Tuesday, July 28, 2015

Post US-Iran deal Politics and Pakistan


Post US-Iran Politics and Pakistan


Pakistan is a victim of sectarian wars started from 1978 in which Saudi Arabia and Iran exported their ideologies along with huge funding. In many ways success of this deal depend on future role of Iran where orthodox mullahs are on back benches these days. Will trade revive in Pak Afghan Iran region? Is still a big question

Projects stared in late 1960s based on regional tensions are near to end and that is why guardians of war industry and Cold war are nervous. After Suez Canal issue, Israel is unhappy first time. During the French campaign in Egypt and Syria in late 1798, Napoleon showed an interest in finding the remnants of an ancient waterway passage, Suez Canal and from that day the route became strategically important in world affairs.  The Suez Crisis, known in the Arab World as the "Tripartite Aggression", in which the UK, France, and Israel invaded Egypt. U.S. President Dwight D. Eisenhower had strongly warned Britain not to invade; he now threatened serious damage to the British financial system. The warning worked and Israel had to withdraw immediately. This time Israel is again unhappy and it may have old partners in arms too. But question is future of US-Iran deal and its impact on the region. Both China and US has entered in 21st century from two different doors yet on the issue of extremism and terrorism both were on same page. 9/11 challenge compelled US to leave old policy of using religion yet China coined a vision to combat extremism and terrorism with trade and businesses. US-Iran deal is part of Chinese solution and after neutralizing Iraq, Afghanistan, Burma and Cuba now Obama is well prepared to own this policy. In order to combat with guardians of war industry Obama threatens to use veto power in favor of the deal. 
Read the story


http://issuu.com/hum_shehri/docs/27.07.2015/51?e=12088494/14400656



1970 کی دہائی کے آخری سالوں سے ایران، افغانستان اور پاکستان میں جن طوفانوں نے جنم لیا تھا وہ مار دھاڑ، قتلام، مذہبی جنون اور فرقہ واریت پھیلا کر آج اپنے اپنے منطقی انجام تک جا پہنچے ہیں۔ اگر آپ اس پر متفق نہیں ہیں کہ حالیہ امریکہ ایران معاہدہ میں کون جیتا اور کون ہارا ،تب بھی آپ اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرا سکتے کہ 1978 سے لے کر 21 ویں صدی کی پہلی دہائی کے درمیان اس خطہ نے انسانیت کے قتلام کے ایسے مظاہر دیکھے ہیں جنہوں نے ان تینوں ممالک کی معاشرت پر خوفناک اثرات مرتب کیے ہیں۔ افغان معاشرے کی پسپائی، ایرانی معاشرے کی تنہائی اور پاکستانی معاشرے کی تباہی کے ذمہ دار یہ ساڑھے تین عشرے تاریخ میں ہمیشہ ’’تاریک ترین دَور‘‘ کے حوالہ سے یاد رکھے جائیں گے۔ فرقوں کی بنیاد پر ایسی جنگیں لڑی گئیں کہ خراسان، اصفہان، قندھار، کابل، پشاور، کوئٹہ، لاہور اور کراچی کے قبرستانوں سے بھی الحفیظ الامان کی صدائیں آنے لگیں۔ فرقہ پرست اسلام کو عروج ملا اور لوٹ مار کرنے والوں کے ہاتھ مالِ غنیمت آیا۔ کم از کم دو نسلیں ان فرقہ وارانہ جنگوں کے دوران جوان ہوئیں کہ ان زخموں کو جانے کتنی برساتیں دھو پائیں گی۔ جو ان جنگوں کو نظریاتی و مذہبی فریضہ سمجھ کر لڑتے رہے ان کی معقول تعداد آج بھی تینوں ممالک میں موجود ہے۔ ان جنگوں کو بڑھاوا دینے میں روس، امریکہ اور یورپ کے اعلیٰ اذہان اور مقتدر پارلیمنٹوں نے کیا کردار ادا کیا اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ کیا آج ہم سب ان گذرے 36 سالوں پر ازسرنو غور کرنے کے لیے تیار ہیں؟ سوال تو یہ ہے کہ اس خطہ کی بربادی کا منصوبہ کس نے، کہاں بنایا تھا؟ کیا جس عوامی جمہوریہ چین کو روکنے کے لیے گذشتہ صدی میںیہ منصوبہ گھڑا گیا تھا وہ اس دن اپنی اہمیت کھو بیٹھا جب چین امریکہ اس خطہ کی سیاست کے حوالہ سے ایک صفحہ پر آ گئے۔ یہ درست ہے کہ چینی دانشور ہمیشہ سے پرانے سلک روٹ کی بحالی کے خواب دیکھتے تھے اور جب پاکستان اور چین نے 1966 میں شاہراہِ ریشم بنانے پر دستخط کیے تو بہت سی طاقتوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ ایران پر ایٹم بم بنانے کا الزام بھی انہی سالوں یعنی 1968میں پہلی دفعہ لگایا گیا کہ جو بدلتے تناظر میں ایران کے ناقابل بھروسہ ہونے کا اشارہ تھا۔ سردار داؤد، شاہ ایران اور ذوالفقار علی بھٹو وہ آخری رکاوٹیں تھیں جن کی موجودگی میں اس خطہ کو بربادیوں کی طرف دھکیلنا مشکل تھا کہ 1978 تک یہ تمام رکاوٹیں ختم کر دی گئیں۔ جن لوگوں کی مدد سے ان فرقہ وارانہ جنگوں کو خطہ بھر میں پھیلایا گیا وہ کوئی ’’باہرلے‘‘ نہ تھے اور ان کے ناموں، کارناموں سے ہم سب واقف ہیں۔ 9/11 کو مذہبی جنونیت کی اس جنگ کی تپش جب امریکہ پہنچی توتب جا کر دنیا کے اعلیٰ اذہان کو اس کی حدت کا اندازہ ہوا۔ یہی وہ سال تھا جب چین نے شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن (SCO) بنا کر اس حدت سے بذریعہ کاروبار و تجارت نمٹنے کا سامان کیا۔ 14 جولائی 2015 کو جب آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایران، یورپ اور امریکی ایک معاہدہ پر دستخط کر رہے تھے تو اس پر ایس سی او کی چھاپ واضح تھی۔ دنیا بھر میں موجود اسلحہ ساز کمپنیوں کے لیے ایران سے جنگ کی بجائے معاہدہ کرنے کے فیصلہ پر بجا طور پر شدید تحفظات ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آج امریکی ایوانوں میں بھی اکثریت رکھتے ہیں۔ اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے امریکہ کے کالے صدر باراک حسین اوبامہ نے بروقت یہ اعلان کر دیا کہ اگر امریکی منتخب ایوانوں نے اس معاہدہ کو روکنے کی کوشش کی تو وہ اسے ’’ویٹو‘‘ کر دیں گے جو بطور صدر ان کا استحقاق ہے۔ حیران نہ ہوں، اسرائیل وہ واحد ملک ہے جس نے اس معاہدہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسلحہ ساز کمپنیوں کی طرفداری کی ہے۔ گذشتہ 70 سالوں میں یہ دوسرا واقعہ ہے جب امریکی صدر اور اسرائیل ایک دوسرے کے متحارب نظر آتے ہیں۔ نہر سویز کے تنازعہ (1956) کے موقع پر بھی جب اسرائیل نے فرانس اور برطانیہ کی ایماء پر مصر کے علاقوں پر قبضہ کیا تھا تو امریکی صدر ڈی ڈی آئزن ہاور نے برطانیہ اور اسرائیل کو کھلی دھمکی دی تھی۔ اس کے نتیجہ میں اسرائیل کو پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ امریکہ ایران معاہدہ اپنے اندر بہت سے اسباق لیے ہوئے ہے۔ اس معاہدے کو چین امریکہ تعلقات کی روشنی میں دیکھنے سے بدلتی سیاست کے پیرائے میں پرکھنے کا موقعہ ملے گا۔ خود ہمارے خطہ کے حوالہ سے تو اس معاہدہ کی اہمیت دیدنی ہے۔ جو ’’جانباز‘‘ تہران، کابل اور اسلام آباد میں عرصہ دراز سے فرقہ وارانہ جنگوں میں پَل کر جوان ہوئے ہیں انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ملکوں اور وطنی ریاستوں کے مفادات کے مقابلے میں نظریاتی و مذہبی توجیہات کی اہمیت ثانوی اور وقتی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ایران، سعودی عرب اور سابقہ روس کو سر پر چڑھانے والے بھی کم نہیں اور امریکہ و برطانیہ کے گن گانے والے بھی بکثرت موجود ہیں۔ مگر وطنی مفادات کے آگے ان کی دال نہیں گل سکتی کہ آخری فیصلے وطنی مفادات کو سامنے رکھ کر ہی کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ نے اپنی کتاب ’’پاکستان و افغانستان‘‘ میں جنیوا معاہدہ کے دنوں کی کہانی لکھی ہے جب پاکستان میں ایسی قوتیں حاوی تھیں جو پاکستان کے جنیوا معاہدہ پر دستخط کرنے کے خلاف تھیں۔ مگر بالآخر نظریات ہار گئے اور وطنی مفادات کی حفاظت کے لیے ریاست پاکستان نے جنیوا معاہدے پر دستخط کیے۔ تاہم اس کے ردعمل کو پاکستان طویل عرصہ تک بھگتتا رہا۔ آج امریکہ ایران معاہدہ بھی اک امتحان سے کم نہیں۔ پہلا امتحان تو امریکی ایوان نمائندگان میں ہوگا کہ جس کے نتیجہ کا پہلے سے اعلان خود باراک اوبامہ نے کر دیا ہے۔ مگر اس کا اصل امتحان خصوصی طور پر ایران اور عمومی طور پر افغانستان اور پاکستان میں ہو گا۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں چین کے زیر سایہ بہتری کا جاری عمل اس معاہدہ کو تقویت دے گا تاوقتیکہ ایران اپنی فرقہ وارانہ ترجیحات کو خارجہ امور میں استعمال کرنے سے باز رہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ مشرف دَور کی طرح اس دفعہ پاکستان پر ’’دہری پالیسی‘‘ کا الزام نہ لگے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان کی اہم ترین پالیسیوں پر پارلیمنٹ میں کھلے عام بحث ہو۔ اگر پاکستان نے بند کمروں میں پالیسیاں بنانے کی روش کو اپنایا تو پھر اسے انہی الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا جو 2001 سے 2007 تک اس پر تواتر سے لگتے رہے۔ یہ درست ہے کہ ایران نے امریکہ کے خلاف بلند و بانگ نعرے بازیاں نہ کی ہوتیں تو آج اس کا یوں مذاق نہ بنتا کہ ملکوں کو پالیسیاں بناتے ہوئے اس وقت کا سوچنا چاہیے کہ جب ان پالیسیوں کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ اگر آپ دو نسلوں کو یہ سکھا چکے ہیں کہ امریکہ ’’شیطان‘‘ ہے تو آج آپ امریکہ کے ساتھ کیے جانے والے معاہدہ پر اپنی عوام کو کیونکر مطمئن کر سکیں گے؟ بھائی برادری کے جن ایرانیوں کو آپ نے غیر مسلم قرار دے کر امریکہ پناہ لینے پر مجبور کیا تھا آج اگر ان ایرانی بھائیوں میں سے کوئی سوال کرے تو بھلا کون جواب دے سکے گا؟ خطہ بھر میں موجود ان تمام فرقہ پرستوں اور ان کے دانشوروں کے لیے آج گذشتہ ساڑھے تین دہائیوں کی کارروائیوں پر سوچنے کا لمحہ ہے۔ پاکستان تو ان فرقہ وارانہ جنگوں کا سب سے زیادہ شکار رہا ہے کہ آج پاکستان میں کوئی ایک مسلم مکتبہ فکر ایسا نہیں جو فرقہ وارانہ جنگ کے مہلک اثرات سے محفوظ رہا ہو۔ امریکہ اس جنگ کا فاتح ہو یا نہ ہو مگر پاکستان، ایران اور افغانستان کے عوام اس جنگ کے بعد لاغر اور بیمار ضرور ہیں۔ اب بھی بہت سے گروہ ایسے ہیں جو اس جنگ کو جاری رکھنے پر کمربستہ ہیں۔ محض ایران امریکہ معاہدہ ہمارے خطوں سے مذہبی و فرقہ وارانہ جنونیت کے خاتمہ کی نوید نہیں بن سکتا کہ اس کے لیے ہمیں اپنے معاشروں میں نہ صرف جمہوریت کو اپنانا ہو گا بلکہ امن، رواداری کو اپناتے ہوئے ہر قسم کے تعصبات کے خلاف بھرپور مہمیں بھی اُسارنی ہوں گی۔ جمہوریت کے تناظر میں پاکستان کو نسبتاً بہتر ماحول دستیاب ہے کہ ا یران اور افغانستان کو بھی یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ غیر جمہوری ماحول میں اندرونی تضادات کو استعمال کرنے کی گنجائش بڑھ جاتی ہے۔ ایران امریکہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب عراق، افغانستان اور برما کی جنگیں ’’ٹھنڈی‘‘ پڑ چکی ہیں اور امریکہ کیوبا تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ یہ عوامل بذاتِ خود بدلتے حالات کے آئینہ دار ہیں کہ اب میدانِ جنگ کی بجائے میدانِ تجارت کو اوّلیت حاصل ہے۔ - 

No comments:

Post a Comment

No US President visited Pak in Democratic era (The flipside of Pak-US relations)

  No US President visited Pak in Democratic era (The flipside of  Pak-US relations) Till to date 5 US Presidents visited Pakistan since 195...