was in full control of British in 1880. Britishers  not only defeated Dost Muhammad khan’s son Sheer khan, forced afghans to sign Gandhamak Treaty but also install another sibling of Dost M Khan Emir Abdur Rahman who was opponent of Dost. Due to their Smart policy they did not include Afghanistan in British India because rise of Bismarck raised their fears enough or one can say Bismrck was on their nerves. In 1882, Britain, France and Tsarist Russia signed an agreement and after that agreement British policy makers developed three pitfalls. These pitfalls proved successful yet it jeopardized whole region. They established Afghanistan as a satellite State, than created Durand line (started from Wakso or Wahkan till Pak-Afghan-Iran borders) in 1893 and the third pitfall was creation of NWFP in 1901 after cutting 6 Punjabi districts including Peshawar, Kohat, Hazara, D I Khan etc. So they closed all traditional trade routes (mountain passes) linked with historical Silk route. Court historians call the region of pitfall areas as buffer zone and in order to maintain statusco they spread misleading stories of Pathan pride. Since 1880 they divided whole region in three pitfalls but now they said that no one could conquer those lands. Through Devband and Deradon they had their men in those areas especially among Kabul elite. They also contacted all conflicting tribes who were fighting with Abdur Rehman including Hazars, toories, Bangesg, Qizalbashs etc and settled them around Durandline and Punjab. The pitfall region attracted anticolonial revolutionaries and rival agencies too yet it was design purposely so vigilant colonial masters played smartly. For them it was trap too. Their main aim was to fix Germans. In 1901 they created Indian Political Inelegance purposely and Patrick French wrote IPI story smartly. Now they wanted to shift the centre from Calcutta to Delhi.  Delhi Darbar of 1904 was proof of that shift yet British trained Calcutta and Bengalis smelled it timely. Partition of Bengal was a preemptive drive to detract Bengalis. False cases against Auribindo Bose and Ras Behari Bose in 1908 and 1912 pushed Bengalis to leave political opposition and adopt armed struggle. So Bengalis had to move toward pitfalls during 2nd half of 1st decade of 20th century. When Muhammad Ali Qasori visited Kabul and FATA during 2nd decade of 20th century he witnessed presence of Bengali fighter in all three pitfalls in 1915. It was a background in which Mollana Sindhi went on a mission to Afghanistan in 1915. He himself was unaware from the plan at that time but when he analyzed it in later years he dismissed it. Zafar Ahsan aibak , an arian of karnal and mollana Muhammad ali Qasoori son of eminent Abdul Qadir Qasoori were also in Kabul before him. If one read Secret affairs: Britain’s collusion with Political Islam by Mark Curtis and M I 6: The history of secret intelligence from 1901-1949 by Keith Jeffery one can easily traced routes of religious fundamentalism and political Islam from London. One may analyze Afghan jihad of 1980s as a continuation of that postponed agenda of 1890s well. But rise of new Germany is again there. Anyway this piece is regarding Mollana sindhi but it also threw some light on Great policies which jeopardize historical peace loving and trade loving nations. From 1915 till 1939 Mollana spend 24 years in self exile and visited Kabul, Moscow, Turkey and Hejaz (Saudi Arab).  After his return when he shared his experience, even his Devband leaders became enemy of him. What he said and what he amended is discussed in this article.
  It is published in Humshehri yet it is incomplete versions with errors. So read it here in this blog. Thanks. You can ask for PDF version of urdu article at aamirriaz1966@gmail.com

Some extracts of his writings.
The teachings of tasawwuf (Sufism) are as important as are the teachings of any other part of religion. Tasawwuf brightens the real genius of humanity. Fiqh (Jurisprudence) is concerned with the form of religion, while tasawwuf concerns its spirit. Both are essential just as the soul cannot show its worth without body, similarly Tasawwuf alone without the fiqh cannot show the worth of religion’.
“When I leave this world and reach Mala-e-A’la (the sublime assembly) I will submit my proposal that the British Empire should be terminated and soon you will find that the British Empire will come to its end.’
After an absence of quarter of century Maulana Sindhi entered the premises of his Almamter the Dar-al-Ulum Deoband on March 28, 1939. No one had been informed earlier. All of a sudden there was uproar when Hazrat Maulana was found in the Mosque offering prayers of gratitude.
He said that Europe had become the centre of politics. In spite of 150 years’ British rule in India the acknowledgement of politics in the country was very elementary and for this he held responsible the education which was being imparted to the Indians under the British Government.
Muslims should equip themselves with the modern European knowledge of physical sciences and technology.
            But in spite of this allegiance (with Congress) he was not happy with the semi religious and semi political element in the leadership of the congress and considered it to be a permanent danger for the National existence of the Muslims.
            He suggested unconditional support to the British Government in the Second World War on the ground that it provided an opportunity for attaining advanced knowledge of war technology and military science.
“At Mecca I had started my life on new lines. After studying the conditions in Turkey I had admitted the defeat of my old program.
I was converted from the Pan Islamism to the Indian Nationalism, and became an ardent advocate of Nationalism. Thus it became easy for me to remain away from the mutual dissentions and rivalries of various parties among the Muslims.
“On my return to India I explained at length, my position to my friends.  If someone refused to accept my explanation I even became harsh to him. The result is that, although for the last five years I am enjoying the benefit and the blessings of my motherland, very few persons have understood me.

Gandhiji’s scheme of Khaddar (course cotton cloth) and charkhah (spinning wheel) is useless. In its place, it would have been much better if we had benefited from scientific knowledge as that would have led the nation ahead. Gandhiji has kept the nation backward. 

Read the complete article here

مولانا سندھی کی سیاسی بصیرت
بیرونی طاقتیں، وطنی اشرافیہ اور ہماری انتہاپسندی
عامر ریاض

انقلاب یا تبدیلی کی خواہش اپنی جگہ پُرکشش کہ اگر اس میں بیرونی طاقتوں یاوطنی اشرافیہ کے مفادات حاوی ہوں تو انقلاب یا تبدیلی کا عمل بے فیض اور بے برکتا ہو جاتا ہے۔ بیرونی طاقتوں کے لیے اپنی خارجہ پالیسی جبکہ وطنی اشرافیہ کے لیے اپنے مفادات ہمیشہ اولیت رکھتے ہیں۔ خیالات، نظریات اور مفادات کے درمیان ہونے والی کشمکش بظاہر سادہ مگر درحقیقت پیچیدہ عمل ہے کہ محض جذباتیت اور نعرہ بازی سے یہ پل صراط عبور نہیں ہوتا۔ مولانا سندھی کی سیاسی بصیرت اس لیے آج ہمارے لیے اہم ہے کیونکہ 1940 کی دہائی میں اپنے عملی تجربہ کے بعد مولانا اسی نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ بیرونی طاقتوں یاوطنی اشرافیہ کی بجائے اپنی دھرتی اور اس میں موجود علم سے ہی رجوع کرنا چاہیے۔
1849 میں 50 سال انتظار کرنے کے بعد پنجاب میں انگریزوں نے ”لہور دبار“ کا خاتمہ کیا تو برصغیر پر ”انگریزی قبضہ“ مکمل ہوگیا۔ 1849سے 1947 تک یعنی پورے 98 برس ہمارے خطوں پر نوآبادیاتی بندوبست نافذ رہا۔ اس دوران بنگال سے پنجاب تک بہت سے گروہوں اور افراد نے مسلح جدوجہد اور بیرونی امداد کے ذریعہ انگریزوں کو برصغیر سے نکالنے کی ناکام تحریکیں چلائیں۔ ا ن تحریکوں کو جرمنوں، روسیوں، فرانسیسیوں اور ترکوں نے اپنی اپنی خارجہ پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ”بغض سلطنت برطانیہ“ میں مدد بھی فراہم کی۔ خطہ میں برپا ہونے والی اس کشمکش میں افغانستان اور فاٹا بالعموم بطور ”سپرنگ بورڈ“ استعمال ہوئے۔ افغان حکمرانوں اور خانوں نے تو منفعت کمائی مگر افغان عوام اور سرحد پار سے آئے انقلابی گھاٹے ہی میں رہے۔ انہی تحریکوں میں سے ایک لہر کے ساتھ مولانا سندھی بھی وابستہ تھے۔ مگر مولانا کا اعجاز یہ ہے کہ انھوں نے اس ناکامی کو مایوسیوں کی راہ نہ دکھائی بلکہ ”نئے راستے“ تلاش کیے ۔ ماضی کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے غیروں پر تکیہ کرنے کی روش کو تج ڈالا اور ملکی سطح پر مذہبی، مسلکی، لسانی، قومیتی و ثقافتی ہم آہنگی پر مبنی غیر مسلح سیاسی جدو جہد کا درس دیا۔
10 مارچ 1872 کو مولانا سندھی پنجاب کے تاریخی شہر سیالکوٹ میں اک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے کہ آپ کا نام ”بوٹا سنگھ“ رکھا گیا۔ سیالکوٹ پنجاب کے ان مالدار ترین چار محالوں (Estates) میں سے ایک تھا جو ساتھ ساتھ واقع تھے۔ مولانا کو مارچ 1886 کے وہ دن یاد رہے جب شیر پنجاب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے فرزند دلیپ سنگھ نے پنجاب واپسی کا اعلان کیا تو گھر میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔ پنجاب میں ہر کوئی امید لگائے بیٹھا تھاکہ رنجیت سنگھ کا بیٹا انگریزوں کو پنجاب ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا سے مار بھگائے گا مگر انگریزوں نے اس کی واپسی کو ناممکن بنا دیا۔ مولانا گھر ہی سے انگریز مخالفت سیکھ کر چلے تھے کہ بوٹا سنگھ سے عبیداللہ بننے کے بعد انھوں نے اسے جاری رکھا۔ ان کے مرشد اور پیر نے نو مسلم عبیداللہ کو ہدایت کی کہ اپنی سکھ ماں کی خدمت جاری رکھے کہ انہیں جس اسلام کا درس ملا اس میں غیر مسلموں سے نفرت کا سبق شامل نہیں تھا۔ پنجاب و سندھ کے مدارس میں کئی سال پڑھنے کے بعد وہ دیوبند گئے اور مولانا محمود الحسن کے اسیر ہوئے۔ مولانا محمود الحسن سے قربت ان کے بعض ہم مکتبوں کو بوجوہ پسند نہ آئی مگر زرخیز ذہن مولانا سندھی اپنی ڈگر پر چلتے رہے کہ مولانا محمود الحسن ان کی ڈھال تھے۔ 1912 کے لگ بھگ جب دیوبند میں اک انگریز گورنر کو مدعو کیا گیا تو مولانا محمود الحسن کے ہمراہ مولانا سندھی بھی انکے حجرے ہی میں رکے رہے۔ ان کے ناقدین کی سازشیں رنگ لائیں تو مولانا محمود الحسن نے انہیں ”دلی “بھیج دیا جہاں وہ حکیم اجمل خاں کے ساتھ نظارة معارف قرانیہ چلاتے رہے۔
آج سے ٹھیک سو برس پہلے 1915 میں انہیں اک خاص مشن پر افغانستان بھیجا گیا کہ وہ اپنے مرشد مولانا محمود الحسن کے کہنے پر ہر کام کرنے کو تیار تھے۔ خود مولانا کے بقول انہیں تو تادیر اس مشن بارے کچھ معلوم نہ تھا۔ حتیٰ کہ جب انہیں نومولود ”عبوری حکومت ہند“ کا بل کا وزیر چن لیا گیا تو وہ حیران رہ گئے کہ میں تو ابھی نہ تجربہ کار ہوں۔ انہیں تو اس وقت بھی حقیقت حال بارے معلوم نہ ہوا کہ جب انگریز سرکار کے خفیہ اداروں نے پیش بندی (Preemptive Act) کے لیے ”ریشمی رومال سازش “ کا قضیہ گھڑا۔ اس سازش کی آڑ میں انگریز ایک طرف افغان حکمرانوں کو ترکوں، جرمنوں سے دور ہٹنے کا پیغام دے رہے تھے تو دوسری طرف برٹش انڈیا میں ایسے عناصر کو پہلے سے گرفتار کرنا ضروری تھا جو مستقبل میں اس اتحاد میں کارگر ہو سکتے تھے۔ 1916 میں افغانستان کی بین الاقوامی کھیل میں کیا اہمیت تھی اس کو سمجھنے کے بعد ہی اصل کھیل سمجھ آسکتا ہے۔ افغانستان تو 1880 کی اینگلو افغان جنگ کے بعد مکمل طور پر انگریزوں کے قبضہ میں آچکا تھا کہ گندھمک معاہدہ انگریزوں کے کابل پر قبضہ کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ مگر انگریزوں نے کمال ہشیاری سے کابل کو برٹش انڈیا میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ یہی نہیں بلکہ 1893 میں ڈیورنڈ لائن بنا کر افغانستان سے ملحقہ سرحد کے تمام اہم پہاڑی درے بند کرنے کے لیے قبائلی علاقہ جات کے نام سے الگ ایڈمنسٹریشن بنا ڈالی ۔ 1901 میں پنجاب کے 6 اضلاع کاٹ کر صوبہ سرحد بنایا کہ جو بھی برٹش انڈیا کی طرف آنا چاہے وہ ان تین ناکوں یعنی ”افغانستان، فاٹا اور صوبہ سرحد “میں خجل ہوجائے۔ اس کے بعد اولف کیرو جیسے دانشواروں کے ذریعے انگریز نے یہ افسانہ گھڑا کہ افغانستان اور فاٹا ہمیشہ سے آزاد رہے ہیں۔ ان تینوں علاقوں کے قوم پرست اور اسلام پسند آج بھی اس عاریتاً لیے تقاخر کو جانتے ہوئے یا انجانے میں پھیلانے میں مصروف ہیں۔ وکسو (واہ خاں) سے لے کر پاک، افغان، ایران سرحد تک بچھائی ڈیورنڈلائن نے پرانے ریشمی رستہ (Silk Route) کی اہم پہاڑی دروں کو بھی بند کر دیا توریشمی رستہ کے قدیمی ”شارٹ کٹ “کا خاتمہ ہوا۔ اب یہاں تاجروں اور سوداگروں کی بجائے سمگلروں، جاسوسوں اور مفروروں کی پناگاہیں ہی بن سکتی تھیں کہ بعدازاں انقلابیوں اور جہادیوں نے بھی بوجوہ یہیں ٹھکانے بنائے۔
برطانیہ کیوں ڈیورنڈلائن بناتے پرلی طرف راغب ہوا اس کے لیے بدلتے یورپ کا منظرنامہ سامنے رکھنا ہو گا کہ جہاں جرمنی تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ مارچ 1871 میں ”اوٹوواں بسمارک“ جرمنی کا پہلا چانسلر بنا تھا۔ اسی کے دَور میں بالغ مردوں کو ووٹ کا حق ملا تھا جو یورپ میں اپنی طرز کی پہلی مثال تھی۔ خود کارل مارکس کے دست راست فریڈرک اینگلز نے بھی اسے اک انقلابی قدم قرار دیا تھا۔ بسمارک وہ اولین یورپی حکمران تھا جس نے نوآبادیات کے خلاف کھل کر تنقید کی تھی۔ اقتدار کے پہلے دس سالوں ہی میں اس نے جرمنی کو مضبوط کیا اور آسٹرو ہنگرین سلطنت سے بھی رشتے مضبوط کیے۔ یہی وجہ تھی کہ 1882 میں زار روس، فرانس اور برطانیہ نے گٹھ جوڑ کر دیا کہ فرانس اور برطانیہ کا جرمنوں کے خلاف گڑھ جوڑ پہلی جنگ عظیم کے بعد تک جاری رہا۔ روس کو دریائے آمو تک رکھا گیا تو افغانستان سے صوبہ سرحد تک دلدلی علاقہ بنایا گیا کہ یہ سب جرمنوں سے لڑنے کی تیاریاں تھیں۔
تقسیم بنگال کے بعد ہماری سیاست میں نئے عناصر کا اضافہ دیکھا گیا۔ بقول محمد علی قصوری افغانستان اور فاٹا کے علاقوں میں بنگالی شدت پسند عناصر 20 ویں صدی کی پہلی دہائی ہی سے سرگرم عمل تھے اور ان کے پنجاب میں بھی طرفدار موجود تھے۔ 1905 کی تقسیم بنگال سے قبل انگریز دلی کو پنجاب سے نکالنے اور کلکتہ کی بجائے دلی کو مرکز بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ مرکز کی منتقلی کا تعلق فرنٹیئر فارورڈ پالیسی سے تھا جسے 1893 سے بدل چکی پالیسی کا تسلسل سمجھنا چاہیے۔ ویسے تو اس پالیسی کا کھرا 6 جلدوں میں چھپنے والی جیمز مل کی کتاب ”تاریخ ہند، مطبوعہ (1823 تا 1833)، لارڈ میکالے کے خطاب 1835، فارسی کے خاتمہ کے حکم 1837 اور ”لہور دربار“ کے خلاف چلائی گئی مہموں سے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ اس دور میں کچھ انگریز قدیمی ریشمی رستہ پر خود قبضہ کرنے جبکہ کچھ اسے مکمل بند کرنے میں منقسم تھے۔ مگر بسمارک کے عروج کو دیکھتے ہوئے روسیوں، فرانسیسیوں اور انگریزوں میں اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ قدیمی ریشمی رستہ کو بند کر دینا چاہیے اور پھر ڈیورنڈلائن بنا دی گئی۔ 1904 میں انگریزوں نے نہ صرف دلی میں اپنی عسکری قوت کا مظاہرہ کرنے کے لیے زبردست ”دربار“ منعقد کیا تھا بلکہ اسی سال آگرہ اور پنجاب یونیورسٹیوں کو ڈگریاں دینے کا اختیار بھی دے دیا تھا جو اس سے قبل صرف کلکتہ یونیورسٹی ہی کو حاصل تھا۔ بنگالی بابووئوں کی اس بدلتی صورتحال پر گہری نظر تھی کہ بنگالیوں کی شدت پسند لہر میں تیزیوں کا گہرا تعلق مرکز کی منتقلی سے تھا ۔ شدت پسند کا روائیوں کے لیے انہیں ایسا علاقہ راس آتا تھا جہاں انگریز کی عملداری نہ ہو اور بیرونی امداد بھی پہنچ سکے۔ 1908 میں بنگالی شدت پسند تحریک میں اس وقت تیزیاں آئیں جب مئی 1908 میں برہمو سماج سے تعلق رکھنے والے رنگاپور (مشرقی بنگال) کے اسسٹنٹ سرجن کرشن دھن کے والائیت سے پڑھ کے آنے والے بیٹے شری اروبیندو کو ”علی پوربم کیس“ میں گرفتار کر لیا گیا۔ علی پور کلکتہ کی بدنام زمانہ جیل ہے جہاں سبھاش چندر بوس کو بھی قید رکھا گیا تھا۔ ایسے ہی 23 دسمبر 1912 میں مشہور بنگالی انقلابی راس بہاری بوس کو وائسرائے انڈیا لارڈ ہارڈنگ پر دلی کے چاندنی چوک میں حملہ کرنے والے کیس میں ملزم قرار دیا گیا تھا۔ ایسے کیسوں کا مقصد یہ تاثر مضبوط کرنا تھا کہ بنگالی قوم پرست درحقیقت شدت پسند اور دہشت گرد ہیں۔ مگر عوام میں اس کا تاثر یہ گیا کہ کوئی تو ہے جو نوآبادیاتی ناخداوئوں کو چیلنج کر رہا ہے۔ 1913 سے 1915 کے درمیان کام کرنے والی غدر پارٹی میں پنجابی و بنگالی گروہوں کی شمولیت نے انگریزوں کے کان کھڑے کر دیے کہ انھوں نے اسے ”جرمن سازش“ ہی کے پیرائے میں دیکھا۔ اگر پیٹرک فرنچ کی آزادی یا موت (انگریزی) اور کیتھ جیفری کی کتاب ایم آئی۔6 (انگریزی) پڑھ لیں تو لندن میں بننے والی پہلی انڈین خفیہ ایجنسی ”انڈین پولیٹیکل انٹیلی جنس“ (IPP) اور برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی6- کے 1901 سے 1915 تک اہداف سمجھ آجاتے ہیں۔ بم دھماکوں کی سیاست کے آغاز کے دن بھی یہی ہیں۔ بم دھماکوں کے الزام میں سیاسی لوگوں کی پکڑ دھکڑ سے کچھ لوگ ڈر کر سیاست کو خیرباد کہہ دیتے ہیں تو کچھ مسلح جدوجہد اور شدت پسندی کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ ان حالات میں خفیہ والوں کی بھی ٹوہر بنتی ہے، فنڈز ملتے ہیں اور انقلابیوں کو بھی نئے مددگار نصیب ہوتے ہیں مگر معاشرے میں انتہاپسندیاںبڑھتی ہیں جاتی ہیں۔ ڈیورنڈلائن سے یہ کہانی شروع ہوئی اور رفتہ رفتہ مسئلہ گمبھیر ہوتا گیا۔ پہلی جنگ عظیم شروع کرنے سے قبل جو سیاسی بساط سلطنت نے بچھائی تھی اس میں دلدلی علاقہ دریائے آمو سے صوبہ سرحد تک پھیلا ہوا تھا۔
مولانا جب افغانستان گئے تو پہلی جنگ عظیم (یورپی تنازعہ) شروع ہو چکی تھی جس میں انگریزوں کا بڑا ہدف جرمن تھے۔ مولانا کی آمد سے قبل عبدالقادر قصوری کے فرزند مولانا محمد علی قصوری اور کرنال کے ارائیں ظفر حسن ایبک بھی کابل پہنچ چکے تھے۔ ان تینوں کی کتب غدری بابوں کی تحریروں اور بدل چکی سیاست بارے چھپنے والی دستاویزات کے ساتھ ملا کر پڑھ لیں تو کہانی سمجھے آنے لگتی ہے۔کابل کا حبیبیہ کالج ہو یا واحد اخبار ”سراج اخبار“چھاپنے والا پریس یا پھر ملٹری ہسپتال، ان اداروں کو پنجابی مسلمان ہی چلاتے تھے۔ کابل کے حکمرانوں میں ڈیرہ دون سے تربیت یافتہ بھی تھے اور دیوبند سے قربت رکھنے والے بھی کہ افغانستان کے سپہ سالار نادر خان (ظاہر شاہ کا والد) ان دونوں قربتوں کے اسیر بھی تھے اور طاقت کے مراکز کے نزدیک بھی۔ یہی وہ وقت تھا جب جرمن اور ترک (سلطنت عثمانیہ) بھی افغانستان کے سپرنگ بورڈ کو انگریزوں کے خلاف استعمال کرنے کے ارادے سے کابل میں مٹر گشت کر رہے تھے۔ یوں جرمنوں اور سرحد پار سے آئے انقلابیوں میں بوجوہ قربتیں بڑھ گئیں کہ جس کا اظہار ”پہلی عبوری حکومت“ تھی جو برٹش انڈیا سے باہر بنائی گئی۔ اس عبوری حکومت کے صدر راجہ مہندر پرتاب تھے جبکہ وزیروں میں مولانا برکت اللہ بھوپالی، مولوی محمد علی قصوری اور عبید اللہ سندھی بھی شامل تھے۔ مہندر پرتاب اور برکت اللہ کے جرمنوں اور جاپانیوں سے گہرے مراسم تھے۔ افغانستان میں امیر حبیب اللہ کی حکمرانی تھی کہ بقول مولانا محمد علی امیر افغانستان کا حرم نوسو بیگمات سے بھرا ہوا تھا۔ جب نووارد محمد علی نے دیوبند سے قرابت رکھنے والے قاضی القضات سے اس بارے استفسار کی جسارت کی اور اسلامی قوانین کا حوالہ دیا تو قاضی صاحب نے کہا، ”آیندہ ایسا سوال نہ کرنا وگرنہ توپ کے منہ پر باندھ کر اڑا دیے جائو گے۔“ یہی نہیں بلکہ تاجکوں، ہزاروں اور نورستانیوں کے ساتھ کابل کے حکمرانوں کے ناروا سلوک کی وجہ سے بھی افغانستان میں خلفشار موجود تھا۔ فیض صاحب کے والد سلطان محمد نے بھی 1901 میں امیر عبدالرحمن کی سوانح میں یہی بات لکھی تھی اور محمد علی قصوری اور ظفر ایبک نے بھی اس بارے لکھا ہے۔ امیر حبیب اللہ کے قتل کے بعد فروری 1919 میں امان اللہ حکمران بن چکا تھا مگر کابل میں افراتفری بدستور برقرار رہی۔ یہ وہی وقت تھا جب پنجاب میں جلیاں والہ باغ کے واقعہ کے ردعمل میںتحریک زوروشور سے جاری تھی تو غازی امان اللہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی۔مئی 1919 میں امان اللہ نے انگریزوں سے جنگ کا فیصلہ کیا تو انقلابی بہت خوش ہوئے مگر 30 دن کے اندر اندر امان اللہ کا اصل مدعا سامنے آگیا۔ عملی سطح پر تو باقاعدہ جنگ کسی ایک محاذ پر بھی شروع نہ ہوئی تھی جبکہ ”ٹل“ کے مقام پر غیرمنظم اور قبائل پر مشتمل فوج کے حصہ نے کپڑے کے تھانوں کے بازار دیکھے تو اسے لوٹ کر واپس افغانستان کی طرف چل پڑے۔ مگر برٹش انڈیا کے اس دَور کے اخباروں کی خبروں سے یہی تاثر دیا گیا کہ افغان لشکری جہاد کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ شومئی قسمت، 1947 میں کشمیر کے محاذ پر بھی ”ٹل“ جیسا واقعہ دہرایاگیا تھا جب بارہ مولا کے بازاروں کو قبائلی لوٹنے لگے تھے اور بھارتی فوج باآسانی سری نگر ایئرپورٹ پر جا اتری تھی۔ جلد یہ بات سامنے آ گئی کہ غازی امان اللہ کیا سوچ رہا تھا۔ جون میں معاہدہ ورسیلز کے بعد جرمنوں نے شکست تسلیم کر لی تھی مگر غازی امان اللہ تو پہلے ہی اپنے اہداف بارے واضح سوچ رکھتا تھا۔ اگست 1919 میں انگریزوں اور افغان حکمران کے درمیان سمجھوتہ ہو گیا جس میں ڈیورنڈلائن کو توثیق کرتے ہوئے انگریز حاکمیت بھی مان لی۔ معاہدہ سے قبل تک افغان حکمران ڈبل گیم کھیل رہے تھے کہ دبائو بڑھانے کے بعد افغان حکمران امان اللہ خان نے انگریزوں سے سودا کر لیا اور انقلابیوں کو گرفتار کرنے کے بعد یا تو افغان مفادات کی نگرانی کے وعدہ پر انہیں فاٹا بھیج دیا یا پھر افغانستان سے کسی دوسرے ملک کوچ کرنے کا حکم دیا۔ محمد علی قصوری فاٹا آگئے جبکہ مولانا سندھی، ظفر ایبک وغیرہ ماسکو اور ترکی کی طرف گامزن ہوئے۔ دلیپ سنگھ کی مہم کی ناکامی کے بعد یہ دوسرا دھچکہ تھا جس نے مولانا سندھی کو مغموم کیا۔ تحریک ہجرت میں خان عبدالغفار خان کابل چلے آئے تو مولانا نے انہیں اپنے خیالات بتائے اور یہ بھی بتایا کہ ہم نے افغان بادشاہ کو انگریزوںکے خلاف جنگ پر صوبہ سرحد دینے کے وعدہ پر راضی کیا تھا۔ بقول ظفر حسن ایبک پختون رہنما غفار خاں نے مولانا سے کہا کہ صوبہ سرحد کے متمول پختون افغانستان کے پسماندہ پختونوں سے نہیں ملنا چاہتے ، یہ آپ کا غلط فیصلہ تھا۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ 1969 میں جب جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑنے سے پہلے بلوچستان اور صوبہ سرحد کے پختونوں کو ایک صوبہ میں ضم کرنے کی پیشکش کی تھی تو ولی خان نے اپنے والد کی تقلید میں یہی دلیل دی تھی کہ صوبہ سرحد کے متمول پٹھان بلوچستان کے پسماندہ پٹھانوں سے نہیں ملنا چاہتے۔ بلوچستان کے پختون رہنماعبدالصمد اچکزئی اس ولی خانی فیصلہ کے بعد نیشنل عوامی پارٹی (ولی) سے الگ ہوگئے تھے اور دوبارہ نہ تو انھوں نے نہ ہی ان کے فرزند محمود خان اچکزئی نے چارسدہ کے خوانین سے مل کر سیاسی پارٹی بنائی ۔ مولانا تو انگریزوں سے لڑنے کے عوض صوبہ سرحد کو افغانستان کے حوالہ کرنے کی بات کر رہے تھے مگر پاکستان بننے کے بعد غفارخان محض اپنی خاندانی سیاست کے لیے یہ مطالبہ دہراتے رہے۔ پھر مولانا نے تو اپنی رائے میں ترمیم بھی کر لی تھی جبکہ چارسدہ کے خوانین نے تادم تحریر اسی روش کو اپنایا ہوا ہے۔ مولانا سندھی ،خان عبدالغفار خان کی مخالفت کے باوجود افغان بادشاہ کو صوبہ سرحد دینے پر بھی تیار تھے مگر امان اللہ نے ”رب نیڑے یا گھسن نیڑے“ پر عمل کرتے ہوئے انگریزی مراعات پر ہی اکتفا کیا۔ افغان حکمرانوں کی الٹ بازیاں دیکھ کر بھی مولانا نے ہمت نہ ہاری اور انقلابی روس میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ 1870 کی دہائی میں دلیپ سنگھ نے بھی زار روس سے ناکام ملاقات کی تھی۔ مولانا کو خوش فہمی تھی کہ انقلابی روس، زار روس سے مختلف ہوگا مگر ثابت ہوا کہ وطنی مفادات ”نظریات “کے اسیر نہیں ہوتے ہیں۔ برٹش انڈیا کے اخباروں میں تو یہ بھی چھپتا رہا کہ مولانا سندھی لینن اور سٹالن سے ملے تھے اور سٹالن نے لوٹا پکڑ کر انہیں وضو بھی کرایا تھا۔ مگر یہ سب افسانہ تراشی تھی کہ اُردو، ہندی اخبارات خالی خولی جذباتیت ابھارنے اور افسانہ تراشی کرنے میں خصوصی مہارت رکھتے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ مولانا سندھی کی ملاقات اس وقت کے روسی وزیر خارجہ چیچرن ہی سے ہوئی تھی۔ مولانا کی انقلابی گفتگو سننے کے بعد چیچرن نے وسط ایشیا میں جاری بغاوتوں بارے انقلابی حکومت کی پریشانیوں کا ذکر چھیڑا تھا جہاں زمینوں کو انقلابی حکومت نے قومی تحویل میں لیاتو ردعمل میں بغاوتیں ہو رہی تھیں۔ مولانا نے بتایا کہ زمینوں کو قومی تحویل میں لینا عین اسلام ہے تو چیچرن نے انہیں بخارا کے وزیراعلیٰ ٹائپ کا عہدہ دینے کی پیشکش کی۔ جیسے ہمارے ہاں صوبوں میں دو کلیدی عہدے گورنر اور وزیراعلیٰ کے ہوتے ہیں ویسے ہی انقلابیوں نے بھی ہر صوبہ میں دو کلیدی عہدے بنائے تھے۔ مولانا نے اس شرط پر پیشکش کو قبول کرنے پر رضامندی دی کہ گورنر ٹائپ عہدہ کے لیے ان کی مرضی سے مقامی آبادی سے بندہ ڈھونڈا جائے۔ مگر چیچرن نے بتایا کہ انقلابی حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ گورنر ٹائپ کا عہدہ پورے روس میں صرف روسی قوم سے تعلق رکھنے والے ہی کو دیا جا سکتا ہے۔ اس پر زیرک مولانا نے معذرت کر لی کہ انہیں سوشلزم روسی قوم پرستی میں مقید نظر آ گیا۔ سوشلزم کو روسی قوم پرستی میں جکڑا چھوڑ کر مولانا ترکی چلے آئے جہاں اتاترک جدید ترکی کی بنیادیں رکھ رہا تھا۔ دیوبند، افغانستان اور انقلابی روس کے تجربات کی روشنی اور بدلتے ترکی کو دیکھ کر مولانا کے زخیز ذہن نے کمال دکھایا اور انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مستقبل کی پارٹی کا اک طویل منشور لکھا۔ یہ وہ وقت تھا جب انگریز اور فرانسیسی آسٹروہنگرین سلطنت، پرویشیائی جرمن سلطنت اور سلطنت عثمانیہ توڑ کر یورپ، افریقہ اور مشرق و سطی میں ”لیگ آف نیشن “ کے سایہ تلے من مرضی سے نئی نئی وطنی ریاستیں بنا رہے تھے کہ 1920 کی دہائی کے آخری سالوں میں خطہ عرب کو وطنی ریاستوں میں منقسم کرتے ہوئے سعودی عرب کے نام سے بھی ایک وطنی ریاست بنادی گئی۔ خطہ

¿ عرب کو منقسم کر کے سلطنت برطانیہ نے شریف مکہ حسین بن علی اور ابن سعود کے خاندانوں کو مختلف وطنی ریاستیں دے دیں مگر ہمارے ہاں کچھ گروہ شریف مکہ کے طرفدار بن گئے تو کچھ ابن سعود کے مگر سکہ سلطنت کا ہی چلتا رہا۔ ”خفیہ معاملات: سیاسی اسلام کا برطانیہ سے ٹاکرا“ کا مصنف مارک کرٹیز تو یہاں تک لکھتا ہے کہ 1915 میں شریف مکہ کو برطانیہ نے اس شرط پر اپنے ساتھ رلایا تھا کہ سلطنت عثمانیہ کو ختم کر کے اسے عالم اسلام کا خلیفہ بنا دیں گے۔ مگر جون 1919 کے معاہدہ ورسیلیز کے بعد صورتحال بدل گئی اور اب برطانیہ اور فرانس نے خطہ عرب کو منقسم کرنا تھا تو بہت سوں کی لاٹریاں نکل آئیں۔ جب مولانا حجاز پہنچے تو ابن سعود کا خاندان یہاں براجمان ہو چکا تھا۔ پراُمید مولانا سندھی حجاز چلے آئے کہ جس مشن کو لے کر وہ 1915 میں نکلے تھے اسے اس مقدس سرزمین کی مدد سے پورا کر سکیں۔

مگر جلد ہی وہ اس خوش فہمی سے بھی نکل آئے کہ انگریزوں کے حکم پر حجاز کے حکمرانوں نے مولانا سندھی کاناطقہ بند کر دیا ۔ ان پابندیوں کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ مولانا اپنے منشور کو نئے تجربات کی روشنی میں دوبارہ پرکھنے کی طرف متوجہ ہوئے۔ ہاجن شیخ نے مولانا کے حوالہ سے لکھا، ”مکہ پہنچ کر میں زندگی کو نئے انداز میں سمجھنے لگا تھا کہ ترکی میں گذرے حالات کا جائزہ لینے کے بعد میں نے اپنے پرانے پروگرام کی شکست تسلیم کرلی تھی۔“ اس غوروفکر میں انھوں نے پرانے راستے کو خیرباد کہا اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے واپسی سے قبل نئی پارٹی کا پروگرام رقم کیا۔ مارچ 1939 میں وہ اپنے وطن واپس لوٹے تو ان کے خیالات وافکار میں جدت کا رنگ نمایاں تھا۔ انہیں احساس ہوچکا تھا کہ ان کے انقلابی نظریات کے لیے حجاز کی سرزمین مناسب نہیں اس لیے وہ وطن واپس آنا دچاہتے تھے مگر یہاں نوآبادیاتی نظام موجود تھا۔ مولانا دلیب سنگھ کی طرح وطن سے باہر مرنے کی بجائے ہم وطنوں کے ساتھ اپنے خیالات کو سانجھا کرنے کو اہم گردانتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے برٹش گورنمنٹ کی سخت پابندیوں کو قیولتے ہوئے وطن واپسی کا سمجھوتہ کر لیا۔ مولانا کی وطن واپسی کی مہم کو غلام رسول مہر اور سر عبداللہ ہارون نے شروع کیا تھا مگر بعد ازاں سندھ کے وزراءاعلیٰ خدا بخش سومرو اور غلام حسین ہدائیت اللہ کی کوششیں رنگ لائیں اور کانگرس نے بھی ساتھ دیا تو سندھ حکومت کی ضمانت پر مولاناکی واپسی ممکن ہوئی۔ مولانا نے اپنی واپسی سے قبل جو انقلابی پروگرام ترتیب دیا وہ 1924 کے طویل منشور کے مقابلہ میں نہ صرف مختصر تھا بلکہ اس میں کراچی، دلی اور لاہور کے تین مرکز بناتے ہوئے 1924 کے منشور کی متنازعہ باتوں سے مراجعت بھی موجود تھی۔ البتہ بنگال اور دکن کی ”غیر حاضری“ دونوں منشوروں میں موجود رہی جو تاحال اک سوالیہ نشان ہے۔ مولانا اور ان کے شارحین اس گھاٹے کی طرف توجہ نہ دے سکے کہ شاہد مستقبل کے مورخ و محققین اس حوالہ سے بات آگے بڑھائیں گے۔ 1924 کے منشور میں بلوچستان اور صوبہ سرحد کی ثقافتی و قومیتی رنگارنگی کا ذکر غائب تھا کہ بلوچستان کے پختونوں، براہویوں، اور سرحد کے گوجری، سرائیکی، ہند کو لہجوں میں پنجابی بولنے والوں کا ذکر 1924 کے پروگرام میں شامل نہ تھا۔ شاہد اسی وجہ سے مولانا نے اپنی واپسی سے قبل نیا پروگرام لکھا تو ان تفصیلات سے گریز بھی برتااور متنازعہ باتیں ازخود نکال باہر کیں۔ صوبہ سرحد کو افغانستان کی حکومت کو بخش دینے کی تجویز سے تو وہ 1924 ہی میں مراجعت کر چکے تھے کہ اب وہ برٹش انڈیا ہی میں پختونوں کا بھی عزت دار مستقبل دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ 27 فروری 1939 کو مولانا بحری جہاز میں بیٹھ چکے تھے اور7 مارچ کو کراچی کے ساحل پر اُترے۔ سندھ میں جلسے کرنے کے بعد مولانا لاہور آگئے۔ 22 مارچ 1939 کو مولانا لاہور پہنچے تو لاہور ریلوے سٹیشن پر احرار، کانگرس اور مسلم لیگ کے کارکن مولانا کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ 28 مارچ 1931 کو مولانا اپنے پرانے مکتب دارالعلوم دیو بند پہنچے۔ ان کی آمد کی خبریں تو بحری جہاز میں بیٹھنے سے قبل ہی پھیل چکی تھیں۔ 7 مارچ سے اخبارت میں ان کے جلسوں کی خبریں بھی چھپ رہی تھیں۔ کراچی اور لاہور کے بعد وہ براستہ جلندھر دارلعلوم دیوبند کی طرف بڑھ رہے تھے۔ مگر کمال حیرت کہ دیو بند کے منتظمین کو ان کے آنے کی خبر ہی نہ تھی؟ یا پھر وہ مولانا کی آمد کے بعد تذبذب کا شکار تھے؟ بقول ہاجن شیخ، جب نماز کے وقت نمازیوں نے مولانا سندھی کو دیوبند کی مسجد میں اپنے درمیان پایا تو وہ خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگئے۔ یہ خبر تیزی سے پھیلی اور دیوبند کے طلباءجوق در جوق اس انقلابی کی زیارت کو آنے لگے کہ اس انقلاب زمانہ کو دیکھ کر دیوبند کے ارباب اختیار بھی مولانا کے لیے خصوصی جلسہ کا انتظام کرنے پر مجبور ہوئے۔ وہ 24 سال دیار غیر میں رہے تھے کہ ان گذرے برسوں میں خود دیوبند کی سیاست میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوچکی تھیں۔ پھر جو کچھ مولانا اپنی واپسی کے بعد لاہور، کراچی میں کہہ چکے تھے اس بارے انہیں بھی خبر ہوچکی ہوگی۔ یوں لگتا ہے کہ کچھ لوگوں کو برٹش انڈیا سے باہر رہنے والے مولانا سندھی ”وارا“ کھاتے تھے مگر مولانا تو ایسے کسی دبائو کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے اور بغیر لگی لپٹی اپنی بات کہنے میں یقین رکھتے تھے۔ 5اپریل کو مولانا دلی پہنچے اور یہاں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں جلد مہاتما گاندھی سے ملوں گا اور انہیں کہوں گا وہ کانگرس سے فالتوں یا بھرتی کے مال والے حضرات کو نکال باہر کریں۔ وہ کون سے گھس بیٹھئے تھے جنھوں نے کانگرس کے چہرہ کو داغدار کیا ہوا تھا؟ اس بارے مولانا کے اکثر شارحین بوجوہ خاموش رہنے میں مصلحت سمجھتے ہیں۔ جون 1939 کو کلکتہ میں بنگال کے علماءسے خطاب کرتے ہوئے بھی مولانا نے کانگرس کو ان نیم مذہبی اور نیم سیاسی لیڈر وں سے پاک کرنے کا مشورہ دیا اور سیاسی بصیرت پر مبنی یہ بیان دیا کہ اگر کانگرس کے لیڈروں نے ان کے مشورے پر عمل نہ کیا تو برصغیر کے مسلمان کانگرس کا سے مزید دور ہوتے جائیں گے۔ 12 جولائی 1940 کوسکھر میں مقامی کانگرس کے اکٹھ سے خطاب کے دوران مولانا نے یہ شعر پڑھا

ذات پات پوچھے نہ کو
ہر کو بھیجے سو ہر کا ہو

اپنے اس خطاب میں انھوں نے سکھر میں ہونے والے ہندو مسلم جھگڑوں (مسجد منزل گاہ تنازعہ) کی مخالفت کی اور مہاتما گاندھی کے اس بیان پر تنقید کی جس میں انھوں نے سندھ کے ہندوو

¿ں کو سندھ چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا۔ اپنے اسی خطاب میں مولانا نے تجویز دی کہ ہمیں دوسری جنگ عظیم میں انگریزوں کی مدد اس شرط پر کرنی چاہیے کہ جنگ کے بعد انگریز سرکار ہمیں جنگی ٹیکنالوجی اور ملٹری سائنس سے متعلق معلومات دیں گے۔ 10 دسمبر 1939 کو مولانا نے سندھ میں موجود اپنے پرانے مکتب ”دارالرشاد“ میں اپنی پارٹی کا سنگ بنیاد رکھا اور پارٹی کا نام جمنا، نربدا، سندھ ساگر پارٹی رکھا گیا۔ یہیں انھوں نے بیت الحکمت کی بنیاد بھی رکھی جس کی شاخیں کراچی، پیر جھنڈا اور لاہور میں کھولنی تھیں۔ یہاں یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ مولانا نے اپنی پارٹی کی بنیاد دارالعلوم دیوبند میں کیوں نہ رکھی؟ مارچ 1944 کو مولانا نے لاہور میں محمد قاسم ولی اللہ سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور اپنے خطاب میں کہا، میں پین اسلام ازم سے کنارہ کش ہوتے ہوئے انڈین نیشنلسٹ بن گیا ہوں اور انڈین قوم پرستی کا بڑا وکیل بھی۔ اسی وجہ سے انڈین مسلمانوں کی لاتعداد پارٹیوں کی اندرونی لڑائیوں سے بچا رہا۔ ۔۔۔جب میرے ساتھیوں کو میرے بدلے خیالات سے آگاہی ہوئی تو وہ میرے بدترین دشمن بن گئے ۔ واپسی پر مولانا نے بڑی حکمت سے خود کو احرار، خاکسار، جمعیت علما ہند ، مسلم لیگ اور کانگرسی مسلمانوں کی اندرانی کشمکش سے الگ رکھا۔

سپرنگ بورڈ افغانستان، انقلابی روس ، جدت پسندت و قوم پرست ترکی اور مقدس حجاز کی سیاستوں کو نزدیک سے دیکھنے کے بعد وہ ”غیروں“ پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنی عوام میں کام کرنے کے قائل ہو چکے تھے۔ صوفیا کی طرح وہ مذہبی، مسلکی، لسانی، قومیتی و ثقافتی شناختوں کے احترام کے قائل تھے اور اپنی سیاست کو ”وحدات الوجود“ سے جوڑتے تھے۔ گاندھی کی سیاست کے وہ برملا مخالف تھے اور کانگرس، مسلم لیگ، یونیسٹ پارٹی اور احرار میں کسی ایک کا طرفدار بننے کی بجائے اپنے پیش کردہ پروگرام پر ساروں سے مل کر کم از کم تصفیہہ کرنے پر مائل تھے۔ البتہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ کانگرس کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے مگر ایسا نہ ہوا۔ اب انگریز دشمنی ان کی سیاست کا اولین ہدف نہیں بلکہ سماجی انفرادی و ثقافتی حقوق پر مبنی سیاست ان کی پہلی ترجیح تھی۔ بقول ہاجن شیخ مولانا نے اپنے بدل چکے خیالات کے حوالہ سے یہ بھی لکھا کہ یورپ کے دورہ کی وجہ سے میں شاہ ولی اللہ کی تحریروں کے چند اہم پہلوو

¿ں سے روشناس ہوا جسے سماجی معاشی اور سماجی سیاسی پہلو کہنا چاہیے ۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ڈومبنین رتبہ حاصل کرنے کے بعد ہمیں دولت مشترکہ کا ممبر بننا چاہیے۔ تلاطم خیز سیاست کے اس دور میں ان کی بات کو نہ تو ”اپنے“ سمجھنے کو تیار تھے نہ ہی غیر مگر وہ ”نچ کے یار منانے “میں مست رہے۔ 1944 میں مولانا فوت ہوگئے کہ اگر وہ کابینہ مشن تجاویز (1946) کے وقت زندہ ہوتے تو مولانا آزاد کے برعکس وہ یقینا قائداعظم کے ہم رکاب بن جاتے۔ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد 1930، مولانا سندھی کے 1939 کے پارٹی پروگرام، 1940 کی قرارداد لاہور، 1942 کی میاں افتخار الدین کی بطور صدر پنجاب کانگرس مسلم اکثریتی علاقوں کی خودمختاری کو تسلیم کرنے کی جرا

¿ت مندانہ تجویز، کمیونسٹ پارٹی کی پہلی کانگرس کا 1943 میں منظور کردہ قومیتی حقوق اور قومیتی خودمختاری کو تسلیم کرنے والا ادھیکاری تھیسس، 1944 کا مسلم اکثریتوں کو تسلیم کرنے والا راج گوپال اچاریہ فارمولا اور مولانا آزاد کا اے بی سی پلان ،کمزور مرکز، مضبوط صوبوں اور مذہبی، قومیتی، ثقافتی رنگارنگی کو تسلیم کرنے کے اردگرد ترتیب دیے گئے افکار کا اک تسلسل تھا۔ اسی تسلسل میں کابینہ منصوبہ 1946 کے انتخابات کے بعد آیا تو اس میں بھی کمزور مرکز اور مضبوط خطوں کی تجویز موجود تھی۔ کابینہ مشن میں رنگارنگی کو تسلیم کرنے کی بات تو نہ تھی مگر کمزور مرکز کی تجویز ضرور تھی۔ مگر اس موقعہ پر مولانا آزاد کو کانگرس کی صدارت سے چلتا کرکے مہاتما گاندھی نے نہرو کو آگے کر دیا اور نہرو نے برصغیر کو متحد رکھنے کی آخری کوشش میں رخنہ ڈال دیا۔جسونت سنگھ نے البتہ اصل راز اگل ڈالا اور اپنی کتاب میں اس ”رخنہ“ کی وجہ ٹاٹا، برلا کے مفادات کو قرار دیا جو کمزور مرکز والے انڈیا کو سرمایہ کاری کے لیے موزوں نہیں سمجھتے تھے۔ مولانا آزاد نے اپنی کتاب میں نہرو کی کابینہ مشن تجاویز کے خلاف کی جانے والی پریس کانفرنس کو بجاطور پر ”ہمالیائی غلطی“ لکھا مگر خود اس اہم تاریخی موڑ پر سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے جس جرأت رندانہ کی ضرورت تھی وہ تو مولانا سندھی ہی میں تھی۔ مولانا سندھی نے تو بروقت غیروں پر تکیہ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا کہ اس پر عمل کیا ہوتا تو مذہبی ذہن بیرونی طاقتوں اور وطنی اشرافیہ کی پھیلائی جنگوں کا ایندھن نہ بنتا۔ مولانا نے تو سماجی و انفرادی حقوق اور شناختوں کے احترام سے سیاست کو جوڑا تھا مگر مذہبی جماعتوں نے محض اقتدار میں حصّٰہ دار بننے کی لڑائی لڑی تو آج ان کا حشر سب کے سامنے ہے۔

شاعر مشرق علامہ اقبال کی رحلت (1938 ) اور وزیر اعظم پنجاب سر سکندر حیات کی وفات پر لکھے مولانا کے تعزیتی خطوط گواہ ہیں کہ وہ سیاست کو ”پرانی عینک“ سے نہیں دیکھتے تھے۔ مولانا کا اعجاز ہی یہ ہے کہ وہ ”رٹے رٹائے“ تاریخی تسلسلوں، بنے بنائے انقلابی فارمولوں، طاقت کی سیاست، اقتدار کی غلام گردشوں میں اٹھنے والے طوفانوں اور خارجہ پالیسیوں کی تحت دی جانے والی امداد سے ہٹ کر نئے سیاسی راستے ڈھونڈنے کی طرف مائل ہوئے کہ وہ ”مایوسی کفر ہے“ کی زندہ تفسیر تھے۔ غلطیوں سے سیکھنا اور نئے رستے بنانا ہی ان کی جدوجہد کا اوّل و آخر نصب العین رہا۔ اقبال کی طرح مولانا بھی اک ”شرمندہ مسلمان “ نہیں تھے بلکہ ان کا یقین تھا کہ مسلمانوں نے غیروں کی سازشوں اور اپنی حماقتوں یا موقعہ پرستیوں کی وجہ سے اسلام کے اس مشن کو پیچھے چھوڑ دیا جو وحدت انسانیت سے عبارت ہے۔ وہ مذہبی، مسلکی، لسانی، جغرافیائی، قومیتی و ثقافتی شناختوں کا احترام کرنے کی بجائے ان میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔یہی نہیں بلکہ اقبال کی طرح مولانا بھی یہ سمجھتے تھے کہ اگر برصغیر کی سر زمین پر رہنے والے مسلمان کل انسانیت کی فلاح پر مبنی اسلام کے آفاقی پیغام کو عددی برتری کے باوجود جنوبی ایشیا کے غیر مسلموں کو سمجھا پائیں گے تو دنیا بھی اسلام کے اصل پیغام سے آشنا ہوگی۔ مگر اس کے لیے وہ مختلف شناختوں کے احترام کو اولین قدم گردانتے تھے۔ خطبہ الٰہ آباد میں بھی اقبال بالعموم جنوبی ایشیائی لوگوں سے اور بالخصوص جنوبی ایشیائی مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے یہی بات کہہ رہے تھے۔ اقبال نے خطبہ الہٰ آباد میں جب ”عرب سامراجیت “ کی اصطلاح استعمال کی تو ان کا اشارہ اسی طرف تھا کہ برصغیر کے مسلمان اگر حقیقی اسلام کی مثال پیش کر دیں تو عرب سامراجیت سے بھی جان چھٹ جائے گی۔ ویطلف خالد کے بقول مولانا سندھی سمجھتے تھے کہ عربی اسلام کی مدح و ستائش نے برصغیر کے مسلمانوں میں غلامانہ ذہنیت پیدا کر دی ہے۔ ایک اجنبی قوم کے ماضی سے ہند، سندھ کے مسلمانوں کی والہانہ وابستگی اتنی زیادہ ہے کہ خود انہوں نے اپنی تاریخ کے زریں واقعات کو نظر انداز کرکے دیگر مسلم ممالک کا احترام کھودیا ہے۔ خود ہند۔ پنجاب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہاں بھی تورانیوں، ایرانیوں اور پھر انگریزوں کے زیرنگیں رہنے سے رعیت کا عجب تصور ”پناہ گزین“ ہو چکا تھا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس حاکمیت کے خلاف مسلسل مزاحمت بھی ہر دور میں ہوتی رہی۔ اس مزاحمت کی تاریخ ابھی تک نہیں لکھی گئی۔ اقبال کا اسرار تھا کہ برصغیر یعنی برٹش انڈیا کو ایک قوم سمجھنے کی بجائے اگر یورپ کی طرح قوموں کا وفاق بنا کر بطور مثالی حکومت پیش کیا جائے تو ایشیاکے ممالک کو اس کی تقلید کی دعوت دی جاسکتی ہے۔ مگر اس کے لیے برٹش انڈیا میں رہنے والوں کو مذہبی، لسانی، مسلکی، قومیتی، ثقافتی و معاشی سطح پر تصفیہہ کرنا ہوگا۔ اقبال و سندھی شرمندہ مسلمان نہیں تھے اور اپنے خطہ کو دنیا کے روبرو رواداری پر مبنی انسانی، معاشی و ثقافتی حقوق کا ایسا مثالی نمونہ بنا کر پیش کرنا چاہتے تھے جو کل انسانیت کا ماتھے کا جھومر ہو۔ یہی نہیں بلکہ مولانا مسلمانوں سے کہتے تھے کہ فقہ (اسلامی قوانین )جسم کی مانند ہے مگر تصوف روح کی مانند ہے۔ مگر ہمارے ہاں ایسے مذہبی علماءکی کمی نہیں جو دونوں میں تکرار کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ انہیں معلوم تھا کہ کہ اب زندگی کے دن پورے ہونے والے ہیں اس لیے اپنی واپسی کے بعد انھوں نے ایک دن کہا کہ جب میں خدا کےحضور پہنچوں گا تو رب سے برٹش قبضہ کے خاتمہ کی درخواست کروں گا۔ مجھے امید ہے کہ برٹش قبضہ جلد ختم ہوجائے گا۔ 14 اگست 1947 کو نہ تو ہمارے درمیان اقبال رہے اور نہ ہی مولانا سندھی موجود تھے کہ جو تجزیہ وہ کر گئے تھے اُسے یا تو نظر انداز کر دیا گیا یا پھر اُس میں من مرضیوں سے ترامیم کر کے اُس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔
ہر دم سیکھنے، اپنے خیالات میں ازخودترامیم کرنے اور اپنے تجزیہ اور نتائج بارے کھل کر بات کرنے والے مولانا سندھی تادم مرگ اک طالب علم کی طرح زندگی گذارتے رہے۔ مولانا سندھی کو یہ تفاخر نہیں تھا کہ وہ سچ کے واحد ٹھیکہ دار ہیں۔ اک جگہ وہ خود لکھتے ہیں، ”وطن واپسی پر میں نے اپنا مدعا سب کے سامنے رکھا ۔ اگر کوئی میرے وضاحت کو قبول نہ کرتا تو میں اس سے سختی سے پیش آتا۔ گذشتہ 5 برس سے میں اپنی دھرتی کا فیض پا رہا ہوں ، بہت کم لوگ ہیں جنھیں میری باتوں کی سمجھ آئی ہے۔
گذشتہ 36 برسوں سے ہمارا خطہ جن مسلکی و قومیتی لڑائیوں کا شکار ہے اس سے بچنے کا راستہ مسلکی، لسانی، ثقافتی و مذہبی رنگا رنگی کو تسلیم کرنے سے ہی گذرتا ہے۔ مولانا اور ان کے ہمعصروں نے جو تحریریں لکھیں وہ آج بھی سبق آموز ہیں۔ مگر شرط وہی ہے کہ ہمیں صوفیا اور مولانا سندھی کی طرح منقولاتی (نقل کرنے والے) طریقہ کار کوتج کر معقولاتی (Rational) طریقہ کار کے تحت ان تحریروں کو دوبارہ پڑھنا ہو گا۔ اپنے کام اور جرأت رندانہ کی وجہ سے مولانا کی تحریریں تادیر ہمیں دعوت فکر دیتی رہیں گی۔

            مولانا سندھی کے 143ویں یوم پیدائش پر لکھی گئی خصوصی تحریر
 Link of the article published in humshehri is 


Barah Mah & story of Punjabi magazines in Pakistan (A radio prog)

  Barah Mah & story of Punjabi magazines in Pakistan (A radio prog) The struggle for the Punjabi language, its literature, folk & m...