Thursday, March 29, 2018

March 29: Black Day & misleading history spread by colonial rulers & apologists

March 29Black Day & misleading historyspread by colonial rulers & apologists 


Link of article published in Dawn urdu blog

تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو

29مارچ، پنجاب ،ہندوستان اورانگریز



عامر ریاض

پچھلے 418 سالوں سے پنجابی مارچ کا آخری ہفتہ بڑی شان سے میلہ چراغاں کے نام سے مناتے ہیں کہ مادھو لال حسین(شاہ حسین لہوری) اپنے لازوال کلام کے ذریعے پنجابیوں اور غیر پنجابیوں میں یکساں مقبول ہے۔مگر169سال قبل چراغاں کا میلہ نہیں منایا جا سکا کہ 29مارچ1849کو50سال سے چل رہی آزاد سلطنت’’لہور دربار‘‘ کا خاتمہ کر ڈالا۔اس دن انگریزوں نے نہ صرف پنجاب بشمول خیبر پی کے اور فاٹا پر قبضہ کیا بلکہ پلاسی کی لڑائی(1757)، کرناٹک جنگوں(1744-63) ،پانی پت کی جنگ(1761) ، بکسر کی لڑائی(1764)،ٹیپو کی شکست(1799) اور دلی پر قبضہ(1803) سے نوآبادیاتی تسلط کی جو مہم جاری تھی وہ بھی مکمل ہوئی۔
جیسے ہندوءں کو ساتھ ملانے کے لیے انگریزوں نے مغلوں اور سلاطین دہلی کو مسلمان بادشاہ کہا ویسے ہی پنجابی مسلمانوں اور پختونوں کو ساتھ ملانے کے لیے انگریزوں نے ’’لہوردربار‘‘ کو سکھوں کی حکومت قرار دے کر اپنے مفادات کو پورا کرنے کے جتن کیے۔تاریخ کو مسخ کرنے کے لیے درباری مصنفین سے کتابیں لکھوائی گئیں کہ جن میں مغلوں اور لہور دربار کے تمسخر اڑانے کے ساتھ ساتھ مذہبی و فرقہ وارانہ تعصبات کو ہوا دینا لازم تھا۔ سونے پر سہاگہ یوں چڑھا کہ ہمارا فارسی و ترک زبانوں سے رشتہ توڑ ڈالا گیا اور ہم اپنی تاریخ سے مکمل کٹ گئے۔
’’لہوردربار‘‘ کی ریاست 1799میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مسلمان پنجابیوں سے مل کر بنائی تھی کہ جس میں کشمیر،گلگت بلتستان،پشاور، فاٹا شامل تھے۔مہاراجہ کے دربار میں مسلمان، ہندو، سکھ بھی بیٹھتے تھے اور کشمیری، بلتی،پٹھان اورپنجابی بھی۔ یہی نہیں بلکہ لہور دربار کی طرف سے انگریزوں کے خلاف لڑنے والوں میں پٹھان،کشمیری، پوربیے،پنجابی ہی نہیں بلکہ کجھ امریکی، فرانسیسی،اطالوی، حتاکہ برٹش جرنیل بھی شامل تھے۔یاد رکھے والی حقیقت تو یہ ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے سکھ مثلوں کو ختم کر کے لہوردربار کی بنیادیں رکھیں کہ بہت سی سکھ مذہبی جتھے بندیاں توں مہاراجہ کے خلاف تھیں۔مگر انگریزوں اور ان کے ہمنواؤں نے لہور دربار کو سکھ سرکار کہا۔
جب مہاراجہ نے لاہور میں حکومت بنائی تو یہفرانسیسی لیڈر نپولین بونا پارٹ کی چڑھتل کا زمانہ تھا اور دلی پر تسلط کر چکے انگریزوں کو ڈر تھا کہ فتوحات کرتا نپولین ایران و سندھ سے پنجاب آ سکتا ہے۔1805 میں جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے انگریزوں سے برسرپیکار جسونت راؤ ہولکر اور جنرل لیک میں سمجھوتہ کروایا تو انگریزوں کو مہاراجہ کی طاقت کا اندازہ ہو گیا۔یہی وہ زمانہ تھا جب سلطنت عثمانیہ(ترکوں) اور ایرانیوں سے نپولین کے سمجھوتوں نے انگریزوں کے ڈر کو یقین میں بدل دیا۔1809میں لارڈ منٹو کی طرف سے چارلس میٹکاف نے لہور دربار کیساتھ معاہدہ کیاجس کی شقیں اج بھی لہور دربار کی طاقت کے اعتراف کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔حیران نہ ہوں، انگریز اس دور میں بھی افغانستان جانے کا رستہ مانگ رہے تھے مگر جہاندیدہ مہاراجہ نے انکار کر دیا۔اسی دور میں جب روسیوں نے پنجاب پر حملہ کے لیے افغانستان کے بادشاہ دوست محمد خان سے رستہ مانگا تھا تو انھوں نے بھی ایسے ہی انکار کردیا تھا۔جب تک مہاراجہ زندہ رہا اس وقت تک انگریز نہ تو افغانستان کی طرف بڑھ سکے اوہ نہ ہی سندھ،بلوچستان پر قابض ہوئے۔اس دوران انگریزوں نے لہور دربار کو ایک مسلمان دشمن حکومت قرار دینے کے لیے خوب پروپیگنڈا کیا اور ایک جہاد کو بھی تقویت دی۔جون1839میں مہاراجہ کی وفات کے وقت انگریز شملہ منیفسٹو تیار کر چکے تھے کہ پہلے قلات، کابل و قندہار پر قبضہ ہوا، 1843میں سندھ،1846میں کشمیر اور1849میں پنجاب پر قبضہ کیا گیا۔مہاراجہ کی موت کے بعد لہور دربار کو اندر سے کمزور کرنے کے لیے انگریزوں نے محلاتی لڑائیوں کو تیز کرنے کے لیے تخت کے دعویداروں اور فوج کو بڑھکایا کہ اب اس بارے سیر حاصل مواد دستیاب ہے۔
1846 میں فیصلہ کن جنگ دریائے ستلج کے کنارے ہوئی جس کے بعد انگریزلہور دربار کو تونہ توڑ سکے مگر کشمیر اور اس کے حاکم شیخ برادران کو بے دخل کر کے گلاب سنگھ کو کشمیر پر بطور نمائندہ لگا دیا گیا۔درباری تاریخ لکھنے والے ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ مسلم اکثریتی کشمیر و بلتستان میں سکھوں کی حکومت کے دور میں مسلمان شیخ برادران حاکم رہے جبکہ انگریزوں کے دور میں گلاب سنگھ کو کشمیر کا حاکم بنایا گیا۔
1846سے1849کے درمیان ہونے والی تین بڑی جنگوں کا احوال بہت سی کتابوں میں درج ہے جس میں رائل بنگال آرمی میں ہندؤں کو بھرتی کرنے کے لیے یہ کہا گیا کہ انھیں اس علاقے کو فتح کرنے جانا ہے جہاں تاریخی طور پر ہمیشہ مسلمانوں کا قبضہ رہا ہے۔
ان جنگوں میں جن پوربی بٹالینوں نے رائل بنگال آرمی کو تج کر لہور دربار کا ساتھ دیا اس کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا ۔دوست محمد کان کا بھائی سلطان محمد تو ساری عمر لہور دربار کے ساتھ رہا جبکہ اس کا بیٹا1848میں ہونے والے چیلیانوالہ(گجرات کے پاس) معرکہ میں لہور دربار کی فوج کے ساتھ ملا۔یہی نہیں بلکہ ملتان کے مول راج کی نگریزوں کے خلاف بغاوت بھی اس بات کا ثبوت کہ بلا امتیاز مذہب و قومیت بیرونی قبضوں کے خلاف مذاحمت کی طویل تاریخ ہے۔
جن لوگوں نے دیبی پرشاد، گنیش داس،برائن ہیوگل،کنگھم،الیکذنڈر گارڈنر،سٹین بیک،فقیر وحید الدین ، خشونت سنگھ اور کرنل (ر) معین باری کی کتب پڑھیں ہیں وہ درباری مصنفین کے کرتبوں سے کما حقہ واقف ہیں۔مگر پاکستان و بھارت میں بالعموم انگریزی پالیسی ہی تاحال جاری ہے اور لہور دربار بارے پہلی سے 16 ویں جماعت تک کی کتب میں ایک سبق بھی شامل نہیں۔29مارچ کے دن جس ریاست کو انگریزوں نے فتح کیا اس کے خلاف نوآبادیاتی دور میں جج لطیف،کنھیا لال جیسوں سے کتب لکھوائی گئیں۔اگر یہ تحریر آپ کو اپنی گمشدہ تاریخ پر نظر ڈالنے کی تحریک دے سکے تو اس کا مقصد پورا ہو جائے گا۔

No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...