Saturday, February 20, 2016

Old Twisted Narrative & Pakistani Mother Tongues





مادری زبانیں اور پرانا بیانیہ
عامر ریاض


1949 سے تادم تحریر مادری زبانوں کو پاکستانی قوم پرستی کے لیے خطرہ سمجھنے والوں کو اب تو ہوش کے ناخن لے لینے چاہیں۔ زبان کے مسئلہ پر آدھا ملک گنوانے کے باوجود ہماری پارلیمان اُردو، انگریزی زبانوںکی حاکمیت اور مادری زبانوں کو قومی زبانیں قرار دینے کے حوالہ سے گومگو کا شکار ہے۔ کیا وقت آ نہیں گیا کہ ہم پاکستانی زبانوں کے حوالہ سے مبہم اور گمراہ کن پالیسیوں کو خیرآباد کہتے ہوئے اک قومی کمیشن کے ذریعہ اس درینہ مسئلہ کو حل کر لیں۔ نوآبادیاتی آقاں کی تقلید میں ڈکیٹر بھی زبانوں، لہجوں اور رسم الخطوں کے حوالے سے بنائی جانے والی پالیسیوں میں جان بوجھ کر ابہام رکھتے تھے تاکہ انہیں سیاسی مفاد کے لیے بروقت ضرورت استعمال کر سکیں۔ مگر جب جمہوری حکومتیں اور منتخب پارلیمان بھی ایسے مسا ئل پر ”در وٹنے“ کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گی تو حالات دگر گوں ہوتے چلے جاتے ہیں۔ہمارا حال اس کا زندہ ثبوت ہے۔
read article at Humshehri کیا مادری زبانیں پاکستانی قوم پرستی کیلئے خطرہ ہیں

 1973 کے آئین میں اس درینہ مسئلہ کو حل کرنے کی جانب پہلا قدم اٹھایا گیا تھا ۔ پہلی دفعہ ایک آئینی شق کے ذریعہ انگریزیزبان کی حاکمیت کو ختم کرنے کی بات بھی ہوئی تھی اور مادری زبانوں سے متعلقہ اداروں کو حکومتی امداد دینے کے اقرار سے اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ حکمرانوں، اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں نے 16 دسمبر 1971 کے سانحہ سے سبق حاصل کرنا شروع کر دیا ہے۔ شو متی قسمت، ضیاءالحق نے اس عمل کو برباد کرکے رکھ دیا اور ضیا شاہی میں ایک طرف انگریزی میڈیم سکولوں کی بھرمار ہونے لگی تو دوسری طرف مادری زبانوں کو وطنی تشکیلات میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے ایک دفعہ پھر سب سے بڑی مادری زبان میں لہجوں کے جھگڑوں کو بڑھاوا دیا جانے لگا۔یہ وہی غلط پالیسی یعنی خناس تھا جس پر حکمران و اشرافیہ قرارداد مقاصد کے بعد سے عمل پیرا تھے۔ یوں 1971سے پہلے کی پالیسیوںکوضیاءشاہی میں بحال کر دیا گیا کہ 1971سے قبل پاکستان میں سب سے بڑی زبان بنگالی تھی اور 1971 کے بعد پنجابی جوموجودہ پاکستان میں 65 فیصد سے زیادہ پاکستانیوں کی مادری زبان ہے۔ زبانوں، لہجوں کو لڑانے کا کھیل بڑی مہارتوں سے ترتیب دیا گیا ہے کہ مادری زبانوں کو اُردو سے لڑانا اور مادری زبانوں میں آپسی اختلافات کو بڑھاوا دینا اس کھیل کے اہم ستون ہیں اور اس کھیل کا براہ راست فائدہ انگریزی کی ”لازوال‘ حاکمیت کو ہے۔ 18 ویں ترمیم کے وقت دیگر اہم مسائل کی وجہ سے سیاستدانوں نے اس اہم مسئلہ کو نہیں چھیڑا مگر جب تعلیم کو صوبائی اختیار میں دے ڈالا گیا تو مسئلہ قالین کے نیچے سے دوبارہ باہر سرک آیا۔ یہ اس لیے بھی ہونا تھا کیونکہ تعلیم کا براہ راست تعلق مادری زبانوں سے ہی ہے۔ جو بچے پانچویں جماعت تک پہنچنے سے قبل ہی ڈراپ آوٹ ہوجاتے ہیں اور سکول انہیں اچھے نہیں لگتے تواس کی بنیادی وجہ مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم کا حصہ نہ بنانے کے فیصلہ سے ہے۔ تعلیم سے متعلق ہر بین الاقوامی ادارہ یہی کہتا ہے مگر ہم کان لپیٹ کر سورہے ہیں۔ افسوس کہ اس درینہ مسئلہ بگاڑنے میں محض ریاست، سیاسی جماعتوں، اشرافیہ اور ڈاکٹیٹروں نے کردار ادا نہیں کیا بلکہ زبانوں کے حوالہ سے سیاست کرنے والے ادبی، سیاسی دانشوروں و رہنماں نے بھی اس پیچیدہ مسئلہ کو تدبر و بصیرتوں سے حل کرنے کی بجائے اپنے اپنے تعبات کے تحت ہی دیکھا کہ یوں1980 کی دہائیوں سے ضیاالحقیاں عام ہوئیں اور مسئلہ بگڑتا ہی گیا۔
ذرا یورپی ممالک پر نظر ڈالیں کہ انھوں نے اپنے ملکوں میں زبانوں اور ثقافتوں کی رنگا رنگی کو کیسے قوم پرستیوں کا جزو لا ینفک بناکر ترقی کی ہے۔ چھوٹی چھوٹی زبانوں و ثقافتوں پر ریاست پہرہ دیتی ہے اور بڑی زبانوں کو تو قومی زبانیں قرار دیا ہوا ہے۔ حیران کن امر تو یہ ہے کہ یورپ کو ترقی کی علامت سمجھنے والے لبرل حضرات بھی ملک پاکستان میںمادری زبانوں کی اہمیت سے نابلد ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ انہیں لبرل ازم بھی وہی پسند ہے جو انگریزی زبان میں ہو۔ جب یورپ میں زبانوں کی رنگارنگی کو وطنی تشکیلات کا جزو لاینفک بنایا جاسکتا ہے تو پھر ہم پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا وغیرہ میں ایک زبان کی حاکمیت کو کیوں ”جن جھپا“ ڈالے ہیں۔ انگریزی، اُردو اور ہندی کی حاکمیتوں کے فلسفہ نے اس خطہ میں تادیر بربادی پھیلائی ہوئی ہے۔ 1918 میں مہاتما گاندھی نے ہندی زبان کی تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے ” بھارت ہندی پرچار سبھا“ بنائی تھی تاہم ہندی یا ہندوستانی ( یہ اُردو ہندی مکس زبان تھی جو پرانی انڈین فلموں میں بولی جاتی ہے اور سنسکرت سے پاک ہے) کے سوال پر کانگرس میں قدامت پرستوں اور جدت پرستوں میں اختلافات تھے۔ نہرو سمیت جدت پسند کانگرسی” ہندوستانی“ کے نفاذ کو ضروری سمجھتے تھے مگر قدامت پرستوں نے ہندی کے نفاذ کو ضروری گردانا اور مہاتما گاندھی ان کے سرخیل تھے۔ 1937 کے بعد جب کانگرسی وزارتیں بنیں تو مدراس میں بھی کانگرس نے ہندی کا نفاذ کرتے ہوئے 21 اپریل 1938 کو” نفاذ ہندی“ کا حکمانہ جاری کیا۔ اس کے خلاف تامل زبان بولنے والوں نے اسمبلی کے اندر و باہر زبردست احتجاج کیا، بھوک ہڑتالی کیمپ لگے، گولی چلی اور 4 لوگ مارے بھی گئے۔ بلا آخر کانگرس کی وزارتوں کے خاتمہ پر انگریز گورنر نے تامل زبان کے حق کو تسلیم کیا۔ ہماری نصابی کتب میں توقبل از تقسیم کے واقعات لکھتے ہوئے محض اُردو ہندی جھگڑوں کا ذکر تواتر سے کیا جاتا ہے کہ اگر تامل زبان کی جدوجہد کا پتہ دوسروں کو چل گیا تو پھر یہ اپنی زبان بارے بھی سوچنے لگیں گے۔ حیران نہ ہوں، تقسیم کے بعد خود پنڈت صاحب نے کانگرس کے قدامت پسندوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور ”ہندوستانی“ سے دستبردار ہوکر ہندی زبان کے حق میں فیصلہ سنا ڈالا۔ یہی نہیں بلکہ تامل زبان میں سے ملیالم نام کی ایک اور زبان نکال کر تاملوں کو سبق سکھایا گیا۔ اس پر 1952 میں تاملوں نے دوبارہ احتجاجی تحریک چلائی اور جانوں کے نذرانے دیے۔ یہ وہی دور ہے جب پاکستان میں بھی اُردو کی حاکمیت کے خلاف بنگالیوں نے احتجاج کیا کہ یوں ایک زبان کی حاکمیت کے خلاف بھرپور مزاحمتیں دیکھی گئیں۔ چین سے شکست کھانے کے بعد 1963 میں پنڈت نہرو ایک دفعہ پھر 2 سال میں انگریزی کے خاتمہ اور ہندی کی حاکمیت کے لیے قانون لے کر آئے مگر اس بار تاملوں، بنگالیوں، پنجابیوں کی طرف سے مزاحمت دیکھنے میں آئی۔ پاکستان میں 1973 کے آئین میں آرٹیکل 251 شامل کیا گیا جس میں انگریزی کی حاکمیت سے چھٹکارے کے ساتھ ساتھ اُردو اور پاکستانی مادری زبانوں کی تکریم کی خبر دی گئی۔ مگر تاحال پاکستان، بھارت سمیت جنوبی ایشیا میں انگریزی کی حاکمیت بدستور ہم سب کا منہ چڑارہی ہے۔ برصغیر کے عوام بھی کیا کریں کہ انگریزی کی حاکمیت کے خاتمہ پر انہیں بجا طور پر اُردو اور ہندی کی حاکمیت کا ڈررہتا ہے۔ مسئلہ انگریزی، اُردو، ہندی کا نہیں بلکہ یک زبانی حاکمیت (One Language Authoritarianism) کا ہے کہ جب تک ہم زبانوں سے پیار کرنا اور انکا احترام نہیں سیکھیں گے اس وقت تک پرنالہ وہیں رہے گا۔ اگر ہم زبانوں کی رنگارنگی کو تسلیم کرلیں گے تو پھر صوبوں میں بھی زبانوں کی رنگا رنگی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ مگر صوبوں میں موجود قوم پرست صوبائی سطح پر زبانوں کی رنگارنگی بارے معترض رہتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بھی زبانوں کی رنگارنگی سے خائف ہیں۔یہ زبانوں کے مسلہ کو تعصبات کی عینک سے دیکھنے کی مثال ہے۔سنا ہے اس سال مادری زبانوں کے عالمی دن یعنی21 فروری کے خوالہ سے اسلام آباد میںاک جلسہ رکا گیا ہے کہ شاہد انہیں اردو، انگریزی کی حاکمیتوں اور مادری زبانوں کو لڑانے کے خلاف ”نیا بیانیہ “ بنانے کا خیال آجائے۔پچھلے ہفتہ فیصل آباد میں ہونے والے پہلے پنجابی ادبی میلہ میں شرکت کے بعد یہ احساس زیادہ ہوا کہ جب گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک سینیرولائیت پلٹ پروفیسر صاحب اقبال اور جناح کو مورد الزام ٹہرا کر اپنا رانجھا راضی کرتے نظر آئے۔ اقبال کے خطبہ آلہ آباد میں زبانوں کی رنگا رنگی کی حمائیت میں لکھے جملے شاہد انھوں نے نہیں دیکھے جبکہ ڈھاکہ میں کی جانے والی قائداعظم کی اس تقریر کا بھی انہیں دوبارہ مطالعہ کرنا چاہیے جس کا بتنگڑ سب نے بنایا ہوا ہے۔
مارچ 1948 کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں اُردو کو رابطے کی زبان قرار دیتے ہوئے کی جانے والی اپنی اس تقریر میں جناح صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ مشرقی بنگال کی اسمبلی اگر منظور کرے تو آپ صوبہ میں کسی بھی زبان کو کارویہار اور ذریعہ تعلیم کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کوزبانوں کے حوالہ سے نہ تو مبہم نو آبادیاتی پالیسیاں نظر آئیں اور نہ ہی وہ ہندی کی حاکمیت بارے سوال اٹھا سکے۔وہ یہ نہیں کہنا چاہتے کہ نفاذ اردو تو نوآبادیاتی پالیسی کا تسلسل تھا مگر انہیں جناح صاحب سے چڑ ہے سو اپنے تعصبات کے اظہار سے باز نہیں آئے۔انگریزوں نے 1865 میں اردو کیوں نافظ کی تھی یا پہلی تعلیمی کانفرنس میں وزیر تعلیم نے پاکستانی مادری زبانوں کی کیوں حمائیت کی تھی اس بارے ان کی تحقیق بوجوہ خاموش ہے۔لیل پور کا پہلا پنجابی میلہ تو اپنی جگہ اک نئی روائیت کا آغاز تھا تاہم جب ہمارے دانشور بھی زبان کی بنیاد پر کی جانے والی سیاستوں کو محض اپنے تعصبات کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو مادری زبانوں کا مسئلہ اور زیادہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم زبانوں کے حوالہ سے اپنا ”پرانا بیانیہ“ بدلنے کو تیار ہیں؟ ایک زبان کی حاکمیت اور اسے وطنی تشکیلات کا جزو لاینفک بنانا ہی اس پرانے بیانیے کی علامات ہیں۔ پاکستانی مادری زبانوں کو گھٹیا سمجھنا اور انگریزی، اُردو کو علم و فکر کی زبانیں قرار دینا اس پرانے بیانیے کی ہی تکرار رہے۔ 21 فروری کو دنیا بھر میں مادری زبانوں کی تکریم کے لیے منایا جاتا ہے۔ تو کیا اس 21 فروری پر ہم زبانوں بارے اپنے پرانے بیانیے کو بدلنے کا آہر کرسکتے ہیں۔ آج ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم ایک زبان کی حاکمیت کے حق میں ہیں یا زبانوں کی رنگارنگی کو اولیت دیتے ہیں؟ اگر ہم زبانوں کی رنگارنگی کو اولیت دیتے ہیں تو پھر اس زبان کے بولنے والے چاہے درجن بھی کیوں نہ ہوں، ہمیں ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے آواز بلند کرنا چاہیے۔ حل وہ ہونا چاہیے جس پر وفاق و صوبہ سب میں عمل ہو کہ مادری زبانوں کے احترام و تکریم سے ہم پرانے بیانیے کو شکست دے سکتے ہیں۔
For References You can read this link too
http://punjabpunch.blogspot.com/2016/02/views-of-iqbal-jinnah-and-language.html

No comments:

Post a Comment

Punjab & Iqbal

وسیب تے وسنیک علامہ اقبال تے پنجاب عامر ریاض پنجاب تے پنجابی اوہ دو اکھاں جے جس پاروں اساں پنجابی عوام، پنجاب دے وسنیکاں اتے پنجابی وس...