Friday, March 7, 2014

Opposition of English rulers, English language and defeatist Nationalisms




Opposition of English rulers, English language and defeatist Nationalisms

We are extremists in so many ways and it is high time to check our extremes too. Like rulers of Bukh, Greeks and Turks(Mughals) English nation too came like an uninvited guest and ruled there in Hind-Punjab. Naturally like previous rulers English rulers too faced resistance in so many ways. They replaced language of the knowledge Persian with English. From that day till today there is a constant conflict of languages in our lands.  There were two important reactions in this regard yet synthesis prevailed the balance .
1- Those who opposed English language and English rulers
2- Those who supported English rulers and English languge
Those who opposed both called anti-colonialists, revolutionaries, etc while who supported both called Todies or pro-imperialists.
But just remember leaders like Allama Iqbal, Jinnah, Nehru, Gandhi, C R Das, Subhas etc who negotiated "decolonization", they were the people who learned English language,  understand European development but had reservations regarding English rulers. So in reality, middle path prevailed yet in post 1947 scenario, we failed to continue that middle path partly due to vision and partly under defeatist nationalisms. In India one can map flight of defeatist nationalism from Scino Indian war 1961(as admitted by Krishna Kummar) while in Pakistan it was post 1965 fears which gave birth to Noor Khan policy . read and enjoy
http://urdu.dawn.com/news/1002978/07mar14-anti-english-and-vain-nationalism-aamir-riaz-aq/1
یونانیوں اور ترکوں (مغلوں) کی طرح انگریز قوم کا شمار بھی ”بن بلائے آقاﺅں“ میں ہوتا ہے۔ انگریزوں نے جب آہستہ آہستہ یہاں اقتدار پر قبضہ کرنا شروع کیا تو ان کی حمایت و مخالفت میں بہت سے گروہوں نے سرگرمیاں دکھائیں۔
عمومی طور پر ان میں دو طرح کے نقطہ نظر زیادہ حاوی رہے۔ ایک وہ تھے جو انگریز حکمرانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان اور اس سے وابستہ علم و ادب بشمول سائنس کے خلاف سر پر کفن باندھ بیٹھے۔
دوسرے وہ تھے جن کے دلائل کے مطابق انگریزی زبان میں موجود ادب و سائنس کے خزینوں کامطلب یہ ٹھہرا کہ آنکھیں بند کر کے انگریز حکمرانوں کی پالیسیوں پر بھی آمنا صدقنا کہا جائے۔
ایک کی دلیل یہ تھی کہ انگریز حکمرانوں کی بھی مخالفت کی جائے اور انگریزی زبان و علم سے بھی کنارہ کشی اختیار کی جائے تو دوسرے گروہ کے نزدیک انگریزی زبان پڑھنے والوں کے لیے انگریز حکمرانوں کی پالیسیوں کی حمایت بھی لازم ٹہری۔
------
20ویں صدی میں اپنے خطّے کی تاریخ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کی سیاسی لڑائی جیتنے والے نہ تو انگریز پرست تھے اور نہ ہی انگریز مخالف۔ مسلم لیگ اور کانگرس کی قیادت کرنے والے علامہ اقبال، محمد علی جناح، میاں شفیع، ممتاز دولتانہ، لیاقت علی خان، حسین امام، غلام محمد، چوہدری محمد علی، چوہدری خلیق الزمان، حسین شہید سہروردی ہوں یا پھر مہاتما گاندھی، موتی لال نہرو، ولبھ بھائی پٹیل، جواہر لال نہرو ہوں، سب میں مشترک بات یہی تھی کہ انہیں انگریز حکمرانوں کی پالیسیوں بارے تحفظات بھی تھے مگر یہ انگریزی زبان و ادب اور علم کے قائل بھی تھے۔
--------------------
کیا ہمیں آج پھر اقبال و جناح جیسی اعتدال پسند و جدیدیت کی حمایتی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو نہ صرف عدم تحفظ پرپلنے والی تنگ نظر و شکست خوردہ قوم پرستی سے ہماری جان چھڑائے بلکہ تعصب و تفاخر کے اس بھنور سے نکلنے میں معاون ہو جس میں ہم پھنسے ہوئے ہیں۔
انگریزی علم و ادب کی حمایت کرنے والوں کو نہ صرف خود کو امریکہ و برطانیہ کے حکمرانوں کی پالیسیوں سے دور رکھنا ہو گا بلکہ مادری زبانوں اور اُردو میں موجود علم و ادب کی تکریم بھی کرنی ہوگی۔
اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں بھی اعتدالی و معقولاتی انداز فکر ہی نئی راہیں کھولنے میں کارگر ہو گا۔ جب تک ہم تنگ نظر قوم پرستی اور اس سے وابستہ عدم تحفظ کو خیرآباد نہیں کہیں گے اس وقت تک یہ پرنالہ وہیں گرتا رہے گا اور ہم کوئی قابل عمل و موثر پالیسی نہیں بنا سکیں گے۔  

No comments:

Post a Comment

May Day 2024, Bounded Labor & new ways of the struggle

  May  Day 2024  Bounded Labor & new ways of the struggle  In the South Asia, thanks to Brahminical legacy dipped in colonialism sociali...