Saturday, June 27, 2015

Karachi Heat Wave: Misusing the Issue of Disaster in Power Politics is a bad taste

Misusing the Issue of Disaster

in Power Politics is a bad taste


All power players used Karachi heat wave issue extensively and no one including supper media did not ready to listen what Met department or NDMA said. This is an example of over politicization of institutions that runs Pakistan. Instead of handling natural disaster a tug of war broke between various powerful institutions, provincial as well as federal government and political parties. During last 11 years Pakistan has to face numerous natural and manmade disasters and in response Government of Pakistan has established NDMA with headquarter in PM house but due to numerous illicit businesses NDMA is still inactive. The businesses of relief and reconstruction are still big hindrances’ in transforming NDMA a vibrant and effective institution. In recent months after Thar (Sindh), Peshawar (KPK) killings by heat wave in the capital of Sindh,Karachi is third incident. In both incidents media failed to pinpoint role of NDMA but tried to target provincial political elected governments. In past we have enough examples of misusing natural disaster in power politics. The worst example is 1970 storm in former East Pakistan, a few months before national elections. That was a triumph card of Mujib but we still failed to learn lessons from that. Since 2000, numerous international reports are pinpointing climate change especially with reference of South Asia yet we are not ready to address it. Read and unlearn




Complete Articles

Extract
آفات کے مسئلہ پر ہر کوئی سیاست کررہا ہے کہ کراچی کی حالیہ ہلاکتوں پر ردعمل اس کی تازہ ترین مثال ہے ۔ مقتدر ریاستی ادارے، صوبائی و وفاقی حکومتیں، سیاسی جماعتیں، میڈیا اور سول سوسائٹی کوئی بھی اس سے مبّرا نہیں۔ بین الاقوامی امدادی اداروں سے محض ڈالر کی خاطر آفات سے نمٹنے کے لیے این ڈی ایم اے نامی وفاقی ادارہ تو بنایا جاچکا ہے مگر اس کو تگڑا کرنے کی بصیرت موجود ہی نہیں۔ ’’حصول ڈالر‘‘ کے لیے نئے نئے ادارے بنانا ہمارا محبوب مشغلہ ہے کہ جب احساس دلایا جائے تو’’قومی غیرت‘‘ دڑ وَٹ لیتی ہے۔ کم از کم این ڈی ایم اے کو دیکھ کر اس بات کی صداقت ثابت ہو جاتی ہے۔ قدرتی آفات کا’’ جن‘‘ہر چند ماہ بعد اک نیا بہروپ بنا کر کبھی کشمیر، گلگت بلتستان میں وارد ہوتا ہے تو کبھی چاروں صوبوں میں سے کسی ایک یا دو صوبوں میں اس کی ہولناک شبیہہ نظر آتی ہے۔ مسئلہ تو ایک ہے مگر اس کا اظہار مختلف صورتوں میں ہوتا رہتا ہے۔ خشک سالی، زلزلے، سیلاب، طوفانی بارشیں، ضرورت سے زیادہ گرمی یا سردی دھنداور موسمیاتی تبدیلیاں درحقیقت قدرتی آفات کی وہ صورتیں ہیں جن بارے پاکستان کے حوالہ سے سیرحاصل تحقیق بھی موجود ہے مگر پرنالہ وہیں کا وہیں ہے ۔ بحیثیت مجموعی اشرافیہ اور خصوصی طور پر میڈیا نے قسم کھا رکھی ہے کہ کتا کنوئیں میں پڑا رہے اور کنوئیں سے نکلنے والے پانی پر دم کرکے استعمال کرتے رہیں۔ جب تک کتا کنویں میں رہے گا اس وقت تک ہم آئے دن انتشار پسند میڈیا کے ہاتھوں میں کھیلتے رہیں گے۔ کہیں آگ لگ جاتی ہے تو کہیں قحط آجاتا ہے، خشک سالی کسی علاقہ کو کھا جاتی ہے تو کبھی زلزلہ یا طوفانی بارشیں گھر وں کے گھراجاڑدیتی ہیں۔ قدرتی آفات کا اک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو وقفہ وقفہ سے تسلسل کے ساتھ سامنے آ رہا ہے اور اس کا براہِ راست تعلق بدلتے ہوئے موسموں سے ہے۔ حالیہ دنوں میں کراچی میں گرمی کی لہر سے جو ہلاکتیں ہوئیں وہ اسی تسلسل کا حصّہ ہے۔ قدرتی آفات کو اگر روکنا ناممکن بھی ہے تو ایسا بندوبست تو کیا جاسکتا ہے کہ ان آفات کا پہلے سے علم ہوجائے۔ جاپان، جرمنی، امریکہ سمیت کئی ممالک میں ایسے بندوبست موجود ہیں اور کامیابیوں سے چل بھی رہے ہیں۔ اگرآپ کو آفت آنے سے چند گھنٹے پہلے بھی پتہ چل جائے اور آپ کے پاس ہنگامی حالات سے نمٹنے کا سامان ہوتو لاتعداد جانیں بھی بچائی جاسکتی ہیں اور مال کے نقصان سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ موجودہ بنگلہ دیش کے پانچ اضلاع میں مشرقی پاکستان کے وقت بھی طوفان بادو باراں سے تباہی آتی تھی۔ 1970 میں ان اضلاع میں انتخابات سے چند ماہ قبل ایسے ہی طوفان سے وہ تباہی آئی تھی کہ الحفیظ الامان۔ ا س تباہی پر شیخ مجیب الرحمن نے خوب سیاست کھیلی تھی اوراس کومغربی پاکستان کے خلاف اپنی انتخابی مہم میں بخوبی استعمال کیا تھا۔ مجیب کی لینڈ سلائیڈفتح میں اس طوفان کا بڑا کردار تھا۔ بنگال کے مقبول رہنما مولانا بھاشانی اس سازش کو بروقت بھانپ گئے تھے مگر جزل یحی خان کو مشورہ دیا گیا تھا کہ مجیب کی فتح سے جو منقسم منڈیٹ مشرقی و مغربی پاکستان میں آئے گا اس کا سیاسی فائدہ آپ کو ہوگا اور آپ باآسانی مستقبل کے صدر بن جائیں گے۔اس سیاست کی کوکھ سے بنگلہ دیش برآمد ہوا کہ جس کا ایک حوالہ قدرتی آفات پر سیاست تھا۔البتہ قیام بنگلہ دیش کے بعد آفات سے نمٹنے والے بین الاقوامی اداروں کی مدد سے مرحلہ وار ایسا بندوبست بنادیا گیا ہے کہآج کئی سالوں سے طوفان آنے سے جانی و مالی نقصان انتہائی کم ہوتا ہے۔ اس نئے بندوبست میں کلیدی حیثیت’’ پہلے سے کی گئی تیاریوں کو حاصل ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا بندوبست بنایا جاسکتا تھا ۔ مگر ہم آفت آنے کے بعد سوچتے ہیں؟ اب ذرا کراچی کی مثال ہی لے لیں۔ ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں بنانے والوں نے کراچی میں گرمی کی شدت سے بچنے کا علاج مصنوعی بارش کو قرار دے کر جان چھڑانے کی ٹھان لی ہے۔ پچھلے دنوں جب پشاور میں طوفانی بارشوں نے گھروں کو اجاڑ دیا تھا تو موسمیاتی رپورٹنگ کرنے والی ریحام خان یعنی بیگم عمران خان نے کہا تھا کہ جب آپ کے پاس آفات سے نمٹنے کا کوئی موثر بندوبست ہی نہیں تو پھر یہ دن تو دیکھنے ہی تھے۔ مگر خٹکی نقارخانے میں ریحام کی آواز کس نے سننی تھی؟ اب حزب اختلاف کراچی میں ہلاکتوں پر اکٹھی تو ہوگئی ہے مگر تاحال اس اتحاد میں کتے کی لاش کو کنوئیں سے نکالنے کی بصیرت مفقود ہے۔جب تک قدرتی وانسانی آفات سے نمٹنے کا موثر بندوبست وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح پر نہیں ہوگا اور ایک ہی مسئلہ پر مختلف محکمے اپنے اپنے انداز میں کام کرتے رہیں گے تو بھلا قدرتی آفات کے’’جن‘‘کو اور کیا چاہیے؟ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=12272#sthash.sHn5mmAt.dpuf


No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...