Monday, March 23, 2015

23 March: Timing and Vision plays more important role then chew mere Principals.


23 March

 Timing and vision plays more important role then chew mere Principals.


If one has larger vision and can wait for appropriate timing and one has ability not only to learn from past experience but also to strike when iron is hot than he can play his role potently. Otherwise the leader not only creates hopelessness among workers but also push the movement in footnotes rather than text.  The lesson Jinnah learned from defeat of 1937 elections enable him to revisit his over emphasis on Muslim minority provinces and during 1938 he got support from the Punjab and Bengal and then waited for the appropriate time. At 23rd March 1940 he had inroads via Jinnah Sikander Pact in the Punjab while A K Fazle Haq had joined Muslim Language. It was turning point for ML. Read and learn


سیاست میں اصولوں سے زیادہ اہم بات سیاسی بصیرت ہوتی ہے اور سیاسی بصیرتوں سے اہم بروقت فیصلہ کہ اگر ترتیب غلط ہوجائے تو بڑی بڑی سیاسی تحریکیں بھی محض کتابوں کے فٹ نوٹ میں جگہ پاتی ہیں اور ان کے رہنما سبق آموز کہانیوں کے ایسے کرداروں کا روپ دھار لیتے ہیں جنھیں قابل تقلید مثال نہیں سمجھا جاتا۔

23 مارچ 1940 کا دن ایک سیاسی تسلسل کا حصّٰہ تھا کہ 13 اپریل 1919 سے 23 مارچ 1940 تک پھیلے 21 سالہ سیاسی مدوجذر پر جس کسی کی بھی پر نظر تھی اس کے لیے یہ دن اچھنبے کی بات نہیں تھا۔امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں جس طرح دن دہاڑے میلہ منانے آئے پنجابیوں کو انگریز افسر نے بھون ڈالا تھا اس کے ردعمل میں ایسا طوفان آیا جس نے تھمنے کا نام ہی نہ لیا۔ عوامی ردعمل کے ہاتھوں روایتی کلب سیاست کا خاتمہ ہوا۔ مہاتما گاندھی نے تو 5 دن بعد اپنے اخبار ’’ہریجن‘‘ میں مضمون کے ذریعے جلیانوالہ باغ کے واقعہ میں مرنے والوں کو ’’شہید‘‘ ماننے سے انکار کر دیا مگر موچی دروازہ میں میاں فصل حسین کی صدارت میں ہونے والے جلسہ میں علامہ اقبال نے امریکی صدر وڈروولسن کے 14شہرہ آفاق نکات کا حوالہ دے دیا جو چند ماہ پہلے 1918 میں رقم ہوئے تھے۔

1937 کے انتخابات کے نتائج میں سیاسی بصیرت رکھنے والوں کے لیے واضح اشارے موجود تھے۔ مگر آل انڈیا کانگرس اور اس کے ہمنوا جعلی تفاخر میں غلطاں رہے۔ کل گیارہ صوبوں میں ہونے والے ان انتخابات میںکل 1585 سیٹوں پر معرکہ ہوا۔ کانگرس نے 707 سیٹیں جیتیں جو 50 فی صد سے بھی کم تھیں۔ مگر ہوشیار کانگرس نے تاثریہ دیا کہ پورا برصغیر ان کے پیچھے ہے۔ کانگرس کے حمایتی دانشور تو آج بھی جب تجزیہ کرتے ہیں تو صوبائی نشستوں کی بجائے صوبوں کی گنتی کرتے ہیں اور برملا لکھتے ہیں کہ کانگرس گیارہ میں سے 7صوبوں میں جیت گئی تھی۔ جبکہ انتخابی نتائج پر نظر ڈالیں تو آسام میں 108 میں سے 33 ، صوبہ سرحد میں خدائی خدمت گاروں کی مدد کے باوجود 50 میں سے 19، سندھ میں 60 میں سے 7، بنگال میں 250 میں سے 54 اور پنجاب میں 175 میں سے کانگرس کو محض 18 سیٹیں ملیں تھیں۔
مسلم لیگ اور کانگرس کے علاوہ گیارہ صوبوں میں 397 نشستیں دیگر پارٹیوں نے جیتیں تھیں جبکہ آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والوں کی تعداد 385 تھی۔ 50 فی صد سے بھی زیادہ نشستوں پر وہ لوگ جیتے تھے جونہ مسلم لیگی تھے نہ کانگرسی۔ خود کو برصغیر کی عوام کی واحد نمائندہ جماعت سمجھنے والی کانگرس نے ان انتخابی نتائج سے سبق نہ سیکھا۔ حد تو یہ ہے کہ سیکولر، ترقی پسندو قوم پرست دانشور تاحال ’’بغض مسلم لیگ‘‘ میں 1937 کے انتخابی نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے حقائق کو مدنظر نہیں رکھتے۔ صوبہ سرحد کی مثال بھی دلچسپ تھی کہ یہاں تقریباآدھے اْمیدوار آزاد حیثیت میں جیتے تھے جن کی تعداد 24 تھی۔

For easy reading click here

http://www.express.pk/story/339994/

No comments:

Post a Comment

May Day 2024, Bounded Labor & new ways of the struggle

  May  Day 2024  Bounded Labor & new ways of the struggle  In the South Asia, thanks to Brahminical legacy dipped in colonialism sociali...