Saturday, November 7, 2015

Well Played Hider Rizvi: An obituary of a Progressive Lhori


Well Played Hider Rizvi
An obituary of a Progressive Lhori

Those who can swim against the flow of water are those who have ability to think out of box. Due to this ability they often misfit in the eyes of all types of establishments either Religious/Ideological or National/International. But interestingly, they are not among "rejected people" yet they always find friends in every country, every continent and every area.
He was neither a careerist nor apologist and always tried to find his own ways of struggle. His commitment for Punjabi and Progressive ideas remained beyond doubt and it always reflected in his reporting too. When he died he was a american citizen technically yet he opted to chose his place of death and came back to Lhore.
The Link is there, click and read complete article
Mra Rang dy Basanti Cholla



Just visit a FB page Remembering Haider Rizvi - a jigar journalist and you will finds posts from diverse progressive people, indeed a galaxy of progressives irrespective of nationalities, religions, parties, opinions are celebrating memoirs of their Lhori friend.




A friend is making film on him and here am reproducing his message

Dear all friends and family of Haider,
About two years ago I befriended Haider on the street in the East Village in New York near my apartment. Shortly after that I started to film him to make a full-length documentary about him. He was very excited about it, and we took a lot of good footage. I started editing a trailer to help get funding and more interest in it, but stalled and stopped working on it because Haider had left the country. Now I plan to finish this with the help of Fakhar Abbas and some friends here, and would love to have contributions from any and all of you - the more the merrier. So please contact me here if you are interested in contributing photos, stories, and/or possibly a filmed interview. Thanks and All the very Best,
Douglas Paul Smith

I wrote a piece about him , as the story is still not uploaded so i am sharing its JPG. will share the link in a day or two.


مرا رنگ دے بسنتی چولا


عامر ریاض۔۔۔۔۔
دریا کے بہاؤ کے مخالف چلنا جوئے شیر لانے سے بھی کٹھن کام ہوتا ہے مگر وہ جو اس کام میں مشاق ہوتے ہیں وہ لاکھوں کے ہجوم میں بھی منفرد نظر آتے ہیں۔ وہ جب کسی مقام پر ٹھہر جاتے ہیں تو ’’کوہ گراں‘‘ ہوتے ہیں اور جب کسی مہم کو سرکرنے چلتے ہیں تو پھر جان ہتھیلی پر رکھ کر رختِ سفر باندھتے ہیں۔ یہ تمام خوبیاں تو حیدر رضوی میں موجود تھیں مگر اس کی سب سے عمدہ خوبی یہ تھی کہ وہ زندگی سے عشق کرتا تھا۔ اپنی اس خوبی کی بدولت اس میں انارکسسٹوں والے تمام خصائص عود آئے تھے کہ وہ زندگی بھر کسی ’’منظم جتھے بندی‘‘ کے چکروں سے بھی آزاد رہا۔ میں اسے پہلی دفعہ کب، کہاں، کیوں دیکھا تھا اس بارے تو مجھے یاد نہیں مگر وہ لاہور کی ان تمام جگہوں پر موجود ہوتا جہاں ضیاء مخالف لہر کی میٹنگیں ہو رہی ہوتیں۔ پرانی انارکلی، ایم اے او کالج کے باہر کھوکھے والا، بھونڈپورہ چوک، ریگل چوک، گوالمنڈی کا ملک ٹی سٹال، سٹیشن کی نوری مسجد، فرنٹیر پوسٹ کا دفتر، لاہور پریس کلب، شاہ دین بلڈنگ سے گوگو کے درمیان مال روڈ کے تھڑے ، ویو پوائنٹ، مزار مادھولال حسین، ہر جگہ وہ اپنا نقش چھوڑ آتا۔ اس کی پھوڑی پر بیٹھ کر میں نے پہلی دفعہ پوچھا کہ حیدر کب پیداہوا تھا؟ 1952 میں پیدا ہونے والے حیدر رضوی کا بچپن اور ازدواجی زندگی تکلیف دہ رہے مگر اس نے زندگی بھر بلندوبانگ قہقہوں میں اسے کہیں پیچھے چھپا رکھا تھا۔ سرگودھے اور گوجرانوالہ سے اس کا کیا رشتہ تھا اس بارے بھی مجھے اس کی موت کے بعد معلومات ملیں۔ ہمارے لیے تو وہ مجسم لہوری تھا کہ جو طویل عرصہ امریکہ میں رہنے کے باوجود لہوری ہی رہا اور مرنے کے لیے یاروں کے جھرمٹ میں خراماں خراماں ’’شہر لہور‘‘ چلا آیا۔ بادشاہ کی موت پر درباری اور فقیر کی موت پر یار لوگ ماتم کنا ں ہوتے ہیں کہ حیدر کے مرنے پر بیک وقت نیویارک، لندن، ٹھٹھہ، کراچی، پنڈی، اسلام آباد، پشاور، دلی، امرتسر، لاہور میں آہ وپکار سنی گئی۔ انور سن رائے نے حیدر کی موت پر لکھا اپنا مضمون نجم حسین سید کے مصرعہ’’ جینا اس رنگ دا اسیں کیتا نامنظور‘‘ پر ختم کیا کہ بقول افضل ساحر حیدر کا شماران چند لوگوں میں ہوتا ہے جنھیں نجم حسین سید کی ساری شاعری یاد تھی۔ جب کوئی نجم حسین سید کے خلاف بولتا تو حیدر کا جلالی رنگ محفل پر غالب آجاتا۔
مجھ سے وعدہ کیا کہ جیسے ہی میں ٹھیک ہوجاؤں گا تو ظفر اقبال مرزا (زم لہوری) سے ملنے چلیں گے مگر وہ ظفریاب سے ملنے چلا گیا۔ نجم صاحب کی طرح زم بہادر کانام آتے ہی وہ کہیں گم سا ہوجاتا۔ ویسے تو اس کی زندگی دلچسپ و عجیب واقعات سے بھری پڑی ہے مگر 9/11 کے بعد اسے نیویارک میں بروکین کی گلیات میں اپنی داڑھی کی قیمت چکانی پڑی۔ حیدر تو مذہبی انتہا پسندی کے ہمیشہ خلاف تھا چاہے اس انتہا پسندی کا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو۔ وہ اس وقت بھی طالبان مخالف تھا جب امریکہ اور یورپ کے لبرل افغان جہاد کے ذریعہ روس کو نیچا دکھانے کے لیے طالبان کی پرورش کر رہے تھے۔ اس نے داڑھی تو مارکس، چی گویرہ اور فیڈرل کاسترو کی پیروی میں رکھی تھی مگر 9/11 کے بعد نئے نئے طالبان مخالفوں نے اسے طالبان کا ساتھی قرار دے کر پھینٹی لگا دی۔ مارکھانے کے باوجود نہ تو اس نے طالبان مخالفت چھوڑی نہ ہی داڑھی کٹوائی۔ یہی اس کی خاصیت تھی جو تادم مرگ برقرار رہی۔ 1990کی دہائی کے آغاز میں وہ امریکہ چلا گیا تھا۔ اس کے مرنے پر اس کے دوست جسپال سنگھ نے بھی لکھا۔ ’’صبح سویرے میری آنکھ کھلی تو میرے گھر کی چھت پر بندروں کا رقص جاری تھا۔ مجھے دھڑکا لگا کہ یہ صبح منحوس ہے اور پھر حیدر کے مرنے کی خبر مل گئی۔‘‘ نیویارک میں کولمبیا سکول آف جرنلزم سے علم حاصل کرنے کے بعد تو اسے گویا ’’پر‘‘ لگ گئے۔ فقیر کو تو بس ’’فقر‘‘ کی باتیں کرنی ہوتی ہیں کہ اسے یہ پرواہ کب ہوتی ہے وہ کہاں رہ رہا ہے اور کس کے آگے بول رہا ہے۔ بقول جسپال اپنی شاندار مگر سچی تحریروں کی وجہ سے اسے امریکہ میں خاصی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑاکہ وہ امریکہ برطانیہ اور ان کے حواریوں کو کہاں کچھ سمجھتا تھا۔ جسپال نے لکھا’’میں نے ہارورڈ کولمبیا اور SOAS کے کتنے ہی سکالروں کو اس کے آگے دم بخود دیکھا۔‘‘ جسپال اور اس جیسے بہت سے یاروں نے جو کچھ کہا وہ ایک فیس بک صفحہ(Remembering Haider Rizvi. a jigar journalist) پرپڑا ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے آپ کے ہاتھ اور آنکھیں نم(Num) نہ ہوں، یہ ممکن نہیں۔ ان پیغامات کو پڑھتے ہوئے اس کی شخصیت کے کتنے ہی رنگوں سے آپ متعارف ہوں گے مگر جو اسے کبھی ملا ہی نہیں وہ اس کی گہرائی کو ماپ نہیں سکتا۔ اس کے چھوٹے بھائی نے بتایا کہ وہ شروع ہی سے جلالی طبیعت کا مالک تھا کہ یہ جلالی پن بھی اس پر خوب پھبتا تھا۔ ’’پل میں تولہ، پل میں ماشہ‘‘ حیدر رضوی زندگی بھر انعام، تالی، کیرئیر اور منفعت سے دوررہا کہ اس کی یہ ادا ہر کسی کو گھائل کر ڈالتی تھی۔ مرتضی سولنگی نے بھی حیدر کی یاد میں خوب لکھا ہے جو حیدر کی جلالی طبیعت کا عکاس ہے۔ ’’1988میں حیدر مجھ سے ملنے امریکی ریاست شکاگو آیا۔ ہم کسی دوست سے ملنے شکاگو یونیورسٹی جارہے تھے۔ وہ گاڑی میں میرے ساتھ بیٹھا تھا کہ اچانک اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور کہیں چلا گیا‘‘۔
اس کے امریکی دوستوں کے بقول وہ امریکہ میں رہنے والے کالوں کا سچا ہمدرد تھا۔ امریکہ کے اصلی باشندوں کی سیاسی جدوجہد میں وہ شامل رہا اور طلباء کے کتنے ہی مظاہروں میں وہ پیش پیش رہتا۔ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے لڑنا تو وہ پاکستان سے سیکھ کر گیا تھا اور یہی جدوجہد اس نے امریکہ میں بھی جاری رکھی۔ انجینئرنگ یونیورسٹی میں پڑھنے والے کچھ فلسطینی طالب علموں کے ساتھ تو میں لاہور میں اس کے ساتھ مل چکا تھا جو ایم آر ڈی کے جلوسوں میں بھی شرکت کرتے تھے۔ وہ ہر قسم کی اتھارٹی کے خلاف تھا چاہے اس کا تعلق مذہب سے ہو، نظریات سے یا پھر بین الاقوامی سیاست سے۔ وہ روس و چین سے زیادہ لاطینی امریکہ کی انقلابی لہر سے متاثر تھا البتہ ’’روسی پانی‘‘ سے اسے لازوال عشق تادم مرگ رہا۔ وہ عشق سے جڑے اپنے انقلابی افکار کو شاعری میں ڈھالتا رہا کہ اب فیس بک پر اس کا نقش تادم حیات اس کی یاد کو مہکاتا رہے گا۔ اس کے ایک دوست Kanya کے بقول ’’کیونکہ وہ ہر وقت سچ پر پہرہ دیتا تھا اس لیے اکثر اسے پاگل قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا تھا۔ میں تمام عمر کسی ایسے شخص سے نہیں ملا اور نہ شاید آئندہ زندگی میں کسی ایسے شخص سے مل پاؤں جو حیدر جیسا ہو۔‘‘ وہ اک آوارہ پنچھی تھا اس لیے پنجروں میں رہنے والے اسے یا تو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یا پھر اسے مسترد کرکے خود کو ممتاز کرنے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں۔

اپنے خیالات پر پہرہ دینا، انہیں سیاسی و سماجی زندگی میں ہر دلعزیز رکھنااور زندگی سے عشق کرنا وہ کام ہیں جنھیں صوفی بھگتوں سے عبارت سمجھا جاتا ہے۔ اکثر لوگ پہلے دو کام تو کر گذرتے ہیں مگر زندگی سے لازوال عشق سے بیگانہ رہتے ہوئے خبطی ہوجاتے ہیں کہ حیدر کو اس کی عاشقی نے اس عذاب سے محفوظ رکھا۔ اندر باہر کی ’’دوئی‘‘ کو مٹانا اتنا سادہ نہیں جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔ مگر وہ جو ریت پر ہوا سے مٹ چکے نشانوں پر چلنا جانتے ہیں انہیں ’’منزل مقصود‘‘ کی پرواہ نہیں ہوتی۔ لوگ انہیں پاگل، ناکام ، دیوانہ کہہ کر اپنا رانجھا راضی کرتے ہیں مگروہ اپنی مستی کا سودا نہیں کرتے۔ کمال حیرت ہے کہ حیدر جیسوں کو ایسے ’’وسیلے‘‘ ہر جگہ مل جاتے ہیں جو انہیں ان کی تمام خوبیوں، گھاٹوں، بدمعاشیوں اور رنگ بازیوں کے ساتھ قبولتے ہیں۔ - 

یہی حیدر کے ساتھ ہوا بھی اوروہ دوستوں کے جھرمٹ میں اپنا آخری وقت گذار کر رخصت ہوا۔ بطور صحافی، سیاسی کارکن اس نے جو کچھ کیا اسے کوئی سیاسی جماعت یا پریس کلب یاد رکھے یا نہ رکھے کہ حیدر کو نہ تو زندگی میں اس کی تمنا تھی نہ اب اس کی کوئی پروا۔ وہ بابا فرید، بابانانک، شاہ حسین، بلھے شاہ سے لے کر استادامن تک پھیلی پنجابی صوفی رِیت کا زندہ جاوید شاہکار تھا کہ بلھے شاہ نے اسی دن کے لیے کہا تھا، بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور اس کی والدہ اور بھائی کے اصرار پر اس کے جنازے کو ایمن آباد کے نزدیک اس پنڈ لے جایا گیا جہاں آج کل اس کی والدہ مقیم ہیں مگر اس کی مہک لاہور سے نیویارک تک دوستوں کی یادوں میں تازہ رہے گی۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=14647#sthash.GrqTSSZ2.dpuf

No comments:

Post a Comment

May Day 2024, Bounded Labor & new ways of the struggle

  May  Day 2024  Bounded Labor & new ways of the struggle  In the South Asia, thanks to Brahminical legacy dipped in colonialism sociali...