Friday, August 7, 2015

Courts & Politics: Is Doctrine of Necessity Buried?


Is Doctrine of Necessity Buried?
 Fight for supremacy of Parliament is getting momentum and after the decisions of JC and SC 17 member bench the pro dharna lobby is divided from within. Will this continue?

For Complete Article, click below 


اس مقدمہ کے دوران آئین پاکستان1973اور اس کے بنیادی ڈھانچہ سے متعلق سوالات بھی زیر بحث آئے اور پارلیمنٹ کے اس کلی اختیار بارے بھی بحثیں ہوئیں جو آئین میں ترامیم سے متعلق ہے۔ قدامت پسند سوچ کے حامل تجزیہ کار انصار عباسی کو یہ ڈر ہے کہ اگر آئینی ترامیم سے متعلق پارلیمنٹ کے ’’کلی اختیار‘‘ کو لگام نہیں ڈالی گئی تو کہیں آئین کا ’’اسلامی تشخض‘‘ ہی کل کلاں فارغ نہ ہو جائے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ وہ آئین کے اسلامی تشخض کی حمائیت کر رہے ہیں یا پھر ’’ضیائی‘‘ تشخض کی۔پا رلیمنٹ کے ’’کلی اختیار‘‘ کی فکر نرے عباسی صاحب ہی کو نہیں بلکہ مرکزیت پسند ٹولہ اور غیرجمہوری طرز حکمرانیوں کے دلدادوں کو بھی پا رلیمنٹ کے ’’کلی اختیار‘‘ پر بوجوہ سخت تحفظات ہیں۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ملک پاکستان میں8 پہلے دن سے اک گروہ کو 18ویں ترمیم سے سخت اختلافات تھے۔ یہ وہی گروہ ہے جسے صوبائی خودمختاری کے لفظ تک سے بھی چڑ رہی ہے جبکہ 18ویں ترمیم تشکیل و تعمیر پاکستان میں صوبوں کے کردار کو تسلیم کرنے سے عبارت ہے
--------------------------------------------
سیاستدانوں اور پارلیمان کی سب سے بڑی کامیابی تو 1973کا آئین تھا جس پر اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے دستخط کیے تھے۔ زیرک ذولفقار علی بھٹو نے نہ صرف محض چھ سیٹیں جیتنے والی نیشنل عوامی پارٹی کو ساتھ ملایا بلکہ سات، سات سیٹیں جیتنے والی جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان اور جماعت اسلامی کو بھی آئین کی منظوریوں میں ساتھ رکھا۔ پی پی پی کی اس اسمبلی میں 81 سیٹیں تھیں اور 14سیٹیں جیتنے والی مسلم لیگ (قیوم) ان کی اتحادی تھی مگر بھٹو صاحب نے سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کو اک متفقہ آئین دیا 
-------------------------------------
جمہوریت پر دستخط کرنے والوں نے ان گروہوں کی قیادت کی تو جا کر کہیں 18 ویں ترمیم کا سویرا ہوا۔طویل رات کے بعد جب یکدم روشنی ہوتی ہے تو آنکھیں وقتی طور پرچندھیا جاتیں ہیں کہ سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار کی بحالی سے لے کر پہلے جمہوری انتقال اقتدار تک آنکھ مچولیاں جاری رہیں تاہم بالعموم عدالتوں نے نئے راستوں کی طرف پیش قدمیاں کیں۔ دھرنوں کے دوران جس طرح پارلیمنٹ اختلافات کو بالائے طاق رکھ کرجمہوری سوال پر پہرہ دیتی رہی اس نے دیگر اداروں بشمول عدلیہ کو بدل چکے حالات کی نوید سنا دی۔ یہ وہ حقائق ہیں جن پر ہم عصر مورخ روشنی ڈالنے سے بوجوہ کنی کتراتا ہے۔ 
-----------------------


معزز عدلیہ ، جج صاحبان اور ان کے حالیہ فیصلوں کو بھی اسی تسلسل میں دیکھنے سے پاکستان کے درست سمت میں بتدریج بڑھنے کی سمجھ آتی ہے۔ چند سال قبل یہ دعوی کیا گیا تھا کہ عدلیہ نے نظریہ ضرورر دفن کر دیا ہے مگر اس کا عملی مظاہرہ جوڈیشل کمیشن اور حالیہ فیصلوں ہی سے عوام کے سامنے آیا ہے۔ تاریخ کو کتابوں میں پڑھنا اور خود بدلتے وقت کی تاریخ سے بطور اک کردار گذرنا دو مختلف عمل ہیں اور صاحب بصیرت سیاستدان وہی ہوتا ہے جس کی دونوں پر نظر ہو۔ اس وقت تمام ادارے اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کے عمل سے گذر رہے ہیں اور سب کو رل مل کر ’’نئے عمرانی معاہدے‘‘ کی تشکیل کرنی ہے۔ دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت ایک طرف ہے تو اداروں کی کشمکش دوسری طرف کہ جذبات اور نعرے بازیوں کی بجائے تحمل اور فہم سے آگے بڑھنا ہو گا۔ ذرا سی لغرش ڈھلوانوں کی طرف دھکیلنے کا سبب بن سکتی ہے کہ گذرتا وقت بہت نازک ہے اس لیے ہر مسلہ پر پارلیمان میں بحث لازم ہے۔ سازشیں بند کمروں میں پھلتی پھولتی اور کھلی ہواؤں میں دم توڑتی ہیں۔ نئے چیف جسٹس کی تقرری بھی اہم سنگ میل ہے جو سر پر آن کھڑا ہے۔ خیبر سے کراچی تک پھیلے ان طوفانوں سے کوئی اکیلا نمٹ نہیں سکتا۔ پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا طبل اب بج جانا چاہیے کہ جمہوریت کے عام آدمی تک اثرات حقیقی عدم مرکزیت کے بغیر نہیں پہنچ سکتے۔ وفاق، صوبوں، اضلاع اور یونین کونسلوں تک منتخب اداروں کی موجودگی اورپارلیمنٹ کی بالادستی ہی وہ رستہ ہے جس پر چل کر ہم نہ صرف عام آدمی کو کچھ دے سکتے ہیں بلکہ پاکستان کو بھی استحکام مل سکتا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment

No US President visited Pak in Democratic era (The flipside of Pak-US relations)

  No US President visited Pak in Democratic era (The flipside of  Pak-US relations) Till to date 5 US Presidents visited Pakistan since 195...