Friday, February 21, 2014

Mother tongue, multi-culturalism and language Politics




Mother tongue, multi-culturalism and language Politics

The concept of Sole national language is the basic hurdle in understanding diversity of a nation state. Nation States failed to recognize it under totalitarianism yet UN human right charter resolved this issue in 1948. In 2008, after continuous struggle finally, UN accepted mother tongue as a basic human right and from that day we are celebrating 21st day of feb as International Mother Tongue day. In this interdependent, global and digital world what we can do regarding it ? i tried to explore this question
Extracts of article Published in dawn blog are given below. U can read full article @


مادری زبانوں کا احترام، لسانی سیاست اور ملٹی 

کلچرل ازم

21 فروری مادری زبانوں کو یاد کرنے کا عالمی دن ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مادر (Mother) یعنی دھرتی پر جس زبان کو لوگ آپسی تعلقات میں استعمال کرتے ہیں اس کے احترام کا مطلب عوام کو مقدم جاننا ہے۔
جو عوام کو جاہل، گنوار سمجھتے ہیں وہ عوام میں بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں کو بھی گھٹیا، بے کار اور غیر تہذیب یافتہ قرار دیتے ہیں۔
---------------
بادشاہتوں کے زمانہ میں دربار میں یا رابطے کے لیے کسی ایک زبان کا انتخاب ضرور ہوتا تھا مگر اسے "قومی زبان" نہیں کہا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں کئی صدیوں 'فارسی' راج دربار کی زبان رہی اور اس کو سیکھنے والوں میں ہندو، مسلمان، سکھ سبھی پیش پیش تھے۔
-----------------------
 ہندو اکثریت والے علاقوں کے لیے ہندی اور مسلم اکثریت کے علاقوں کے لیے اُردو جبکہ پنجاب میں سکھوں کے لیے گورمکھی رسم الخط میں پنجابی زبان لگانا اس کی مثالیں ہیں۔ یہی وہ دور ہے جب وطن پرستی کو مقام خاص حاصل ہوا کہ جس کے بطن سے یک قومی زبان یعنی Sole National Language کے فتور نے جنم لیا۔
-------------
اس دن کے لیے 21 فروری کا انتخاب اس لیے بھی موزوں قرار پایا کیونکہ ایک بنگالی رفیق السلام نے اس کے لیے انتھک کوششیں کی تھیں۔ یہ وہی دن ہے جب 1952 کے سال خواجہ ناظم الدین سرکار نے متحدہ پاکستان کے صوبہ مشرقی بنگال میں بنگالی زبان کا حق ماننے والوں پر گولی چلوائی تھی۔ اس زمانے میں پاکستانی ریاست کے کرتا دھرتا "واحد قومی زبان" کو وطنی قوم پرستی کے لیے ضروری گرداننے کے لیے اسی زغم میں مبتلا تھے جسے یورپ والے بھی خیرآباد کہتے جارہے تھے۔
بنگلہ دیش میں اس دن کی مناسبت سے شہید مینار بھی بنایا گیا ہے مگر خود بنگلہ دیش کے بانی اور وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش بنانے کے بعد "واحد قومی زبان" کے ہی راستہ کو اپنایا اور بنگلہ دیش میں موجود دیگر زبانوں بشمول چٹاکانگ کے پہاڑی علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں کو بنگلہ دیشی قوم پرستی سے نکال باہر کیا۔
-------
ہندوستان میں بذریعہ ہندی، پاکستان میں بذریعہ اُردو اور بنگلہ دیش میں بذریعہ بنگالی مرکزیت پسندی کو بڑھاوا دینے کی جن پالیسیوں کو اپنایا گیا ان کے نتیجہ میں خود یہ زبانیں بھی متنازعہ ٹھہریں۔
--------------
مادری زبانوں، رابطے کی زبان اور انگریزی میں تکرار نے ہمیں تعصب اور تفاخر کی کھائیوں میں گرایا ہوا ہے۔ اب تو انگریزی محض اشرافیہ کی زبان بھی نہیں رہی۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتحال سے کیونکر نکلا جائے؟
جب دباؤ بڑھتا ہے تو مادری زبانوں سے وابستہ لہجوں اور رسم الخطوں کی لڑائی کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ انگریزی زبان طاقت کے ساتھ ساتھ علم سے بھی جڑی ہے اس لیے ہر کوئی انگریزی ہی پڑھنا چاہتا ہے۔

No comments:

Post a Comment

ڈان ڈاٹ کام وچ چھپیاں اردو لکھتاں

  ایس لنک تے کلک کرو کلک کرو تے پڑھو