Friday, July 7, 2017

Pakistan: Who can make decisions ? Parliament or Others..Ghost of 5th July still continues

Pakistan: Who can make decisions ? Parliament or Others..

Ghost of 5th July still continues 

The basic issue in Pakistan is still unresolved after 70 years where non-elected tier is not ready to accept supremacy of parliament and people's participation. They did not get any lesson from 16 December 1971 events and since July 5th 1977 they are remain busy in palace conspiracies largely. If they dismiss  any government or any leader on the grounds set by General Zia like tricky Articles62,63 the fight for parliament rule will enter in the final phase. Some power brokers want to join US+Saudi alliance at any cost yet parliament is still stands by historic Yamen Resolution in favor of Neutrality. Tricky Afghan policy is also among irritants yet after starting CPEC, the government and parliament is in better position. Read and enjoy.


5 جولائی کا بھوت آج بھی منڈلا رہا ہے؟فیصلے کون کرے گا؟
عامر ریاض
  چالیس سال پہلے آج ہی کے دن اس سر زمین پاک پر جو طوفان اٹھا تھا وہ آج تلک جاری و ساری ہے کہ مقبول عام ذولفقار علی بھٹو کی حکومت پر شب خون مارنے سے اج کی جے آئی ٹی تک کچھ طاقتور گروہ یہ مصمّم فیصلہ کیے بیٹھے ہیں کہ فیصلے منتخب ایوانوں میں نہیں بلکہ غیر منتخب اشرافیہ کے ڈرائینگ روموں، سیف ہاؤسوں اور ان دفاتر نما اداروں میں ہوں گے جو آئین کے تحت منتخب ایوانوں کے ماتحت ہیں۔ جب ہر دلعزیز بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا گیا تھا تب بھی عدالت مقتدر گروہوں کے قبضہ میں تھی اور بھٹو مخالف یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ عوام بھٹو کے عدالتی قتل کو معاف نہیں کرے گی۔ ان گذرے 40 سالوں میں پہلا ایجنڈا یہی تھا کہ بھٹو کو کراچی اور پنجاب سے بے دخل کیا جائے اور سندھی، بلوچی، پختون قوم پرستوں کو سایہ نگہبانی میں لیا جائے۔اس کا نیہہ پتھرمگر قومی اتحاد کی تحریک میں رکھا جا چکا تھا جس میں ترقی پسندوں، اسلام پسندوں، قوم پرستوں کا ملغوبہ نیشنلائزیشن کے مخالفوں سے مل کر تیار کیا گیا تھا۔ مگر بھٹو کی پھانسی کے بعد ضیا مخالفت میں بننے والی ایم آر ڈی کی تحریک نے اس ایجنڈے کو زنگ لگا دیا۔ ضیا نے آٹھویں آئینی ترمیم اور غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے مستقبل کا زائچہ تیار کیا جس میں صدر کے ادارے کو اختیارات کا ’’گھما‘‘ بنایا گیا اور آئین کو مشرب بہ اسلام کرنے کے لیے 62,63 سمیت اسلامی دفعات داخل کی گئیں۔ یہی نہیں بلکہ پرائیوٹائزیشن کے عالمی ایجنڈے پر عمل کرنے کا آغاز بھی اسی اسلامی دور میں شروع ہوا۔ اس سب کا مقصد اور ’’ٹیچا‘‘ اک ہی تھا کہ سیاستدانوں کو یہ باور کرایا جائے کہ فیصلے منتخب ایوانوں میں نہیں ہوں گے۔ امریکی سعودی اور مغربی یورپی طاقتوں کے ایماء پر چلائے جانے والے افغان جہاد کو ’’قومی مفاد‘‘ کہا گیا کہ اس کا مقصد امریکی ڈالروں سے اشنان کرنا اور مقبول عام سیاسی جماعتوں کو اقتدار سے باہر رکھنا ہی تھا۔ معاشرہ تباہ ہوتا رہا اور چند لوگ افغان جہاد کے ڈالر سمیٹتے رہے کہ دوسری طرف انتہا پسندی، فرقہ پرستی، لاقانونیت اور من پسند پرائیوٹایشن کو برابر بڑھنے دیا گیا۔ جب عالمی حالات بدلنے لگے تو عالمی ایجنڈے بھی بدل گئے کہ بات جینوا معاہدہ تک پہنچی کہ اک کمزور محمد خان جو نیجو اس قدر با ہمت ہوگئے کہ جرنیلوں کو ایف ایکس سوزو کیوں میں بٹھا دیا کہ ہماری غیر منتخب اشرافیہ کو پھر بھی سمجھ نہیں آئی۔ ضیا الحق کا جہاز ’’پٹ‘‘ گیا کہ ضیا ہی کے کچھ چہیتوں نے ’’قومی مفاد‘‘ کی خاطر ایس فیصلہ کو قبولا۔ ایس وقت جنرل حمید گل اٖفغان جہاد لڑنے والے ادارے کے سربراہ تھے تو غلام اسحاق خان چیئر مین سینٹ اور وائس چیف آف سٹاف مرزا اسلم بیگ تھے۔ افغان جہاد ، پرائیوٹائزیشن اور ڈی ایچ اے کلچرکے ذریعے جن گروہوں کو پالا جاتا رہا تھا اب انہیں نئے کام سونپ دیے گئے۔ صدر کا عہدہ مستقل و بال جان بنا رہا کہ غیر منتخب اشرافیہ کے لیے ہر مشکل کھڑی پر صدر کے آفس نے کما ل دکھایا۔ بھاری اکثریت سے دوسری بار وزیراعظم بننے والے نے جب صدارتی کروفر کی علامت 58(2) بی کو ختم کیا تو اس کی بدترین مخالف پی پی پی نے اس کا ساتھ دے کر جس سیاسی دور اندیشی کا مظاہرہ کیا وہ بدلتے وقت کا واضح اشارہ تھا۔ مگر ہماری غیر منتخب اشرافیہ اور اس کے انڈے بچے پھر بھی یہ سمجھنے کو تیار نہیں تھے۔ اب انہوں نے جبرالٹر والا کھیل کار گل کے نام کھیلا اور واجپائی کے دورہ لاہور کو قومی مفاد پر سمجھوتہ قرار دے ڈالا۔ بات مشرف کے مارشلاء تک گئی کہ اب کی بار مارشلاء کا نقاب اسلامی نہیں بلکہ سیکولر بنایا گیا۔ ایجنڈا بہرحال وہی تھا جس پر 5 جولائی 1977 سے غیر منتخب اشرافیہ عمل پیرا تھی۔ این جی اوز سے لے کر پیٹریاٹ و ق لیگ تک سب کو اس کام پر لگادیا گیا اور دوسری طرف طالبان مکاؤ پراجیکٹ سے ڈالر سمیٹنے کا ایجنڈا 9/11 کے بعد سے بذریعہ دہری پالیسی جاری تھا۔ 5 جولائی 1977 سے 1999 تک تو غیر منتخب اشرافیہ پی پی پی ہی سے نمبردآزما تھی کہ اب پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) دونوں مر دور ٹہرے کہ قومی مفاد کے تحت دونوں کی گنجائش نہیں تھی۔ اس فرعونی جبر کی کوکھ سے میثاق جمہوریت پیدا ہویا کہ غیر منتخب اشرافیہ ہمیشہ یہ بات یاد نہیں رکھنا چاہتی کہ جہاں فرعون ہوگا وہاں موسیٰ لازم۔
جب ضیا کااپنوں نے ساتھ نہیں دیا تھا تو پرویز مشرف کے اپنوں نے اس کا ساتھ کب دینا تھا۔ ضیا اور مشرف کی قربانیاں غیر منتخب اشرافیہ کی مجبوریاں تھیں مگر پرنالہ وہیں کا وہیں رہا کیونکہ ضیا و مشرف کی باقیات ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔یہی وجہ ہے کہ 2008 سے آج تلک وہ ایس بات پر کمر بستہ ہیں کہ فیصلے منتخب ایوانوں میں نہیں ہوں گے۔ ہماری غیر منتخب اشرافیہ کے کروفر کا اندازہ مارچ اور مئی 2011 میں سب کو ہوگیا کہ جب ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑنا اور اسامہ بن لادن کو ’’الوداع‘‘ کہنا پڑا۔ میڈیائی نا خدا جعلی قوم پرستیاں بڑھاتے رہے اور قومی حمیت و خودمختاری کی بڑکیں لگاتے رہے۔حلانکہ ضیا و مشرف اس کا سودا کب کا کر چکے تھے۔ سب نے دیکھا کہ ہم نے سفارتی استشنیٰ کے رواجی عزت دار رستہ کے بجائے اسلامی قنون کو بنیاد بناکر امریکی شہری کو باہر بھیجا جبکہ خود اسامہ کو پکڑ کر حوالے کرنے کی بجائے امریکی مداخلت ہونے دی۔ 1971 کے المیے کی طرح، غیر منتخب اشرافیہ نے ان دونوں واقعات کا ملبہ بھی سیاستدانوں کے سر ڈالنے کی بھر پور کوشش کی مگر عوام اس سب کو نہ کل مانتی تھی نہ آج۔ عدالت جو ہر بات پر سوموٹو لیتی ، جے آئی ٹی بناتی، ان واقعات پر کل بھی خاموش تھی اور آج بھی بلکہ جہاں موقع ملا وہاں سہولت کار بھی بنی۔ وکلا تحریک کے بعد جو عدالتوں کے بدلنے کا تاثر دیتے تھے وہ بھی اج خاموش کہ 5 جولائی 1977 سے 5 جولائی 2017 تک پاکستان میں اک ہی لڑائی جاری ہے کہ فیصلے کہاں ہوں گے؟ یمن کی قرار داد پر عمل پیرا اسمبلی کو خاموش کرنے کے لیے یہ کہا گیا کہ راحیل شریف کا این او سی قومی مفاد ہے۔ مگر جب سعودی امریکی اتحاد نے ٹرمپ کی آمد کے بعد طبل جنگ بجا دیا توں اب یہ بتایا جارہا ہے کہ اس اتحاد میں شمولیت کافیصلہ ٹی او آر کے بعد اسمبلی ہی کرے گی۔ کیا ٹی او آر آنے تک اسمبلی موجود بھی رہے گی؟ افغان جہاد ہو یا طالبان مکاؤ پرجیکٹ یا پھر پانامہ لیکس، عالمی ایجنڈوں سے مقامی مفاد حاصل کرنے میں ہماری غیر منتخب 
اشرافیہ مشاق کہ اس کا عوامی سطح پر کیا اثر پڑتا ہے اس کی ان کو کبھی پرواء نہیں ہوتی۔ جب 5 جولائی 1977 کو یہ سب ہوا تھا تو صدر داؤد، ذلفقار علی بھٹو اور شاہ ایران اک صفحہ پر تھے کہ ڈیورینڈلائن کو ماننے کا اعلان سر داؤد لاہور کے شالیمار باغ میں کرچکا تھا۔ ہم کب تک عالمی ایجنڈوں سے مقامی مفاد سمٹتے رہیں گے کہ 5 جولائی کے دن اس سب پر اک دفعہ پھر غور کرنے کی ضرورت ہے۔فیصلے کون کرے گا؟ قومی مفاد کیا ہے؟ فیصلوں کا فورم کیا ہے؟70سال بعد اب اس بارے تصفیہہ ہو جانا چاہیے۔



No comments:

Post a Comment

No US President visited Pak in Democratic era (The flipside of Pak-US relations)

  No US President visited Pak in Democratic era (The flipside of  Pak-US relations) Till to date 5 US Presidents visited Pakistan since 195...