Monday, June 8, 2015

Another Proxy War: Can India Contain China?


Another Proxy War 

Can India Contain China?


After unsuccessful visit of China, Modi government is trying to save its skin and that is why a Bangladeshi writer psychotically called it “Enthralling” Modi. Fahmida Khaton is still reluctant regarding implementation “Bangladesh will look forward with similar enthusiasm and hope to the implementation of the promises.” Even Indian media is reluctant and smells show case politics. “The challenge, however, will lie in the hard work needed to implement these initiatives. Slow pace of implementation has undermined the gains of many a hard-won political battle in the past. A couple of major issues are still to be settled. The Teesta waters treaty negotiated in 2011 remains in a limbo,” said the Indian Express. Both India and Bangladesh are trying to elevate their importance in the eyes of China.
Before going to China, PM Modi opened an account at Chinese parallel social media network WEIBO but he failed to attract Chinese. Chinese established Weibo at 14th August 2009 and now more than 505 million people are using it including Europeans and Americans. When Modi returned from China, he knew what he lost yet like a over smart politician he tried to play the gallery as usual.  In the first step his external affair minister infamous shusma suraj diverted media toward anti Pakistan campaign and showed reluctance on Pak China economic corridor.  In the next step Modi toured 34 hour visit to Bangladesh but large number of people in and outside India are reluctant to appreciate these efforts. Interestingly, during these days BBC published two pro-islamist stories based on anti China campaign. Their criticism on rise of religious extremism proved selective.

Interestingly Indian intellectuals remained busy in promoting need og regional business in combating conflicts but in Chinese case they forgot that logic. Read and understand 

Read full story

یوں لگتا ہے کہ مئی میں کئے جانے والے نریندر مودی کے دورۂ چین سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے پر بھارتی وزیرخارجہ نے خبروں کا رخ ’’پاکستان دشمنی‘‘ کی طرف موڑ کر رانجھا راضی کرنے کی ایک اور ناکام کوشش کی ہے۔ عرف عام میں اصل خبر سے توجہ ہٹانے کے عمل کو جدید دنیا میں میڈیا ہینڈلنگ کہتے ہیں مگر اس کے پاک بھارت تعلقات پر کیا اثرات پڑ رہے ہیں اسے فی الوقت بی جے پی والے خاطر میں نہیں لانا چاہتے۔ - 

گجراتی وزیراعظم کو بھی سماجی رابطہ کے اس پلیٹ فارم کی خبر ہو گی کہ انہوں نے Weibo پر قسمت آزمائی کا فیصلہ دورۂ چین سے قبل کیا کہ شاید چینی عوام بادل نہ خواستہ بھارتیوں کو قبولنے پر تیار ہو ہی جائیں۔ مگر سشما سوراج کے بیانات کے بعد لگتا ہے کہ نئی دہلی کی دال بیجنگ میں گل نہیں سکی۔ چین میں تو بھارتی سرکار کسی چمت کار معاہدہ کے منتظر رہے اور ہند چین دوستی میں چینیوں کو آن لائن ویزوں کی رعایت دینے کا اعلان بھی کر ڈالا مگر جواب میں نرے دس ارب ڈالر ہی ہاتھ آئے جو اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی کم ہے۔ سشما نے جو کہا وہ کوئی نئی بات نہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری پر بھارت میں جو تشویش پائی جاتی ہے اس کا اظہار ’’آزاد‘‘ بھارتی اخبارات میں بھی ہوتا رہا ہے۔ چین میں ہونے والے چھوٹے موٹے حادثات پر ٹائمز آف انڈیا بھی صفحہ اول پر خبریں شائع کر کے ’’حاضریاں‘‘ لگواتا رہا۔ مگر پاک چین راہداری پر محض بھارت مضطرب نہیں بلکہ 27 مئی 2015 کو تو بی بی سی نے بھی ’’چین مخالفت‘‘ میں ’’جہادیوں‘‘ تک کی حمایت سے بھی گریز نہ برتا۔ “Crack Hard” کے عنوان سے جاری کردہ خبر میں سنکیانگ بشمول کاشغر کے ’’جہادیوں‘‘ بارے اک تفصیلی خبر شائع کی جو بی بی سی کی ویب سائٹ پر تاحال موجود ہے۔ حیران نہ ہوں، اس خبر میں ’’جہادیوں‘‘ کی حرکتوں بارے تو ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھا گیا ہے البتہ ان پر ہونے والے ریاستی مظالم خوب نمایاں ہیں۔ یوں لندن سے نئی دہلی تک پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف جو واویلا برپا کیا جا رہا ہے اسے سمجھنا اتنا مشکل بھی نہیں۔ -

بھارتی سرکار نے پاک چین راہداری پر جو ’’سرکاری‘‘ اعتراض کیا وہ بھی باکمال ہے۔ کہتے ہیں کہ کیونکہ یہ راہداری کشمیر کے ’’متنازعہ علاقہ‘‘ سے ہو کر گذرتی ہے اس لیے یہ سفارتی تعلقات کی زبردست خلاف ورزی ہے۔ سب حیران ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ کے تحت بننے والا تربیلا ڈیم بھی تو یہیں بنا تھا۔ اس وقت تو بھارت نے اعتراض نہیں اٹھایا تھا؟ یہی نہیں بلکہ بگلیہار ڈیم کا منصوبہ بھی تو بھارتی سرکار نے متنازعہ جموں و کشمیر کے ضلع ’’ڈوڈا‘‘ میں بنایا ہے؟ پھر پاک چین راہداری پر کیے جانے والے ’’سرکاری اعتراض‘‘ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ دریائے چناب پر بنائے جانے والے اس متنازعہ ڈیم پر 1999 سے کام جاری ہے۔ اسے کہتے ہیں چت بھی اپنا اور پٹ بھی اپنا۔ یہی وہ پالیسی ہے جو آل انڈیا کانگرس کو بھی لے ڈوبی تھی اور یہی اب بھارت کا سوا ستیاناس کرنے میں معاون رہے گی۔ بھارتی دانشور تو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ کشمیر کے متنازعہ مسئلہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہمیں خطہ میں کاروبار بڑھانا چاہیے کہ یوں تنازعات بھی کل کلاں حل ہو جائیں گے۔ کاروبار چلے گا تو خطہ میں امن کی حمایت کرنے والوں میں اضافہ ہو گا اور پھر پاکستان اور بھارت کی ریاستیں بھی تعلقات کو بہتر کرنے میں زیادہ دلچسپیاں لیں گی۔ کسی حد تک اس بات میں وزن بھی ہے۔ یہ بات جتنی پاک بھارت تعلقات کے حوالہ سے درست ہے اتنی ہی پاک بھارت چین تعلقات میں بھی بامعنی حیثیت کی حامل ہے۔ مگر پاک چین راہداری پر بھارتی دانشور اپنی ہی اختراع کی گئی منطق یکدم بھول گئے۔ بھارتی اعلیٰ اذہان کے انہی رویوں اور سیاسی چالاکیوں نے اسے جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں متنازعہ بنا کر رکھا ہوا ہے۔ قدیمی سلک روٹ کی بحالی کس کس کو کھلتی ہے یہ بات اب پاکستانیوں کو سمجھ آنے لگی ہے۔ اگر یہی بات افغانستان، ایران اور بھارت کے اعلیٰ اذہان کو بھی سمجھ آ جائے تو سب رل مل کر خطہ کی ترقی میں معاونت کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے معاملہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعہ پاک چین راہداری کے حوالہ سے اندرونی اختلافات پر تیل ڈالے کی بجائے سیاسی تصفیہہ کر لیا۔پاکستان کی سیاسی قیادت نے بالغ نظری سے گذشتہ چند سالوں میں جو فیصلے کیے ہیں وہ نہ صرف قابل قدر ہیں بلکہ دور رس نتائج کے حامل ہیں۔ اگر پاکستان میں کوئی ڈکٹیٹر ہوتاتو پاک چین راہداری کا مسئلہ بھی کالا باغ ڈیم کی طرح متنازعہ ہو جاتا۔ کیونکہ آمر سیاسی ماحول میں تلخیاں پیدا کر کے آئے ہوتے ہیں اس لیے وہ اپنے پیدائشی نقص کی وجہ سے قومی تصفیہہ پیدا کرنے سے قاصر ہی رہتے ہیں۔ ’’پاک چین اقتصادی راہداری‘‘ کے خلاف بیانات دینے والی مودی سرکار ایک طرف تو کشمیر کا سپیشل سٹیٹس ختم کر کے یہ اقرار کر رہی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا جتنا حصہ بھارت کے پاس ہے وہ اس کا اور جتنا کشمیر پاکستان کے پاس ہے وہ اس کا ہوا۔ مگر دوسری طرف وہ یہ راگ الاپ رہی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری متنازعہ علاقہ سے گذر رہی ہے۔ اس قدر کھلے اور ننگے تضادات کے باوجود بھی اگر پاکستان میں بھارتی اعلیٰ اذہان کے گن گانے والے گمراہ کن اداریے لکھیں تو اسے بھارتی حمایت کی بجائے لندنی کرامات کا کرشمہ ہی سمجھنا چاہیے۔ مودی سرکار کا دہرا معیار بھارت کو تنہائی کی طرف دھکیلنے کا سبب تو بن سکتا ہے، جنگی جنون کو بھی بڑھاوا دے سکتا ہے مگر اس جنونی ماحول کو بڑھانے سے بھارت کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=11780#sthash.ymGcOlGR.dpuf

For Further Readings click & read
http://punjabpunch.blogspot.com/2015/06/burma-fall-out-of-proxy-war-fought.html

No comments:

Post a Comment

May Day 2024, Bounded Labor & new ways of the struggle

  May  Day 2024  Bounded Labor & new ways of the struggle  In the South Asia, thanks to Brahminical legacy dipped in colonialism sociali...