Tuesday, July 28, 2015

Listen:State of Urban Slums in Lhore and politics arround it



Listen:State of Urban Slums in Lhore 
and politics arround it



Issue of Islamabad Afghan bassti or Urban slum once again highlighted the issue of urban slums but question is how to handle it. if people living in that urban slums were none-pakistanis then it is more complex case but otherwise it is another case of illegal urban settelements. Issue is how to handle it? tangnazar pukhtoon and punjabi qoomparsti is found in the discussion by and large from friends at social media and private meetings. Some of them even tries to extract mere class question by forgetting role of land and drug mafia in urban slum politics. we did a program at FM 103 and tried to check the issue. just listen and try to unlearn our biases.
A Program regarding State of Urban Slums in Lhore and politics arround it. Basic issue is low cost housing yet drug and land mafia tries to twist it in its favour. 

Guests: Rashid Mahmood Director Katchi Abadi Authority, Punjab & Farooq Tariq general secretary AWP

Post US-Iran deal Politics and Pakistan


Post US-Iran Politics and Pakistan


Pakistan is a victim of sectarian wars started from 1978 in which Saudi Arabia and Iran exported their ideologies along with huge funding. In many ways success of this deal depend on future role of Iran where orthodox mullahs are on back benches these days. Will trade revive in Pak Afghan Iran region? Is still a big question

Projects stared in late 1960s based on regional tensions are near to end and that is why guardians of war industry and Cold war are nervous. After Suez Canal issue, Israel is unhappy first time. During the French campaign in Egypt and Syria in late 1798, Napoleon showed an interest in finding the remnants of an ancient waterway passage, Suez Canal and from that day the route became strategically important in world affairs.  The Suez Crisis, known in the Arab World as the "Tripartite Aggression", in which the UK, France, and Israel invaded Egypt. U.S. President Dwight D. Eisenhower had strongly warned Britain not to invade; he now threatened serious damage to the British financial system. The warning worked and Israel had to withdraw immediately. This time Israel is again unhappy and it may have old partners in arms too. But question is future of US-Iran deal and its impact on the region. Both China and US has entered in 21st century from two different doors yet on the issue of extremism and terrorism both were on same page. 9/11 challenge compelled US to leave old policy of using religion yet China coined a vision to combat extremism and terrorism with trade and businesses. US-Iran deal is part of Chinese solution and after neutralizing Iraq, Afghanistan, Burma and Cuba now Obama is well prepared to own this policy. In order to combat with guardians of war industry Obama threatens to use veto power in favor of the deal. 
Read the story


http://issuu.com/hum_shehri/docs/27.07.2015/51?e=12088494/14400656



1970 کی دہائی کے آخری سالوں سے ایران، افغانستان اور پاکستان میں جن طوفانوں نے جنم لیا تھا وہ مار دھاڑ، قتلام، مذہبی جنون اور فرقہ واریت پھیلا کر آج اپنے اپنے منطقی انجام تک جا پہنچے ہیں۔ اگر آپ اس پر متفق نہیں ہیں کہ حالیہ امریکہ ایران معاہدہ میں کون جیتا اور کون ہارا ،تب بھی آپ اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرا سکتے کہ 1978 سے لے کر 21 ویں صدی کی پہلی دہائی کے درمیان اس خطہ نے انسانیت کے قتلام کے ایسے مظاہر دیکھے ہیں جنہوں نے ان تینوں ممالک کی معاشرت پر خوفناک اثرات مرتب کیے ہیں۔ افغان معاشرے کی پسپائی، ایرانی معاشرے کی تنہائی اور پاکستانی معاشرے کی تباہی کے ذمہ دار یہ ساڑھے تین عشرے تاریخ میں ہمیشہ ’’تاریک ترین دَور‘‘ کے حوالہ سے یاد رکھے جائیں گے۔ فرقوں کی بنیاد پر ایسی جنگیں لڑی گئیں کہ خراسان، اصفہان، قندھار، کابل، پشاور، کوئٹہ، لاہور اور کراچی کے قبرستانوں سے بھی الحفیظ الامان کی صدائیں آنے لگیں۔ فرقہ پرست اسلام کو عروج ملا اور لوٹ مار کرنے والوں کے ہاتھ مالِ غنیمت آیا۔ کم از کم دو نسلیں ان فرقہ وارانہ جنگوں کے دوران جوان ہوئیں کہ ان زخموں کو جانے کتنی برساتیں دھو پائیں گی۔ جو ان جنگوں کو نظریاتی و مذہبی فریضہ سمجھ کر لڑتے رہے ان کی معقول تعداد آج بھی تینوں ممالک میں موجود ہے۔ ان جنگوں کو بڑھاوا دینے میں روس، امریکہ اور یورپ کے اعلیٰ اذہان اور مقتدر پارلیمنٹوں نے کیا کردار ادا کیا اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ کیا آج ہم سب ان گذرے 36 سالوں پر ازسرنو غور کرنے کے لیے تیار ہیں؟ سوال تو یہ ہے کہ اس خطہ کی بربادی کا منصوبہ کس نے، کہاں بنایا تھا؟ کیا جس عوامی جمہوریہ چین کو روکنے کے لیے گذشتہ صدی میںیہ منصوبہ گھڑا گیا تھا وہ اس دن اپنی اہمیت کھو بیٹھا جب چین امریکہ اس خطہ کی سیاست کے حوالہ سے ایک صفحہ پر آ گئے۔ یہ درست ہے کہ چینی دانشور ہمیشہ سے پرانے سلک روٹ کی بحالی کے خواب دیکھتے تھے اور جب پاکستان اور چین نے 1966 میں شاہراہِ ریشم بنانے پر دستخط کیے تو بہت سی طاقتوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ ایران پر ایٹم بم بنانے کا الزام بھی انہی سالوں یعنی 1968میں پہلی دفعہ لگایا گیا کہ جو بدلتے تناظر میں ایران کے ناقابل بھروسہ ہونے کا اشارہ تھا۔ سردار داؤد، شاہ ایران اور ذوالفقار علی بھٹو وہ آخری رکاوٹیں تھیں جن کی موجودگی میں اس خطہ کو بربادیوں کی طرف دھکیلنا مشکل تھا کہ 1978 تک یہ تمام رکاوٹیں ختم کر دی گئیں۔ جن لوگوں کی مدد سے ان فرقہ وارانہ جنگوں کو خطہ بھر میں پھیلایا گیا وہ کوئی ’’باہرلے‘‘ نہ تھے اور ان کے ناموں، کارناموں سے ہم سب واقف ہیں۔ 9/11 کو مذہبی جنونیت کی اس جنگ کی تپش جب امریکہ پہنچی توتب جا کر دنیا کے اعلیٰ اذہان کو اس کی حدت کا اندازہ ہوا۔ یہی وہ سال تھا جب چین نے شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن (SCO) بنا کر اس حدت سے بذریعہ کاروبار و تجارت نمٹنے کا سامان کیا۔ 14 جولائی 2015 کو جب آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایران، یورپ اور امریکی ایک معاہدہ پر دستخط کر رہے تھے تو اس پر ایس سی او کی چھاپ واضح تھی۔ دنیا بھر میں موجود اسلحہ ساز کمپنیوں کے لیے ایران سے جنگ کی بجائے معاہدہ کرنے کے فیصلہ پر بجا طور پر شدید تحفظات ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آج امریکی ایوانوں میں بھی اکثریت رکھتے ہیں۔ اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے امریکہ کے کالے صدر باراک حسین اوبامہ نے بروقت یہ اعلان کر دیا کہ اگر امریکی منتخب ایوانوں نے اس معاہدہ کو روکنے کی کوشش کی تو وہ اسے ’’ویٹو‘‘ کر دیں گے جو بطور صدر ان کا استحقاق ہے۔ حیران نہ ہوں، اسرائیل وہ واحد ملک ہے جس نے اس معاہدہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسلحہ ساز کمپنیوں کی طرفداری کی ہے۔ گذشتہ 70 سالوں میں یہ دوسرا واقعہ ہے جب امریکی صدر اور اسرائیل ایک دوسرے کے متحارب نظر آتے ہیں۔ نہر سویز کے تنازعہ (1956) کے موقع پر بھی جب اسرائیل نے فرانس اور برطانیہ کی ایماء پر مصر کے علاقوں پر قبضہ کیا تھا تو امریکی صدر ڈی ڈی آئزن ہاور نے برطانیہ اور اسرائیل کو کھلی دھمکی دی تھی۔ اس کے نتیجہ میں اسرائیل کو پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ امریکہ ایران معاہدہ اپنے اندر بہت سے اسباق لیے ہوئے ہے۔ اس معاہدے کو چین امریکہ تعلقات کی روشنی میں دیکھنے سے بدلتی سیاست کے پیرائے میں پرکھنے کا موقعہ ملے گا۔ خود ہمارے خطہ کے حوالہ سے تو اس معاہدہ کی اہمیت دیدنی ہے۔ جو ’’جانباز‘‘ تہران، کابل اور اسلام آباد میں عرصہ دراز سے فرقہ وارانہ جنگوں میں پَل کر جوان ہوئے ہیں انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ملکوں اور وطنی ریاستوں کے مفادات کے مقابلے میں نظریاتی و مذہبی توجیہات کی اہمیت ثانوی اور وقتی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ایران، سعودی عرب اور سابقہ روس کو سر پر چڑھانے والے بھی کم نہیں اور امریکہ و برطانیہ کے گن گانے والے بھی بکثرت موجود ہیں۔ مگر وطنی مفادات کے آگے ان کی دال نہیں گل سکتی کہ آخری فیصلے وطنی مفادات کو سامنے رکھ کر ہی کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ نے اپنی کتاب ’’پاکستان و افغانستان‘‘ میں جنیوا معاہدہ کے دنوں کی کہانی لکھی ہے جب پاکستان میں ایسی قوتیں حاوی تھیں جو پاکستان کے جنیوا معاہدہ پر دستخط کرنے کے خلاف تھیں۔ مگر بالآخر نظریات ہار گئے اور وطنی مفادات کی حفاظت کے لیے ریاست پاکستان نے جنیوا معاہدے پر دستخط کیے۔ تاہم اس کے ردعمل کو پاکستان طویل عرصہ تک بھگتتا رہا۔ آج امریکہ ایران معاہدہ بھی اک امتحان سے کم نہیں۔ پہلا امتحان تو امریکی ایوان نمائندگان میں ہوگا کہ جس کے نتیجہ کا پہلے سے اعلان خود باراک اوبامہ نے کر دیا ہے۔ مگر اس کا اصل امتحان خصوصی طور پر ایران اور عمومی طور پر افغانستان اور پاکستان میں ہو گا۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں چین کے زیر سایہ بہتری کا جاری عمل اس معاہدہ کو تقویت دے گا تاوقتیکہ ایران اپنی فرقہ وارانہ ترجیحات کو خارجہ امور میں استعمال کرنے سے باز رہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ مشرف دَور کی طرح اس دفعہ پاکستان پر ’’دہری پالیسی‘‘ کا الزام نہ لگے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان کی اہم ترین پالیسیوں پر پارلیمنٹ میں کھلے عام بحث ہو۔ اگر پاکستان نے بند کمروں میں پالیسیاں بنانے کی روش کو اپنایا تو پھر اسے انہی الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا جو 2001 سے 2007 تک اس پر تواتر سے لگتے رہے۔ یہ درست ہے کہ ایران نے امریکہ کے خلاف بلند و بانگ نعرے بازیاں نہ کی ہوتیں تو آج اس کا یوں مذاق نہ بنتا کہ ملکوں کو پالیسیاں بناتے ہوئے اس وقت کا سوچنا چاہیے کہ جب ان پالیسیوں کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ اگر آپ دو نسلوں کو یہ سکھا چکے ہیں کہ امریکہ ’’شیطان‘‘ ہے تو آج آپ امریکہ کے ساتھ کیے جانے والے معاہدہ پر اپنی عوام کو کیونکر مطمئن کر سکیں گے؟ بھائی برادری کے جن ایرانیوں کو آپ نے غیر مسلم قرار دے کر امریکہ پناہ لینے پر مجبور کیا تھا آج اگر ان ایرانی بھائیوں میں سے کوئی سوال کرے تو بھلا کون جواب دے سکے گا؟ خطہ بھر میں موجود ان تمام فرقہ پرستوں اور ان کے دانشوروں کے لیے آج گذشتہ ساڑھے تین دہائیوں کی کارروائیوں پر سوچنے کا لمحہ ہے۔ پاکستان تو ان فرقہ وارانہ جنگوں کا سب سے زیادہ شکار رہا ہے کہ آج پاکستان میں کوئی ایک مسلم مکتبہ فکر ایسا نہیں جو فرقہ وارانہ جنگ کے مہلک اثرات سے محفوظ رہا ہو۔ امریکہ اس جنگ کا فاتح ہو یا نہ ہو مگر پاکستان، ایران اور افغانستان کے عوام اس جنگ کے بعد لاغر اور بیمار ضرور ہیں۔ اب بھی بہت سے گروہ ایسے ہیں جو اس جنگ کو جاری رکھنے پر کمربستہ ہیں۔ محض ایران امریکہ معاہدہ ہمارے خطوں سے مذہبی و فرقہ وارانہ جنونیت کے خاتمہ کی نوید نہیں بن سکتا کہ اس کے لیے ہمیں اپنے معاشروں میں نہ صرف جمہوریت کو اپنانا ہو گا بلکہ امن، رواداری کو اپناتے ہوئے ہر قسم کے تعصبات کے خلاف بھرپور مہمیں بھی اُسارنی ہوں گی۔ جمہوریت کے تناظر میں پاکستان کو نسبتاً بہتر ماحول دستیاب ہے کہ ا یران اور افغانستان کو بھی یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ غیر جمہوری ماحول میں اندرونی تضادات کو استعمال کرنے کی گنجائش بڑھ جاتی ہے۔ ایران امریکہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب عراق، افغانستان اور برما کی جنگیں ’’ٹھنڈی‘‘ پڑ چکی ہیں اور امریکہ کیوبا تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ یہ عوامل بذاتِ خود بدلتے حالات کے آئینہ دار ہیں کہ اب میدانِ جنگ کی بجائے میدانِ تجارت کو اوّلیت حاصل ہے۔ - 

Thursday, July 23, 2015

JC report: Perception failed terribly When confronted with Reality


Finally Perception failed terriblyWhen confronted with Reality

Some extracts from JC report

1.       When the entire context of the elections are considered along with the meaning of overall basis, despite some lapses by the ECP it cannot be said on the evidence before the Commission that on an overall basis the elections were not a true and fair reflection of the mandate given by the electorate. P236/7
2.       In the end the Commission decided that although the word, "fair" is generally subjective as everybody has their own view of what is fair or not the Commission decided to take the objective view in that it would look at all the evidence in a holistic manner and then determine whether or not the general elections 2013 were organized and conducted in a fair manner. P210
3.       Excess ballot fiasco
Significantly according to the evidence of Mr. Mehboob Anwar (PTI-CW-3) who was the PEC for Punjab other parties also defeated the PML(N) in areas where there was a large percentage of excess ballots in the Punjab for example NA 51 and NA 150 which had large No.s of excess ballots were won by the PTI. Hence, there appeared to be no particular nexus between large No's of excess ballots and the PML (N) exclusively winning such seats. P180
4.       The following table shows the excess percentage of ballots worked out in the previous elections since 1970 elections:


1970  23.60%
1985  21.97%
1988  18.94%
1990  14.83%
1993  3.27%                         P 171/2                                
1997  9.05%
2002  7.78%
2008  6.95%
2013  6.89%


5.       Karachi
In Karachi despite the Order of the Hon'ble Sindh High Court dated 29-4-13 (EX MQM (H) CW 1/2) and direction from the CEC dated 9-5-2013 (EX MQM (H) CW 1/3) it seemed that Mr.
Afaq Ahmed, the leader of the MQM (H), was not able to effectively carry out his election campaign on behalf of his Party and as per  un rebutted evidence he was effectively under house arrest during  the electoral process. The CEC should at least have made sure that his direction was implemented or perhaps due to the weak  reporting structure as indicated below this was never brought to his attention. P220
6.       The fact that neither orders from the Sindh High Court  nor the CEC in connection with allowing Afaq Ahmed the head of MQM(H) to campaign were implemented are particularly troubling and the ECP and the administration should ensure that no such situation arises in the future by ensuring that its orders are strictly implemented. P202
7.       Form 15 & 14
It was incumbent on the RO to ensure that a sealed packet allegedly containing a Form XV was placed in the polling bag at the time it was sent to the treasury or otherwise at least make a note that it was missing. Even otherwise the Form XV's  like the Form XIV's in a number of cases had not been fully completed in accordance with the relevant legal requirements. P 219
8.       KPK election record & gapes
CW 3 Pir Bakhsh Shah DRO and RO NA 34 Lower Dir stated that when the polling bags were returned by the PO after  polling It was a chaotic/dooms day scenario on polling day as all
the polling material came in from the polling stations and there were 308 Polling stations in NA 34 for which he had to prepare separate polling bags. He assigned the various functions to different judicial officers as he had judicial work to deal with at the same time. None of the 300 packing invoices had the signature of the PO's. In such a scenario one can readily understand why forms were not filled out, or incorrectly filled out or even misplaced. Likewise CW 7 Sajjad Hussain Sindher stated that he had to rely on team work to enable him to fulfill his duties as could not be expected to check everything himself. P 218
9.       FAFEEN Darama
He confirmed that TDEA's funding came from USA, UK and EU and that FAFEN was not a registered body in Pakistan.  With regard to TDEA it had not as yet paid tax for 2014 as it had requested for an extension. P65



Wednesday, July 15, 2015

New Arival: READ NO EVIL ( Satire & Humor ) By Mohammad Ali Khan


READ NO EVIL


Satire & Humor



By Mohammad Ali Khan

New book by Newline 

Distributor: READINGS

12 K Main Boulevard Gulberge II, Lahore

92-42-35757877 Publications@readings.com.pk

Price Rs 350/-             Pages 210       

For ONLINE orders click

 

 

Extracts

  1. One of the objectives of founding the state of Pakistan was to achieve freedom from the practical consequences of belief. The idea was to save ourselves from the unprofitable results of actions that are naturally expected from a faith based system. From day one of Pakistan’s conception, the nation has been conscious of the limitations of religion in the realm of the real world. To this end, it has jealously preserved the ritualistic parts of religion only- albeit as a deep seated prejudice- as against a real world faith system. This unified code of conduct has fortunately washed away all contradictions of the society. 
  2. I proclaim myself to be the only person who can trace his ancestry generation-wise to the first man who ever set foot on this planet: Adam. If permitted, I can trace my ancestry right to the specific primate that had unwillingly turned human some six million years ago. However, in the stifling atmosphere of today, this pre-Adamite ambition might create religious misgivings and so we will stick with Adam as the starting point. 
  3. The starting point was the question of our existence. Did we exist in our body or in our mind? Was existence a bodily function or an intellectual one? If existence was limited to the body then its size merited a greater effort; but if we existed in our mind then saving it was the priority. But saving the mind all by itself presented a logistical problem. For all practical purposes, evolution has forced the mind to get shacked up inside the body and determining how to separate it during a gravitational uncertainty was unknown to us. If we could somehow figure that out, thereby preserving the mind and its accompanying intellect, then we would have triumphed. Unfortunately, the cable car Management did not provide any emergency phone numbers of metaphysical scholars to quickly figure out that issue.
  4. In a little while, a relatively young lady, attractive by all standards (Eastern as well as Western) entered and introduced herself as the alleviator of my pain. Decently dressed, her claim to the virtue seemed to be a mask lowered on to her chin. As expected, she demanded to see the inside of a vista, too well-known to provide any new insights. But it came with a price: she covered her face with the mask in aversion. 
  5. Nevertheless, my acquiescence indicated compromising a basic principle: yielding to the will of a woman; something my mother had always warned me about. It was an affront to my delicately nurtured male ego. How could a single woman armed with an excavator and a mask to protect her own modesty be so persuasive about the conclusive treatment of my pain. It was my pain, an egoistic male pain; how could a woman treat it? But before I could protest, she had sunk an injection deep into my gums, skillfully penetrating my ego.
  6. Demystifying European superiority with specific reference to the British has always been an appetizing proposition. Straightening out the creases of European historical fiction can best be outsourced to a bitter Oriental. Of the various queries that need to be sorted out, two stand out as the most vital. Firstly, did the Europeans constitute a distinct set of intellectual and moral ingredients as compared to their Oriental counter parts that made them discover America before them and secondly, discovering reasons for  the simmering hostility between the Anglo-Saxon and the Celtic nations in Britain? 
  7. For a pre-teen growing up in a Pakistani society of the seventies, this carnal treasure could not have come at a better time. Forever conscious of my gender, this was the best opportunity to gratify the secret urge of discovering the female form to its fullest. After-effects of this exploration were not properly analyzed; it was to be a discovery for the contentment of curiosity only, as I believed at the time. 
  8. For those of us who are in the habit of taking a shower out of social acceptance only, putting oneself through this daily pain is unfathomable. It is further exacerbated when balancing the degree of movement required for the blue and the red knobs to produce an acceptable level of water temperature. And since I do not happen to be adroit at this balancing act, the next ten minutes were spent in fidgeting with the knobs. The given condition necessitated constant ducking and flinching from the unrelenting water spray, whilst shivering uncontrollably in the cold washroom. The decision as to which body parts were more worthy of being washed as compared to the less valuable ones required a thorough understanding of the human anatomy and being a bad biology student, in my school days, there wasn’t much that could be done. 
  9.  The prayer had hardly commenced when the gentleman to my right decided to belch out a life time of accumulated evil out of his system with significant guttural inflection. Matters of digestive exuberance are supposedly involuntary, but with gluttony feeding the reflex, its unconditioned nature turns into a conditioned one. It was not just a matter of noise pollution, even the sanctified air of the mosque got contaminated with the unbranded aroma of the worst kind. It was unclear if the belched evil had existed prior to the prayer, finding the right moment when it finally decided to separate or if it were a recent phenomenon.



Monday, July 13, 2015

State of Public Schooling in LHORE: LOK LAHAR 3


State of Public Schooling in LHORE

A radio program about Lhore's public schooling and its deteriorating conditions. Public education is worst in Karachi from the day first yet here we are exploring Lhore situation. Almost 0.3 million kids are out of school in LHORE. 127 school buildings are in bad situation while 20 are declared by the government The dangerous. Government of the Punjab has adopted Rationalization policy which fixed teacher student ration one to 25 yet in Lhore there are schools who have one to 250 ratio. Listen yourself pathetic situation of public schools in LHORE. The program is recorded at FM103 LHORE Station July 13, 2015. Listen it at

https://soundcloud.com/punjab-punch/public-schooling-in-lhore



Sunday, July 12, 2015

Selective Justice & Twisted Accountability in Pakistan

Selective Justice & Twisted Accountability

احتساب کی آڑ میں کارروائیوں کی تاریخ، پروڈا، ایبڈ و تا نیب 

Sedition, rigging and corruption are three pillars often used in Pakistani politics to fix enemies. In order to defame political enemies bureaucracy coined PRODA, EBDO and NAB in last 67 years. Fixing some bureaucrats, Generals, Judges, journalists, Politicians in corruption cases will be a trick but the real issue is to establish an independent accountability commission through parliament which not only have constitutional guarantee but also can trial every Pakistani irrespective of status.
Recent list of corruption cases presented to SC is basically a trick to save NAB.
Liaqat Ali Khan was pioneer in using sedition, rigging and corruption during his rule. H.S.Suhrawardy was declared traitor two weeks before Objective resolution in march 1949, rigging was tested in the first Pakistani provincial election by Karachi based ICS officers in the Punjab in 1951 and corruption charges were used against Ayub Khoro of larkano and Mian Iftiqar Hussein Mamdot . Following Liaqat, it was general ayub who used hammer of black law EBDO against politicians & others. Interestingly during Zia period Pukhtoon nationalist Khan Abdul Wali Khan used the slogan of accountability against his rival Z A Bhutto just to attract general Zia. Resonance of his favorite slogan “First Ehtisab (Accountability) then Intikhab (Elections)” still haunting Pakistani democracy. During lawyer movement it was ® General Hamid Gul who on record said that if army want to do accountability their test case is to fix EME first. Benazier Bhutto and Nawaz Sharief too used hammer of corruption against each other during their tenures from 1988 till 1999 yet after singing CoD in 2006 both agreed not to play with the hammer but to establish an independent accountability commission. Everyone remembers how Musharaff used hammer of corruption against PPP and PML Nawaz. At that time jamat islami, JUI F & H, Threek e Nifaz e Fiqa jafrya, JUP, MQM and PTI were partners in arms of Mushraff. Outcomes of corruption cases against PPP and PML Nawaz were Q-League and Patriots. It is duty of the current governments in center and provinces to establish an independent accountability system under which every Pakistani irrespective of status can face trial. It is high time for parliament to act so no one can play issue of corruption in future. 
Enjoy Reading full article published in Humshehry weekly 


کون ہے جو احتساب کا حمایتی نہیں ہوگامگر ہماری اشرافیہ نے اقتدار کے کھیل میں احتساب کو بھی متنازعہ بنادیا ہواہے۔ دیکھا جائے تو ملک پاکستان میں دھاندلی، غداری اور احتساب کی آڑ میں جو سیاستیں رچائی جاتی رہیں ہیں اس کا سب سے زیادہ فائدہ بیوروکریسی اور بدعنوانی میں ملوث حضرات ہی نے اٹھایا ہے۔ جنوری1949سے خان لیاقت علی خان اور ان کے حواریوں نے اس سیاست کا آغاز کیا جسے آئی سی ایس افسران نے بڑی ذہانت سے ترتیب دیا تھا ۔ قومی ادارہ احتسابNAB کی طرف سے میگا سکینڈلوں کی جو فہرست سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ہے وہ انہی کارروائیوں کا تسلسل ہے جن کی بنیاد ہی’’ بدنیتی ‘‘پر استوار کی گئی ہے۔ پاکستان میں احتساب کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے ہمیں ’’عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے‘‘ والی حدیث مبارکہ کی زیادہ سمجھ آنے لگتی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمنٹ اس حوالہ سے سب کی مشاورت کے ساتھ بامعنی قانون سازی کرے۔کیونکہ یہ قانون ہر پاکستانی پرلاگو ہوگا اس لیے اس کو مجموعی اتفاق رائے ہی سے بننا چاہیے۔ تکنیکی طور پر تو ہر پاکستانی شفافیت کا حامی بھی ہے اور انتخابی دھاندلیاں اور غداری کرنے والوں کو بھی سزائیں دلوانا چاہتا ہے ۔ مگر گزشتہ 67سالوں میں ہمیشہ سے کچھ قوتیں ان مسائل کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔ اس کھیل کے نتیجہ میں اصل مجرم ہمیشہ بچ جاتے ہیں۔ سیاست میں دھاندلیوں، غداریوں اور احتساب کو استعمال کرنے کی ریت لیاقت علی خان کے دور سے شروع ہوئی اوراحتساب کے نام پرپروڈا(PRODA)نامی بل 1949میں منظور کیا گیا۔ غداروں کی فہرست اور غداری کے مسئلہ سے کھیلنے کی تاریخ تو ہم انہی صفحات پر پچھلے ہفتہ بیان کرچکے ہیں البتہ دھاندلیوں کے مسئلہ سے کھلواڑ کرنے کی تاریخ بھی جلد انہی صفحات میں آئے گی۔ دھاندلیوں کے مسئلہ کو استعمال کرنے کا نقطہ آغاز10مارچ1951کو ہوا تھا جب پنجاب میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پرپاکستان کا پہلا صوبائی انتخاب ہونا تھا۔ کراچی براجمان سول افسران نے من مرضی کے نتائج کے لیے کیسا جھرلو پھیرا تھا اس بارے بھی لکھا جائے گا۔ مگر یہاں تو آپ احتساب کے نام پر 1949میں بنائے جانے والے قانون پرو ڈاسے شروع ہونے والی کہانی پڑھیں۔ سندھ(لاڑکانہ) کے ایوب کھوڑو اور پنجاب کے میاں افتخار حسین ممدوٹ اس قانون کے پہلے شکار بنے کہ دونوں سے کراچی کے حکمران ناراض تھے۔ اس کام میں اس وقت کے میڈیا نے بھی حکمرانوں کا خوب ساتھ دیا البتہ کچھ اخبارات نے کراچی کو آڑے ہاتھوں بھی لیا۔ مارچ 1951میں سابقہ صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پی کے اس قانون کی زد میں آیااور خان عبدالقیوم خان کی دسمبر کے صوبائی انتخابات میں کامیابی کے لیے اس قانون کو بخوبی استعمال کیا گیا۔ تحریک پاکستان میں قائداعظم کا ساتھ دینے والے پیر مانکی شریف سمیت کتنے ہی لیڈران اس کی زد میں رہے۔ 

احتساب کا دوسرا قانون ایوبی مارشل لاء میں آیا جس کا نام ایبڈو(EBDO)تھا۔ اس قانون کے تحت محض قوم پرستوں اورمسلم لیگ کے مخالفوں ہی کو نشانہ خاص نہیں بنایا گیا بلکہ بڑے بڑے جیدمسلم لیگی اور تحریک پاکستان کے کارکن بھی اس قانون کی زد میں آگئے۔ جس بھی سیاستدان کوایبڈوکے ذریعے سیاست سے نااہل قرار دیا گیا وہ31دسمبر1966تک ممبر اسمبلی نہیں بن سکتا تھا۔ پورے آٹھ سال تک اسے سیاست سے باہر رکھنے کا مقصد کیا تھا اور اس کا براہ راست فائدہ کس کو تھایہ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ ایک تحقیقی مقالہ کے مطابق 6ہزار خواتین و حضرات پر ایبڈو نامی بدنام زمانہ قانون لگایا گیا جن میں 3ہزار کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔یوں مشرقی پاکستان کو ایوبی دور کے آغاز ہی میں واضح پیغام دے دیا گیا۔ ملک بھر سے کل75بڑے سیاستدانوں کو اس کالے قانون کی زد میں لایا گیا جن میں حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی،  
   ممتاز دولتانہ سمیت کئی اہم نام شامل تھے۔ احتساب کے حوالہ سے تیسری بازگشت
ضیاالحق کے دور میں سنی گئی کہ اس بار احتساب کا نعرہ لگانے والے کوئی اور نہیں بلکہ پختون قوم پرست رہنما خان عبدالولی خان تھے۔ مرحوم نے یہ نعرہ اک ایسے وقت پر لگایا جب آمرجنرل ضیاء الحق قوم سے90دن میں انتخابات کرنے کا وعدہ کرچکا تھا۔ ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘کا مشہور نعرہ بھٹو دشمنی کا مظہر تھا جسے ضیاالحق اور اس کے مربی میڈیا نے بہت پسند کیا۔مزاحمت پسند ولی خان نے کس کی مدد کی یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔کم از کم اپنی زندگی میں خان عبدالولی خان نے اپنے اس سیاسی کردار پر شرمندگی کا اظہارایک بار بھی نہیں کیا۔ شاید یہی وہ بات تھی جو جہاندیدہ غوث بخش بزنجو کو بہت کچھ سمجھا گئی اور انھوں نے تادم مرگ کبھی ولی خان سے مل کر دوبارہ سیاسی پارٹی نہیں بنائی۔ جب جنرل ضیا الحق نے8ویں ترمیم کے ذریعے آئین کا حلیہ بدل ڈالا تو اس میں63,62جیسی شقوں کا اضافہ بھی کیا۔ یہ شقیں بھی احتساب کے نعرے کی آڑ میں ہی تیار کی گئیں تھیں۔62,63کی شقوں پر تو خود ضیاالحق، اس کی کابینہ اور گورنر وغیرہ پورے نہیں اترتے تھے تو اس کو محض ممبران اسمبلی پر لاگو کرنے کا عمل’’نیت کی خرابی‘‘ہی ٹھہرا۔1988سے1999کے درمیان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)نے ایک دوسرے کے خلاف احتساب کا ہتھیار خوب استعمال کیاکہ بعدازاں 2006میں میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے اس ہتھیار کو استعمال نہ کرنے کا مصمم ارادہ کرکے سیاسی بلوغت کا ثبوت مہیا کیا۔ جنرل مشرف نے 16 نومبر 1999 سے ’’احتساب‘‘ کے نام پر جو کھیل شروع کیا اس میں سے ق۔لیگ اور پیٹریاٹ برآمد ہوئے کہ اس سیاست سے تو ہرکوئی بخوبی آگاہ ہے۔ مشرف نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(نواز)کا احتساب کرکے قوم کو چوہدری شجاعت حسین، شوکت عزیز، راؤسکندر، شیخ رشید سے لے کر ایم کیو ایم اور ایم ایم اے کا جو تحفہ دیا وہ مشرف دور کے احتساب کو سمجھنے کے لیے کافی تھا۔ احتساب کا مذاق اڑانے میں جنرل مشرف اپنے پیش روؤں کو بہت پیچھے چھوڑ گیا۔جن مقدمات کو مشرف دور میں بھی عدالتوں کے روبرو پیش نہیں کیا جاسکا ان کی کتنی اہمیت ہوگی یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ خود عمران خان متعدد بار نیب کے ادارہ کو ختم کرکے نئے شفاف اور آزاد ادارے کے قیام کا مطالبہ دھراچکے ہیں۔جونہی نیب نے سپریم کورٹ میں میگا سکینڈلوں کی فہرست پیش کی تو عمران خان ڈیڑھ ماہ قبل 20مئی کو نیب کے حوالہ سے دیا گیا اپنا ہی بیان بھول گئے۔بیس مئی کے بیان میں وہ کہہ چکے تھے کہ نیب کاادارہ زرداری اور نوازشریف کی ملی بھگت سے بنایا گیا ہے۔ آج کل خان صاحب اور ان کے متولیوں کا محبوب ادارہ وہی ’’نیب ‘‘ہے۔ اگر کل کلاں کو اسی نیب نے جہانگیر ترین یا اسد عمر کے خلاف کوئی مقدمہ بنادیا تو پھر خان صاحب دوبارہ سے اپنے پرانے بیان پر آجائیں گے۔ یہ سب احتساب کے مسئلہ کو مفادات کے لیے استعمال کرنی کی پرانی روش کے سوا کچھ نہیں۔ خود سپریم کورٹ نیب کے محبوب مشغلے یعنیPlea Bargainکے حوالہ سے سوال اٹھا چکا ہے۔اگر مجرم کو رقم لے کر چھوڑ دینا ہے تو پھر انصاف کے تقاضے کیسے پورے ہوں گے؟ مگر جب نیب پر عدالتی دباؤبڑھا تو نیب نے اپنی جان چھڑانے کے لیے حسب روایت سکینڈلوں کی طویل فہرست پیش کردی۔ 1990سے زیر التوا سکینڈلوں کی یہ فہرست خود نیب کے خلاف ایف آئی آر ہے جس کے خالق بھی وہ خود ہی ہیں۔ اب اگر میڈیا اور سیاست کے کچھ کھلاڑی اس فہرست کو بنیاد بناکر چینلوں پر پروگرام کررہے ہیں تو اس سے خود میڈیا اور اُن صحافی نما کھلاڑیوں کے بارے میں بھی سوالات اُٹھتے ہیں۔ کیا ہمارے صحافی اور مخصوص سیاسی کھلاڑی احتساب کی آڑ میں رچائے جانے والے کھیل سے نا آشنا ہیں؟ کیاانہیں احتساب کے نام پر بنائے جانے والے اداروں کی کارکردگی کا علم نہیں؟ احتساب کا ادارہ تو ایسا ہونا چاہیے جو سیاستدانوں، صحافیوں، سول ملٹری اداروں اورعدلیہ سمیت سب کے حوالے سے کام کرنے میں آزاد ہو۔ یہ ادارہ پارلیمان میں بحث کے بعد بنایا جائے اور اس کی آئینی حیثیت مسلم ہو۔
یہ ادارہ میڈیا پر خبریں دینے سے پہلے عدالتوں میں چلان پیش کرے چاہے اس میں کئی سال لگ جائیں۔ شفافیت کے مسئلہ کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال نہ کیا جاسکے۔ جن مقدمات کا16سال میں بھی چلان پیش بھی نہیں ہوا بھلاان کو اہمیت دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ احتساب کی ضرورت اور اہمیت اپنی جگہ مگر من مرضی کا انصاف اور مطلبی احتساب بذات خود احتساب کے عمل کو متنازعہ بنانے کے سوا کچھ نہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کو اس حوالہ سے قانون سازی کرنی چاہیے کہ یہی وہ رستہ ہے جس کے ذریعہ احتساب کو باربار اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا رستہ بند ہوسکتا ہے۔ 

Tuesday, July 7, 2015

Listen Lok Lhar-2 Right to Information Act & the Punjab Recording @FM103, Lhore


Listen Lok Lhar-2 Right to Information Act & the Punjab 

Recording @FM103, Lhore

Guests: Mkhtar Ahmad Ali, Information Commissioner Punjab & Dr Imdad Husein Public Policy School FCC University, Lhore
July 6, 2015 From 4 to 6 PM



Sunday, July 5, 2015

A case of Punjabi & the Punjab – 1



A case of Punjabi & the Punjab – 1

Indigenous people called it Punj-nad (Nihar and nadi are old words used for rivers), 
Spat- Sindhu ( Land of seven rivers), Indus Valley, Greeks called it Panta-Potamia (Panta is five in old Greek language), Persians , Arabs also called it Punjab (Punj is five and ab is water) so we can easily understand roots of the Punjab and Punjabi from ancient times.  

Today more than 200 million Punjabis live in the world and their majority lives in Pakistan which is more than 120 million.  As I have planned to write a trilogy on the Punjab and naturally it will be in my mother tongue so I am reading numerous old and new books yet these days I read some articles about Punjab, Punjabi and Punjabiat. Although there are omissions and errors in these articles yet in order to collect this debate I decided to save them in this blog. In this first post I added 5 articles and if you find any interesting article please send me at aamirriaz1966@gmail.com


5 July 2015

The Punjab is defined not by its political boundaries but by its linguistic geography because political boundaries may be sublime but linguistic connections are permanent. This collective lingual unity of the Punjab has been nurtured by its selfless commoners for centuries and they are its real custodians. 

A case of Punjabi nationalism

31 May 2015

Academics studying the phenomenon of ethno-nationalism in Pakistan usually stick to tendencies such as Sindhi, Baloch and Pakhtun nationalisms (and, in the past, Bengali nationalism, and now even Mohajir nationalism).
Nevertheless, what gets missed in the more holistic study of the said issue is a nationalism that is actually associated with what is usually decried to be a hegemonic and elitist ethnic group: the Punjabi.

Smokers’ Corner: The other Punjab

http://www.dawn.com/news/1184953


15 February 2015

When Gujranwala born, British Pakistani novelist Nadeem Aslam quotes couplets of a rather unknown rural Punjabi Poet Abid Tamimi in his novel Maps for lost lovers (2004), he is subconsciously establishing his native connectivity. He furthers this theme in his latest novel The Blind Man’s Garden (2013) by creating a whole fictional town named Heer (inspired by Waris Shah’s legend) and proudly claims that  all his future novels will be set in this Punjabi town.

In the name of Punjabiyyat

13 March 2012

Putting all the blame on Punjabis is a post-1971 syndrome. From 1947 till 1971, the pro-centralist Pakistani establishment remained busy in managing the Bengali majority, while after 1971 they had a desire to weaken the remaining four provinces, especially the Punjab, so that no one could challenge the centralist forces

These days Punjab is under discussion. The resonance of an anti-Punjab clamour was heard recently even in the US House Committee on Foreign Affairs, Subcommittee on Oversight and Investigations, regarding Balochistan. Here I need to write about the Punjab and its liberal-progressive history of the 20th century, which looks problematic. 



http://punjabpunch.blogspot.com/2012/03/our-anti-punjab-clamour-1-aamir-riaz.html?view=mosaic



22 March 2012
If you scan the 20th century, Punjabis never voted in favour of fundamentalists. From the PRODA of Liaquat Ali Khan to the EBDO of Ayub Khan, numerous Punjabi leaders became victims of the ruling classes and finally, in 1970 Punjabis voted for Bhutto and they were right

http://punjabpunch.blogspot.com/2012/03/our-anti-punjab-mayhem-ii-aamir-riaz.html?view=mosaic

Note At 
http://punjabpunch.blogspot.com/
You can read many more columns regarding history of the Punjab


Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...