سول ملٹری بگاڑ: کون کس سے کھیل رہا ہے؟
عامر ریاض
سونے پر سہاگہ چڑھانے پر کمر بستہ عمران خان تو پہلے ہی تیار بیٹھے ہوتے ہیں کہ انھوں نے بھی آرمی چیف کے بیانات پر اپنا رنگ چڑھایا۔ چوہدری اعتزاز احسن کے بیانات پڑھ کر تو مجھے خان عبدالولی خان یاد آگئے جو ضیا شاہی کے ابتدائی برسوں میں ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ضیاالحقیاں کرتے رہے تھے۔ ویسے اب نیشنل عوامی پارٹی کے سینئر رہنما جمعہ خان صوفی نے اپنی یادشتوں پر مشتمل کتاب ’’فریب ناتمام‘‘ میں 1972 سے 1980 کے درمیان ولی خان کی بغض بھٹو میں ’’باہرلوں‘‘ کے ہاتھوں استعمال ہونے کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔ ہر سیاسی کارکن کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے کہ پہلی جمہوری حکومت اور اس کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو کن کن مصائب کا سامنا تھا اس کا احوال جمعہ خان نے لکھ دیا ہے۔ سول ملٹری تعلقات میں بگاڑ کو سمجھنے کے لیے بھی یہ کتاب اک نایاب حوالہ ہے۔ چند جرنیلوں کی ہوس اقتدار کے علاوہ بھی ملک پاکستان میں بہت سے گروہ سرگرم عمل رہتے ہیں اور یہ گروہ سول ملٹری بگاڑ ہی پر پلتے ہیں۔ چور دروازوں سے اقتدار تک پہنچنے کے خواہشمند اپنے ’’میڈیا ئی ناخداؤں‘‘ کے ساتھ مل کر بگاڑ کی اس خلیج کو بڑھاتے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ اداروں کے تصادم کا ملک پر کیا اثر ہوگا۔ ان بدترین حالات میں بھی چیرمین سینیٹ رضا ربانی جیسے ہوشمند ’’انا الحق‘‘ کہنے سے باز نہیں رہتے جو عنیمت سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سینیٹ میں احتساب کے قانون پر بحث پہلے سے شروع کرواچکے تھے۔ احتساب کا قانون پرویز مشرف کے الاتعداد ’’تحفوں‘‘ میں سے ایک ہے کہ اس میں کچھ اداروں کو ’’مقدس گائے‘‘ قرار دے احتساب کے قانون سے بچایا گیا تھا۔یہ قانون آئین پاکستان کی ’’قانون کی حکمرانی‘‘ کی شق سے متصادم ہے۔ احتساب تو ہر کوئی چاہتا ہے مگرسوال یہی ہے کہ احتساب کون کرے؟ اور کس کس کا کرے؟۔ بلا تفریق احتساب کا مطالبہ کرنے والے احتسابی قانون میں بلاتفریق احتساب کے حوالہ سے ترامیم کی بات کیوں نہیں کرتے؟ قومی ایکشن پلان بنانے کے بعد اک موہوم سی امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید ہم دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف ’’ایک صفحہ‘‘ پر آگئے ہیں۔ مگر جلد ہی امید کی کرن ماند پڑنے لگی۔ دہشت گردی و انتہا پسندی کی خلاف جنگ ’’کراہے‘‘ پڑ چکی ہے ۔سول ملٹری بگاڑ ایک ایسے وقت میں زیادہ بڑھ گیا ہے جب نئے آرمی چیف کی تقرری کا وقت نزدیک آرہا ہے۔
تاریخ پاکستان کے اک ادنی طالب علم کو بھی معلوم ہے کہ بدعنوانی و احتساب کی آڑ لے کر غیر جمہوری قوتیں اپنا رانجھا راضی کرتی رہی ہیں۔ ایوبی ’’ایبڈو‘‘ سے مشرفی ’’نیب‘‘ تک جو کچھ یہاں ہوتا رہا ہے اس سے سب بخوبی آگاہ ہیں۔ میڈیا، سیاسی جماعتوں اور سول ملٹری قیادتوں کو ’’بلاتفریق احتساب‘‘ کے حوالہ سے قابل عمل قانون و ادارہ بنانے کے لیے تمام امور بروئے کار لانے چاہیں۔ بلاشبہ یہ کام پارلیمان کا ہی ہے اور آئینی حوالہ سے وہی یہ کام کرے گی۔ تاہم پارلیمان سے باہر موجود گروہ قوتیں بھی اس میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آپ ذرا یورپی یونین کی اسمبلی کی گذشتہ 16 سالوں کی کاروائیاں پڑھ لیں۔ وہاں احتساب کے حوالہ سے جو بحثیں ہو رہی ہیں ان کو مدنظر رکھیں۔ بااختیار جمہوری ملکوں میں تمام تر اختیارات کے باوجود اگر آج بھی آف شور کمپنیاں موجود ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ تاحال جمہوری دنیا کے مقتدر ممالک بھی سرمایہ داری کے اس تضاد کو حل کرنے میں جستجو کررہے ہیں۔ یورپی یونین نے تو 2013 میں بڑی مچھلیوں کو ’’ٹیکس نیٹ‘‘ میں لانے کے لیے عملی اقدامات بھی شروع کردیے تھے۔ مگر وہاں کسی نے بھی اس مسئلہ کی آڑ لے کر اسے حکومتوں کی تبدیلی کے لیے استعمال نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ یورپی یونین والے اس مسئلہ کو حل کرنے میں زیادہ دلچسپیاں رکھتے ہیں ناکہ محض حکومتوں کو گرانے میں۔ مگر ہمارے ہاں کیونکہ سول ملٹری بگاڑ موجود ہے اس لیے ’’میمو گیٹ‘‘ سے ’’پانامہ گیٹ‘‘ تک جو بھی مسئلہ اٹھایا جاتا ہے اس کے پیچھے مقاصد کوئی اور ہوتے ہیں۔اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ بدعنوانی کا خاتمہ اور بلاتفریق احتساب کے قانون و ادارے کا قیام محض اک بہانہ ہے۔
سول ملٹری بگاڑ کی صورت میں یہ کھیل یونہی چلتا رہے گا کہ بات کا بتنگڑ بنانے والے میڈیا اور ہوس اقتدار میں رجھے گروہوں کے لیے یہ بگاڑ تواتر سے مواقع پیدا کرتا رہے گا۔ اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ دہشت گردی، انتہا پسندی و فرقہ واریت میں ملوث قوتوں و گروہوں کو ہوگا کہ ان کی طرف سے توجہ ہٹی رہے گی۔ کیا کچھ گروہ ملک پاکستان میں اسی ایجنڈے پر گامزن ہیں؟ یہ ہے وہ صورتحال جو فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ اس صورتحال میں سول سوسائٹی کی خاموشی معنی خیز ہے۔ یہ درست کہ گذشتہ سال جون سے این جی اوز کے حوالہ سے وزیر داخلہ نے جس شفاف قانون کو چار ماہ میں بنانے کی بات کی تھی وہ تاحال کہیں نظر نہیں آرہا۔ الٹا این جی اوز کے کام میں رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ برابر بڑھ رہا ہے۔ مگر این جی اوز کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جمہوری تسلسل ہی کی شکل میں ان کو کام کرنے کی زیادہ گنجائش ملے گی۔ وہ چوہدری نثار کا غصّہ جمہوری عمل پر نہ نکالیں اور ان عناصر سے ہشیار رہیں جو ماضی میں اس سیکٹر کو مشرف کی حمائیت کی طرف لے گئے تھے۔
24 اپریل سے عمران خان ایک دفعہ پھر دھرنا سیاست کا آغاز کرنے جارہے ہیں کہ ان کا شمار انہی قوتوں میں ہوتا ہے جو سول ملٹری بگاڑ پر اپنی سیاست چمکانے میں رجھے ہوئے ہیں۔ اگر وہ سول ملٹری بگاڑ کو بڑھانے کی بجائے اتنی توجہ خیبر پختونخواہ پر دے دیں تو شاید اس بدنصیب صوبہ کی قسمت بدل سکتی ہے۔ وہ خود اس گولڈ سمتھ خاندان کے فرزندوں کی صداقت کی گواہی دیتے ہیں جس نے ٹیکس بچانے کے لیے آف شور کمپنیاں بنارکھی ہیں اور وہ اپنے سابقہ برادر نسبتی کو لندن کا اقتدار دلوانا چاہتے ہیں۔ وہ ذرا یورپی یونین میں ہونے والی تقاریر پڑھ لیں کہ آف شور کمپنیاں محض ٹیکس بچانے کے لیے ہی بنائی جاتی ہیں۔ ان کمپنیوں کے بنانے میں لگنے والی رقم حلال ہو یا حرام مگر ’’آف شور بزنس‘‘ خود بین القوامی سرمایہ داری نظام کا اک کھلا تضاد ہے۔ جو اس تضاد کو حقیقت میں حل کرنا چاہتے ہیں انہیں یورپی یونین میں کی جانے والی بحثیں پڑھنی چاہیں۔ مگرخان صاحب کا ساتھ دینے والوں میں تو اکثریت انہی تاجے حوالداروں کی ہے جو ہمیشہ سول ملٹری بگاڑ پر پلتے رہے ہیں۔ اب خان صاحب ان کا آخری سہارا ہیں کہ اگر وہ کامیاب بھی ہوجائیں گے تو سول ملٹری بگاڑ بدستور موجود رہے گا۔ دنیا بھر کا تجربہ یہی ہے کہ سول ملٹری بگاڑ کو پارلیمان میں ہی حل کیا جاسکتا ہے کہ اس کا حل پارلیمان کی حاکمیت اور اداروں کے احترام میں پیوستہ ہے۔پارلیمانی کمیشن سے اس حل کی طرف بڑھنے کا آغاز ہو سکتا ہے کہ قوم کی نظریں خورشیدوڈار ملاقاتوں پر لگی ہیں۔
عامر ریاض
The piece is written before the announcement of removal of army officers by the COAS yet after the acceptance of corruption in the army it is
essential to make a Law and Institution who can do across the board accountability.
The issues of accountability and , corruption are often used against political
opponents and from Ayub till Musharaff all the 4 dictators used it extensively. NAB law coined by Mushraff was not only
misleading but a
.selective also so there is a need to amend that law first
Link to read complete article published in weekly Humshehri
http://humshehrionline.com/?p=17770#sthash.HIDQYtNe.dpbs
پاکستانی سیاست تادیر سے سول ملٹری تعلقات میں بگاڑ سے مستعار ہے کہ 13سال تک
تسلسل سے دو مارشلاؤں کے نتیجہ میں ملک دو حصّوں میں منقسم ہوگیا مگر ہم سول ملٹری
تعلقات میں بگاڑکو تاحال ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں
16 ۔دسمبر 1971کی بازگشت اکثر سننے کو ملتی ہے جسے کسی بھی حوالہ سے خوش آئیند
نہیں کہا جا سکتا۔کوئی ایک بیان کیسے ’’ایک صفحہ‘‘ پر ہونے کے تاثر کو ہوا کردیتا
ہے اس کا زندہ ثبوت جنرل راحیل شریف کا وہ بیان ہے جس میں ’’بدعنوانی‘‘ کاذکر
نمایاں تھا۔ بیان میں جو کچھ کہا گیا اس کی اہمیت تو روایتی تھی تاہم اس کی ٹائمنگ
نے ’’مردوں‘‘ میں جان ڈال دی۔ ایک اینکر تو اس بیان پر اس قدر خوش ہوئے کہ اسے
وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ قرار دے ڈالا۔ایسے تجزیوں اور ان کے تخلیق کاروں پر
نہ تو رویا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہنسا جا سکتا ہے۔ قصور ان کا بھی نہیں کہ میڈیا
کے بہت سے حمام دستے پورے سات دن یہی شور مچاتے رہے کہ وزیراعظم اب واپس نہیں آئیں
گے۔ مگر اس دن وزیراعظم واپس آرہے تھے کہ اب خفگی مٹانے کے لیے بات کا بتنگڑ بنا
دیا ۔یہ ویسی ہی مہم تھی جیسی صدر مملکت جناب آصف علی زرداری کی دوبئی روانگی کے
بعد گذشتہ دور حکومت میں جاری کی گئی تھی۔ مگر آصف علی زرداری نہ صرف پورے 5 سال
خداداد پاکستان کے صد ربھی رہے بلکہ پوری عزت و احترام سے صدارتی محل سے جمہوری
انداز سے رخصت بھی ہوئے۔ ایسی خبریں پھیلانے والے بعض معاویہ کے ناقابل علاج مرض
میں مبتلا ہیں۔ بالفرض ان کی خواہشات کے مطابق اگر 2011 میں آصف زرداری یا 2016
میں میاں نوازشریف بحثیت صدر یا وزیراعظم کسی دوسرے ملک میں جاکر مستقل بیٹھ جاتے
تو پھر ان تیزی سے بدلتے علاقائی و بین القوامی منظر نامہ میں ریاست پاکستان کس قدر
مشکلات کا شکار ہوجاتی، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ من مرجی کے لوگوں کو اقتدار
میں لانے کے لیے وہ کسی ’’باہرلے‘‘ کے ہاتھوں بھی استعمال ہو جاتے ہیں۔ یہی بغض
معاویہ کا سب سے تاریک پہلو ہے۔.selective also so there is a need to amend that law first
Link to read complete article published in weekly Humshehri
http://humshehrionline.com/?p=17770#sthash.HIDQYtNe.dpbs
سونے پر سہاگہ چڑھانے پر کمر بستہ عمران خان تو پہلے ہی تیار بیٹھے ہوتے ہیں کہ انھوں نے بھی آرمی چیف کے بیانات پر اپنا رنگ چڑھایا۔ چوہدری اعتزاز احسن کے بیانات پڑھ کر تو مجھے خان عبدالولی خان یاد آگئے جو ضیا شاہی کے ابتدائی برسوں میں ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ضیاالحقیاں کرتے رہے تھے۔ ویسے اب نیشنل عوامی پارٹی کے سینئر رہنما جمعہ خان صوفی نے اپنی یادشتوں پر مشتمل کتاب ’’فریب ناتمام‘‘ میں 1972 سے 1980 کے درمیان ولی خان کی بغض بھٹو میں ’’باہرلوں‘‘ کے ہاتھوں استعمال ہونے کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔ ہر سیاسی کارکن کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے کہ پہلی جمہوری حکومت اور اس کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو کن کن مصائب کا سامنا تھا اس کا احوال جمعہ خان نے لکھ دیا ہے۔ سول ملٹری تعلقات میں بگاڑ کو سمجھنے کے لیے بھی یہ کتاب اک نایاب حوالہ ہے۔ چند جرنیلوں کی ہوس اقتدار کے علاوہ بھی ملک پاکستان میں بہت سے گروہ سرگرم عمل رہتے ہیں اور یہ گروہ سول ملٹری بگاڑ ہی پر پلتے ہیں۔ چور دروازوں سے اقتدار تک پہنچنے کے خواہشمند اپنے ’’میڈیا ئی ناخداؤں‘‘ کے ساتھ مل کر بگاڑ کی اس خلیج کو بڑھاتے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ اداروں کے تصادم کا ملک پر کیا اثر ہوگا۔ ان بدترین حالات میں بھی چیرمین سینیٹ رضا ربانی جیسے ہوشمند ’’انا الحق‘‘ کہنے سے باز نہیں رہتے جو عنیمت سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سینیٹ میں احتساب کے قانون پر بحث پہلے سے شروع کرواچکے تھے۔ احتساب کا قانون پرویز مشرف کے الاتعداد ’’تحفوں‘‘ میں سے ایک ہے کہ اس میں کچھ اداروں کو ’’مقدس گائے‘‘ قرار دے احتساب کے قانون سے بچایا گیا تھا۔یہ قانون آئین پاکستان کی ’’قانون کی حکمرانی‘‘ کی شق سے متصادم ہے۔ احتساب تو ہر کوئی چاہتا ہے مگرسوال یہی ہے کہ احتساب کون کرے؟ اور کس کس کا کرے؟۔ بلا تفریق احتساب کا مطالبہ کرنے والے احتسابی قانون میں بلاتفریق احتساب کے حوالہ سے ترامیم کی بات کیوں نہیں کرتے؟ قومی ایکشن پلان بنانے کے بعد اک موہوم سی امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید ہم دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف ’’ایک صفحہ‘‘ پر آگئے ہیں۔ مگر جلد ہی امید کی کرن ماند پڑنے لگی۔ دہشت گردی و انتہا پسندی کی خلاف جنگ ’’کراہے‘‘ پڑ چکی ہے ۔سول ملٹری بگاڑ ایک ایسے وقت میں زیادہ بڑھ گیا ہے جب نئے آرمی چیف کی تقرری کا وقت نزدیک آرہا ہے۔
تاریخ پاکستان کے اک ادنی طالب علم کو بھی معلوم ہے کہ بدعنوانی و احتساب کی آڑ لے کر غیر جمہوری قوتیں اپنا رانجھا راضی کرتی رہی ہیں۔ ایوبی ’’ایبڈو‘‘ سے مشرفی ’’نیب‘‘ تک جو کچھ یہاں ہوتا رہا ہے اس سے سب بخوبی آگاہ ہیں۔ میڈیا، سیاسی جماعتوں اور سول ملٹری قیادتوں کو ’’بلاتفریق احتساب‘‘ کے حوالہ سے قابل عمل قانون و ادارہ بنانے کے لیے تمام امور بروئے کار لانے چاہیں۔ بلاشبہ یہ کام پارلیمان کا ہی ہے اور آئینی حوالہ سے وہی یہ کام کرے گی۔ تاہم پارلیمان سے باہر موجود گروہ قوتیں بھی اس میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آپ ذرا یورپی یونین کی اسمبلی کی گذشتہ 16 سالوں کی کاروائیاں پڑھ لیں۔ وہاں احتساب کے حوالہ سے جو بحثیں ہو رہی ہیں ان کو مدنظر رکھیں۔ بااختیار جمہوری ملکوں میں تمام تر اختیارات کے باوجود اگر آج بھی آف شور کمپنیاں موجود ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ تاحال جمہوری دنیا کے مقتدر ممالک بھی سرمایہ داری کے اس تضاد کو حل کرنے میں جستجو کررہے ہیں۔ یورپی یونین نے تو 2013 میں بڑی مچھلیوں کو ’’ٹیکس نیٹ‘‘ میں لانے کے لیے عملی اقدامات بھی شروع کردیے تھے۔ مگر وہاں کسی نے بھی اس مسئلہ کی آڑ لے کر اسے حکومتوں کی تبدیلی کے لیے استعمال نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ یورپی یونین والے اس مسئلہ کو حل کرنے میں زیادہ دلچسپیاں رکھتے ہیں ناکہ محض حکومتوں کو گرانے میں۔ مگر ہمارے ہاں کیونکہ سول ملٹری بگاڑ موجود ہے اس لیے ’’میمو گیٹ‘‘ سے ’’پانامہ گیٹ‘‘ تک جو بھی مسئلہ اٹھایا جاتا ہے اس کے پیچھے مقاصد کوئی اور ہوتے ہیں۔اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ بدعنوانی کا خاتمہ اور بلاتفریق احتساب کے قانون و ادارے کا قیام محض اک بہانہ ہے۔
سول ملٹری بگاڑ کی صورت میں یہ کھیل یونہی چلتا رہے گا کہ بات کا بتنگڑ بنانے والے میڈیا اور ہوس اقتدار میں رجھے گروہوں کے لیے یہ بگاڑ تواتر سے مواقع پیدا کرتا رہے گا۔ اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ دہشت گردی، انتہا پسندی و فرقہ واریت میں ملوث قوتوں و گروہوں کو ہوگا کہ ان کی طرف سے توجہ ہٹی رہے گی۔ کیا کچھ گروہ ملک پاکستان میں اسی ایجنڈے پر گامزن ہیں؟ یہ ہے وہ صورتحال جو فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ اس صورتحال میں سول سوسائٹی کی خاموشی معنی خیز ہے۔ یہ درست کہ گذشتہ سال جون سے این جی اوز کے حوالہ سے وزیر داخلہ نے جس شفاف قانون کو چار ماہ میں بنانے کی بات کی تھی وہ تاحال کہیں نظر نہیں آرہا۔ الٹا این جی اوز کے کام میں رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ برابر بڑھ رہا ہے۔ مگر این جی اوز کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جمہوری تسلسل ہی کی شکل میں ان کو کام کرنے کی زیادہ گنجائش ملے گی۔ وہ چوہدری نثار کا غصّہ جمہوری عمل پر نہ نکالیں اور ان عناصر سے ہشیار رہیں جو ماضی میں اس سیکٹر کو مشرف کی حمائیت کی طرف لے گئے تھے۔
24 اپریل سے عمران خان ایک دفعہ پھر دھرنا سیاست کا آغاز کرنے جارہے ہیں کہ ان کا شمار انہی قوتوں میں ہوتا ہے جو سول ملٹری بگاڑ پر اپنی سیاست چمکانے میں رجھے ہوئے ہیں۔ اگر وہ سول ملٹری بگاڑ کو بڑھانے کی بجائے اتنی توجہ خیبر پختونخواہ پر دے دیں تو شاید اس بدنصیب صوبہ کی قسمت بدل سکتی ہے۔ وہ خود اس گولڈ سمتھ خاندان کے فرزندوں کی صداقت کی گواہی دیتے ہیں جس نے ٹیکس بچانے کے لیے آف شور کمپنیاں بنارکھی ہیں اور وہ اپنے سابقہ برادر نسبتی کو لندن کا اقتدار دلوانا چاہتے ہیں۔ وہ ذرا یورپی یونین میں ہونے والی تقاریر پڑھ لیں کہ آف شور کمپنیاں محض ٹیکس بچانے کے لیے ہی بنائی جاتی ہیں۔ ان کمپنیوں کے بنانے میں لگنے والی رقم حلال ہو یا حرام مگر ’’آف شور بزنس‘‘ خود بین القوامی سرمایہ داری نظام کا اک کھلا تضاد ہے۔ جو اس تضاد کو حقیقت میں حل کرنا چاہتے ہیں انہیں یورپی یونین میں کی جانے والی بحثیں پڑھنی چاہیں۔ مگرخان صاحب کا ساتھ دینے والوں میں تو اکثریت انہی تاجے حوالداروں کی ہے جو ہمیشہ سول ملٹری بگاڑ پر پلتے رہے ہیں۔ اب خان صاحب ان کا آخری سہارا ہیں کہ اگر وہ کامیاب بھی ہوجائیں گے تو سول ملٹری بگاڑ بدستور موجود رہے گا۔ دنیا بھر کا تجربہ یہی ہے کہ سول ملٹری بگاڑ کو پارلیمان میں ہی حل کیا جاسکتا ہے کہ اس کا حل پارلیمان کی حاکمیت اور اداروں کے احترام میں پیوستہ ہے۔پارلیمانی کمیشن سے اس حل کی طرف بڑھنے کا آغاز ہو سکتا ہے کہ قوم کی نظریں خورشیدوڈار ملاقاتوں پر لگی ہیں۔
No comments:
Post a Comment