May Day: Include intellectual labor and expand it
The link is
یوم مئی کیسے منایا جائے؟
عامر ریاض
تیزی سی بدلتی دنیا میں یہ سوال اور بھی زیادہ اہمیتوں کا حامل ہو چکا ہے مگر قدامت پسندیوں کی وجہ سے ہمارے ہاں اکثرنئے خیالات کو رواج پر ترجیح نہیں دی جاتی۔نجکاریوں اور کنڑیکٹ لیبر کے اس دور میں جہاں ذہنی مشقت میں بھی قابل قدر اصافے ہو چکے ہیں اور مصلیوں، کھسروں، چوڑوں وغیرہ کے حقوق پر بات کرنامیعوب نہیں وہاں یوم مئی کو جس نئے پن کی ضرورت ہے وہ فی الحال مفقود ہے۔ اج جب ملک پاکستان لاتعداد رکاوٹوں کے باوجوداپنی تاریخ میں دوسرے جمہوری تسلسل سے گذر رہا ہے تو اس بات کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ اس جمہوری بندوبست میں ’’کام کرنے والوں‘‘ کے مفاد کو بڑھایا جائے۔اشرافیہ کو تو یہ تسلسل کبھی پسند نہ آئے گا کہ اس تسلسل پر پہرا عام لوگ ہی دے سکتے ہیں۔ یہی یوم مئی کا سبق بھی ہے۔
یوم مئی کے دن کو امریکا اور یورپ میں وہی حیثیت حاصل ہے جو جنوبی ایشیاء میں ویسا کھی (بیسا کھی) کے دن کو حاصل ہے۔ بسیاکھی کے دن کو 13 اپریل 1919 میں نئی روح جلیانوالہ باغ (امرتسر) کے واقعہ نے دی تھی اور اب رہتی دنیا میں ویساکھی محض بہار کی آمد اور فصلوں کی کٹائی کا تہوار نہیں بلکہ قبضہ گیریت اور نو آبادیاتی مظالم کے خلاف جدوجہد کا استعارہ بھی بن چکا ہے۔یہ جلیانوالہ باغ کے قتلام کے بعد چلنے والی عوامی لہریں ہی تھیں جس کی بدولت برصغیر میں کلب سیاست کا خاتمہ ہوا۔ ایسے ہی یوم مئی امریکہ و یورپ کے بہت سے ممالک میں بہار کی آمد کے حوالہ سے منائے جانے والے میلے کا روائیتی تہوار تھا مگر 1886 میں امریکی شہر شگاگو میں موجود’’ہے مارکیٹ‘‘ میں ہونے والے واقعہ کے بعد یکم مئی کی اہمیت دیدنی ہوگئی۔ اب یہ دن مزدوروں یعنی کام کرنے والوں (ورکرز) کے عالمی دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ جیسے جلیانوالہ باغ کے واقعہ کے خلاف چلنے والی لہر نے جنوبی ایشیاء میں ’’کلب سیاست‘‘ کا خاتمہ کرکے ’’لوک لہر‘‘ کا آغاز کیا تھا ویسے ہی یوم مئی کے واقعہ کے بعد مزدوروں کے کام کرنے کے اوقات کو 8 گھنٹے تک محدود کرنے سے مزدورں کے حقوق کے لیے چلائی جانے والی عوامی لہر (تحریک) نے نیا رخ اختیار کر لیا۔آج سویت یونین ختم ہو چکا ہے اور روس میں سرمایہ داری کا راج ہے مگر یوم مئی منانے والے پوری دنیا میں قائم ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سونے پر سہاگہ’’دوسری انٹرنیشنل‘‘ نامی تنظیم نے چڑھا یا تھاکہ جب 1889 میں فرانس کے شہر پیرس میںیوم مئی کو دنیا کے مزدوروں کے عالمی دن کے حوالہ سے وقف کر دیا گیا۔ بنیادی طور پر یہ دن کام کرنے والوں یعنی ورکروں کے نام تھا کہ اس میں مزدور، کسان اور ذہنی مشقت کرنے والے سبھی شامل تھے۔ مگر اکثر جگہوں پر اسے محض ’’مزدوروں‘‘ کے عالمی دن کے حوالہ سے منایا جاتا رہا۔
برصغیر پاک و ہند میں یہ دن پہلی دفعہ غالبا مدارس میں مزدورکسان پارٹی نے 1923 میں منایا تھا۔ ایم وی ایس کو تیشور راؤ کی کتاب ’’کمیونسٹ پارٹیاں اور متحدہ محاذ: مغربی بنگال اور کیرالہ کے تجربات‘‘ (انگریزی) کے مطابق مزدور کسان پارٹی میں مدارس اور پنجاب کے کمیونسٹ شامل تھے کہ مشہور مزدور رہنما شری پدامرت ڈانگے (ایس اے ڈانگے) کا تعلق بھی اسی مزدور کسان پارٹی سے تھا جسے 1925 میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں ضم کر دیا گیا تھا۔
1899میں پیدا ہونے والے یہ وہی ڈانگے تھے جنھوں نے 1921میں ’’گاندھی بمقابلہ لینن‘‘ نامی پمفلٹ لکھ کر نوجوانی ہی میں شہرت پائی تھی اور مہاتما گاندھی کی سیاست کو بر وقت بے نقاب کیا تھا مگر 1947 کے بعد وہ بھارتی کمیونسٹوں کے داخلی انتشار کا شکار ہوئے۔ سی پی آئی (ایم) کے مقابلہ میں وہ سی پی آئی کے طرفدار بنے مگر ایمرجنسی کے دوران اندرا گاندھی کی حمائیت کے بعد انہیں سی پی آئی سے بھی نکال دیا گیا تھا۔
پنجاب میں مزدوروں اور کام کرنے والوں کے لیے 8 گھنٹے کے اوقات کوطے کروانے کا سہرا پنجاب کے باکمال رہنما چھوٹو رام کے سر بندھتا ہے کہ جنھوں نے یونینسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے یہ قانون پنجاب اسمبلی میں منظور کروایا۔ یہ وہی چھوٹو رام تھے جنھوں نے بینئے اور ساہوکار کے خلاف 1901 کے قانون اراضی ہند میں تین لاجواب ترامیم کروا کر پنجاب کے کسانوں کے دل میں جگہ بنائی تھی کہ تقسیم پنجاب کے71 سال بعد بھی پنجابی کسان انہیں آج بھی یاد رکھے ہوئے ہیں۔ مصلیوں، چماروں، مسلم شیخوں کے حقوق کے لیے سرگرم رہنے ولے آغا خاں سہوترا بھی ہمیں یاد ہیں کہ وہ 1947 سے پہلے ہی یہ جدوجہد شروع کر چکے تھے اور یہ کمال مزدور کسان پارٹی کے میجر اسحاق کا تھا جنھوں نے نہ صرف سہوترا جی کو ترقی پسند سیاست کا ہیرا بنایا بلکہ خود اک ڈرامہ ’’مصلی‘‘ لکھ کر اسی جرائت رندانہ سے کام لیا جس کا مظاہرہ بابا بلھے شاہ نے پیر عنائیت کو مرشد قرار دیتے ہوئے کیا تھا۔وگرنہ کہاں میجر صاحب جیسا جٹ اور کہاں مصلی سہوترا مگر یہی کام کرنے والوں کی عزمت کا سبق تھا جسے میجر نہ بھولا۔پاکستان بننے کے بعد پنجاب کے کسانوں کے لیے جو کام آزاد پاکستان پارٹی سے پیپلز پارٹی تک بابائے سوشلزم شیخ رشید نے کیا وہ بھی اسی تسلسل کی کڑی ہے۔
آج 1886 کو گذرے 132 سال ہونے کو ہیں کہ ان گذرے سالوں میں مزدوروں اور کام کرنے والوں کے خلاف طرح طرح کے حربے آزمائے گئے، مختلف قوانین بنوائے گئے اور آج خصوصاً ہمارے جیسے ممالک میں ’’کنڑیکٹ ملازمین‘‘ کی شکل میں کام کرنے والوں کے حقوق غضب کرنے کا ’’عزت دار‘‘ حل ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ دوسری طرف ان گذرے سالوں میں کام کرنے والوں کے حقوق کے نام پر سیاست چمکانے والوں کے بھی وارے نیارے ہوتے گئے۔ جیسے اسلام کا نام لینے والوں نے قرآن کی روح کو طاق میں رکھ کر اپنا ’’الو سیدھا ‘‘ کیا ویسے ہی مزدوروں اور ورکروں کا نام لینے والوں نے خود تو منفعت کمائی مگر ورکروں کے حقوق کا معاملہ ٹیڑھا ہی رہا۔ جن ممالک میں کمیونسٹ پارٹیوں نے اقتدار، سنبھالا وہاں بھی مزدوروں ، کسانوں اور کام کرنے والوں کے دن پھرتے کسی نے نہیں دیکھے۔ خود سابقہ سویت یونین اور موجودہ چین میں ورکروں کی انجمنوں کی کیا صورتحال رہی اس بارے تو خبریں بھی نہیں آتیں۔ مگر اب اس خاموشی کو توڑنے کی طرف بھی بڑھنا ہو گا۔
آج تو ذہنی محنت کرنے والوں کو بھی کام کرنے والوں یعنی ورکروں ہی میں شمار کیا جاتا ہے تو پھر ’’لیبر ڈے ‘‘ منانے والوں کی فہرست میں صحافی، ڈاکٹر، پی آئی اے جیسے اداروں کے وائٹ کالر مزدوروں سمیت بہت سے لوگوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔صارفین کے حقوق کی جدوجہد کو بھی یوم مئی کا حصہ بنانا ہو گا۔
سوال تو یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں یوم مئی کیسے منایا جائے؟ ایک طرف کنٹریکٹ ملازمین ہیں جن کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے تو دوسری طرف بھتہ خور مزدور انجمنیں؟ کہ کام کرنے والے تو چکی کے دو پاٹوں میں برابر پس رہے ہیں۔
کیا آج یہ بات لازم نہیں کہ ہم یوم مئی کے حوالہ سے گھسے پٹے نعروں، در ماضی کی باقیات سے ذرا ہٹ کر نئے سرے سے غور کریں؟ آج سوال محض ورکروں کے حقوق کو دبانے کا نہیں بلکہ ورکروں کے نام پر ذاتی منفعت کمانے والوں کا بھی ہے ۔ ورکروں کے حقوق کے نام پر اقتدار حاصل کرنے والوں کے حوالہ سے بھی کئی سوالات آج ہمارے سامنے ہیں۔ انجمن سازی یا یونین بازی کا حق اپنی جگہ اہم مگر کیا س حق کو کاروبار بند کرنے یا ذاتی منفعت کی خاطر بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرنا ورکروں کے مفاد میں ہے؟ دیہاڑی داروں اور بے زمین کسانوں کے متعلق آپ کیا کہیں گے جو نہ تو کسی احتجاج میں شامل ہونے کی استطاعت رکھتے ہیں ناہی انجمن سازی میں رل مل سکتے ہیں؟ اگر قومی، صوبائی اور ضلعی اسمبلیوں میں عورتوں اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں ہوسکتی ہیں تو پھر مزدوروں، کسانوں، ورکروں صحافیوں اور یونیورسٹیوں کے لیے کیوں نہیں؟ لال جھنڈا لے کر یوم مئی منانا غلط نہیں مگر موجودہ جمہوری بندوبست میں نئی نئی گنجائشیں ڈھونڈ کر انہیں ورکروں کے حقوق کی جدوجہد سے جوڑنا زیادہ اہم سوال ہے۔ مشرف دور میں بنائے گئے بلدیاتی بندوبست میں مزدوروں کسانوں کے نام پر جو نشستیں رکھی گئیں تھیں ان پر سیٹھ اور با اثر حضرات منتخب ہوجاتے تھے۔ آج یہ بات بھی اہم ہے کہ مزدوروں کے نام پر نمائندگیاں کرنے والے کون ہیں؟ 1886 میں تو مزدوری کے اوقات کو آٹھ گھنٹے کرنا اہم تھا مگر آج جسمانی و ذہنی مشقت کو سامنے رکھتے ہوئے ایجنڈا بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ورکروں کی تحریک کو جتنے سوالات کا آج سامنا ہے وہ نہ تو 1886 میں تھے اور نہ ہی دوسری جنگ عظیم کے بعد کہ ان سوالات کا تشنہ رہنا بذات خود ورکروں کی لہر کے لیے باعث فخر نہیں۔
اس گلوبل ورلڈ میں پبلک اداروں کو ختم کرنے کی باتیں زبان زدعام ہیں کہ اس کے لیے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ جیسی اصطلاحیں اچھے بھلے دانشور بھی استعمال کرتے ہیں۔ کیا یہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ مزدوراں اور کام کرنے والوں کے حق میں بھی جا سکتی ہے؟اس بارے کون سوچے گا؟ایسے تمام منصوبے جس سے عام انسان کو براہ راست فائدے ہوتے ہیں ان کا خسارہ امیروں سے ٹیکس لے کر کیوں پورا نہ کیا جائے؟ ایسے ہی بہت سے سوال آج ہمارے منتظر ہیں۔
2018 کا یوم مئی اگر ہمیں ماضی کی کج رویوں سے نکال کر مستقبل کا ایجنڈا بنانے کی توفیق دے سکے تو شاید بندہ مزدور کے اوقات میں تبدیلی کی امید بھی کوئی کروٹ بیٹھ جائے گی۔