Monday, April 30, 2018

May Day: Include intellectual labor and expand it


May Day: Include intellectual labor and expand it

The link is 

یوم مئی کیسے منایا جائے؟
عامر ریاض

تیزی سی بدلتی دنیا میں یہ سوال اور بھی زیادہ اہمیتوں کا حامل ہو چکا ہے مگر قدامت پسندیوں کی وجہ سے ہمارے ہاں اکثرنئے خیالات کو رواج پر ترجیح نہیں دی جاتی۔نجکاریوں اور کنڑیکٹ لیبر کے اس دور میں جہاں ذہنی مشقت میں بھی قابل قدر اصافے ہو چکے ہیں اور مصلیوں، کھسروں، چوڑوں وغیرہ کے حقوق پر بات کرنامیعوب نہیں وہاں یوم مئی کو جس نئے پن کی ضرورت ہے وہ فی الحال مفقود ہے۔ اج جب ملک پاکستان لاتعداد رکاوٹوں کے باوجوداپنی تاریخ میں دوسرے جمہوری تسلسل سے گذر رہا ہے تو اس بات کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ اس جمہوری بندوبست میں ’’کام کرنے والوں‘‘ کے مفاد کو بڑھایا جائے۔اشرافیہ کو تو یہ تسلسل کبھی پسند نہ آئے گا کہ اس تسلسل پر پہرا عام لوگ ہی دے سکتے ہیں۔ یہی یوم مئی کا سبق بھی ہے۔
یوم مئی کے دن کو امریکا اور یورپ میں وہی حیثیت حاصل ہے جو جنوبی ایشیاء میں ویسا کھی (بیسا کھی) کے دن کو حاصل ہے۔ بسیاکھی کے دن کو 13 اپریل 1919 میں نئی روح جلیانوالہ باغ (امرتسر) کے واقعہ نے دی تھی اور اب رہتی دنیا میں ویساکھی محض بہار کی آمد اور فصلوں کی کٹائی کا تہوار نہیں بلکہ قبضہ گیریت اور نو آبادیاتی مظالم کے خلاف جدوجہد کا استعارہ بھی بن چکا ہے۔یہ جلیانوالہ باغ کے قتلام کے بعد چلنے والی عوامی لہریں ہی تھیں جس کی بدولت برصغیر میں کلب سیاست کا خاتمہ ہوا۔ ایسے ہی یوم مئی امریکہ و یورپ کے بہت سے ممالک میں بہار کی آمد کے حوالہ سے منائے جانے والے میلے کا روائیتی تہوار تھا مگر 1886 میں امریکی شہر شگاگو میں موجود’’ہے مارکیٹ‘‘ میں ہونے والے واقعہ کے بعد یکم مئی کی اہمیت دیدنی ہوگئی۔ اب یہ دن مزدوروں یعنی کام کرنے والوں (ورکرز) کے عالمی دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ جیسے جلیانوالہ باغ کے واقعہ کے خلاف چلنے والی لہر نے جنوبی ایشیاء میں ’’کلب سیاست‘‘ کا خاتمہ کرکے ’’لوک لہر‘‘ کا آغاز کیا تھا ویسے ہی یوم مئی کے واقعہ کے بعد مزدوروں کے کام کرنے کے اوقات کو 8 گھنٹے تک محدود کرنے سے مزدورں کے حقوق کے لیے چلائی جانے والی عوامی لہر (تحریک) نے نیا رخ اختیار کر لیا۔آج سویت یونین ختم ہو چکا ہے اور روس میں سرمایہ داری کا راج ہے مگر یوم مئی منانے والے پوری دنیا میں قائم ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سونے پر سہاگہ’’دوسری انٹرنیشنل‘‘ نامی تنظیم نے چڑھا یا تھاکہ جب 1889 میں فرانس کے شہر پیرس میںیوم مئی کو دنیا کے مزدوروں کے عالمی دن کے حوالہ سے وقف کر دیا گیا۔ بنیادی طور پر یہ دن کام کرنے والوں یعنی ورکروں کے نام تھا کہ اس میں مزدور، کسان اور ذہنی مشقت کرنے والے سبھی شامل تھے۔ مگر اکثر جگہوں پر اسے محض ’’مزدوروں‘‘ کے عالمی دن کے حوالہ سے منایا جاتا رہا۔ 
برصغیر پاک و ہند میں یہ دن پہلی دفعہ غالبا مدارس میں مزدورکسان پارٹی نے 1923 میں منایا تھا۔ ایم وی ایس کو تیشور راؤ کی کتاب ’’کمیونسٹ پارٹیاں اور متحدہ محاذ: مغربی بنگال اور کیرالہ کے تجربات‘‘ (انگریزی) کے مطابق مزدور کسان پارٹی میں مدارس اور پنجاب کے کمیونسٹ شامل تھے کہ مشہور مزدور رہنما شری پدامرت ڈانگے (ایس اے ڈانگے) کا تعلق بھی اسی مزدور کسان پارٹی سے تھا جسے 1925 میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں ضم کر دیا گیا تھا۔ 
1899میں پیدا ہونے والے یہ وہی ڈانگے تھے جنھوں نے 1921میں ’’گاندھی بمقابلہ لینن‘‘ نامی پمفلٹ لکھ کر نوجوانی ہی میں شہرت پائی تھی اور مہاتما گاندھی کی سیاست کو بر وقت بے نقاب کیا تھا مگر 1947 کے بعد وہ بھارتی کمیونسٹوں کے داخلی انتشار کا شکار ہوئے۔ سی پی آئی (ایم) کے مقابلہ میں وہ سی پی آئی کے طرفدار بنے مگر ایمرجنسی کے دوران اندرا گاندھی کی حمائیت کے بعد انہیں سی پی آئی سے بھی نکال دیا گیا تھا۔ 
پنجاب میں مزدوروں اور کام کرنے والوں کے لیے 8 گھنٹے کے اوقات کوطے کروانے کا سہرا پنجاب کے باکمال رہنما چھوٹو رام کے سر بندھتا ہے کہ جنھوں نے یونینسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے یہ قانون پنجاب اسمبلی میں منظور کروایا۔ یہ وہی چھوٹو رام تھے جنھوں نے بینئے اور ساہوکار کے خلاف 1901 کے قانون اراضی ہند میں تین لاجواب ترامیم کروا کر پنجاب کے کسانوں کے دل میں جگہ بنائی تھی کہ تقسیم پنجاب کے71 سال بعد بھی پنجابی کسان انہیں آج بھی یاد رکھے ہوئے ہیں۔ مصلیوں، چماروں، مسلم شیخوں کے حقوق کے لیے سرگرم رہنے ولے آغا خاں سہوترا بھی ہمیں یاد ہیں کہ وہ 1947 سے پہلے ہی یہ جدوجہد شروع کر چکے تھے اور یہ کمال مزدور کسان پارٹی کے میجر اسحاق کا تھا جنھوں نے نہ صرف سہوترا جی کو ترقی پسند سیاست کا ہیرا بنایا بلکہ خود اک ڈرامہ ’’مصلی‘‘ لکھ کر اسی جرائت رندانہ سے کام لیا جس کا مظاہرہ بابا بلھے شاہ نے پیر عنائیت کو مرشد قرار دیتے ہوئے کیا تھا۔وگرنہ کہاں میجر صاحب جیسا جٹ اور کہاں مصلی سہوترا مگر یہی کام کرنے والوں کی عزمت کا سبق تھا جسے میجر نہ بھولا۔پاکستان بننے کے بعد پنجاب کے کسانوں کے لیے جو کام آزاد پاکستان پارٹی سے پیپلز پارٹی تک بابائے سوشلزم شیخ رشید نے کیا وہ بھی اسی تسلسل کی کڑی ہے۔
آج 1886 کو گذرے 132 سال ہونے کو ہیں کہ ان گذرے سالوں میں مزدوروں اور کام کرنے والوں کے خلاف طرح طرح کے حربے آزمائے گئے، مختلف قوانین بنوائے گئے اور آج خصوصاً ہمارے جیسے ممالک میں ’’کنڑیکٹ ملازمین‘‘ کی شکل میں کام کرنے والوں کے حقوق غضب کرنے کا ’’عزت دار‘‘ حل ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ دوسری طرف ان گذرے سالوں میں کام کرنے والوں کے حقوق کے نام پر سیاست چمکانے والوں کے بھی وارے نیارے ہوتے گئے۔ جیسے اسلام کا نام لینے والوں نے قرآن کی روح کو طاق میں رکھ کر اپنا ’’الو سیدھا ‘‘ کیا ویسے ہی مزدوروں اور ورکروں کا نام لینے والوں نے خود تو منفعت کمائی مگر ورکروں کے حقوق کا معاملہ ٹیڑھا ہی رہا۔ جن ممالک میں کمیونسٹ پارٹیوں نے اقتدار، سنبھالا وہاں بھی مزدوروں ، کسانوں اور کام کرنے والوں کے دن پھرتے کسی نے نہیں دیکھے۔ خود سابقہ سویت یونین اور موجودہ چین میں ورکروں کی انجمنوں کی کیا صورتحال رہی اس بارے تو خبریں بھی نہیں آتیں۔ مگر اب اس خاموشی کو توڑنے کی طرف بھی بڑھنا ہو گا۔
آج تو ذہنی محنت کرنے والوں کو بھی کام کرنے والوں یعنی ورکروں ہی میں شمار کیا جاتا ہے تو پھر ’’لیبر ڈے ‘‘ منانے والوں کی فہرست میں صحافی، ڈاکٹر، پی آئی اے جیسے اداروں کے وائٹ کالر مزدوروں سمیت بہت سے لوگوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔صارفین کے حقوق کی جدوجہد کو بھی یوم مئی کا حصہ بنانا ہو گا۔
سوال تو یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں یوم مئی کیسے منایا جائے؟ ایک طرف کنٹریکٹ ملازمین ہیں جن کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے تو دوسری طرف بھتہ خور مزدور انجمنیں؟ کہ کام کرنے والے تو چکی کے دو پاٹوں میں برابر پس رہے ہیں۔ 
کیا آج یہ بات لازم نہیں کہ ہم یوم مئی کے حوالہ سے گھسے پٹے نعروں، در ماضی کی باقیات سے ذرا ہٹ کر نئے سرے سے غور کریں؟ آج سوال محض ورکروں کے حقوق کو دبانے کا نہیں بلکہ ورکروں کے نام پر ذاتی منفعت کمانے والوں کا بھی ہے ۔ ورکروں کے حقوق کے نام پر اقتدار حاصل کرنے والوں کے حوالہ سے بھی کئی سوالات آج ہمارے سامنے ہیں۔ انجمن سازی یا یونین بازی کا حق اپنی جگہ اہم مگر کیا س حق کو کاروبار بند کرنے یا ذاتی منفعت کی خاطر بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرنا ورکروں کے مفاد میں ہے؟ دیہاڑی داروں اور بے زمین کسانوں کے متعلق آپ کیا کہیں گے جو نہ تو کسی احتجاج میں شامل ہونے کی استطاعت رکھتے ہیں ناہی انجمن سازی میں رل مل سکتے ہیں؟ اگر قومی، صوبائی اور ضلعی اسمبلیوں میں عورتوں اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں ہوسکتی ہیں تو پھر مزدوروں، کسانوں، ورکروں صحافیوں اور یونیورسٹیوں کے لیے کیوں نہیں؟ لال جھنڈا لے کر یوم مئی منانا غلط نہیں مگر موجودہ جمہوری بندوبست میں نئی نئی گنجائشیں ڈھونڈ کر انہیں ورکروں کے حقوق کی جدوجہد سے جوڑنا زیادہ اہم سوال ہے۔ مشرف دور میں بنائے گئے بلدیاتی بندوبست میں مزدوروں کسانوں کے نام پر جو نشستیں رکھی گئیں تھیں ان پر سیٹھ اور با اثر حضرات منتخب ہوجاتے تھے۔ آج یہ بات بھی اہم ہے کہ مزدوروں کے نام پر نمائندگیاں کرنے والے کون ہیں؟ 1886 میں تو مزدوری کے اوقات کو آٹھ گھنٹے کرنا اہم تھا مگر آج جسمانی و ذہنی مشقت کو سامنے رکھتے ہوئے ایجنڈا بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ورکروں کی تحریک کو جتنے سوالات کا آج سامنا ہے وہ نہ تو 1886 میں تھے اور نہ ہی دوسری جنگ عظیم کے بعد کہ ان سوالات کا تشنہ رہنا بذات خود ورکروں کی لہر کے لیے باعث فخر نہیں۔
اس گلوبل ورلڈ میں پبلک اداروں کو ختم کرنے کی باتیں زبان زدعام ہیں کہ اس کے لیے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ جیسی اصطلاحیں اچھے بھلے دانشور بھی استعمال کرتے ہیں۔ کیا یہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ مزدوراں اور کام کرنے والوں کے حق میں بھی جا سکتی ہے؟اس بارے کون سوچے گا؟ایسے تمام منصوبے جس سے عام انسان کو براہ راست فائدے ہوتے ہیں ان کا خسارہ امیروں سے ٹیکس لے کر کیوں پورا نہ کیا جائے؟ ایسے ہی بہت سے سوال آج ہمارے منتظر ہیں۔
2018 کا یوم مئی اگر ہمیں ماضی کی کج رویوں سے نکال کر مستقبل کا ایجنڈا بنانے کی توفیق دے سکے تو شاید بندہ مزدور کے اوقات میں تبدیلی کی امید بھی کوئی کروٹ بیٹھ جائے گی۔ 

Friday, April 27, 2018

Can Left deliver? Lhore Left Front & politics (Radio discussion)



Can Left deliver? Lhore Left Front & politics (Radio discussion) 
Farooq Tariq , Spokesman AWP
Rana Shafiqur Rahman Kisan Itehad
Rauf Lund Lal Khan Group
بائیاں بازو ماضی وچ بڑی تنگ نظریاں والی سیاستاں کردا رہیا ہے۔اساں غلطیاں توں سکھاں گے۔
لہور لیفٹ فرنٹ وچ اساں بائیں بازو دے دھڑیاں، گروپاں ، حقاں تے کم کرن والیاں تے انفرادی پدر تے کم کردے بندیاں نوں جوڑیا ہے۔ لیفٹ دھڑیاں توں زیادہ کھبے دے اوہ بندے نیں جیہڑے دھڑیاں تے پارٹیاں توں باہر نیں۔ ایس دا تجربہ سانوں فیض میلے وچ ہویا سی اتے لیفٹ فرنٹ بناون لئی ایس گل نوں سامنے رکھیا ہے۔
لیفٹ فرنٹ کوئی انتخابی اتحاد نہیں، نہ ہی اساں کوئی نویں پارٹی بناون جا رہے ہاں

جس فلفے توں اسی ترقی پسند متاثر ساں اوس دا مقامی ماڈل اساں نہیں بنا سکے۔
میں چوتھی کلاس وچ ساں ۔ لال ٹوپیاں پا کے 1969وچ اپنے والد دی انگلی پڑھ کے بھاشانی ہوراں دی کسان کانفرنس وچ جڑانوالے توں ٹوبہ گیا ساں۔
اوس زمانے وچ ترقی پسنداں کسان کمیٹیاں بنائیاں سن پر اوہ کم اگے نہیں چل سکیا سی۔
پاکستانی مارکسی اپنے معاشرے دا تجزیہ نہیں کر پائے۔
زرعی معاشریاں وچ سرمایہ داریاں دی اوہ پدر نہیں ہوندی۔ تاں مارے اتھے زرعی( ایگرو) معیشت بارے گل کھولنی لوڑی دی ہے۔

اساں پیپلز پارٹی وچ کم کردے ہاں پر اوس نوں انقلابی پارٹی نہیں سمجھدے۔
پی پی پی دے جیالے سانوں لیفٹ دے بندے آکھدے نیں تے لیفٹ والے سانوں پیپلیا۔
اک زمانہ سی جداں سوشلزم دے ناں تے ہزاراں بندے اکٹھے ہو جاندے سن پر اج چار بندے نہیں ملدے

Left need to revisit its politics: President AWP, Lhore Ghulam Mujtaba (Radio Show)


Left need to revisit its politics: President AWP, Lhore Ghulam Mujtaba

Guests: Ghulam Mujtaba & Nain Sukh 
لوک لہر ریڈیو شو وچ کھبے دی سیاستاں بارے ایہہ پروگراماں دا تسلسل ہے جس وچ  فانوس گجر ،عبدالروف ملک، اشفاق سلیم مرزا، فاروق طارق، ظفر اللہ پوشنی، نور سجاد ظہیر،روف لْنڈ،امر جیت چندن،اقبال حیدر بٹ،زبیر جان سنے بہوں مجمان گل بات کر چکے نیں۔تازے پروگرام وچ غلام مجتبی، صدر عوامی ورکرز پارٹی، لہور تے ترقی پسند پنجابی لکھاری نین سکھ ہوراں رلت کیتی جیہڑے رشید دھولکہ راہیں مزدور کسان پارٹی وچ رہے۔
ایس پروگرام وچ کھبے دی سیاست دے ماضی دے حوالے نال اپنے تجربے راہیں مجتبی ہوراں گل بات کیتی اتے پشتون راکھی لہر سنے تازے مسلیاں تے وی اپنے خیال دسے۔پروگرام وچ قومی سوال بارے کیمونسٹاں دے سیاسی پکھ تے وی بھرنویں گل ہوئی۔ایس دے کجھ ٹوٹے پڑھو تے اخیر وچ دتے لنک تے آپ وی سنو

Link of the news

Link of complete radio show

Tuesday, April 24, 2018

Extracts & Reviews: Biography of an Economist from Pakistan

Extracts & Reviews

Biography of an Economist from Pakistan

Translated by Saqlain Shauqat and updated by author himself

Story of Pakistani economy and story of Pervaiz Hasan, an economist runs side by side in the book. Born in 1930 when the Punjab was ready to lead Indian scenario in economy, education as well as services and narrated post Partition economic decisions with their merits and demerits well. The book is helpful for those who want to understand what went wrong with Pakistan.

Book is available @Readings, Lhore http://www.readings.com.pk

For Online orders click http://www.readings.com.pk/pages/BookDetails.aspx?BookID=776514

You can get book from other book stores including Book Home

Will add more extracts soon
Review of the book published in Dunya Newspaper

Link of the Newspaper Review

EXTRACTS

Credit Page 


Table of Contents



Misleading Indus Water Treaty, Timely intervention of Civil servant Masud Khadar Posh and his visionary warning about future water shortage. Today we are facing it, thanks to Dictator Ayub Khan 
That treaty was signed when there was no elected government and no assembly that could discuss the treaty. It was signed in September 19, 1960 when a dictator General Ayub Khan was so-called President. That treaty served Indian interests and that is why Pandat Nehru loved to visit Karachi for signing agreement.  



Preface by Sartaj Aziz



Introduction

Birth & Legacy 




Early Days, Hindu School, Government College, Lhore & Family









Partition 1947







Asserts beyond means and Air Marshal Asghar Khan 
December 1951


Amritsar, Kashmir, Simla & Narowal، Sialkot







Friends, Devaluation of Pound 1949, United States, Yale University and education standards in Punjab University in 1950s






Anwar Ali: The man who developed financial system of Saudi Arab




Dr Abdus Salam 



Dependence on AID syndrome and economy . Ayub Period


Dr Mahboob ul Haq: Once a supporter of Concentration of wealth and trickle down effect syndrome.
why and when he changed his thoughts is a mystery.
Instead of engaging them in supper tax, he raised it as 22 family rule that further translated in nationalization after disintegration of Pakistan. it neither benefited the State nor people in general but shattered economy smartly. Playing with economy is an old weapon and from 22 families rule till Panama we are repeating it but question is for whom?   


Playing with East Pakistan economy or some over smart players deliberately ignore Nation Assembly recommendations and instead of resolving it, instigated Mujib by involving him  in twisted sedition case in late 1960s. Ayub Period 


Ayub Era and foundations of fatal narrative: Deterioration of all institutions along with rise of defense budget 


ٖEconomists in Pakistan



Yemen War 1962


Mushraff period economy












Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...