Pakistan's
68th Birthday: Lessons, Achievements and Pitfalls
Analysis
of 10 sectors
Judiciary
(Justice), Army (Security), Media (Journalists), Economy (Trade), Energy,
Governance, Education, Health, Human Rights & Politics
You may add things in this article, share your suggestions because it is an ongoing effort.
JUDICIARY
EDUCATION
ECONOMY
Now You can read the article below
68واں
یوم آزادی
پاکستان: کیا کھویا؟ کیا پایا
عدالت، تعلیم، صحت، معیشت، توانائی،
فوج، صحافت، سیاست، ، انسانی حقوق، طرزحکمرانی، انسانی
عامر ریاض
کسی بھی قوم کا یومِ آزادی اس قوم کے لیے یومِ حساب بھی
ہوتا ہے۔ 68ویں یومِ آزادی پرہمیں یہ تجزیہ کرنا ہوگا کہ سیاست، تعلیم، معیشت،
(بشمول تجارت) فوج (بشمول سیکورٹی ادارے)، انصاف (بشمول عدالت)، توانائی، طرزِ
حکمرانی یعنی گورنینس، انسانی حقوق اور صحافت کے حوالہ سے گذشتہ 68 سالوں میں
ہماری کیا کارکردگی رہی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہرسال آنے والے یومِ آزادی کو ہم
یومِ حساب کے طور پر بھی یاد رکھتے۔ مگر جنرل ضیاالحق کے دَور سے ہر یومِ آزادی پر
ہمیں محض جھنڈوں، قومی ترانوں اور آل انڈیا مسلم کی سیاست سے بہلانے پر رُجھا دیا
گیا۔ اس سب کامقصد یہی تھا کہ پاکستان میں اشرافیہ اور حکمران جو کچھ بھی کر رہے
ہیں اس کاحساب نہ لیا جائے۔
اس مضمون میں ہم ان دس شعبہ جات کے حوالہ سے گذشتہ 68 سالوں پراک اچٹتی نظرڈالیں گے۔
اگر آپ تسلسل سے 68 سالوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہاں بالعموم منتخب اور غیرمنتخب اداروں کی کشمکش رہی ہے کہ ہر ادارے میں ایسے گروہ موجود رہے ہیں جنہیں پارلیمنٹ کی حاکمیت بارے تحفظات تھے۔
عدالت ہو یا سول
ملٹری بیوروکریسی، صحافت ہو یا ٹیکنوکریٹ، مذہبی حلقے ہوں یا این جی اوز، ان سب
میں ایسے گروہوں اور شخصیات کی نشاندہیاں کی جاسکتی ہیں جنہیں پارلیمان کی
بالادستی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔
علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں اسمبلیوں کے ممبر رہے اورہمیشہ آئین و قانون کی بات کرتے رہے۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان کے قیام کی منظوری ایک پارلیمنٹ نے دی جسے ”قانونِ آزادی 1947“ کہا جاتا ہے۔
علامہ اقبال اور
قائداعظم کے افکار میں مذہبی، لسانی و قومیتی رنگارنگی
(Diversity) جدیدیت اور وفاقی پارلیمانی بندوبست کو نمایاں
حیثیت حاصل رہی اور اس کے تین بڑے حوالے خطبہ الٰہ آباد 1930,قرارداِ لاہور 1940
اور آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں قائداعظم کی تقریر ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ان
تینوں حوالوں کو نظرانداز کرتے ہوئے قائداعظم کی وفات کے 6 ماہ کے اندراندر
قرارداِ مقاصد جیسی مبہم اور متنازعہ دستاویز کے ذریعہ مرکزیت پسندی کاڈول ڈالا
گیا کہ اُردو زبان اور اسلام کو وطنی تشکیل
(Nation Building) کے لیے لازم و ملزوم قرار دے دیا گیا۔
بھلا ہو پہلے وزیرخزانہ غلام محمد کا کہ ان کے دباﺅ کے نتیجہ میں یہ قرارداد آئین کے دیباچہ تک ہی محدود رہی۔
اس قرارداد کی حمایت اور
مخالفت کرنے والے گروہ ایک ہی سکہ کے دو رُخ تھے اور اس سکہ کو چلانے کا مقصد یہی
تھا کہ پاکستان میں ”اسلام اور غیراسلام“ کی لڑائی کی آڑ میں اصل مسائل سے توجہ
ہٹائی جا سکے۔ 21ویں صدی میں اس قرارداد کو آئین کا ڈھانچہ قرار دینے والوں کو صرف
یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ اس اہم قردارداد کی اسمبلی کے کل 75 میں سے محض 21
ممبران نے حمایت کی تھی۔ جن دس غیرمسلم ممبران نے اس کی مخالفت کی تھی وہ بھی
”اسلام اور غیراسلام“ کی لڑائی کا حصہ تھے۔ اس قرارداد کو تینوں آئینی دستاویزات
میں آئین کے دیباچہ میں رکھا گیا مگر پھر ضیاءالحق نے اسے آئین کا حصہ بنا کر نیا
پنڈورہ کھول دیا۔ دلچسپ حقیقت تو یہ ہے کہ اس مبہم اورمتنازعہ دستاویز میں بھی
پارلیمان کی حاکمیت کے اصول سے روگردانی نہیں کی گئی تھی۔ ان حقائق کے باوجود اگر
کوئی پاکستان میں پارلیمان کی بالادستی کے اصول سے روگردانی کرے تو اسے کیا کہا
جائے؟ اس کا فیصلہ آپ خود کرلیں۔ اس خصوصی تبصرے کے بعد اب ہر شعبہ بارے مختصر مگر
الگ الگ حقائق سامنے رکھتے ہیں۔
-1 انصاف (عدالت)
قانون و آئین کی حکمرانی کو ہمیشہ سے پاکستان میں کلیدی
حیثیت حاصل رہی ہے مگر اس پر عملدرآمد کا مسئلہ ٹیڑھا ہی رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب
یہ بات کہی جاتی تھی کہ ”جج بولتے نہیں مگر ان کے فیصلے بولتے ہیں“۔ یہ حقیقت ہے
کہ ملک پاکستان میں فوج سے پہلے سول بیوروکریسی اور عدلیہ سیاست میں ملوث ہو چکے
تھے۔ طاقت کا مرکز جب سول بیوروکریسی سے ملٹری بیوروکریسی کی طرف منتقل ہو گیا تو
عدلیہ نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ تاہم اس کے باوجود ملک کے کسی بھی آئین میں ”قانون و
آئین کی حکمرانی“ کے اصول کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ علامہ اقبال اور قائداعظم تو
خود وکیل تھے اور تادم مرگ قانون و آئین کے احترام کو اوّلیت دیتے رہے۔ قبل و بعد از
1947 کی سیاستوں میں قانون دانوں کا بڑا تگڑا کردار رہا ہے کہ جدوجہد آزادی اور
اسمبلیوں میں ہمیشہ سے اک معقول تعداد میں وکلاءموجود رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے
آئینی ڈرافٹ (1950) سے لے کر 1973 کے آئین تک سیاسی و معاشی حقوق کو اوّلیت حاصل
رہی ہے۔
سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور وکلاءنے پاکستان کی جمہوری جدوجہد میں ہمیشہ ہر اوّل دستہ کا کردار ادا کیا ہے۔ مگر بار اور بنچ میں ایسے گروہ بھی رہے ہیں جو پارلیمان کے کردار بارے بوجوہ شاکی ہیں۔
ڈکٹیٹروں نے اس ملک کے آئین کا حلیہ بگاڑا
تو اسے قبولیت عدالتوں نے بخشی۔ حتا کہ ڈکٹیٹر کو خوش کرنے کے لیے کبھی منتخب
وزیراعظم کو پھانسی لگایا تو کبھی جلاوطنی پر مجبور کیا۔ نظریہ ضرورت کے نام پر جو
کچھ اس ملک میں گذشتہ 68 سالوں سے ہوتا رہا ہے اس پر تو بار اور بنچ کے بہت سے
ججوں اور وکیلوں کو بھی اعتراضات رہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ضیاءالحق اور مشرف کے
ادوار میں مارشل لاءکے خلاف وکلاءپیش پیش رہے ہیں۔ ایسے ججوں کی فہرست بھی موجود
ہے جنہوں نے ڈکٹیٹروں کی مخالفتوں میں اپنے پرتعیش عہدوں سے استعفے دے ڈالے۔
کیونکہ پارلیمان میں قانون دان بھی منتخب ہو سکتے ہیں اس لیے عدلیہ کو پارلیمان کی
بالادستی قبول کرنے پر اعتراضات نہیں ہونے چاہئیں۔
18ویں اور 21ویں ترامیم سے متعلق اپنے حالیہ فیصلہ میں
چیف جسٹس ناصر الملک نے اس مسئلہ کوحل کرکے
68ویں سالگرہ پر قوم کو بہترین تحفہ دیا ہے۔
اس یومِ آزادی سے پہلے 24 دنوں کے لیے جناب
جسٹس جواد ایس خواجہ کونیا چیف جسٹس بنانے کا اعلان ہو چکا ہے۔ تاہم خواجہ صاحب
اپنے پیش رو کے فیصلوں کو سامنے رکھ کر ہی چلیں گے۔ عدالتوں کو اب چھوٹی عدالتوں
کو بہتر کرنے پر توجہ دینی چاہیے کہ اگر اضلاع میں بار و بنچ کی صورتحال مخدوش ہو
گی تو انصاف کے تقاضے پورے نہیںہو سکیں گے۔ آئین اورآئینی ڈھانچہ کی بحث میں جس
قدر نقصان بھارت نے اپنے عوام کا کیا ہے اس سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ جو پارلیمنٹ
آئین میں ترمیم کر سکتی ہے اس پر کسی اور قسم کی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ یہی بات
17 ججوں پر مشتمل بنچ نے بھی کہی ہے جس کی قیادت چیف جسٹس ناصر الملک کر رہے تھے۔
البتہ جسٹس ایس اے خواجہ ان جج صاحبان میں شامل تھے جنہیں اس پر تحفظات تھے۔
اختلاف ان کا حق ہے مگر انہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کابھی خیال رکھنا چاہیے جس
میں پارلیمان کے وجود ہی کو نہ ماننے والے آج بھی طاقت رکھتے ہیں۔ پارلیمانی
جمہوریت پر ہمارے ہاں پہلے دن سے اتفاق تھا اس لیے اس کو متنازعہ بنانے کے عمل سے
اب پرہیز برتنا چاہیے۔ اگرمنتخب وزےراعظم چیف آف آرمی سٹاف کا انتخاب کرسکتا ہے تو
پھر اسے چیف جسٹس کے انتخاب سے کےوں روکا جائے۔؟ البتہ طریقہ کار سفاف بھی ہونا
چاہیے اور اس میں متعلقہ ادارے کی رائے کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ اس ضمن میں بار
اور بنچ کی کمیٹی تین نام دے سکتی ہے یا پھر کوئی اور ایسا فارمولا طے کیا جانا
چاہیے جس سے پارلیمان کی بالادستی اور اداروں کی آزادی دونوں پر حرف نہ آئے۔ کےاہر
ادارہ خود کو پارلیمنٹ سے بالا دست سمجھنے میں حق بجانب ہے؟ ان سوالات کو اب ملک
پاکستان میں حل ہوجاناچاہےے۔
-2 تعلیم
گذشتہ 68 سالوں میں پاکستان میں بہت سے نئے سکول، کالج
اور یونیورسٹیاں بنیں۔ انگریز کے دَور میں تو آج کی نسبت تعلیم حاصل کرنے والوں کا
تناسب بہت کم تھا تاہم آج آئین پاکستان میں بعداز 18 ویں ترمیم A-25 موجود ہے جو ریاست کو اس امر کی پابند
کرتی ہے کہ 5 سے 16 سال تک کے ہر پاکستانی کو میٹرک تک مفت اور لازمی تعلیم دی
جائے۔ البتہ معیارِ تعلیم کے حوالہ سے نہ صرف سرکاری بلکہ نجی تعلیم کے حوالہ سے
بھی معاملات دگرگوں ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ تعلیمی پالیسی ہے جو ہر چند سالوں کے بعد
تبدیل ہو جاتی ہے۔ خصوصی طور پر زبانوں کے حوالہ سے ہمارے ہاں ڈھنگ کی پالیسی بنی
ہی نہیں۔ نومبر 1947 میں ہونے والی پہلی تعلیمی کانفرنس میں وزیرتعلیم و بنگالی
رہنما فضل الرحمن نے پاکستانی مادری زبانوں کے حق میں بات کی تھی مگر لیاقت علی
خان اور ان کے حواری مادری زبانوں کو وطنی تشکیل سے جوڑنے کی بصیرت نہیں رکھتے
تھے۔ آل انڈیا کانگرس کی طرح اُن پر بھی نوآبادیاتی دور کا سایہ فگن چھایا ہوا تھا
کہ مرکزیت پسندی اور وحدنی بندوبست کو (Unitary Form of Government)وطنی
تشکیل میں اوّلیت حاصل تھی۔ جب بنگالیوں نے جگتو فرنٹ کی شکل میں کامیاب مزاحمت کی
تو 1956 کے آئین میں اُردو کے ساتھ بنگالی زبان کو بھی قومی زبان کا درجہ دے دیا
گیا مگر اس سے مادری زبانوں کا مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید بگڑ گیا۔ ایک طرف
انگریزی زبان کی حاکمیت تھی تو دوسری طرف اُردو زبان والے حلوائی کی دکان پر نانا
جی کی فاتحہ پڑھنے کو بیتاب تھے۔ سابقہ مغربی پاکستان میں سندھی وہ واحد مادری
زبان تھی جو سندھ کے سکولوں میں ذریعہ تعلیم کادرجہ رکھتی تھی مگر اس کی وجہ
انگریز دَور کی زبانوں بارے دہری پالیسی ہی تھی۔ البتہ پنجابی، پشتو اور بلوچی کا
کوئی نام لینے کو تیار نہ تھا۔ 1959 میں پہلی بار تفصیلی تعلیمی پالیسی آئی۔
سیکرٹری تعلیم ایس ایم شریف سمیت جن درجن بھر ماہرین نے عرق ریزی سے اسے تیا رکیا
ان سب کا شعبہ تعلیم سے گہرا تعلق تھا۔ مگر ایک اچھی پالیسی محض اس لیے متنازعہ ہو
گئی کہ اس کو جاری کرنے والی حکومت مارشل لاءکی پیداوار تھی اور اس کو نافذ کرنے
کی ذمہ دار برٹش تربیت یافتہ بیوروکریسی جس میں عوامیت عنقا تھی۔ 1972 میں بغیر
تیاری کیے سکولوں، کالجوں کو قومیا لیا گیا تو تعلیمی معیار اور نیچے آ گیا۔ 1979
کی تعلیمی پالیسی کے بعد پرائیویٹ تعلیم کو بڑھاوا دیا گیا۔ یوں یہ بات تسلیم کر
لی گئی کہ تعلیم کا تعلق خدمت سے نہیں بلکہ منفعت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پیسے
والوں کے لیے بہترین اور معیاری تعلیم موجود ہے مگر اس تعلیمی بندوبست اور اس میں
پڑھائے جانے والے نصاب کا دھرتی سے تعلق نہ ہونے کے برابر ہے۔ اشرافیہ کے سکولوں،
کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والے طلباءکی پہلی ترجیح یا تو ملک سے باہرجانا
ہے یا پھر ملک میں موجود کسی بین الاقوامی شہرت کے حامل ادارے سے وابستہ ہونا ہے۔
تعلیم کے حوالہ سے ایک اور اہم ترین تضاد ہمارا عورتوں اور غیرمسلم پاکستانیوں کے
متعلق متضاد رویہ ہے جس کی جھلک ہماری تعلیمی دستاویزات اور نصابی کتب میں جابجا
ملتی ہیں۔ 1969 کی تعلیمی پالیسی کے بعد ہماری تعلیمی دستاویزات سے یہ سفارش 40
سال کے لیے غائب ہو گئی تھی کہ ہم غیرمسلم پاکستانیوں کو ان کے عقائد کے مطابق
تعلیم دیں گے۔ یہی نہیں بلکہ ضیا شاہی کے بعد تو ہماری نصابی کتب میں کسی غیر مسلم
پاکستانی کی خدمات بارے سبق بھی شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ آخرکار یہ درینہ مسئلہ
2009 میں جمہوری دَور میں حل ہوا اور اب کم از کم پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ غیر مسلم
پاکستانیوں کے لیے ”اخلاقیات“ کے عنوان سے تیسری سے 10ویں تک کتب چھاپ رہا ہے جو
قابل تحسین ہے۔ تاہم قومی ہیروز اور رول ماڈل کے طور پر اُردو یا انگریزی کی کتب
میں غیر مسلم پاکستانیوں کے حوالہ سے معلومات شامل نصاب کرنا بہت ضروری ہے۔ کم از
کم پنجاب کی سرکاری کتب میں صوفیاءکرام کو جگہ ملنے لگی ہے جو خوش آئیند ہے۔ اس کے
باوجود نصابی کتب میں شہری تعصب بھی ہے اور غلط تاریخی حقائق کی بھی بھرمار ہے۔
اگر 50فیصد عورتوں کو ہم برابر کاپاکستانی نہیں سمجھتے اور انہیں کارویہار میں
شامل کرنے بارے تحفظات رکھتے ہیں تو پھر انہیں تعلیم کیوں دی جاتی ہے؟ اگر ایک
کروڑ سے زائد غیر مسلم پاکستانیوں کو ہم برابر کا پاکستانی شہری نہیں سمجھتے تو
پھر ان کو ہم کیاپیغام دے رہے ہیں؟ یہ ہیں وہ سوال جن پر تاحال پاکستانی ریاست
دہری پالیسیوں کا شکار ہے۔
تعلیم کی طرح صحت کے شعبہ میں بھی حکومت نے گذشتہ 68
سالوں میں بہت سرمایہ کاری کی ہے۔ 1947 کے مقابلہ میں آج بہت سے ہسپتال پاکستان
میں چل رہے ہیں۔ میڈیکل کی سرکاری تعلیم میں طلباءسے بہت کم رقم بطو رفیس لی جاتی
ہے۔ تعلیم کی طرح اس شعبہ میں تنزلی کی بڑی وجہ بغیر ریگولیشن کے کی جانے والی
نجکاری ہے۔میڈیکل اور انجینئرنگ کے شعبہ جات میں تو سرکار پہلے دن سے سرمایہ کاری
کر رہی ہے مگر یہاں سے پڑھ کر نکلنے والے ڈاکٹروں اور انجینئروں کو عوامی خدمت کے
لیے تیار رہنے کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔ نہ ہی انہیں دور دراز کے علاقوں میں
جانے پر اضافی مراعات ملتی ہیں۔ ڈاکٹروں، انجینئروں، ماہر تعمیرات وغیرہ کو بعداز
تعلیم پرائیویٹ پریکٹس کی اجازتیں دیتے ہوئے یہ نہ سوچا گیا کہ انہیں عوامی خدمت
بھی کرنا ہے۔ انہیں ملک سے باہر بھی جانے دیا گیا۔ آج یا تو بہت سے علاقوں میں
ہسپتال ہی نہیں اور اگر ہیں تو وہاں ڈاکٹروں و دیگر عملہ کی کمی ہے اور ان کی
کارکردگی بھی قابل تحسین نہیں۔ یہ سب صحت کے حوالہ سے ہماری دہری پالیسیوں کا
نتیجہ ہے۔ دیہات میں ڈاکٹروں کو اضافی مراعات دی جاتیں تو آج دیہات کے حالات بہتر
ہوتے۔ ہر جگہ ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس رقم ہے
توآپ بہتر علاج کروا سکتے ہیں۔ سوال تو ان لوگوں کا ہے جن کے پاس لمبے چوڑے بینک
اکاﺅنٹ نہیںہیں، کیا وہ
پاکستانی نہیں؟ تعلیم اور صحت کے شعبہ جات میں اگر کم از کم معیا ربنا دیا جاتا تو
تعلیم اور صحت سے وابستہ بنیادی سہولتوں سے عام پاکستانی بھی مستفید ہوسکتے تھے۔
یومِ آزادی مناتے وقت ہمیںیہ عزم بھی کرنا ہوگا کہ 69ویں یا 70ویں یومِ آزادی تک ہر
پاکستانی کو علاج اور تعلیم کی کم از کم سہولتیں میسرہوں گی۔
-4 معیشت (تجارت)
اگر کوئی 68 سالوں کے بجٹوں کی رقم جمع کرتے ہوئے اس
رقم کومختلف مدوں میں سامنے رکھے تو معلوم ہو گا کہ 1980 کی دہائی سے ہمارے بجٹ
کابڑا حصہ بیرونی قرضوں اور دفاع پر خرچ ہوتا ہے۔ غیر ضروری جنگوں میں حصہ لینے کی
وجہ ہی سے ان دونوںمدوں میں ہمیں ہر سال اس قدر زیادہ رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ علاوہ
ازیں پاکستانی معیشت کا بڑا انحصار ”غیررسمی معیشت“ پر رہا ہے جس میں سمگلنگ سے لے
کر زمینوں، پلاٹوں کی خریدوفروخت ہی کو اوّلیت حاصل ہے۔ جس ملک میں طرح طرح کی
فصلیں اور پھل زمانہ قدیم سے موجود ہوں، پانی کی فراوانی ہو وہاں بنیادی اہمیت تو
دیہی معیشت کو قرار دینا تھا۔ آ جا کر ایک ٹیکسٹائل کی صنعت ہے جس نے 68 سالوں میں
ملک کا بھرم رکھا ہے مگر اس میں بھی ہم بہترین تیارشدہ کپڑے
(Finished Product) نہیں بناسکے بلکہ محض دھاگے یا ان سلے
کپڑے کو بیچ کر رانجھا راضی کرتے رہے ہیں۔ آج کل تو جی ایس پی (پلس) کی وجہ سے
ہماری برآمدات کو بغیر ڈیوٹی یورپی منڈیوںتک رسائی بھی مل چکی ہے مگر ہم اس رعایت
کو استعمال کرنے سے بوجوہ قاصر ہیں۔ حذب اختلاف حکمرانوں کو جی ایس پی (پلس) سے
فائدہ اٹھانے پر مجبور کرنے کی بجائے دھرنوں اور دیگر کاموں میں غلطاں ہے۔ چین کے
ساتھ گوادر پورٹ کے بعد معاشی راہداری کا منصوبہ تو اچھی خبر ہے مگر پائیدار معیشت
کے لیے ایک سے زیادہ معاشی پروگراموں کی ضرورت بھی ہے اور یورپی منڈی تک رسائی بھی
اہمیت کی حامل ہے۔ غیررسمی معیشت کو بند کرنا اور اسلحہ، بارود کی بجائے تعلیم و
صحت پر بجٹ خرچ کرنا ہمارے اہداف ہونے چاہئیں۔ اگر معاشرہ مضبوط ہوگا، اس کی
قابلیتیں زیادہ ہوں گی تو معاشی راہداری سے پاکستانی زیادہ مستفید ہو سکیں گے۔
معیشت میں بہتری کے لیے ہمیں اپنا تعلیمی قبلہ بھی درست کرنا ہو گا کہ نوجوانوں کو
خالی میٹرک کروانے سے تو کچھ نہیں ہوگا۔ نوجوانوں کو عام تعلیم کے ساتھ ساتھ چھٹی
سے 10ویں تک ہنر بھی آنے چاہئیں تاکہ میٹرک کرنے والا نوجوان مارکیٹ یا منڈی میں
کچھ کرنے کے قابل بھی ہو اور اپنے خاندان کا بھی کفیل بن سکے۔ آج ہمیں کلرک پیدا
کرنے والے نظام تعلیم سے جان چھڑانے کی طرف بڑھنا چاہیے کہ اب سرکاری نوکریاں کم
ہیں۔
یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ پہلے دن سے ریاست پاکستان نے
کاروباری و صنعتی شعبہ کو کس قدر مراعات دی ہیں۔ غیررسمی معیشت کے لیے کاروباری
آسانیاں اضافی معاملہ ہے کہ بہت سے کاروبار اس غیررسمی معیشت سے جڑے ہیں۔ ایسے
خاندانوں کی طویل فہرست موجود ہے جنہوں نے اس ملک سے اربوں ڈالر کمائے ہیں مگر اس
کے جواب میں وہ کتنا ٹیکس دیتے ہیں؟ اس کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ عام پاکستانی تو
بالواسطہ ٹیکسوں میں جکڑا ہوا ہے جو کسی بھی طرح نیک شگون نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ
حکومت ارب پتیوں پر بھاری ٹیکس عائد کرے یا پھر منافع کے ساتھ وہ رقم اور مراعات
واپس لے جو انہیں 68 سالوں سے دی جاتی رہی ہیں۔
-5 توانائی
مولوی محمد علی قصوری 1915 میں افغانستان گئے تھے اور
غازی امان اللہ کی کارستانیوں کے بعد وہ کچھ دیر فاٹا رہنے کے بعد 1920 کی دہائی
میں براستہ میانوالی واپس پنجاب آ گئے تھے۔ مشاہدات کابل و یاغستان کے عنوان سے
لکھی اپنی کتاب میں انہوں نے اک ایسی بات لکھی جس کا تعلق براہ راست توانائی کے
مسئلہ سے ہے۔ وہ انگلینڈ سے سائنسی تعلیم لے آتے تھے کہ میانوالی کی طرف آئے ہوئے
وہ کالا باغ کے مقام پر رکے اور لکھا کہ کیا مقام ہے! یہ تو قدرت کی طرف سے اس خطہ
کو بجلی پیدا کرنے کا وسیلہ ہے۔ شومئی قسمت ایوب خان نے ورلڈ بینک کی مدد سے تین
دریا بیچ کر منگلا اور تربیلا تو بنائے مگر کالاباغ کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ آج پاکستان
اپنی غیرملکی کرنسی کا بڑا حصہ تین مدوں یعنی دفاع، قرضوں کی ادائیگیوں اور تیل
خریدنے پر خرچ کرتا ہے۔ جس ملک میں چھ شیردریا تھے وہاں پانی سے ارزاں بجلی پیدا
کرنے کو متنازعہ بنایا ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ شمسی توانائی پر بھی قابل قدر کام
نہیں ہوا۔ چین نے پہلے توانائی کا مسئلہ حل کیا تھا پھر ترقی کی تھی مگر ہم ایٹم
بم بنا کے قوم کو بے وقوف بناتے رہے۔ ہمارے پاس جدید سائنسی تحقیق کا بین الاقوامی
سطح پر مستند اپنا کوئی ادارہ نہیں ہے۔ گورنمنٹ کالج اور پنجاب یونیورسٹی کا ہم
بیڑہ غرق کر چکے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیاں نالائق پی ایچ ڈی پیدا کر رہی ہیں اس لیے
ہمیں ”باہرلوں“ کا مرہون منت ہونا پڑتا ہے۔ جہاں چھوٹے ڈیم بن سکتے ہیں وہ بھی
بوجوہ نہیں بنتے۔ توانائی کے بحران کو سیاست میں بھی اہم جگہ ملی چکی ہے اس لیے
امید ہے یہ درینہ مسئلہ حل ہو جائے۔
-6 دفاع (بشمول سیکورٹی)
اس میں کچھ شک نہیں کہ گذشتہ 68 سالوں میں ملکی دفاع
بہت تگڑا ہو چکا ہے۔ تاہم مشرقی پاکستان کے المیہ سے یہی سبق ملتا ہے کہ اگر عوام
اور فوج میں دُوریاں ہوں گی تو ملک کے لیے یہ اچھا شگون نہیں ہوگا۔ ملک میں لگنے
والے چار مارشل لاﺅں
نے 61 میں سے 34 سال ضائع کر ڈالے کہ ان مارشل لاﺅں
سے خود فوج کا ادارہ متنازعہ ہو گیا جس کا احساس 2008 کے بعد خود فوج میں بھی
نمایاں ہے۔ فوج کی سیاست میں مداخلت کافائدہ تو چند خاندانوں کو ہوا مگر اس کے
نتیجہ میں دفاع اور سیاست دونوں ہی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ایک غیرجانبدار
اور تجارت دوست خارجہ پالیسی کی غیرموجودگی میں فوج پر غیرضروری انحصار بڑھ جاتا
ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں افواج منتخب حکومتوں اور دیگر ریاستی اداروں سے مل کر
چلتی ہیں کہ 2008 کے بعد سے پاکستان میں بھی یہی روش جاری ہے۔ تاہم ایسے عناصر اب
بھی موجود ہیں جو نہ تو پارلیمان کی بالادستی کو مانتے ہیں اور نہ ہی جمہوری عمل
کو خوش آئیند سمجھتے ہیں۔ تاہم اس گروہ کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ وفاقی
پارلیمانی روایات کی بجائے دفاع کو مذہب اور محلاتی سازشوں سے جوڑنے سے خود فوج
اور سیکورٹی کے اداروں کو کس قدر نقصان پہنچا ہے۔ آج فوج کو ایک طرف ضرب عضب کرنی
پڑ رہی ہے تو دوسری طرف کراچی میں انہی ”بونوں“ سے نمٹنا پڑ رہا ہے جنہیں ضیاءاور
مشرف کے مارشل لاﺅں
میں ”تحفظ“ فراہم کیا جاتا رہا تھا۔
سیکورٹی سے متعلقہ اداروں بشمول فوج، پولیس وغیرہ کا
غیرجانبدار رہنا جدید ریاستی بندوبست کی قلغی ہے اور اسی سے ریاست کی رٹ متنازعہ
نہیں بنتی۔
-7 صحافت(میڈیا)
آزاد میڈیا کی اطلاع کہاں
سے آئی اس کا تو ابھی ”کھرا“ نکالنا ہے۔ تاہم ےہ حقیقت ہے کہ وکیل آزاد ہوتا ہے
مگرعدالتوں پر دباﺅ
رہتا ہے۔ ایسے ہی صحافی آزاد ہوتا ہے مگر میڈےا ہاﺅس
یا مالکان پر دباﺅ
رہتا ہے۔ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر گذشتہ 68 سالوں کی تاریخ پر نظر ڈالےں
تو معلوم ہوگا کہ لاتعداد صحافیوں نے صحافت کا علم تھامے رکھا اور ہرطرح کی
صعوبتیں برداشت کیں۔ مگر ایسے صحافی بھی پہلے دن سے موجود تھے جو طاقت کی غلام
گردشوں کے اسیر بھی تھے اور خود طاقت کی سیاست کے مشاق کھلاڑی بھی۔ ایسے عناصرکی
وجہ سے ہی سیاست، صحافت اور منعفت کا رشتہ تگڑا ہوتا گےا اور آج صحافی کی غیر
جانبداری بارے ہر کوئی سوال کرتا نظر آتا ہے۔ کبھی ہمارے ہاں محض اخبارورسالے ہی
صحافت کی علامت تھے مگر اب تو ایف ایم ریڈیو، ٹی وی چینلوں اور انٹرنیٹ بشمول سوشل
میڈیا کی وجہ سے صحافت کی کتنی ہی علامات موجود ہےں۔ میڈیا کا مینابازار لگانے سے
پہلے ہمیں واضح پالیسی بنانی چاہیے تھی مگر اس کے لیے ضروری تھا کہ اس مسئلہ پر
کوئی اسمبلی میں بحث کرتا۔ اب میڈیا تو موجود ہے مگر پالیسی کوئی نہیں۔ گذشتہ 68
سالوں میں بہت سے میڈےا ہاﺅسوں
کو حکمران کھا گئے جیسے سول اینڈ ملٹری گزٹ ےا پاکستان ٹائمز، امرز وغیرہ تو بہت
سے میڈیا ہاﺅسوں
نے اربوں روپے کمائے۔ ایسے باکمال صحافی بھی تھے جو پہلے دن سے اقتدار کی غلام
گردشوں میں سرگرداں تھے جن میں الطاف حسین اور مجید نظامی نمایاں تھے۔ مگر صحافیوں
کے لیے ویج بورڈ ایوارڈ اب بھی سردخانہ میں پڑا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مالکان
اور صحافیوں میں مفادات کا فرق اپنا الگ اثر رکھتا ہے۔ دنیا کو درس دینے والے
صحافی چھوٹے اضلاع میں کام کرنے والے پریس کلبوں کے حالات پر خاموش کےوں ہےں؟ اپنا
گھر تو ٹھیک نہیں مگر پارلیمان اور دیگر اداروں کو درس دینے میں اکثر صحافی
یدطولیٰ رکھتے ہےں۔ البتہ بہت سے ایسے صحافی بھی ہیں جنھےں خود صحافت کے اس طرز
عمل سے اختلاف رہا ہے۔ صحافی اور میڈیا تو عوام اور حکمرانوں میں رابطہ بھی ہیں
اور آئینہ بھی کہ اگر یہی لوگ حکمران بن جائیں تو پھر آئینہ کون دکھائے گا۔
-8 انسانی حقوق
1954
تک پاکستان میں انسانی حقوق، غےر مسلم اقلیتوں اور
خواتین کے حوالہ سے قابل قدر کام ہوا تھا کہ اس کاذکر بوجوہ نہیں کیا جاتا۔ 1950
میں آنے والے پہلے آئینی ڈرافٹ میں اس کمیشن کی رپورٹ شامل تھی جس نے سیاسی معاشی
حقوق کے حوالہ سے قابل قدر سفارشات دی تھےں۔ ایسے ہی پہلے چیف جسٹس میاں عبدالرشید
کی سربراہی میں اک کمیشن عائلی قوانین بارے سفارشات دے چکا تھا۔ اگر1956 کے آئین
کو چلنے دےا جاتا اور ملک میں ڈکٹےٹر کا راج نہ آتا تو ان قابل قدر سفارشات پر
عملدرآمد کی راہیں بھی کھل جاتےں۔ مگر جب ملک میں ”طاقت کا راج“ ہی قانون ٹھہرا تو
پھر انسانی حقوق کا معاملہ بھی دگرگوںہوجاتا ہے۔ 1980 کی دہائی سے ہمارے ہاں بین
الاقوامی امداد سے انسانی و سیاسی حقوق کے ادارے بننے شروع ہوئے۔ ان اداروں کا بین
الاقوامی فنڈنگ پر کلی انحصار ان کے مقبول عام نہ ہونے کی اک بڑی وجہ ہے۔ ان میں
اکثر ادارے سیکولر اور اسلامی ڈکٹیٹروں میں بھی فرق رکھتے تھے کہ جس کے نتیجہ میں
ان کا مقبول عام سیاسی کھلاڑےوں سے ٹکراﺅ
بھی رہا۔ اس کے باوجود ان کی مدد سے پاکستان میں بہت سے قوانےن کو نافذ بھی کرواےا
گےا۔ 2008 کے بعد پاکستان میں سیاسی قیدیوں کی تعداد میں قابل قدر کمی آگئی ہے۔
تاہم انسانی حقوق کے مسئلہ کا براہ راست تعلق قانون کی حکمرانی سے ہے کہ جس میں
بار و بنچ کا کلیدی کردار ہے۔ انسانی و سیاسی حقوق کے لیے سرگرداں ان عناصر کا
کردار نازک بھی ہے اور اس بارے بہت سے لوگوں کو تحفظات بھی ہیں کہ اگر ان کا سیاسی
جماعتوں ، سیاسی کارکنوں سے رشتہ مضبوط ہوگا اور ان کی فنڈنگ کے دیسی ذرائع بھی
ہوں گے تو نہ صرف ایسے تحفظات خودبخود اپنی موت مرجائیں گے بلکہ ان اداروں کی
تکریم میں بھی قابل قدر اضافہ ہوگا۔
-9 طرز حکمرانی(Governance)
طرز حکمرانی کا سوال ہمارے ہاں ہمےشہ سے اک ٹیڑھا مسئلہ
رہا ہے مگر وفاقی پارلیمانی بندوبست پر بالعموم اتفاق پایا جاتا تھا۔ حتاکہ
متنازعہ قرارداد مقاصد میں بھی خدا کی حاکمیت کے زمین پر اظہار کا ذریعہ پارلیمان
ہی کو قرار دیا گیا تھا جسے عوام نے منتخب کرنا تھا۔ مگر ہمیں وراثت میں جو طرز
حکمرانی ملا تھا وہ مرکزےت پسندی اور وحدانیت کا پرتو تھا۔ طرز حکمرانی کے حوالہ
سے گذشتہ 68 سالوں سے ہمارے زیادہ تر مسائل مرکزیت پسندی کے فلسفہ سے جڑے رہنے کی
وجہ سے بڑھے ہےں۔ صوبوں اور اضلاع کو ان کے حقوق دینے کی بجائے ہمارے ہاں پہلے دن
سے مرکز ہی کو اولیت دی جاتی رہی۔ 1960 تک ”کراچی“ کی حکمرانی رہی کہ اس کے بعد
یہی فریضہ اسلام آباد کو سونپ دیا گیا۔ ایسی پالیسیوں کے نتیجہ میں صوبائی
خودمختاری کو زہرقاتل قرار دیا گیا۔ 1971 میں ملک کے دولخت ہونے کے پیچھے بھی
صوبائی خودمختاری کو نہ ماننے کی روش نمایاں تھی۔ طرز حکمرانی کا دوسرا پہلو
اداروں کی آزادیوں میں مداخلتےں اور پارلیمان کی بالادستی سے روگردانی ہے۔ مارشلاﺅں
کی وجہ سے ہم طرزحکمرانی بارے توجہ نہ دے سکے تاہم 2008 کے بعد بالعموم اور18ویں
ترمیم کے بعد بالخصوص پاکستان میں آئینی سطح پر دیرینہ مسائل سے نمٹنے کی بصیرت
نظر آرہی ہے۔ 2013 میں پہلی بار اس ملک میں ووٹ کے ذریعے آنے والے، ووٹ ہی کے
ذریعے گھر گئے کہ یہی وہ رستہ ہے جو طرز حکمرانی کو بہتر کرنے میں کلیدی کردار ادا
کرے گا۔ طرز حکمرانی میں بہتری اک مسلسل عمل ہے مگر اصول یہی ہے کہ اس کے لیے
جمہوری ماحول درکار ہو۔
10 سیاست
ہمارا ملک اک سیاسی جدوجہد کے مرہون منت، اک آئینی رستہ
سے وجود میں آےا کہ اس کی روح کا سیاست سے رشتہ اس کے پیدا ہونے سے بھی پہلے سے
ہے۔ اب ایسے ملک سے جس کے بانےوں میں علامہ اقبال جےسے سیاسی مفکر اور قائداعظم
جیسے سیاسی مدبر شامل ہوں، ہم سیاست ہی کو داخل دفتر کردیں اوردن رات سیاست میں
کیڑے نکالیں تو پھر ہم کس سے گلہ کریں۔ اگر جمہوری ماحول چلتا رہتا اور تسلسل سے
بغیر مداخلتوں کے انتخابی عمل جاری رہتا تو آج سیاسی جماعتوں کی صورتحال بھی کہیں
بہتر ہوتی۔ ان میں شخصیات کا اثر بھی کم ہوتا اور ادارے بھی بننے لگتے۔ اس کے
باوجود اس ملک کی تشکیل اور اس میں جمہوری روایات کے علم کو بلند رکھنے میں جتنا
بڑا کردار سیاسی کارکنوں کا ہے اس کا مقابلہ کسی بھی ادارے سے نہیں کیا جاسکتا۔ اب
2008 کے بعد جس جمہوری سیاسی رستہ پر ہم آج چل رہے ہیں اگر یہ جاری رہا اور سب نے
پارلیمان کی بالادستی اور اداروں کے احترام کی پالیسی پر عمل کیا تو کوئی وجہ نہیں
کہ ہم اگلا جشن آزادی زیادہ تکریم اور فخر سے منا سکیں گے۔
No comments:
Post a Comment