some thoughts after reading Nazrat javed column regarding appointment of Mr Watoo as PPP president for the Punjab
کیا
پی پی پی کو ریپبلکن پارٹی کی طرح چلانا دانشمندی ہو گی؟ کیا اس سے پی پی
پی اپنی عوامی مقبولیت کو مزید نقصان پہنچائے گی؟ جب آپ اقتدار میں ہوتے
ہیں تو ترجیحات فرق ہوتی ہیں مگر انتخابی سیاستوں میں اخلاقی جواز کا اہم
کردار ہوتا ہے. 1970 میں بھٹو صاحب کے پاس اخلاقی جواز تھا کہ انھوں نے
وفقی وزارت خارجہ سے استعفی دیا تھا. اسی طرح 1990 کی دہائیوں میں بی بی
اور میاں صاحب کے پاس یہ اخلاقی جواز تھے کہ انہیں کام نہیں کنے دیا گیا.
پرویز مشرف دور سے ایک نسخہ کیمیا پر کام جاری ہے کہ جس میں خواہش سے زیادہ
مستقبل کا تحفظ زیادہ چغلی کھا رہا ہے. اس نسخہ کو اس لوح طلسم سے سینچا
گیا ہے کہ جس پر ق لیگ اور پی پی پی کے اتحاد کو غیر منتخب اشرافیہ کی فتح
کا ضامن کہا گیا ہے. پی پی پی اور ق لیگ کا اتحاد دیکھنے کے متمنی چاہتے
تھے کہ اگر میاں نواز انتخابات کا بائیکاٹ کر دیں تو پی پی پی اور ق لیگ کے
اتحاد کو ئی روک نہ سکے گا. مگر اس چال کو بی بی نے بھانپ لیا کہ وہ 1980
کی دہائی والے ایم آر ڈی کے انتخابی بائیاکاٹ کے فیصلہ کا تجزیہ کر کے اسے
اک غلطی قرار دے چکی تھیں. زیرک بینظیر نے نواز شریف سے رابطہ کیا اور انکو
بائیاکاٹ کے سیاسی مضمرات بارے بتایا. یہی نہیں بلکہ وہ تو مئی 2006 میں
معاہدہ جمہوریت کے ذریعے غیر منتخب اشرافیہ کو پیغام اجل دے چکی تھیں. میں
ان مذہبی و سیکولر کالم نویسوں اور تجزیہ کاروں کی فہرست نہیں دینا چاہتا
جو پی پی پی اور ق لیگ کا اتحاد دیکھنے کے متمنی تھے البتہ آج بھی انہی میں
سے بہت سے نئی بوتل میں پرانی شراب ڈال کررائے ونڈ اور صدارتی محل کی غلام
گردشوں میں مقیم ہیں. غیر منتخب اشرافیہ نے پی پی پی کے لیے دوہاری تلوار
تشکیل دی ہے. اگر اتحاد ثلاثہ ایم کیو ایم، پی پی پی اور ق لیگ کامیاب ہو
کیا تو یم کیو ایم اور ق لیگ پی پی پی کے سر پر ناچیں گے اور غیر منتخب
اشرافیہ کا سر کڑاہی میں ہی رہے گا. بصورت دیگر نواز شریف پر چوہدریوں کو
ان کی شرئط پر شامل کرنے کا دبائو ڈالا جانا رہے گا. دونوں جماعتوں کو ق
لیگ کے ملبہ سے بچنے کا آہر کرنا چاہیے کہ اس سے عوامی طلسم میں فرق آے گا.
ویسے وٹو کا بطور صدر پی پی پی پنجاب انتخاب ق لیگی اتحاد کا شاخسانہ ہی
ہے.
http://www.express.pk/story/38857/
No comments:
Post a Comment