Saturday, June 13, 2015

Democratic Transition &JC:Will we observe burial of Theory of Necessity? A test Case


Democratic Transition & Judicial Commission

Will we observe burial of

Theory of Necessity?

A test Case

Failures in holding transparent local bodies’ poll in KhyberPK once again exposed capacities of PTI. Their first failure was recorded in Intra-Party elections held before 2013 general elections. Justice Wajihudin report is enough to believe on it. If one cannot understand electioneering process then its voice regarding rigging becomes more pathetic and that happened with PTI. However, it does not prevent us to stop election reform process.
Till today, PTI failed to produce any proof regarding organized rigging in 2013 elections. Practically speaking, Imran Khan has withdrawn from his claims in which he accused Chief Justice Ch Iftiqar, Geo/Jang group, Justice Kyani, PML Nawaz and Najam Sethi and called them conspirators. In this situation court is hearing the case day by day. A 32 member parliamentary committee is also working on the issue of election reforms. Court can use this opportunity and can give advice to the committee keeping in view constitutional history of Pakistan. What court can do? What court should remember? What court should avoid? Whom court can advise are the questions discussed in this article


Click , Read and unlearn


خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کی خٹک سرکار کی زیر نگرانی ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جو بدنظمی مار دھاڑ اور دھاندلیاں دیکھی گئیں ان کے بعد جمہوریت اورانتخابی اصلاحات کا سوال اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ دوسری بار ہے کہ تحریک انصاف نے انتخابات کے حوالہ سے اپنی نااہلی کاشافی ثبوت مہیا کیا ہے۔ 2013کے انتخابات سے قبل اپنی ہی پارٹی کے انتخابات میں بھی تحریک انصاف کے اعلیٰ اذہان دھاندلیاں روکنے میں بری طرح ناکام نظر آئے تھے اور اب اپنی ہی صوبائی حکومت کے تحت ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو شفاف بنانے میں ناکام رہے۔ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ خود کو منفرد اور عقل کل سمجھنے والی تحریک انصاف اپنی نہ تجربہ کاری کوتسلیم کرتے ہوئے تجربہ کار سیاسی جماعتوں اور عدلیہ کے ساتھ مل کر انتخابی اصلاحات کو یقینی بنانے پر کمربستہ ہو۔ شفاف انتخابات کا رستہ بذریعہ قانون کی حکمرانی، عدلیہ کے ویہڑے سے گذر کر جائے گا۔ کیا وقت آنہیں گیا کہ عدلیہ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت، منتخب وزیراعظم کے عدالتی قتل اور ایل ایف او کے ذریعہ آمروں کو حق اقتدار بخشنے جیسے غلط فیصلوں کی روایت کو تج ڈالے اور پہلے جمہوری تسلسل کی ناؤ کو بھنور میں پھنسنے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے؟ یقیناًیہ سوال اعلیٰ عدلیہ کے معزز ججوں کے روبرو ہوگا۔ ملک پاکستان میں آئینی جدوجہد اور عدالتی انصاف کی تاریخ اتنی بھی بری نہیں البتہ چند اہم فیصلوں نے عدالتوں بارے سوالیہ نشان ضرور پیدا کر رکھے ہیں۔ درمیانی رستہ پر عمل کرتے ہوئے اگر عدلیہ نے سیاسی سرنگ کے دوسرے کنارے پر موجود جمہوری تسلسل کی لائٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے انتخابی اصلاحات کے رستہ پر قوم کو ڈال دیا تو پرانے زخم ٹھیک ہونے لگیں گے۔ پاکستان کی 67 سالہ آئینی و جمہوری جدوجہد پر نظر دوڑائی جائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ماضی میں عدالتیں غلط اور صحیح دونوں طرح ہی کے فیصلے کرتی رہی ہیں البتہ عدالتوں کے قابل قدر فیصلوں کو سراہنے میں بخیلی کی روایت بوجوہ برقرار رہی ہے۔ پاکستان کے آئینی ماہرین بالخصوص سیاستدان اور وکلاء نے1950میں آئین پاکستان کا پہلا مسودہ بنا ڈالا تھا۔ اسی آئینی مسودہ میں اقلیتوں بارے مفصل رپورٹ بھی شامل تھی۔ قرارداد مقاصد کو آئین کے دیباچہ تک محدود رکھنے کے ’’غلام محمدی‘‘ سمجھوتہ کی وجہ سے مذہب کو سیاست میں استعمال نہ کرنے کی ترکیب بھی ڈھونڈ لی گئی تھی۔ اس ترکیب کو 1956اور1973کے دساتیر میں مقدم رکھا مگر ضیاالحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعہ اسی سمجھوتہ کو ختم کرتے ہوئے آئین کی روح کو مسخ کردیا۔ یہی وہ راستہ تھا جس کے بطن سے 63,62 جیسی متنازعہ شقیں آئین میں ڈال کر خود آئین پاکستان کو تمسخر بنا دیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ1950ہی میں بلوچستان کو الگ صوبہ بنانے کی کمیٹی بھی کام کررہی تھی۔ مگر ہوس اقتدارکی لڑائی غالب آئی کہ سوال ملٹری بیوروکریسی منتخب سیاسی قیادت کو فیصلہ سازیوں میں شامل کرنے کے حوالہ سے تحفظات رکھتی تھی۔ آئین بنانے اور آئین کے مطابق وفاقی سطح پر انتخابات کروانے کی بجائے مارچ1951سے صوبائی انتخابات کا سلسلہ شروع کردیا جسے بیوروکریسی کی باکمال چال سے تعبیر کرنا غلط نہ ہوگا۔ مارچ1951میں پنجاب میں صوبائی انتخابات کرواتے ہوئے بیوروکریسی نے جمہوری عمل میں مداخلتوں کا آغاز کیا۔ بیوروکریسی کا دکھایا یہی وہ غیر جمہوری رستہ ہے جسے بعدازاں آنے والے چاروں آمروں نے اپنایا ۔ یوں انتخابات کو چوری کرنے کی روایت ڈال دی گئی۔ یوں 1950 کی دہائی سے جمہوری عمل میں مداخلتوں کی جو روایات شروع کی گئیں وہ چند جمہوری وقفوں کے باوجودآج بھی جاری ہیں۔ گو2008سے جو جمہوری وقفہ شروع ہوا وہ تاحال7سال سے جاری ہے مگر ان 7سالوں میں کون سا سال سکون سے گذرا ہے یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس سب کے باوجود سیاستدانوں نے نہ صرف ترامیم کے ذریعہ آئین کا حلیہ درست کیا بلکہ انتخابی اصلاحات بھی کیں۔ اس میں عدلیہ نے بھی حکومت کا ساتھ دیا اور کبھی تلخ، کبھی شیریں حالات برابر بہتری کی طرف گامزن رہے۔ پاکستان میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالہ سے پہلا کمیشن1954میں بنایا گیا تھا اور اس کمیشن کے سربراہ پاکستان کے پہلے چیف جسٹس (ر) میاں سرعبدالرشید تھے۔ کمیشن کی مفصل رپورٹ پر 1956کی اسمبلی میں بحث بھی کی گئی تھی تاہم جنرل ایوب خاں نے اسی رپورٹ پر ’’عسکری ٹیگ ‘‘ لگاکر اپنے کھاتے ڈال لیا تھا۔ وہ خود کو لبرل جرنیل کہلانا چاہتے تھے اور اس تاثر سے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے میاں عبدالرشید کی رپورٹ کو بغیر حوالہ کے ورتا گیا۔ عدلیہ کا دوسرا بڑا کارنامہ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ تھی جو39سے زائدبکسوں میں تاحال سرد خانوں کی نذر ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب حمودالرحمن کی سربراہی میں تیار کی گئی یہ رپورٹ 1947 سے 1971 کے حالات کے مفصل جائزہ کے لیے ضبطِ تحریر میں لائی گئی تھی۔ جب جج صاحب کی اس رپورٹ کو منظر عام پر نہیں آنے دیا گیا تو اس کی سفارشات پر عمل کس نے کرنا تھا۔ بھٹو صاحب پر جب رپورٹ کو منظر عام پر نہ لانے کے حوالہ سے دباؤ بڑھایا گیا تو انھوں نے مشہور تاریخ دان کے کے عزیز کو مکمل رپورٹ پڑھ کر کتاب لکھنے کی تجویز دی۔جہاندیدہ کے کے عزیز نے ایک سال کی محنت کے بعد کتاب تو لکھ دی مگر وزارت داخلہ اور بعدازاں قدرت اللہ شہاب جیسوں نے یہ کتاب بھی دبا دی۔ یہ دونوں رپورٹیں عدلیہ کے شاندار کارناموں میں نمایاں مقام کی حامل رہیں گی۔ جن درجن سے زائد جج صاحبان بشمول چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی نے 12 اکتوبر 1999 کے بعد جنرل مشرف سے حلف لینے کی بجائے پرکشش نوکریاں چھوڑ دیں تھیں انہیں بھی ہم یاد نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ وہی جج تھے جنھوں نے اس ملک میں بار و بنچ کی مزاحمت کی بنیاد رکھی تھی۔ ان میں سپریم کورٹ کے 6جج صاحبان بھی شامل تھے مگر آج تک پارلیمنٹ نے انہیں مدعو نہیں کیا۔ سول سوسائٹی والے بھی ان کے نام بھول چکے ہیں حلانکہ جج صاحبان کا یہ طرز عمل خالصتاً جمہوریت اور جمہوری روایات کا نقیب تھا۔ - 

ان کے بعد حلف اٹھانے والے جج صاحبان نے نہ صرف مشرف کے غیر آئینی اقدام کو قانونی تحفظ دیا بلکہ ریفرنڈم کو بھی جائز کہا۔ انہی میں چوہدی افتخار بھی شامل تھے مگر انھیں بطور چیف جسٹس جنرل مشرف نے رخصت کرنا چاہا تو ان کے ’’انکار‘‘نے پاکستان کی جمہوری تاریخ میں اک نئے باب کا اضافہ کر ڈالا۔ اس نئے باب کے مثبت،منفی دونوں پہلو تھے مگر بالعموم اس تحریک نے جنرل مشرف کو زچ کرڈالا۔ 12مئی اور لال مسجد جیسے واقعات اک ہار چکے جرنیل کی ’’عزت سادات‘‘ بچانے کی آخری ناکام کاوشیں تھیں۔ جن کی وجہ سے معاملات ٹھیک ہونے کی بجائے مزید خراب ہوتے چلے گئے۔ خودبہت سے سینئر فوجی مشرف کے اقدامات کے حق میں نہیں تھے۔ سونے پرسہاگہ خود ایمرجنسی لگاکر مشرف نے چڑھایا اور60کے قریب جج صاحبان کو چلتا کردیا۔ ججوں اور چیف کی بحالی کی تحریک تو کامیاب ہوگئی مگر اب کچھ نئے سوالات کا سامنا بھی تھا - 
اب پارلیمان کی بالادستی کی بجائے آئین کی بالادستی کی بات ہونے لگی جو پرانی شراب کو نئی بوتل میں پیش کرنے کے مترادف ہے۔ چوہدری افتخار اور وکلاء تحریک کے جن رہنماؤں نے پروفیشنل ازم کو چھوڑ کر سیاست کا رخ کیاوہ دونوں طرف متنازعہ ہوتے گئے۔ قومی اسمبلی کے موجودہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے حزب اختلاف کے رہنما خورشید شاہ نے یاد دلایا کہ ہر ادارے کو پارلیمان کی بالادستی کے جمہوری اصول کو مقدم رکھنا چاہیے۔1951سے ہم آج تک یہ بحث نبیڑ نہیں سکے کہ پارلیمان ہی جمہوریت کا مقتدر ترین فورم ہے۔ مگر اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ دیگر اہم قومی اداروں کو اپنے متعلقہ امور میں آزادیاں حاصل نہیں ہوگی۔ دنیا بھر میں ان دونوں باتوں میں کوئی تکرار نہیں مگر ہمارے ہاں غیر منتخب اشرافیہ اکثر اس کو متنازعہ بنالیتی ہے۔ اب انتخابی اصلاحات کاکام تو پارلیمان ہی نے کرنا تھا اور وہاں اک کمیٹی بنی ہے مگر عمران خان کے اصرار پر عدالتوں کو بطور سہولت کار کردار ادا کرنے کو کہا گیا۔ منظم دھاندلیوں کے حوالہ سے شور تو بہت تھا،میڈیا نے بھی بہت رولا ڈالا تھا مگر منظم دھاندلیوں کے ثبوت تو تاحال نہیں ملے البتہ انتخابی اصلاحات پر سب متفق ہیں۔ بال عدالت کے ’’کورٹ‘‘ میں ہے اور سب کی نظریں جوڈیشل کمیشن پر برابر ٹکی ہیں۔ اس فیصلہ سے جسٹس منیر، بھٹو کے عدالتی قتل یا آمروں کے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ دینے والے فیصلوں کی یاد تازہ ہوگی یا پھر جمہوری تسلسل کو بڑھاوا ملے گا؟یہی ہے وہ سوال جو پاکستان کے جمہوری مستقبل کی ضمانت بنے گا۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=11924#sthash.be0xtRsa.dpuf

No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...