Selective Justice & Twisted Accountability
احتساب کی آڑ میں کارروائیوں کی تاریخ، پروڈا، ایبڈ و تا نیب
Sedition, rigging and corruption are three pillars often
used in Pakistani politics to fix enemies. In order to defame political enemies
bureaucracy coined PRODA, EBDO and NAB in last 67 years. Fixing some bureaucrats,
Generals, Judges, journalists, Politicians in corruption cases will be a trick
but the real issue is to establish an independent accountability commission
through parliament which not only have constitutional guarantee but also can
trial every Pakistani irrespective of status.
Recent list of corruption cases presented to SC is basically a trick to save NAB.
Liaqat Ali Khan was pioneer in using sedition,
rigging and corruption during his rule. H.S.Suhrawardy was declared traitor two
weeks before Objective resolution in march 1949, rigging was tested in the
first Pakistani provincial election by Karachi based ICS officers in the Punjab
in 1951 and corruption charges were used against Ayub Khoro of larkano and Mian
Iftiqar Hussein Mamdot . Following Liaqat, it was general ayub who used hammer
of black law EBDO against politicians & others. Interestingly during Zia
period Pukhtoon nationalist Khan Abdul Wali Khan used the slogan of
accountability against his rival Z A Bhutto just to attract general Zia. Resonance
of his favorite slogan “First Ehtisab (Accountability) then Intikhab (Elections)”
still haunting Pakistani democracy. During lawyer movement it was ® General Hamid
Gul who on record said that if army want to do accountability their test case
is to fix EME first. Benazier Bhutto and Nawaz Sharief too used hammer of corruption
against each other during their tenures from 1988 till 1999 yet after singing
CoD in 2006 both agreed not to play with the hammer but to establish an
independent accountability commission. Everyone remembers how Musharaff used
hammer of corruption against PPP and PML Nawaz. At that time jamat islami, JUI
F & H, Threek e Nifaz e Fiqa jafrya, JUP, MQM and PTI were partners in arms
of Mushraff. Outcomes of corruption cases against PPP and PML Nawaz were
Q-League and Patriots. It is duty of the current governments in center and
provinces to establish an independent accountability system under which every
Pakistani irrespective of status can face trial. It is high time for parliament
to act so no one can play issue of corruption in future.
Enjoy Reading full article published in Humshehry weekly
کون ہے جو احتساب کا حمایتی نہیں ہوگامگر ہماری اشرافیہ نے اقتدار کے کھیل میں احتساب کو بھی متنازعہ بنادیا ہواہے۔ دیکھا جائے تو ملک پاکستان میں دھاندلی، غداری اور احتساب کی آڑ میں جو سیاستیں رچائی جاتی رہیں ہیں اس کا سب سے زیادہ فائدہ بیوروکریسی اور بدعنوانی میں ملوث حضرات ہی نے اٹھایا ہے۔ جنوری1949سے خان لیاقت علی خان اور ان کے حواریوں نے اس سیاست کا آغاز کیا جسے آئی سی ایس افسران نے بڑی ذہانت سے ترتیب دیا تھا ۔ قومی ادارہ احتسابNAB کی طرف سے میگا سکینڈلوں کی جو فہرست سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ہے وہ انہی کارروائیوں کا تسلسل ہے جن کی بنیاد ہی’’ بدنیتی ‘‘پر استوار کی گئی ہے۔ پاکستان میں احتساب کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے ہمیں ’’عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے‘‘ والی حدیث مبارکہ کی زیادہ سمجھ آنے لگتی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمنٹ اس حوالہ سے سب کی مشاورت کے ساتھ بامعنی قانون سازی کرے۔کیونکہ یہ قانون ہر پاکستانی پرلاگو ہوگا اس لیے اس کو مجموعی اتفاق رائے ہی سے بننا چاہیے۔ تکنیکی طور پر تو ہر پاکستانی شفافیت کا حامی بھی ہے اور انتخابی دھاندلیاں اور غداری کرنے والوں کو بھی سزائیں دلوانا چاہتا ہے ۔ مگر گزشتہ 67سالوں میں ہمیشہ سے کچھ قوتیں ان مسائل کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔ اس کھیل کے نتیجہ میں اصل مجرم ہمیشہ بچ جاتے ہیں۔ سیاست میں دھاندلیوں، غداریوں اور احتساب کو استعمال کرنے کی ریت لیاقت علی خان کے دور سے شروع ہوئی اوراحتساب کے نام پرپروڈا(PRODA)نامی بل 1949میں منظور کیا گیا۔ غداروں کی فہرست اور غداری کے مسئلہ سے کھیلنے کی تاریخ تو ہم انہی صفحات پر پچھلے ہفتہ بیان کرچکے ہیں البتہ دھاندلیوں کے مسئلہ سے کھلواڑ کرنے کی تاریخ بھی جلد انہی صفحات میں آئے گی۔ دھاندلیوں کے مسئلہ کو استعمال کرنے کا نقطہ آغاز10مارچ1951کو ہوا تھا جب پنجاب میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پرپاکستان کا پہلا صوبائی انتخاب ہونا تھا۔ کراچی براجمان سول افسران نے من مرضی کے نتائج کے لیے کیسا جھرلو پھیرا تھا اس بارے بھی لکھا جائے گا۔ مگر یہاں تو آپ احتساب کے نام پر 1949میں بنائے جانے والے قانون پرو ڈاسے شروع ہونے والی کہانی پڑھیں۔ سندھ(لاڑکانہ) کے ایوب کھوڑو اور پنجاب کے میاں افتخار حسین ممدوٹ اس قانون کے پہلے شکار بنے کہ دونوں سے کراچی کے حکمران ناراض تھے۔ اس کام میں اس وقت کے میڈیا نے بھی حکمرانوں کا خوب ساتھ دیا البتہ کچھ اخبارات نے کراچی کو آڑے ہاتھوں بھی لیا۔ مارچ 1951میں سابقہ صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پی کے اس قانون کی زد میں آیااور خان عبدالقیوم خان کی دسمبر کے صوبائی انتخابات میں کامیابی کے لیے اس قانون کو بخوبی استعمال کیا گیا۔ تحریک پاکستان میں قائداعظم کا ساتھ دینے والے پیر مانکی شریف سمیت کتنے ہی لیڈران اس کی زد میں رہے۔
احتساب کا دوسرا قانون ایوبی مارشل لاء میں آیا جس کا نام ایبڈو(EBDO)تھا۔ اس قانون کے تحت محض قوم پرستوں اورمسلم لیگ کے مخالفوں ہی کو نشانہ خاص نہیں بنایا گیا بلکہ بڑے بڑے جیدمسلم لیگی اور تحریک پاکستان کے کارکن بھی اس قانون کی زد میں آگئے۔ جس بھی سیاستدان کوایبڈوکے ذریعے سیاست سے نااہل قرار دیا گیا وہ31دسمبر1966تک ممبر اسمبلی نہیں بن سکتا تھا۔ پورے آٹھ سال تک اسے سیاست سے باہر رکھنے کا مقصد کیا تھا اور اس کا براہ راست فائدہ کس کو تھایہ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ ایک تحقیقی مقالہ کے مطابق 6ہزار خواتین و حضرات پر ایبڈو نامی بدنام زمانہ قانون لگایا گیا جن میں 3ہزار کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔یوں مشرقی پاکستان کو ایوبی دور کے آغاز ہی میں واضح پیغام دے دیا گیا۔ ملک بھر سے کل75بڑے سیاستدانوں کو اس کالے قانون کی زد میں لایا گیا جن میں حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی،
ممتاز دولتانہ سمیت کئی اہم نام شامل تھے۔ احتساب کے حوالہ سے تیسری بازگشت
ضیاالحق کے دور میں سنی گئی کہ اس بار احتساب کا نعرہ لگانے والے کوئی اور نہیں بلکہ پختون قوم پرست رہنما خان عبدالولی خان تھے۔ مرحوم نے یہ نعرہ اک ایسے وقت پر لگایا جب آمرجنرل ضیاء الحق قوم سے90دن میں انتخابات کرنے کا وعدہ کرچکا تھا۔ ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘کا مشہور نعرہ بھٹو دشمنی کا مظہر تھا جسے ضیاالحق اور اس کے مربی میڈیا نے بہت پسند کیا۔مزاحمت پسند ولی خان نے کس کی مدد کی یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔کم از کم اپنی زندگی میں خان عبدالولی خان نے اپنے اس سیاسی کردار پر شرمندگی کا اظہارایک بار بھی نہیں کیا۔ شاید یہی وہ بات تھی جو جہاندیدہ غوث بخش بزنجو کو بہت کچھ سمجھا گئی اور انھوں نے تادم مرگ کبھی ولی خان سے مل کر دوبارہ سیاسی پارٹی نہیں بنائی۔ جب جنرل ضیا الحق نے8ویں ترمیم کے ذریعے آئین کا حلیہ بدل ڈالا تو اس میں63,62جیسی شقوں کا اضافہ بھی کیا۔ یہ شقیں بھی احتساب کے نعرے کی آڑ میں ہی تیار کی گئیں تھیں۔62,63کی شقوں پر تو خود ضیاالحق، اس کی کابینہ اور گورنر وغیرہ پورے نہیں اترتے تھے تو اس کو محض ممبران اسمبلی پر لاگو کرنے کا عمل’’نیت کی خرابی‘‘ہی ٹھہرا۔1988سے1999کے درمیان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)نے ایک دوسرے کے خلاف احتساب کا ہتھیار خوب استعمال کیاکہ بعدازاں 2006میں میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے اس ہتھیار کو استعمال نہ کرنے کا مصمم ارادہ کرکے سیاسی بلوغت کا ثبوت مہیا کیا۔ جنرل مشرف نے 16 نومبر 1999 سے ’’احتساب‘‘ کے نام پر جو کھیل شروع کیا اس میں سے ق۔لیگ اور پیٹریاٹ برآمد ہوئے کہ اس سیاست سے تو ہرکوئی بخوبی آگاہ ہے۔ مشرف نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(نواز)کا احتساب کرکے قوم کو چوہدری شجاعت حسین، شوکت عزیز، راؤسکندر، شیخ رشید سے لے کر ایم کیو ایم اور ایم ایم اے کا جو تحفہ دیا وہ مشرف دور کے احتساب کو سمجھنے کے لیے کافی تھا۔ احتساب کا مذاق اڑانے میں جنرل مشرف اپنے پیش روؤں کو بہت پیچھے چھوڑ گیا۔جن مقدمات کو مشرف دور میں بھی عدالتوں کے روبرو پیش نہیں کیا جاسکا ان کی کتنی اہمیت ہوگی یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ خود عمران خان متعدد بار نیب کے ادارہ کو ختم کرکے نئے شفاف اور آزاد ادارے کے قیام کا مطالبہ دھراچکے ہیں۔جونہی نیب نے سپریم کورٹ میں میگا سکینڈلوں کی فہرست پیش کی تو عمران خان ڈیڑھ ماہ قبل 20مئی کو نیب کے حوالہ سے دیا گیا اپنا ہی بیان بھول گئے۔بیس مئی کے بیان میں وہ کہہ چکے تھے کہ نیب کاادارہ زرداری اور نوازشریف کی ملی بھگت سے بنایا گیا ہے۔ آج کل خان صاحب اور ان کے متولیوں کا محبوب ادارہ وہی ’’نیب ‘‘ہے۔ اگر کل کلاں کو اسی نیب نے جہانگیر ترین یا اسد عمر کے خلاف کوئی مقدمہ بنادیا تو پھر خان صاحب دوبارہ سے اپنے پرانے بیان پر آجائیں گے۔ یہ سب احتساب کے مسئلہ کو مفادات کے لیے استعمال کرنی کی پرانی روش کے سوا کچھ نہیں۔ خود سپریم کورٹ نیب کے محبوب مشغلے یعنیPlea Bargainکے حوالہ سے سوال اٹھا چکا ہے۔اگر مجرم کو رقم لے کر چھوڑ دینا ہے تو پھر انصاف کے تقاضے کیسے پورے ہوں گے؟ مگر جب نیب پر عدالتی دباؤبڑھا تو نیب نے اپنی جان چھڑانے کے لیے حسب روایت سکینڈلوں کی طویل فہرست پیش کردی۔ 1990سے زیر التوا سکینڈلوں کی یہ فہرست خود نیب کے خلاف ایف آئی آر ہے جس کے خالق بھی وہ خود ہی ہیں۔ اب اگر میڈیا اور سیاست کے کچھ کھلاڑی اس فہرست کو بنیاد بناکر چینلوں پر پروگرام کررہے ہیں تو اس سے خود میڈیا اور اُن صحافی نما کھلاڑیوں کے بارے میں بھی سوالات اُٹھتے ہیں۔ کیا ہمارے صحافی اور مخصوص سیاسی کھلاڑی احتساب کی آڑ میں رچائے جانے والے کھیل سے نا آشنا ہیں؟ کیاانہیں احتساب کے نام پر بنائے جانے والے اداروں کی کارکردگی کا علم نہیں؟ احتساب کا ادارہ تو ایسا ہونا چاہیے جو سیاستدانوں، صحافیوں، سول ملٹری اداروں اورعدلیہ سمیت سب کے حوالے سے کام کرنے میں آزاد ہو۔ یہ ادارہ پارلیمان میں بحث کے بعد بنایا جائے اور اس کی آئینی حیثیت مسلم ہو۔
یہ ادارہ میڈیا پر خبریں دینے سے پہلے عدالتوں میں چلان پیش کرے چاہے اس میں کئی سال لگ جائیں۔ شفافیت کے مسئلہ کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال نہ کیا جاسکے۔ جن مقدمات کا16سال میں بھی چلان پیش بھی نہیں ہوا بھلاان کو اہمیت دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ احتساب کی ضرورت اور اہمیت اپنی جگہ مگر من مرضی کا انصاف اور مطلبی احتساب بذات خود احتساب کے عمل کو متنازعہ بنانے کے سوا کچھ نہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کو اس حوالہ سے قانون سازی کرنی چاہیے کہ یہی وہ رستہ ہے جس کے ذریعہ احتساب کو باربار اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا رستہ بند ہوسکتا ہے۔