Let us meet New traitors?
Is the story genuine this time?
In a short history of 67 years we have produced
a huge number of traitors. If someone makes a list he must have to read
thousands of files and papers. If anyone asks to know about the Protectors of
those traitors then he will face difficulties and this is the No-go area even
for so-called independent media.
In a situation where crime is mixed with
politics merely Order & Power cannot resolve the riddles and in final analysis
Order & Power itself loses its credibility. Its better if we stop playing
on this issue but for this we have to leave old practices of using traitors in
power tussle.
Husain Shaheed Suharawardy was the first “traitor”
and it was Liaqat Ali Khan who called him Indian agent at the floor of the
house two week before passing of controversial Objective Resolution in March
1949 while the speaker Moulvi Tameezudin Khan did not delete it from the assembly
proceedings. After 7 years same Suhrawardy was PM. The case remained same for
numerous traitors who got key positions after some year in Pakistan. Dr khan
Sahib, Iftiqar Mamdoot, Faiz Ahmad Faiz, General Akbar Khan, begum Nasim Akbar
(paternal grand daughter of a man who selected the name of the founding party
of Pakistan i-e Muslim League ), Molana Mududdi, Z A Bhutto, Benazier Bhutto,
Abdul Malak, Nawaz Sharief and Asif Zardari.
Playing with the Highest Crime against the
state is really a bad taste and it needs a shut up call. Our independent media
is also following the state in this regard. Although media is too victim of
this bad politics but journalist bodies are still reluctant to address the
issue. Now read the story in depth your self
بھارت سے رقمیں لینے کے الزامات اور’’ میرومرچنٹ ‘‘کے مبینہ بیانات کے بعد پاکستان کی مختصرتاریخ میں ’’ایک اور غدار‘‘ کا اضافہ ہونے کو ہے ۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس ’’نئے غدار‘‘ پر الزامات درست لگائے گئے ہیں اور ثبوت بھی ضرورت سے زیادہ ہیں تب بھی ’’غدار‘‘ قرار دیے جانے کا تاریخی ماضی اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے۔ اگر کوئی مائی کا لال’’غداروں‘‘ کی فہرست بنائے تو اس میں صفحوں کے صفحے کالے کرنے پڑیں گے۔ البتہ اگر کوئی ’’غداروں ‘‘ کے محافظوں ‘‘ کی لسٹ بھی بطور ضمیمہ نتھی کرنا چاہے تو پھر ہرطرف بلیک آؤٹ ہو جائے گا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے آگے بڑھنے سے آزاد میڈیا کے ’’پر‘‘ بھی جلنے لگتے ہیں۔ -
کیا کسی بھی ’’غدار‘‘ کو اس کے محافظوں سے الگ کر کے دیکھا جاسکتا ہے ؟ جہاں جرم و سیاست رَل مل جائیں وہاں محض طاقت کا استعمال اور حکم ناکافی ہو جاتے ہیں۔ کسی سیاسی تصفیہہ کے بغیر کی جانے والی کارروائیوں کے نتیجہ میں حکم اور رعب اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ ہے وہ سوال جس پر ہم سب کو غور کرنا چاہیے۔ خان عبدالغفار خان اور ان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب، حسین شہیدسہروردی، اے کے فضل حق، جی ایم سید، عبدالصمداچکزئی اور ان کے بیٹے محمود خان اچکزئی، میاں افتخارالدین، افتخار حسین ممدوٹ، فیض احمد فیض، جنرل اکبر خان اور ان کی بیگم (مسلم لیگ کا نام تجویز کرنے والے میاں محمد شفیع کی نواسی)، اکبر بگٹی، ولی خان، قسورگردیزی، حبیب جالب، غوث بخش بزنجو، شہید ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی باہمت صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف زرداری، موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ اور موجودہ وزیراعظم میاں نوازشریف سمیت ایک طویل فہرست بنائی جاسکتی ہے جن پر کسی دَور میں غداریوں کے الزامات لگے تو پھر انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر بھی بٹھا دیا گیا۔ 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی آف ویسٹ پاکستان پر امریکہ کو خوش کرنے کے لیے بغیر کسی عدالتی کاروائی کے پابندی لگائی گئی تھی کہ اس موقع پر میڈیا اور سیاسی قوتوں نے ’’چپ‘‘ کا روزہ رکھ لیا تھا ۔ بعدازاں اس پارٹی کے لوگ نیشنل عوامی پارٹی میں نمودار ہو گئے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی پر پابندی پر ردعمل نہ ہوا تو اس سے حوصلہ پا کر 1959 میں جنرل ایوب نے تمام سیاسی پارٹیوں ہی کو بین کرڈالا تھا۔ ایک مقدمہ ایسا بھی تھا جب بھٹو صاحب کے دَور میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حمودالرحمن نے عدالتی کارروائی کے بعد نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی تھی ۔ کچھ مہینوں کے بعد اس پارٹی کے رہنما نئے نام سے دوبارہ سیاسی منظر نامہ پر نمودار ہوگئے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کسی بھی جماعت پر پابندی لگانے یا کالعدم قرار دینے کے حوالہ سے قوانین میں کیا سقم موجود ہیں؟ کیا پابندی لگانے سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟ یا یہ ایک ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ہی ہے۔ نیپ کے’’غداروں‘‘ کو جنرل ضیاالحق نے کیسے استعمال کیا اس کی دنیا گواہ ہے ۔ یہ درست ہے کہ ان میں ایسے ’’غدار‘‘ بھی شامل تھے جن پر بجا طور پر افغانستان، عراق اور بھارت سے رابطوں یا مراعات لینے کے الزامات تھے ۔ مگرحقیقت یہ بھی ہے کہ ان پر الزامات لگانے، عدالتوں میں مقدمے چلانے اور انہیں مارشل لاء لگنے کے بعد رہا کرنے جیسے فیصلے سیاسی مصلحتوں اور سول، ملٹری بیورکریسی میں موجود ’’ہمدرد نما وَیریوں‘‘سے مشاورت سے کیے جاتے تھے۔ ایک دن ڈاکٹر خان صاحب غدار ٹھہرے توپھر سکندر وایوب گٹھ جوڑ کی وجہ سے وہی ڈاکٹر صاحب پورے مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کے وزیراعلیٰ بنا دیئے گئے۔ لیاقت علی خان، مولوی تمیزالدین اور ان کے ساتھیوں نے حسین شہید سہروردی کو قراردادِ مقاصد منظور کروانے سے دو ہفتے قبل اسمبلی میں بھارتی ایجنٹ کہا تو پھر وہ وقت بھی آیا جب وہی سہروردی وزیر اعظم پاکستان بنادئیے گئے۔آصف زرداری اور میاں نوازشریف کی مثالیں بھی خوب ہیں کہ دونوں بعدازں صدر اور وزیراعظم بنے۔ وہی میاں افتخارالدین جنہوں نے قائد اعظم کی ہدایت پر پاکستان ٹائمز نکالا تھا ان کے اخباروں پر ایوبی دَور میں قبضہ کر لیا گیا۔ اکبر بگٹی تو کل کی مثال ہیں جو گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان رہے مگر انہیں غدار قرار دے ڈالا گیا۔ وہی ایم کیو ایم جسے پیدائش سے قبل ہی اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھاؤں مل چکی تھی اور جنرل ضیا، جنرل ا سلم بیگ اور جنرل مشرف نے اس کی حفاظت کی اب بھارت سے رقمیں لینے کے الزامات بھگت رہی ہے ۔ کیا ایم کیو ایم سے وہی کا م لیا جانا مقصود ہے جو بھٹو کے آخری دَور میں ولی خان سے لیا گیا تھا؟ - -
No comments:
Post a Comment