Friday, April 10, 2015

Turkey is on Driving Seat: Let us enjoy the New Ride


Turkey is on Driving Seat

 Let us enjoy the New Ride


US used the opportunity of Yemen and by pressurizing Iran did the nuclear agreement while Turkey, another new strong player used the Yemen Issue and now became an arbitrator in Middle East after more than 95 years. All small players will have to follow it in general.
Till late 1960s Iran was major power player in West Asia and Middle East yet in 1970s Saudi Arabia replaced her and now Saudi Arabia is replaced gradually by Turkey. Will Turkey handle the situation it depends on Turkish diplomacy. Till today after visiting Saudi Arabia in March and Iran in April now Turkey is in a position to handle the situation.  Will Turkey revive old Levant? Will Turkey make peace at old Mesopotamian trade link between Mediterranean and Shat al Arab (Persian Arab)? Which was an essential shortcut branch of Historic Silk Route? No doubt, Turkey is much different from old regional player and has a democratic system rather than theocracy or monarchy. In this situation Pakistan has a historic opportunity to quit from decades long Iranian-Saudi proxy wars.  That proxy war got importance after Zia intervention in Pakistan and Sect Based Islamic Revolution of Iran in late 1970s.  Unlike zia and Musharraf , this time Pakistan played well and all credit goes to democratic set up established in Pakistan since 2008. Read and unlearn things. 
http://humshehrionline.com/?p=10728#sthash.q1b4KpvV.dpbs

Some Useful external limks

http://edition.cnn.com/2015/04/03/europe/iran-nuclear-talks-lausanne/

http://www.tehrantimes.com/politics/122848-rouhani-says-all-should-join-hands-in-fight-against-terrorism

http://www.haaretz.com/news/middle-east/1.650902

http://www.al-monitor.com/pulse/originals/2015/03/turkey-saudi-arabia-erdogan-king-salman.html

یمن کے جھگڑے سے سعودی عرب یا یمن کو کچھ ملے نہ ملے، پاکستان اس نادر موقع سے فریق یا ثالث بن کر فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے مگر وسط ایشیا، ایران اور مشرق وسطی کے ممالک پر مشتمل خطہ میں ترکی کے بڑھ چکے کردار بارے اب کوئی دورائے نہیں۔ مارچ میں ترکی کے صدرطیب اردگان نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو اپریل میں وہ ایران میں براجمان تھے۔ یہ سب واقعات ترکی کے بڑھ چکے کردار کے حامل ہیں۔ کسی کو یہ بات پسند آئے یا نہ آئے مگر دیوار پر انمٹ سیاہی سے جو لکھا ہے اس کو اب مٹانا مشکل ہے۔ تاریخی طور پر بھی وسط ایشیااور مشرق وسطیٰ میں سلطنت عثمانیہ کا بھرپور کردار رہا ہے اور ترکی کو یہ سب کچھ ورثہ میں ملا ہے۔ پچھلے سال مصر میں اقوام متحدہ کے مشن پر گئے اک پاکستانی دوست نے یہ انکشاف کیا تھا کہ مشرق وسطی کے ممالک میں ’’میرا سلطان‘‘ ڈرامہ عربی زبان میں ڈب کر کے چلایا جارہا ہے۔ خود ہمارے ہاں بھی یہ ڈرامہ اُسی سلطنت عثمانیہ کی نشانی کے طور پر چلایا جانا شروع ہے کہ یہی وہ سلطنت عثمانیہ ہے جسے برطانوی راج کے دوران خصوصی طور پر ہدفِ تنقید بنایا جاتا رہا ہے۔ یمن کی صورت حال ایک امتحان ہے کہ امریکیوں نے کمال ہشیاری سے یمن کے دباؤ کو استعمال کر کے ایران کو ’’جوہری معاہدے‘‘پر راضی کر ڈالا۔ ایران کو جوہری معاہدے پر راضی کرنے کے لیے سوئٹزر لینڈ کے اسی شہر (لسوانے)کا انتخاب کیا گیا جہاں کبھی سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے کے بعد جدید ترکی کی سرحدوں کا تعین امریکی دباؤ کے تحت عمل میں آیا تھا۔ 8 دن تک چلنے والے ان مذاکرات کے بعد امریکی مقاصد تو پورے ہوگئے کہ امریکی سفارتکاری جیت گئی مگر خطہ میں امن کے لیے ترکی کی ذمہ داریاں کچھ زیادہ بڑھ گئیں۔ چینی وزیر خارجہ ’’وانگ یی‘‘ کی انہی دنوں تاریخی شہر لسوانے آمد بھی یہ پتہ دیتی ہے کہ نئے بندوبست میں کون کون ضمانتی ہے۔ ترکی کے شام کے ساتھ سرحدی جھگڑوں کا زمانہ گواہ ہے۔ یہ طیب اردگان ہی ہیں جو یمن کے سرحدی علاقوں پر سعودی جہازوں کی بمباری کے حق میں بیانات بھی دے چکے ہیں۔ مگر یہ وہی ترکی ہے جس نے لسوانے مذاکرات کے دوران ہونے والے جوہری معاہدہ میں ایرانی تحفظات کو درست قرار دیاتھا۔ اپریل میں تہران کے دورے کے موقع پر ایرانی صدر حسن روحانی نے ترکی کے صدر طیب اردگان کا جوہری معاہدے کی حمایت پر خصوصی شکریہ بھی ادا کیا۔ ایران کی مذہبی سرکار کو یہ بات بخوبی یاد ہے کہ جب 1960 کی دہائی کے آخری سالوں میں شاہ ایران علاقائی طاقت بننے کا خواب دیکھنے لگا تھا تو اسے چند ہی سال میں عبرت ناک مثال بنا دیا گیا تھا۔ خود ایران کی مذہبی طاقت کا ظہور بھی تو اسی کشمکش سے بذریعہ فرانس ممکن ہوا تھا۔ اب اگر وہ بھی شاہ کی تقلید میں علاقائی طاقت کا بننے کا خواب دیکھیں گے تو ان کا انجام مختلف نہ ہوگا۔ ترکی کے صدر طیب اردگان نے یمن کے مسئلہ کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مسلم فرقہ وارانہ کشیدگی سے پیدا ہونے والی انتہاپسندی اور دہشت گردی کی طرف ایران کو متوجہ کیا ہے۔ ایران تو 1979 سے ’’شیعہ اسلامی انقلاب‘‘ کی برآمد والی پالیسی چلا رہا ہے مگر اس نازک موڑ پر یہ پالیسی پر اسرار انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کو نئی طاقت دے سکتا ہے۔ بس یہ وجہ ہے کہ ایران اور ترکی کے صدر نے مشترکہ بیان میں دہشت گردی اور انتہاپسندی سے نمٹنے کو اولین ترجیح قرار دیا۔ ترکی نے ایران کے ساتھ باہمی رابطوں کو بڑھانے کے لیے آٹھ دیگر دستاویزات پر بھی دستخط کیے ہیں کہ اب ترکی اور ایران کی باہمی تجارت کا حجم 30 بلین ڈالر تک پہنچنے کے اندازے ہیں جو موجودہ حجم سے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان کے لیے یہ صورتحال خوش آئندہے کہ پاکستان تو گذشتہ 42 سالوں سے’’سعودی، ایرانی خفیہ جنگوں ‘‘کا شکار ہے۔ ان خفیہ جنگوں سے پاکستان میں ایسے گروہ مضبوط ہوچکے ہیں جو برسرعام سعودی اور ایرانی پالیسیوں کے اسیر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں یمن کے مسئلہ کو براہ راست فرقہ پرستی سے جوڑنے والوں کی کمی نہیں۔ ترکی کو ان خفیہ جنگوں سے کوئی سروکار نہیں اور دہشت گردی و انتہا پسندی کے حوالے سے ترکی کا موقف واضح ہے۔ تاہم جب ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی نے اردگان سے نام لیے بغیر کچھ مسلم ممالک کے مذہبی انتہا پسندیوں میں ملوث ہونے کا ذکر کیا تو اردگان نے وضاحت طلب نہ کی کہ خود ایران کا بھی اس معاملے میں ریکارڈ مثالی نہیں اور انقلاب کی برآمدگی کے نظریہ سے مذہبی ایران نے کبھی مراجعت کا اعلان نہیں کیا۔ - 

یہ بات واضح ہے کہ ہر ملک کے کچھ بنیادی مقاصد ہوتے ہیں جبکہ کچھ مطالبے سمجھوتہ تک پہنچنے کے لیے بڑھا چڑھا کر کیے جاتے ہیں۔ اس عمل سے کوئی بھی ملک مبرا نہیں ۔ اگر آپ سعودی عرب، ترکی، ایران، یمن، امریکہ، برطانیہ اور پاکستان کے حوالہ سے بنیادی مقاصد اور دیگر مطالبات کوالگ الگ دیکھ سکیں تو بنتے، بگڑتے تعلقات کی سمجھ آنے لگتی ہے۔ ہر ملک اپنے فوری اور دورس مفادات کے تحفظ کو ہی ضروری گردانتا ہے۔
جیسے 1970 کی دہائی میں بین الاقوامی کھیل کے دوران سعودی عرب کو خطہ کی چوکیداری ملی تھی ایسے ہی آج ترکی کو نیا چوکیدار بنانے میں امریکی و چینی اکھٹے ہیں۔
مفادات کے کھیل کے تحت جس بین الاقوامی سیاست میں آج دنیا بھر کی وطنی ریاستیں رجھی ہوئیں ہیں اس میں اخلاقیات اور نظریات کی اہمیت ثانوی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طاقتور ممالک کبھی سرحدی تنازعات اور کبھی ’’اصولی‘‘ بنیادوں پر دیگر ممالک کی بین الاقوامی سرحدوں کو پامال کرتے ہیں۔ کریمیا اور یوکرائن کا -

معاملہ تو ابھی کل کی بات ہے۔ 1971 میں جب بھارتی فوجیں دن دھاڑے بین الاقوامی سرحد پار کرکے پاکستان کے مشرقی حصہ میں داخل ہوئیں تھیں تو بین الاقوامی دنیا یا ان کی حمایت کر رہی تھی یا پھر خاموش تھی۔ یہ بات تو درست ہے کہ پاکستان میں پھیلی دہشت گردی کی صورتحال کو قابو کرنے کی اولین ترجیح کی وجہ سے ہمیں یمن اور سعودی عرب کی جنگ سے دور رہنا چاہیے۔ مگر جس طرح اسے اخلاقیات اور اصولوں کی سبز چادر پہنائی جارہی ہے وہ خلاف حقائق ہے۔ کچھ باکمال دانشور تو یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ پاکستان کو اس جنگ سے اس لیے دور رہنا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجہ میں پاکستان میں فرقہ وارانہ جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اس دلیل کا مطلب یہی ہے کہ پاکستان میں سعودی اور ایرانی ہرکارے بہت مضبوط ہیں کہ وہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر متحرک ہوجائیں گے۔ یمن کے تنازعہ کے شروع ہوتے ہی ٹی وی چینلوں پر متحرک ان ہرکاروں کو ہر کسی نے دیکھا اور سنا۔ اس دلیل میں فرقہ واریت اور اس کے خارجی حوالوں کے آگے ریاست پاکستان کے سرنگوں ہونے کی کہانی چغلی کھا رہی ہے۔ ان دلائل کی روشنی میں پاکستان کے لیے لازم ہے کہ وہ یمن کی جنگ میں ایسا موقف اپنائے جو ریاست کی کمزوری پر دلالت نہ کرے بلکہ ترکی کی طرح فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے اردگرد ترتیب دیا جائے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ فوجی آمروں کے برعکس آج ہماری پارلیمان اس اہم مسئلہ پر بحث کر رہی ہے۔ ایک طرف وہ ہیں جو یمن کی جنگ کو پاکستان کے اندر فرقہ واریت سے جوڑنے اور مسلم تنازعہ میں حصہ دار نہ بننے کے اخلاقی جواز کھڑے کر رہے ہیں تو دوسری طرف وہ ہیں جو سعودی عرب کی حفاظت، مقامات مقدسہ کے تقدس کی آڑ لیے ہیں۔ حساب کے سوال کو بیالوجی کے فارمولوں سے حل کرنے میں غلطاں قیادتیں مفادات کی سیدھی بات کرنے سے بوجوہ کترا رہے ہیں۔ سوال بڑا سیدھا ہے کہ پاکستان کو ایران، سعودی عرب اور ترکی کیا دے سکتے ہیں اور اس منفعت سے بحیثیت قوم یا ریاست ہمیں کیا فائدہ مل سکتا ہے؟ یا پھر ضیا اور مشرف کی طرح اس منفعت سے چند لوگ ہی مستقید ہوں گے؟ شاید اسی لیے فرحت اللہ بابر نے ’’ان کیمرہ سیشن‘‘ بلانے کا مطالبہ بھی کر ڈالا ہے۔ امریکہ ایران سے جوہری معاہدہ کروا کر خوش ہے جبکہ ترکی ایران میں کم ہوتے تجارتی تعلقات بحال ہو رہے ہیں جسکا حجم 2012 سے انتہائی کم ہوچکا تھا۔ اس صورتحال میں پاکستان فریق یا ثالث بننے کے خود ساختہ خوابوں سے نکل کر ترکی کی حمایت سے اپنا کردار بڑھا سکتا ہے۔ سعودی عرب کی مکمل حمایت نہ کرنے کا خمیازہ تو پاکستان ہی کو بھگتنا پڑے گا کہ اس گھاٹے پر نظر رکھنا تو پاکستان ہی کی مجبوری ہے۔ یہ گھاٹا کیسے پورا ہوگا اس کا شافی جواب تو فی الحال کسی کے پاس نہیں۔ شاید اسی لیے طیب اردگان نے ایرانی وزیر خارجہ کو پاکستان بھیجا ہے۔ اگر ہمارے حکمران مفادات کی اس ننگی جنگ کو اخلاقیات اور نظریات میں ملفوف نہ کریں اور میڈیا حقیقت حال کو زمینی حقائق کے تحت بیان کرے تو منفی جذباتی فضاء کو کوئی استعمال نہیں کرسکتا۔ یمن کی جنگ سے فرقہ پرست اور انتہا پسند اس وقت فائدہ اٹھائیں گے جب پاکستان سعودی، ایرانی تنازعہ میں الجھے گا۔ آج ترکی کی موجودگی میں پاکستان کے پاس نادر موقع ہے کہ وہ اس تنازعہ سے الگ ہو جائے۔ مگر اس کے لیے پاکستان اور ایران کو ترکی کا ساتھ دینا ہوگا۔ اگر ایران اور پاکستان مذہبی انتہا پسندیوں اور دہشت گردی کے حوالہ سے فرقہ وارانہ ترجیحات کو تج دیں تو خطہ میں نہ صرف مذہبی و فرقہ وارنہ کشیدگی کا خاتمہ ہوگا بلکہ دہشت گردی و انتہاپسندی کے خلاف بڑا مورچہ بھی لگ سکے گا۔ نہ تو ایران یمن کو سعودی عرب کا ویتنام بنا سکتا ہے اور نہ ہی سعودی عرب خطہ میں ایرانی کردار کو کم کرسکتے ہیں۔ اب تو دونوں ہی نے ترکی کی حکمرانی مان لی ہے کہ اگر یہی اتفاق دہشت گردی و انتہاپسندی کے ضمن میں بھی ہو تو خطہ کے حالات نئے دور میں داخل ہوسکتے ہیں۔ 

No comments:

Post a Comment

No US President visited Pak in Democratic era (The flipside of Pak-US relations)

  No US President visited Pak in Democratic era (The flipside of  Pak-US relations) Till to date 5 US Presidents visited Pakistan since 195...