Saturday, April 9, 2016

Interview of Mian Ijaz ul Hassan : How PPP can Win again?



 How PPP can Win again?

Bilawal should sit in Lhore and revive the Party. Z A Bhutto founded the Party in Lhore and after winning the hearts of Punjabis Bhutto compelled establishment to accept People’s Rule.
Interview of Mian Ijaz ul Hassan Published in Humshehri


پروفیسر میاں اعجاز الحسن کا شمار ان رہنماں میں ہوتا ہے جو 1960کی دہائی سے پاکستانی سیاست کو انتہائی قریب سے جانتے ہیں۔ وہ بائیں بازو کی سکہ بند سیاست سے پیپلز پارٹی کی عوامی سیاست تک آئے کہ انہیں بائیں، دائیں بازو کی انتہا پسندیوں اور عوامی سیاست کی طاقت بارے آگاہی ہے۔ 23 نومبر1938 کو ساندہ کلاں ، لہور میں پیدا ہونے والے میاں صاحب کا شمار ان لہوریوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اس پارٹی کو پیدا ہوتے دیکھا ہے۔ آپ پیپلز پارٹی کے پنجاب میں جنرل سیکٹری بھی رہے اور تادم تحریر پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ان کی بیگم مسرت حسن پی پی پی کی ایم پی اے بھی رہیں۔ پارٹی کو دوبارہ کیسے منظم کیا جاسکتا ہے اور اس کے لیے کیا کیا کام کرنے ہیں اس بارے میاں صاحب کی رائے پڑھیں اور اپنے خیالات ہم شہری کو بھیجیں۔ ہمیں میاں صاحب کی اس رائے سے اتفاق ہے کہ انتہا پسندی و دہشت گردی کے خلاف جنگ عوامی حمائیت کے بغیر جیتی نہیں جاسکتی۔ میاں صاحب نے لوک لہر ریڈیو شو میں جو گفتگو کی وہ بھی پیش خدمت ہے اور اس کے بعد ہم شہری نے ان سے جو انٹرویو لیا وہ بھی الگ سے چھاپ رہے ہیں۔



For Complete Interview Click Here


لوک لہر -4اپریل 2016
پہلے پاکستانی چونویں وزیراعظم دا “عدالتی قتل”
37 سال پرانی کہانی اتے سول ملٹری تعلقات
-4 اپریل دے حوالے نال اُچیچا پروگرام

GUESTS: MIAN IJAZ, FASEH RAUF AND SYED KASHIF

For radio recording Click HERE
YOU CAN READ TRANSCRIPT OF RADIO SHOW BELOW

عامر ریاض

انٹرویو

ماضی سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ ماضی سے چمٹے رہنا تو درست نہیں البتہ ماضی سے سبق سیکھنا ضروری ہے۔ سادہ سا اصول ہے کہ اگر آپ کے پاں زمین پر مضبوطی سے موجود نہیں تو آپ بوری تو کیا، اک تھیلا بھی نہیں اٹھا سکتے۔ ماضی میں پی پی پی نے جو پالیسیاں بنائیں ان کے ازسرنو جائزہ کا وقت آن پہنچا ہے کہ ہمیں اپنے گھاٹوں ، خوبیوںاور خدمات کا ادراک ہونا چاہیے۔

اہم ترین سوال تو یہ ہے کہ آخر وہ کونسے فیصلے تھے جن کی وجہ سے 1970ءمیں پیپلزپارٹی مقبول عام پارٹی نبی تھی اور اس نے خصوصاً پنجاب میں بڑے بڑے برج الٹا دئیے تھے۔ وہ پالیسی ہماری “بنیادی دستاویز” اور کسی حد تک ہمارا انتخابی منشور تھا۔ ہمارے ہاں منشور کی بات تو ہوتی ہے مگر بنیادی دستاویز کی بات کم ہوتی ہے۔ ہمارے اپنے بہت سے بندے بھی بنیادی دستاویز کی بات نہیں کرتے۔ محض بھٹو، بھٹو کرنے سے اب کام نہیں چلے گا۔ بنیادی دستاویز میں ہمارے نعرے روٹی کپڑا اور مکان کی تفصیلی وضاحت تھی کہ ہمیں تعلیم، روزگار، صحت خارجہ امور، داخلی امور وغیرہ میں کیا کیا کرناہے۔ یہ وہی باتیں ہیں جنہیں ہم نے آئین کی ابتدائی شقوں میں بھی سمویا تھا اور وہ آج بھی آئین کاحصہ ہیں۔ ہمارے کچھ دوست کہتے ہیں اس کی ضرورت نہیں مگرمیری دانست میں ہمیں اپنے منشور اوربنیادی دستاویز کے حوالہ سے نہ صرف اسمبلیوں میں بحث و مباحثہ کرنا چاہیے بلکہ اس حوالہ سے اپنے کارکنوں سے بھی مکالمہ کرنا چاہیے۔ اسمبلیوں میں آپ ان قوانین کو تو زیر بحث لاتے ہیں جن کے پیچھے یا تو کوئی تگڑا گروہ ہو یا پھر ان سے حکومتوں کو بچانا یا گرانا مقصود ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر مارشلائی حکومت کو قانون کی چھتری فراہم کی گئی ہے جس سے خود آئین کا حلیہ ہی نہیں بگڑا بلکہ اس کی تکریم بھی کم ہوئی ہے۔ خود نظریہ ضرورت کو استعمال کرنے سے عدالتیں بھی دیگر اداروں کی طرح متنازعہ ہوئیں ہیں۔ پی پی پی ماضی میں اس لیے کامیاب ہوئی تھی کہ اس کے منشور میں عام آدمی کے مسائل کی نشاندہی اسی انداز میں کی گئی تھی جسے عام آدمی آسانی سے سمجھ بھی سکتا تھا۔ علاوہ ازیں بھٹو صاحب نے لوگوں کو اپنے عمل سے یقین دلایا تھا کہ وہ جو کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب خود دھوپ، سیلاب میں موسم کی پرواہ کیے بغیر عام آدمیوں کے درمیان پہنچتے تھے۔ بھٹو صاحب نہ صرف شہر، شہر گاں، گاں خود گئے بلکہ غریبوں سے جھپی ڈالنے میں بھی انہیں کوئی عار نہیں تھی۔انہیں اپنے کارکنوں سے  “بدبو” نہیں آتی تھی۔ یہی نہیں انہیں اپنے کارکنوں کے نام بھی یاد رہتے تھے۔ جب وہ بھرے جلسہ میں کسی عام سے کارکن کو اس کے نام سے پکارتے تو اس سے کارکن کا حوصلہ بلند ہوجاتا۔ آج پی پی پی کے کتنے لیڈروں کو کارکنوں کے نام یاد ہیں؟ بھٹو صاحب کا اپنے کارکنوں کے ساتھ اک رشتہ تھا۔ آج کل تو پی پی پی کے بے لوث کارکنوں کو “جیالا” کہہ کر ان کے بارے عجیب سا منفی تاثر دیا جاتا ہے کہ اس سے کار کنوں میں اعتماد کم ہوتا ہے۔ عرف عام میں “جیالا” وہ کارکن ہے جو پارٹی کو اپنا سب کچھ دینے کو تیار رہتا ہے مگر اس کے عوض پارٹی یا لیڈرشپ سے کچھ نہیں مانگتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں وہ جھلا، کملا یا پاگل ہے۔ جیالوں کی تکریم کرنے سے ہی پارٹی کو دوبارہ منظم کرنے میں مدد ملے گی۔ جب تک پی پی پی کی گلی، محلہ اور پنڈ پنڈ تنظیمیں موجود تھیںاس وقت تک پارٹی کو کھبی سکیورٹی کے مسائل نہ تھے۔ اب ویسی منظم و عوامی تنظیمیں نہیں تو سکیورٹی نے ہمیں خجل کرکے رکھ دیا ہے۔ پارٹی میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا تھا البتہ پارٹی کارکن بھٹو خاندان کے افراد کی بہت عزت کرتے تھے۔ بھٹو صاحب تو خود کہتے تھے کہ میں آپ کا ساتھی (کامریڈ) ہوں۔ یوں جب سب میں سانجھ اور اعتماد تھا تو سکیورٹی کا مسئلہ ہمارے کام میں حائل نہیں ہوتا تھا۔ جو لوگ سکیورٹی کو اپنے اوپر طاری کرنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ سیاست کو خیرآباد کہہ دیں۔ اگر کسی جرنیل کو سرحد کی طرف بھیجا جائے اور وہ کہے کہ میری ماں کہتی ہے وہاں خطرہ بڑا ہے تو پھر جرنیل سے تو یہی کہا جائے گا کہ آپ ریٹائرمنٹ لے لیں۔

آج دہشت گردی و انتہا پسندی کی اس جنگ میں خطرہ تو یقینا ہے مگر پارٹی کو اس خطرہ کا مقابلہ کرنا ہے۔ آپ ذرا بے نظیر بھٹو مرحومہ کی زندگی پر نظر ڈالیں۔ ایک لحاظ سے ان کی سیاسی زندگی میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی زندگی کے مقابلہ میں زیادہ سختیاں آئیں۔ ضیاالحق کے پرآشوب دور میں پارٹی کارکنوںکو باندھے رکھنا، فوجی آمر سے ٹکرانا اور دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا جوئے شیر لانے سے زیادہ کٹھن تھا۔ سونے پہ سہاگہ “چاچوں” نے چڑھایا مگر بی بی نے ان سب حالات کا مقابلہ کیا کہ اس نے انہیں کندن بنا دیا۔ بھٹو قوم کا ہیرو تھا تو بی بی ان کی رانی۔ وہ رہنما بھی تھیں، بھابھی بھی، بہن ، ماں بھی۔ بلاشبہ ان میں بہت صفات تھیں۔ جب وہ اکتوبر 2007ءمیں واپس آئیں تھیں تو ان کا عزم کچھ زیادہ مضبوط تھا۔ ہم میں سے جس نے بھی انہیں ان دو، ڈھائی ماہ میں قریب سے دیکھا وہ جانتے ہیں کہ اس بار بی بی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کے لیے یتار تھیں۔ ان کے اس عزم سے گھبرا کر اس کے ویریوںنے اسے شہید کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ریاست میں ایسے ہاتھ موجود تھے جن کی مدد سے ہی انہیں شہید کیا گیا مگر مرتے دم تک بی بی نے سکیورٹی کی وجہ سے خود کو محدود نہیں کیا۔

اگربی بی کو حکومت کرنے کا موقع ملتا اور ان کی سرکاروں کو دو، ڈھائی سال بعد نہ توڑا جاتا تو وہ پاکستان کو توانا کرسکتی تھیں۔ مگر انہیں موقع نہیں دیا گیا۔
 آصف زرداری نے بطور چیئرمین اور بعد ازاں بطور صدر سب کو ساتھ رکھ کر چلنے کی بہت کوشش کی۔ این اایف سی ایوارڈ اور 18 ویں ترمیم قابل تحسین اقدامات تھے۔ مجھے زرداری صاحب نے پریذیڈنسی مدعو کیا۔ میں وہاں ہفتہ دس دن رہا۔ میں تو وہاں سکیورٹی کی وجہ سے تنگ ہی ہوتا تھا۔ جب مجھے کچھ سمجھ نہ آیا تو میں واپس آگیا۔ ایک بات جو پی پی پی کو سمجھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ یہ
پارٹی بھٹو صاحب نے پنجاب ہی میں آ کر بنائی تھی۔ بھٹو صاحب کو اقتدار میں پنجاب پارٹی ہی لائی تھی۔ سندھ میں توپارٹی کو وہ اکثریت نہیں ملی تھی۔ بھٹو صاحب کی حکومت پنجاب کے زور پر بنی تھی۔
اس پارٹی کا ہیڈکوارٹر لاہور تھا۔ پی پی پی کا پاور ہاس ہمیشہ لاہور تھا اور اس وجہ سے پنجاب بھی۔ آج پی پی پی کا مرکز دوبارہ سے لاہور بنایا جائے۔ پنجاب کے دوردراز کے علاقوں سے پی پی پی کو دوبارہ کھڑا کرنے کی کوششیں کرنے کی بجائے مرکزی قیادت کو لاہور آ کر بیٹھ جانا چاہیے۔ پنجابی عوام کے دل ویسے ہی جیتنے ہونگے جیسے بھٹو صاحب نے 1970ءمیں جیتے تھے۔ پی پی پی کے کارکن پنجاب میں اپنی مرکزی قیادت سے خود مکالمہ کرنا چاہتے ہیں۔ بھٹو صاحب کی پارٹی میں اونچ نیچ نہیں تھی بلکہ سب کارکنان ہر کسی بڑے چھوٹے لیڈر سے برابری کی سطح پر بات کرسکتے تھے۔ یہی تو وہ آزادی تھی جس نے سیاسی کارکنوں کو جوق درجوق اس پارٹی کی طرف متوجہ کیا تھا۔ اس پالیسی کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس تاثر کو ختم کرنا ہوگا کہ جدوجہد کرنے، جیل جانے، کوڑے کھانے کے لیے تو “جیالے” ہوں اور اقتدار کے مزے لینے والے کوئی دوسرے ہوں۔ جیالوں کو پارٹی میں اہم پوزیشنیں دینی ہوں گی پھر دیکھیں پارٹی کیسے دوبارہ سے پنجاب میں اپنے پاں پر کھڑا ہوتی ہے۔ جب گلی، محلہ تک کارکنوں سے دوبارہ رابطہ ہوگا تو قیادت کو کارکنوں کے مسائل کا پتہ چلے گا۔ پالیسیاں تبھی صحیح بنیں گی جب کارکنوں سے قیادت براہ راست رابطہ میں ہوگی۔ جس طریقہ کار سے پچھلی دفعہ پارٹی کے الیکشن کروائے گئے وہ انتہائی افسوسناک طریقہ کار تھا۔ آپ عام کارکنوں میں سے وارڈوں کی سطح پر انتخابات کرائیں تو تنظیم کی شکل نظر آنے لگی۔ لاہورسے اس کا آغاز کریں اور تمام زونوں کو دوبارہ سے منتخب قیادتیں بنانے دیں۔ جسے کارکن چاہیں وہی منتخب ہو پھر لاہور کے زونوں کے اجلاس ہوں اور وہ اپنے پروگرام بنائیں۔ لاہور میں پارٹی کھڑی ہوگئی تو پنجاب میں پارٹی بننے لگے گی۔ 1970ءمیں یہی ہوا تھا۔ انفارمیشن سیکرٹری وہ ہو جسے کمپیوٹر چلانا آتا ہو اور وہ ہر ماہ رپورٹ بھی بھیجے۔ میں مفروضوں کی بات نہیں کرتا مگر عملی طور پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پارٹی پنجاب سے دستبردار ہوچکی ہے۔ مجھے تو خود محسوس ہوتا ہے کہ میری پارٹی مجھے چھوڑ کر بھاگ گئی ہے۔ پارٹی کے پنجابی کارکنوں نے پی پی پی کے لیے اپنی زندگیاں، گھربار تک قربان کیے ہیں۔ ایسے کارکنوں کی اک طویل فہرست ہے۔ وہ اگر آج متحرک نہیں تو ان کو دوبارہ متحر ک کرنے کون ان کے پاس گیا تھا؟ میں یہ بارہا کوشش کرتا رہا کہ پارٹی کے لیے قربانیاں دینے والوں، پھانسیاں چڑھنے والوں کی تصاویر کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے۔ یہی تو ہمارا سیاسی ورثہ ہے مگر ایسا نہ ہوسکا۔ ہماری پارٹی کے دفاتر تو سیاسی ڈیرے ہوا کرتے تھے۔ آج کتنے لوگ جاتے ہیں زون یا لاہور کے دفتر میں؟۔ آج تاریخ نے سارا بوجھ بلاول کے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔گذشتہ دو سالوں میں بلاول آہستہ آہستہ کارکنوں سے براہ راست ملنا شروع کر چکے ہیں۔ گلشن اقبال میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد وہ لوگوں سے آ کر ملے جو اک حوصلہ افزاءبات تھی۔ مگر انہیں سکیورٹی کے نام پر مسلسل ڈرایا جارہا ہے۔ ایسا خطرہ تو ہر پاکستانی کو ہے۔ پاکستان میں اک جنگ جاری ہے۔،انتہا پسندی و دہشت گردی کے خلاف۔ اس جنگ میں ہر ایک خطرے میں ہے۔ جنگوں میں لیڈروں کو قیادت کرنی پڑتی ہے جو دوران جنگ شہریوں کے ساتھ نہیں ہوگا وہ پیچھے رہ جائے گا۔ بی بی آخری دنوں میں خوف کو جھٹک کر عوام کے درمیان آکھڑی ہوئیں تھیں۔ اگر ہم خوف کا شکار رہیں گے تو پھر قیادت کون کرے گا؟ ہمیں بی بی کے رستہ کو ہی اپنانا ہوگا۔ اس ملک سے ہمیں خوف اور تقسیم در تقسیم کی سیاست کے ماحول کو ختم کرے گا۔خوف اور تقسیم در تقسیم کی سیاست کا منفی اثر ہمارے اداروں پر بھی پڑ رہا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ہمیں دوبارہ سے اپنی صفوں کو سیدھا کرنا پڑے گا۔ یہ صفیں تب تک سیدھی نہ ہوں گی جب تک ہم اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے عمل کا آغاز نہیں کریں گے۔
غلطیاں بھٹو صاحب کے دور میں بھی ہوئیں تھیں۔ ایسے لوگوں کو گورنر بنایا گیا جن کے گھروں سے پی ایس ایف کے کارکنوں پر گولیاں چلائیں گئی تھیں۔ قومیانے کے عمل میں بھی سقم تھے۔بائیں بازو کے کارکنوں نے بھی انتہا پسند لائن لی تھی۔ کچھ لوگ تو جلد از جلد سوشلزم لانے کے لیے سرگرم تھے کہ وہ خود چین کے تجربہ کو بھی جانتے نہ تھے۔ غلطیاں ہر سطح پر ہوئیں جنہیں سمجھنے کی ضروت ہے۔ اگر پارٹی کو دوبارہ کھڑا کرنا ہے تو پھر قیادت کولاہور آنا ہوگا اور تنظیم سازی پر توجہ دینی ہوگی۔ جیسے لاٹری میں حصہ لینے کے لیے لاٹری کی ٹکٹ خریدنی اولین شرط ہے ایسے ہی لاہور میں پارٹی کی تنظیم سازی اور پرانے کارکنوں سے رابطے اولیت رکھتے ہیں۔


-4 اپریل: خصوصی ریڈیو پروگرام
“بھٹو دا عدالتی قتل اتے سول ملٹری تعلقات”



ایف ایم 103 پر -4 اپریل کے دن کی اہمیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہفتہ وار پروگرام “لوک لہر” میں ایک خصوصی ریڈیو پروگرام کیا گیا۔ آپ اس پروگرام کی ریکارڈنگ کو Punjabpunch.blogspot.com پربذریعہ انٹر نیٹ سن سکتے ہیں۔ ہر پیر کو 4 سے 6 بجے شام تک ہونے والے اس ریڈیو شو میں اس بار پی پی پی رہنما و دانشور میاں اعجاز الحسن اور ضیا شاہی میں جدوجہد کرنے والے دو کارکنوں کاشف بخاری اور شفیق فصیح روف کو مدعو کیا گیا تھا۔یہ پروگرام افضل ساحر اور عامر ریاض چلاتے ہیں جس میں ہر ہفتہ سیاسی و سماجی مسائل پر گل بات ہوتی ہے۔ پنجابی زبان میں ہونے والا یہ ریڈیو شو ایف ایم 103 کے پنجاب کے تینوں اہم سٹیشنوں یعنی فیصل آباد، ملتان اور لاہور سے براہ راست نشر ہوتا ہے جبکہ پرانے تمام پروگراموں کی ریکارڈنگیں اوپر لکھے پنجاب پنچ لنک پر موجود ہیں۔
میاں اعجاز الحسن: مجھے یاد ہے 1950 کی دہائی میں بھی بھٹو صاحب کے بیانات کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔ میں ایچی سن کالج میں پڑھتا تھا جہاں ہم نے پہلی دفعہ نہر سویز پر قبضے کے خلاف جلوس نکالا تھا۔ بھٹو ہمیں پاکستان کا جمال عبدالناصر ہی لگتا تھا۔ یہ ابتدائی یادیں ہیں۔ پھر ایوب خان نے مارشلاءلگادیا تو سیاسی جاگرتی میں اضافہ ہوا۔ مسئلہ کشمیر بارے بھٹو صاحب کا ہمیشہ سے واضح موقف تھا اور وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کی بات اس وقت بھی کرتے تھے جب وہ وزیر خارجہ نہیں بنے تھے۔ 1966میں ہونے والے “معاہدہ تاشقند” کے وقت انھوں نے مسئلہ کشمیر پرقوام متحدہ کی قراردادوں  کو بھول کرکیے جانے والے سمجھوتہ کو قبول نہ کیا۔انھوں نے اک ایسے وقت ایوب خانی حکومت کو خیرباد کہا جب آمر مطلق کا طوطی بول رہا تھا۔ ان کے اس جرات مندانہ عمل کو پاکستانیوں نے بہت پسند کیا۔ یوں وہ اپنے سیاسی ہم عصروں سے بازی لے گئے۔ طالب علم و نوجوان ان کی طرف کھینچے چلے آئے۔ اس دور میں بائیں بازو کی جماعتیں روس چین جھگڑوں کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں اور نیپ کئی گروپوں میں تقسیم در تقسیم کے عمل سے گذررہی تھی۔ ان حالات میں بھٹو صاحب سیاسی کارکنوں میں اک نئی امید بن کر ابھرے۔ مازے تنگ کے ماننے والے بالعموم پی پی پی یا مولانا بھاشانی کے ساتھ تھے۔ جبکہ روس کے حمائیتی بائیں بازو کے لوگ بھٹو صاحب کی تحریک کو سمجھنے سے بوجوہ قاصر تھے اور اسے سی آئی اے کی تحریک کہتے رہے۔ تاہم بھٹو صاحب کی عوامی لہر کو دیکھتے ہوئے بہت سے بائیں بازو کے کارکنوں نے بلاامتیاز ان کا ساتھ دیا۔ اس عوامی تحریک نے عوام کو عزت نفس دی اور ان میں پہلی دفعہ برابر حقوق رکھنے والے پاکستانی شہری ہونے کا احساس پیدا ہوا۔
بھٹو دور حکومت میں ہمیں جا بجا قوم پرست پالیسیاں نظر آتی ہیں کہ اس دور میں ہمارا بڑی طاقتوں پر انحصار بتدریج کم ہوا۔بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد ایٹم بم بنانے کی جدوجہد ہویا پھر جدید اسلحہ وغیرہ خود پاکستان میں بنانے کے حوالہ سے فیصلے ہوں، یہ سب بھٹو دور میں کیے گئے۔ ثقافتی رنگارنگی کو پہلی بار ملک پاکستان میں جو تکریم ملی وہ بھی بھٹو دور ہی کی مرہون منت تھی۔ آئین میں بھی ثقافتی رنگارنگی کو تسلیم کرنے اور اس کے احترام کی شق رکھی گئی۔ 1973 کا آئین تو اس ملک کو بھٹو کی بہت بڑی دین ہے۔ کتابوں کے حوالہ سے بک فاونڈیشن کا قیام ہی نہیں بلکہ لوک ورثہ، آرٹ کونسلیں سب بھٹو دور میںبنیں۔ کلچر کی پہلی وزارت بھی بھٹو دور میں بنی۔ بھٹو نے پاکستان کو اک جدید فلاحی ریاست بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ میں کیونکہ آرٹسٹوں کی تنظیم کا نمائندہ تھا اس لیے ان باتوں کا مجھے اچھی طرح احساس ہے۔ ہمارے ہاں تو آرٹسٹوں، فنکاروں کو مراثی، ناچا وغیرہ کہہ کر ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ مگر بھٹو دور میں فنکاروں کو احترام دیا جانے لگا۔
بھٹو صاحب کی ذات اور خدمات پر تاحال بہت زیادہ کام نہیں ہوا۔ انھوں نے خطہ و بین القوامی سیاست پر جوا اثرات مرتب کیے ان پر سیر حاصل کام کی تشنگی ابھی برقرار ہے۔ ایک مثال نیپال کی دیتاہوں جس کا میں خود گواہ ہوں۔ میں نیپال اک کانفرنس میں شرکت کے لیے گیا تھا۔ وہاں موجود ما نواز تحریک کے رہنماں سے ملاقات ہوئی تو وہ بھٹو کے نام سے واقف تھے۔ میرے پوچھنے پر انھوں نے مجھے یہ بتاکر حیران کردیا کہ نیپال کے ما نوازوں نے پہلا احتجاجی جلسہ اس دن نکالا تھا جب بھٹو کو ضیاالحق نے قتل کیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ احتجاجی ریلی کو لے کر پاکستان کے سفارت خانے جا پہنچے۔ اس وقت نیپال میں بادشاہت ہوتی تھی کہ جلسے جلوس کا تصور بھی محال تھا۔ بادشاہ نے جلوس منتشر کرنے کے لیے فوج بھیجی تو اس تصادم میں کئی طلباءمرگئے۔ یوں نیپال میں بادشاہت کے خاتمہ کی بنیاد رکھ دی گئی۔ یہ بات مجھے نیپال کے ما نواز رہنما نے خود بتائی۔
پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی بنانے میں بھٹو صاحب کا کلیدی کردار تھا۔ امریکہ والوں کو تو بھٹو صاحب کے پیر پی پی دھونے چاہیں کہ امریکہ، چین دوستی میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔ لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کروانا بھٹو صاحب کی سفارت کاری کا زندہ ثبوت تھا۔ میں سمجھتا ہوں انہی باتوں کی وجہ سے بھٹو صاحب کا قتل کرنا ہی کرنا تھا۔ ضیاالحق تو محض اک آلہ کار تھا۔ میرے ہم زلف اور کزن میاں سلیم اللہ سعودی عرب میں سفیر تھے۔ انہی دنوں اقتدار سنبھالنے کے بعدضیا الحق سعودی عرب گیا۔ وہاں خانہ کعبہ میں غالباً غسل کعبہ کی تقریب تھی۔ وہاں یاسر عرفات بھی مدعو تھے۔ میاں سلیم اللہ کہتے ہیں کہ یاسر عرفات نے موقع پاکر حرم شریف میں ضیاالحق سے بھٹو کو پھانسی نہ دینے کا وعدہ لیا۔ ضیاالحق نے حرم شریف میں وعدہ کرلیا مگر بعد ازاں مکر گیا۔یہ واقعہ میاں سلیم اللہ نے خود مجھے یہ واقعہ سنایا۔ یہ ضیا الحق کی منافقت کی مثال بھی ہے اور اس بات کا اشارہ بھی کہ ضیاالحق کو لایا ہی اک بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے تھاجس میں بھٹو کو عبرت ناک مثال بنانا شامل تھا۔ بھٹو صاحب کی حکومت کے خاتمہ اور انکے عدالتی قتل سے بحیثیت ریاست و معاشرہ پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ بے نظیر بھٹو کی قربانیوں کااک زمانہ گواہ ہے مگر جوسیاسی ویژن اور خارجہ امور کی بصیرت بھٹو صاحب میں تھی اس کا کوئی متبادل نہ تھا۔ ایک مثال مارگریٹ تھیچر کی معاشی پالیسیوں کی ہے جسے 1989 میں بے نظیر حکومت نے اپنایا۔یہ پالیسیاں پی پی پی کی بنیادی دستاویز سے متصادم تھیں۔ میری نظر میں ہمیں ان پالیسیوں کو نہیں اپنا چاہیے تھا۔ نج کاری بارے بھٹو صاحب کی بصیرت باکمال تھی۔ اگر ہمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے اصولوں کو اپنانا بھی تھا تو ایسا کرتے ہوئے عوامی مفاد کو اولیت دینا چاہیے تھی۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے تابع پالیسیاں بنانا عوامی مفاد پر سمجھوتہ تھا۔ ہر بیرونی پالیسی کو بغیر چوں چرا تسلیم کرنا درست حکمت عملی نہیں تھی۔ اگر آپ 20 ویں صدی کے دوسرے نصف پر نظر ڈالیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ، برطانیہ نے عوامی لیڈر شپ کو اکثر ممالک میں ختم کرکے آمریتوں کو تحفظ دیا۔ تاہم اب 21 ویں صدی میں صورتحال بہتر ہورہی ہے۔ جو کچھ بھٹو صاحب نے اپنے 5 1/2 سالہ دور اقتدار میں حاصل کیا تھا وہ سب ضیاالحق اور اس کے بعد مشرف نے گنوادیا۔ جن انتہا پسندیوں اور دہشت گردیوں کا اہم آج شکار ہیں ان کی وجہ بعض بیرونی و اندرونی پالیسیاں ہیں جو بھٹو کی حکومت ختم کرنے کے بعد ہمارا مقدر بنادی گئیں تھیں۔
................................................



شیخ فصیح روف: ضیا الحق کا دور تھاکہ اس دور ہی میں ہمیں سیاسی “جاگ” لگی۔ ہمیں لگتا تھا کہ تمام ریاستی ادارے بشمول اخبارات ضیاالحق کی طرف ہیں اور یہ سب مل کر صرف اور صرف پی پی پی کے خلاف ہیں۔ یہ صاف نظر آتا تھا کہ پی پی پی مظلوم اور ضیاالحق ظالم ہے۔سیاسی سطح پر خوف اور حبس طاری تھا مگر غریب لوگ پی پی پی کے ساتھ تھے۔ گلی محلہ کی سطح پر کارکن از خود ہی ضیاالحق کے خلاف متحرک تھے۔ ضیاالحق کے ریفرنڈم کا دن مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ اس ریفرنڈم نے ہمیں یہ بات بھی سمجھادی کہ ریاست و میڈیا کیسے سرعام جھوٹ بولتے ہیں۔ بھٹو کی پھانسی کی وجہ سے لوگ پہلے ہی کہتے تھے کہ عدالتیں انصاف نہیں کرتیں بلکہ جج محض  “غلام” ہیں۔



کاشف بخاری: 1977 کے انتخابات مجھے یاد ہیں۔ میں گڑھی شاہو کا رہنے والا تھا کہ یہ وہی تاریخی حلقہ تھا جہاں سے بھٹو صاحب خود الیکشن لڑتے تھے۔ ہمارے اردگرد عام آدمی پی پی پی اور بھٹو صاحب سے والہانہ محبت کرتا تھا۔ ایک کباب لگانے والا ہوتا تھا جس نے اپنا نام “عوامی” رکھا ہوا تھا۔ وہ بھٹو کا عاشق تھا۔ ایسے ہی ایک جمعدار ہوتے تھے ان کا نام تھا “چنا” ۔ ان کی رنگت سیاہ تھی۔ مجھے یاد ہے جب وہ ووٹ ڈال کر آئے تو لوگوں نے اسے مذاق کرتے ہوئے کہا، “چنے کس نوں ووٹ پایا اے” ؟ اس نے اپنا انگوٹھا سب کو دیکھایا اور کہا میں بھٹو کو ووٹ دے کر آیا ہوں۔ اس کی سیاہ رنگت کی وجہ سے سیاہی کا نشان نظر نہیں آتا تھا جس پر لوگ چنے کو بار بار چھیڑتے تھے۔
یہ سب عام لوگ تھے جن کی پی پی پی اور بھٹو سے محبت تھی۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب قتل کے جعلی مقدمے میں گرفتاربھٹو صاحب کی لاہور ہائی کورٹ نے ضمانت لے لی تھی۔ بھٹو صاحب ائیر پورٹ آرہے تھے تو ایک جم غفیر انہیں پیدل لاہور ائیر پورٹ سے لینے جارہا تھا۔گڑھی شاہو چوک میں جلوس کی اک بڑی ٹولی کو جاتے میں نے خود دیکھا تھا۔ میں نے زندگی بھر ایسا بھرپا ہوا عوامی اجتماع نہیں دیکھا۔باوجود خواہش کے میں ان کے ہمراہ نہ جا سکا کیونکہ میں ابھی چھوٹا تھا۔پھر بھٹو صاحب کے خلاف انتہائی گھٹیا، مکرو مہم چلائی گئی۔ بھٹو صاحب کو کبھی گھاسی رام کی اولاد لکھنا، کبھی ان کے بیگم کی امریکی صدر کے ساتھ تصویر والا پوسٹر بنانا اور ایسے بہت سے گھٹیا اقدامات ضیاالحق کرواتا رہتا تھا۔ جس دن بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کی خبر آئی تو گھر میں اک خاموش ماتم کی فضاءتھی۔ کوئی کسی سے بات نہیں کررہا تھا۔ نہ کسی نے کچھ کھانا بنایا، نہ کھایا، یوں لگتا تھا سب پرسکتہ کی کیفیت طاری ہے۔ لوگ اپنا غصہ دباکر بیٹھے تھے۔ ضیاالحق کے خلاف جب بھی لوگوں کو موقع ملا انھوں نے اس غصہ کو بھرپور انداز میں نکالا۔ چاہے وہ ضیا شاہی میں ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات ہوں، ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے ہونے والی گرفتاریاں ہوں ، ریفرنڈم ہویا پھر 10 اپریل 1986 کا تاریخی دن جب لاہور کی سڑکوں پر ضیاالحق کے خلاف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبال میں اک جم غفیر موجود تھا۔ یہ ضیاالحق کے لیے اس نفرت کا اظہار تھا جو 4 اپریل کے دن سے برابر لوگوں کے دلوں میں ابل رہی تھی۔
1979 میں ضیاالحق نے بلدیاتی انتخابات کروائے تو اس میں لاہور کی غالباً 100 میں سے 67 نشستیں پی پی پی والے جیت گئے تھے۔ یہ ضیا شاہی سے لہوریوں کی نفرت کا واضح اظہار تھا۔ گڑھی شاہو سے بشیر بھٹو الیکشن لڑا جو پی پی پی کا معمولی کارکن تھا۔ اس کے مقابلہ میں اک بااثر خاندان کا فرد تھا جس کی برادری بھی علاقہ میں خاصی بڑی تھی۔ یہ وہی لوگ تھے جنھوں نے گڑھی شاہو کی “بمبئے بلڈنگ” کا نام بدل کر“ کمبوہ بلڈنگ” رکھ دیا تھا۔ مارشلاءکا خوف اپنی جگہ برابر موجود تھا۔ ان حالات میں پیپلز پارٹی کے کارکن و ہمدرد آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو حمائیت کا یقین دلاتے تھے۔ کھل کر پی پی پی کی حمائیت نہیں کی جاسکتی تھی۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کو کچھ مہینے ہوئے تھے۔ سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں حصّہ لینے کی ممانعت تھی۔ پیپلز پارٹی کے لوگ عوام دوست کے نام سے الیکشن لڑرہے تھے۔ لوگ ظلم کے خلاف متحد تھے۔ جو تجریہ نگار کہتے ہیں کہ لو گ مارشلاءمیں لاتعلق رہے تھے انہیں اپنے تجزبات کو زمینی حقائق سے جوڑنا چاہیے۔ الیکشن کا رزلٹ آیا تو سیاست جیت گئی کہ نہ خوف لوگوں کا کچھ بگاڑ سکا نہ ہی آمریت کو برادری کی حمائیت مل سکی۔ لوگوں کی اکثریت نے بشیر بھٹو کو ووٹ دیے۔ پنجاب بھر میں ایسی صورتحال تھی اور لوگ ضیا شاہی کو ظالم اور جھوٹ پر مبنی حکومت سمجھتے تھے۔

FURTHER READINGS
Will PPP revive in future?

No comments:

Post a Comment

May Day 2024, Bounded Labor & new ways of the struggle

  May  Day 2024  Bounded Labor & new ways of the struggle  In the South Asia, thanks to Brahminical legacy dipped in colonialism sociali...