Tuesday, May 26, 2015

Politics of direct & indirect taxes: Budget 2015-16

Politics of direct & indirect taxes
Perception is far misleading than reality
Budget 2015-16

There is a misleading perception in Pakistan and according to this large numbers of Pakistanis are not giving taxes. In reality if we able to map FBR figures regarding tax collection of 2014-15 we will be astonish to know that more than 60% tax collection is from indirect sources. Only 9, 000, 00 people are in the direct tax network yet more than 14, 000, 0000 Pakistanis are paying taxes under indirect taxation. read and unlearn



تازہ بجٹ (2015-16) کی مقدس دستاویزات کابینہ میں منظوری کے مراحل سے گذر کر جلد میڈیا کی زینت بننے کو تیار ہیں۔ عالمی بنک سے حاصل کردہ قرضوں کی قسط کی وصولی کو ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بیوروکریٹ اور ٹیکنو کریٹ حضرات سیاسی و معاشی مسائل کو تکنیکی بنیادوں پر حل کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ حالیہ فیصلہ کے مطابق یکم جولائی سے ہر شناختی کارڈ کے نمبر کو قومی ٹیکس نمبر یعنی این ٹی این قرار دے دیا جائے گا۔ یوں راتوں رات ٹیکس نیٹ کاغذوں میں 9 لاکھ سے بڑھ کر قریباً دس، 12 کروڑ جاپہنچے گا۔ ایسی ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کو ’’سٹیس کوء‘‘ بھی کہتے ہیں یعنی نہ سانپ مرے، نہ لاٹھی ٹوٹے مگر ’’کھڑاک‘‘ بہت پیدا ہو۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ٹیکس والے جب کسی کے پیچھے پڑجائیں تو پھر اس کی سات نسلیں بھی رشویتں دے دے کر سال ٹپاتی ہیں وہاں ٹیکس نیٹ بڑھانے کے اس فیصلہ کا سیاسی خمیازہ یہی سرکار بھگتے گی۔ بنیادی سوال تو یہ ہے کہ کیا پاکستانیوں کی کثیر تعداد واقعی ٹیکس نہیں دیتی؟ یہ وہ گمراہ کن تاثر ہے جسے بڑھانے میں آزاد میڈیا بھی پیش پیش ہے اور کالم نویسوں نے بھی اس حوالے سے بہت سے صفحے کالے کیے ہیں۔ اس وقت 9لاکھ لوگ براہ راست تھوڑا یا مناسب ’’براہ راست‘‘ ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ 14 کروڑ سے زائد لوگ بالواسطہ ٹیکسوں کی عفریت کا شکار ہیں۔ اندھیرے میں تیر چلانے کی بجائے بیوروکریٹوں اور ٹیکنو کریٹوں کی تجاویز چھوڑ کر اگر حکومت چھوٹے دکانداروں، کاروباری حضرات، کسانوں اور زمینداروں کے ساتھ بیٹھ جائے تو اس مسئلہ کا حل نکلنا چنداں مشکل نہیں۔ مگر اس سے پہلے سرکار کو اس بنیادی مفروضہ کو رد کرنا ہوگا جس کے مطابق عام پاکستانیوں کو یہ غلط بات سمجھائی جاتی ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ چند دہائیوں سے ہماری سیاست میں ٹیکس، ٹیکس کا شور برپا ہے۔ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ جو پاکستانی ٹیکس نہیں دیتا وہ چور ہے۔ چینلوں پر دن رات ایسے پروگرام نشر ہوتے ہیں جن میں ٹیکس چوری بارے پروگرام کو چلانے والے اپنے ہی میڈیا گروپ کے مالکان کے ٹیکس کا تو کوئی حوالہ نہیں دے سکتے مگر سیاستدانوں کو اس ضمن میں نشانہ خاص بنایا جاتا ہے۔ آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ آخر میں ٹیکس چوروں کی حمائیت کیوں کر رہا ہوں؟ مگر معاملہ یہ نہیں بلکہ یہ تحریر اس تاثر کے خلاف ہے جسے پچھلے چند سالوں سے جان بوجھ کر پھیلایا جارہا ہے۔ اس تاثر سے کیا مقاصد پورے ہورہے ہیں؟ اور کون اس کے پیچھے ہے اس بارے آپ کو خود بخود اندازہ ہوجائے گا۔ اس تاثر کو پھیلانے میں اخبارات اور چینلوں کا ہاتھ بھی ہے اور یہ بات افسران اعلیٰ اور سرکار کے ساتھ کاروبار کرنے والے ٹھیکہ داروں کو بھی من بھاتی ہے۔ یہ بات تو چینلوں پر بڑے بڑے اینکر ڈھٹائی سے کہتے رہتے ہیں کہ اس ملک میں محض چند لاکھ لوگ ہی ٹیکس دیتے ہیں۔ اس طرح کی خبروں سے صاف لگتا کہ یہ چند لاکھ پاکستانی ہی ’’معتبر اور عزت دار‘‘ ہیں۔ 20 کڑوڑ کے ملک میں اگر نو لاکھ لوگ ہی ٹیکس دیتے ہیں تو ایف بی آر ٹیکسوں میں 225 ارب روپے ہر سال کیسے اکٹھے کرتا ہے ؟ کیا اتنی کثیر رقم محض چند لاکھ لوگ دے رہے ہیں؟ کیا اس سے بڑا جھوٹ بھی کچھ ہوسکتا ہے؟ حکومت ہر سال اپنے بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے یہ اقرار کرتی ہے کہ پچھلے سال ٹیکسوں سے کتنی رقم وصول ہوئی۔ اس طرح کے دعوے کرنے والے اگر ایف بی آر کے اعدادشمار ہی دیکھ لیں تو انہیں اپنے دعوؤں کی سچائی بارے خود بخود معلوم ہو جائے گا۔ اگر آپ کو اصل حقائق معلوم کرنے ہیں تو سب سے پہلے ٹیکسوں سے وصول ہونے والی رقم کو الگ الگ کر کے دیکھیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی صاف صاف نظر آنے لگے۔ ٹیکسوں سے حاصل کردہ رقم کا ایک حصّہ تو ان سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے آتا ہے جن کا ٹیکس تنخواہ دینے سے پہلے حکومت خود ہی کاٹ لیتی ہے۔ جتنی تنخواہ زیادہ ہوتی ہے اسی حساب سے ٹیکس بھی زیادہ ہوتا ہے۔ سرکار سے لمبی چوڑی تنخواہیں وصول کرنے والے ٹیکس تو مجبوراً کٹواتے ہیں مگر بعدازں ’’گھپ‘‘ بھی بہت ڈالتے ہیں۔ دوسری طرف وہ ادارے یا ٹھیکے دار ہیں جو سرکار سے لمبے چوڑے کاروبار کرتے ہیں۔ ان کے بلوں پر بھی ادائیگی کے وقت حکومت خود بخود ٹیکس کاٹ لیتی ہے۔ بادل ناخواستہ ان ٹھیکہ داروں کو بھی ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ بس ٹیکس دینے کے بعد یہ بھی’’ گھپ ‘‘ڈالنے والے گروہ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ مجبوراً ٹیکس دینے والوں کی دواقسام ہیں۔ جونہی آپ کو ان دونوں بارے معلوم ہوگا تو آپ بھی وہی کہیں گے جو میں کہہ رہا ہوں۔ ٹیکس دینے والوں کی ایک قسم تو وہ ہے جو لمبی چوڑی رقم لینے کے بعد آٹے میں نمک سے بھی کم ٹیکس دیتے ہیں اور دوسرے وہ جو سرکار سے ایک روپیہ بھی نہیں لیتے مگر ہر سال اپنی آمدنی کی کثیر رقم ٹیکسوں میں دے ڈالتے ہیں۔ موٹی تنخواہیں لینے والے سرکاری ملازمین، سرکار سے لمبا چوڑا کاروبار کرنے والے اور اس قماشکے دیگر نجی گروہوں یا کمپنیوں کا تعلق ان میں ہوتا ہے جو ٹیکس تو دیتے ہیں مگر اس کے عوض لمبی چوڑی رقمیں بھی بٹورتے ہیں۔ مگر وہ لوگ کون ہیں جو سرکار کو اپنی آمدنیوں میں سے کثیر رقم ٹیکس کی شکل میں دیتے ہیں مگر سرکار سے نقد یا جائیداد خصوصاً پلاٹوں کی شکل میں کچھ نہیں لیتے۔ یہ پاکستان کے عام عوام ہیں کہ ان کے متعلق جاننے سے پہلے ذرا اس حساب کتاب پر نظر ڈالیں۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=11564#sthash.8ineTdVe.dpuf

No comments:

Post a Comment

May Day 2024, Bounded Labor & new ways of the struggle

  May  Day 2024  Bounded Labor & new ways of the struggle  In the South Asia, thanks to Brahminical legacy dipped in colonialism sociali...