Sunday, March 28, 2021

Why Pakistan & India are reluctant to remember 29th March 1849? Black Day of our history

 


Why Pakistan & India are reluctant to remember 29th March 1849
Black Day of our history 

It was day when the Punjab was annexed, a day when colonial British empire annexed Peshawar, Multan, Lhore but that day came into existence after gradual annexations i-e just after the death of the Lion, Maharaja Ranjit Singh, Qallat (Baluchistan) was annexed that led to annexation of Qandhar & Kabul. In 1843, they annexed Sindh & destroyed the ancient port of Lhori Bandar that was not only connected with our rivers but was in deep sea too. It was a calculated attack on our river channel trade that was connected with various sea routes. Next in line were misleading agreements of 9th and 16th March 1846. A resident was installed in Lhore Darbar. On top of it, just to jeopardize our ancient links with  Tibetan Chinese  Kashmir was separated from the Punjab. Imamuddin ,the governor of Kashmir resisted yet colonizers had supported Gulab Singh. In three years, after bloody wars & conspiracies at 29th March 1849 they abolished the last independent Empire and it took 50 years to fulfill the dream. The story of Lhore Darbar is among the unheard cases of our history yet it was the case of final annexation, a case of 50 years of resistance. But why it could not get attention in the eyes of court historians & textbook writers of India & Pakistan? 

29 March, Black Day: The government of Lhore Darbar was ANNEXED
A day that proved the Black Day in the history of not only Punjabis but also jeopardized Sindhis, Balochs, Pukhtoons & Kashmiris though Social engineering of Sikhs, Hindus & Muslims in our lands. At 29 March 1849, EIC & British royalty had completed annexation of Hind Sindh after destroying the last independent Empire after 50 years of conspires & the bloody wars. Selectors defamed it as Sikh Empire but in reality, it had large presence of various nationalities & different religious communities of our lands.Under Divide & Rule policy, Court historians penned the concocted history & played with differences so communities could not joined against Annexation & social engineering and always looked British as Saviors. Are we ready to deconstruct it after 172 years?   

Remember 29th March 



Two part article written in 2012

Our anti-Punjab clamour

A 2014 event

The meeting was First of its kind and Lhoryas first time observed The day of annexation of the Punjab as 29th March. Acooding to Qazi javed, a well known intellectual and writer, It is a beginning and by this we may able to unlearn many myths spread in our lands.

An article written in 2015

A Day when Britain annexed The Punjab 166 years back and jeopardized the whole region

A radio program of 2016

History of the Punjab & Its surroundings Open the colonial knot & Deconstruct misleading History

A post of 2017

We know 1857/Bhagat Singh etc but we don't remember 29th March...Annexation Day?

Lok Lhar program 2017

Radio Show about 29 March 1849--A Day when the Punjab was annexed by British forces 167 years back

Radio Program of 2019

Why to know about March 29? Why this colonial narrative is still there after independence? Radio Show


پنجاب کی تاریخ کو مسخ کرنا اور 29 مارچ کا دن۔
تحریر:
Aamir Riaz TuTu
دنیا بھر میں پھیلے 20 کروڑ سے زیادہ پنجابیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ جنوبی ایشیائی باشندوں کے لیے 29 مارچ کا دن بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ دن ہے جب برصغیر کی آخری دیسی ریاست کو گورے حکمرانوں نے سر نگوں کیا۔ وہ دیسی ریاست جس کا نام ’’لہور دربار‘‘ تھا اور جو پورے 50 برس کشمیر سے فاٹا تک برقرار رہی۔ اس ریاست کا ساتھ دینے والوں میں پنجابی’ پٹھان مسلمان بھی تھے’ جٹ’ راجپوت’ ارائیں اور گجر بھی’ پوربیوں کی بٹالین بھی اور یورپی و امریکی فوجی بھی۔ مگر انگریزوں اور ان کے ہمنوا لکھاریوں نے یہی جھوٹ پھیلایا کہ لہور دربار کی حکومت تو سکھوں کی بادشاہی تھی۔ ہشیار انگریز دانشوروں نے سکھ مسلم اور پنجابی’ غیر پنجابی تضاد کو خوب استعمال کیا اور اس کے تحت مطلبی تاریخ لکھوائی۔ اس مطلبی تاریخ کو کون آگے بڑھا رہا ہے ؟یہ اپنی جگہ عجب داستان الم ہے۔ افغانستان کے دوست محمد خان کا بھائی سلطان محمد تو آخر تک لہور دربار کا سجن رہا جبکہ باجوڑ’ خیبر اور دیر کے خان لہور دربار کے ساتھ رہے۔ ایک مہم میں قصور کے خان مہاراجہ کے ساتھ لڑے مگر بعد میں وہ تادیر مہاراجہ کے ہمرکاب رہے۔ کشمیر کی مہم میں تو یہ خان صاحب مہاراجہ کی طرف سے بڑی بے جگری سے لڑے۔لاہور کے فقیر خاندان بارے تو ہم سب جانتے ہی ہیں مگر امرتسر کے میں غوثا’ ملتان کے سانول مل اور مول راج ہوں یا کشمیر کے شیخ برادران یہ سب لہور دربار کے ساتھ مل کر انگریزوں سے برسرپیکار رہے۔نور خان کا ذکر تو محمد شاہ کی مشہور رزمیہ ’’جنگ ہند پنجاب‘‘ میں محفوظ ہے جو پنجاب پر قبضہ کے بعد لکھی گئی۔ مگر ہمیں یہی سبق پڑھایا گیا کہ لہور دربار تو سکھوں کی بادشاہی تھی۔ -
شاہ شجاع سمیت احمد شاہ ابدالی کے تینوں پوتوں کو پناہ و جاگیریں دینے والے لہور دربار کو گرانے کے لیے انگریزوں کو تین خوفناک جنگوں سے گزرنا پڑا۔ گجرات کے قریب چیلیانوالہ کے مقام پر جو خوفناک لڑائی ہوئی اس میں پنجابیوں کے ہمراہ دوست محمد خان کا بیٹا بھی انگریزوں کے مخالف لڑا۔ اس جنگ کی بڑی یادگار چیلیانوالہ کا ’’گورا قبرستان ‘‘ہے۔ فیصل آباد کے میجر معین باری نے چلیانوالہ پر باکمال کتاب چھاپ رکھی ہے۔ ان جنگوں میں حصہ لینے والے کپتان کنگھم نے جب کتاب میں اعتراف کیا کہ یہ جنگیں سازشوں سے جیتیں گئی تھیں تو انگریزوں نے اس کتاب پر پابندی لگا دی تھی۔ مگر ہمارے بچوں کو یہ تاریخ نہیں پڑھائی جاتی۔ انگریز دانشوروں نے مسلمانوں کو ’’سکھا شاہی‘‘ اور سکھوں کو ’’مسلم حملہ آوروں‘‘ کی اصطلاحیں دیں تاکہ یہ آپس میں دست و گریباں ہی رہیں۔ لہور دربار کی 90 فی صد آبادی تو ان دونوں مذاہب کے ماننے والوں پر مشتمل تھی کہ ان میں اختلافات ایجنڈے کا خصوصی حصہ رہا۔ مسلم اور سکھ بنیاد پرست و انتہاپسند گروہ آج بھی اُسی انگریز پالیسی کے اسیر ہیں۔ 27 جون 1839 وہ دن تھا جب 1799 سے برسراقتدار گوجرانوالہ کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا انتقال ہوگیا۔ ایک سال کے بعد قلات(بلوچستان)’ چار سال کے بعد سندھ’ سات سال کے بعد کشمیر اور 10 سال کے بعد پنجاب بشمول فاٹا پر انگریز کا قبضہ ہوگیا۔ پرنسپ’ دیبی پرشاد’ برائن ہیوگل’ سٹین بیچ’ گاڈنر’ کپتان کنگھم’ گنیش داس’ شہامت علی سمیت لاتعداد لکھاریوں نے 1850 تک لہوردربار بارے بہت سی کتب لکھیں۔ ان کتب کو پڑھنے سے ہمیں انگریزوں سے پہلے کے سیاسی’ سماجی حالات بارے جاننے میں مدد ملتی ہے۔ اس دور میں ہمارے خطوں میں سب سے بڑی زبان فارسی تھی اور فارسی کا ہمارے خطہ کی مادری زبانوں سے گہرا رشتہ بھی تھا۔ خدا بھلا کرے اگروال صاحب کا جن کی وجہ سے گنیش داس کی فارسی میں لہور دربار پر لکھی کتاب ’’چار باغ پنجاب‘‘ پنجابی و انگریزی میں ترجمہ ہوگئی۔ مقصود ثاقب نے اسے شاہ مکھی میں بھی چھاپ کر لاہور کی لاج رکھ لی ۔ مگر تاحال ہمارے خطہ بارے کتنی ہی فارسی کتب ترجمہ نہیں کروائی گئیں۔ لہور دربار پر قبضہ کے بعد انگریزوں نے مرحلہ وار انداز میں فارسی کو ختم کرنے کی مہم شروع کی۔ 1865 کے بعد پنجاب بشمول پشاور’ کشمیر اور قلات میں اُردو کا نفاذ فارسی کو ختم کرنے کی مہم کا خاص حصہ تھا۔ اس تاریخ کو ہمارے ہاں جان بوجھ کر چھپایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان’ بنگلہ دیش اور بھارت کی گذشتہ ہزار سال کی تاریخ فارسی اور ترکی زبانوں ہی میں محفوظ ہے۔ 29 مارچ کا دن اس لیے اہم ہے کہ یہ ہمیں اپنی تاریخ کو جاننے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایک مثال بادشاہی مسجد کے میناروں کے شہید ہونے کی ہے جو 1839 کے زلزلے کے بعد اپنی اصلی حالت میں نہیں رہے تھے۔ اس زمانے میں آنے والے زلزلوں کے ریکارڈ کے حوالہ جات زلزلوں کے حوالوں سے موجود بین الاقوامی ویب سائٹ پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ 1873 کا گیزیٹر بھی 1839 میں بادشاہی مسجد کے میناروں کے زلزلہ کے بعد شہید ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ مگر بہت سے لکھاریوں نے میناروں کے شہید ہونے کا الزام سکھوں پر دھردیا۔ یہ لکھا گیا کہ راجہ جموں گلاب سنگھ کے سپاہی توپیں لے کر شاہی مسجد کے میناروں پر چڑھ گئے تاکہ شاہی قلعہ کے اندر گولے برسا سکیں۔ آپ میں سے جس نے بھی بادشاہی مسجد کے میناروں کی سیڑھیاں دیکھی ہیں وہ با آسانی اس جھوٹ کو سمجھ سکتے ہیں۔ ان تنگ سیڑھیوں میں سے تو پیں لے جانا تو دور کی بات’ وہاں سے تو دو انسان اکٹھے بھی نہیں جاسکتے۔ اگر توپیں ہی لے جائی گئیں تھیں تو پھر مسجد کے پچھلے مینار گرانے کی تو ضرورت نہ تھی کیونکہ وہ تو قلعہ کی طرف نہیں تھے۔ اسی طرح 1827 کے زلزلے میں لاہور کی بہت سی تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا۔ زلزلوں سے ہوئے ان نقصانات کو بھی سکھوں کے کھاتے ڈال دیا گیا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ لہور دربار کی حکومت میں مسلمانوں کا تناسب 70 فی صد سے بھی زیادہ تھا۔ اگر مہاراجہ مسلمانوں کا دشمن ہوتا تو اس کی حکومت 3 سال بھی نہ چل سکتی۔ اسی طرح سکھوں کو مسلمانوں سے متنفر کرنے کے لیے احمد شاہ ابدالی کے حملوں اور میر منو کے دَور کے واقعات کو مرچ مصالحہ لگا کر پیش کیا گیا۔ احمد شاہ ابدالی اور میر منو تو مسلمانوں اور پٹھانوں کے ساتھ بھی لڑتے رہے تھے مگر سکھوں کو یہ باتیں نہ بتائی گئیں۔یہ سب جیمس مل کی تقلید تھی۔ جو سکول سسٹم ہمارے خطوں میں انگریزوں نے بنایا اس میں مادری زبانوں یعنی پشتو’ بلوچی’ براہوی اور پنجابی کو دیس نکالا دیاگیا تھا تو دوسری طرف ان کی تیار کردہ نصابی کتب میں صوفیا اور بھگتوں کی تعلیمات شامل ہی نہ تھیں۔ 1854 کے ووڈزڈسپیچ (Woods Despatch) سے لے کر جی ڈبلیو لائیٹنر کی 1882 کی تعلیمی رپورٹ تک بہت سے انگریز تھے جنھوں نے ان اقدامات کی مخالفت کی۔ اس تعلیمی بندوبست کی خوبیوں اور گھاٹوں پر ہم نے تاحال کچھ کام نہیں کیا اور اس کا الزام انگریزوں پر قطعاً نہیں ڈالا جا سکتا۔ لائیٹنر نے تو اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’پنجاب میں دیسی تعلیم‘‘ میں نہ صرف پنجابی زبان کے چھ رسم الخطوں کا ذکر کیا ہے بلکہ پنجابی’ فارسی سلسلوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ مگر برٹش انتظامیہ نے بوجوہ ان باتوں کو ضروری نہ گردانا۔ دیکھا جائے تو فارسی نے اس خطہ کو جوڑا ہوا تھا جو ایک طرف وسط ایشیائی و ایران تک جاتا تھا تو دوسری طرف کشمیر تک مگر اس جڑت کو توڑنا نو آبادیاتی مفادات کا بڑا مقصد ٹھہرا۔ یہ سب تو گورے حکمرانوں کے کارنامے تھے مگر ہم نے 68 سالوں میں اسی سلسلہ کو کیوں جاری رکھا؟ یہ ہے وہ سوال جس کو آج ہم نے دوبارہ سے دیکھنا ہے۔ 29مارچ کا دن اس کھوج کی طرف رخ کرنے ہی سے عبارت ہے۔
مذہبوں’ فرقوں’ زبانوں اور رسم الخطوں سے خوب کھیلا گیا۔ لہور دربار میں مسلمانوں کے بعد عددی اعتبار سے دوسرا بڑا مذہبی گروہ سکھ تھے۔ انگریزوں نے پہلے کشمیر کو لہور دربار سے الگ کیا اور 1850 کی دہائی کے اولین سالوں میں ستلج پار سے دلی تک کا علاقہ پنجاب میں شامل کردیا۔ اب پنجاب میں دوسرا بڑا مذہبی گروہ سکھوں کی بجائے ہندو بن گئے۔ سکھوں کو تو تادیر اس کی سمجھ ہی نہ آئی۔1941کی مردم شماری کے مطابق بھی پنجاب میں ہندو 22فی صد جبکہ سکھ 15فیصد تھے۔ ان اعدادو شمار سے اکھاڑ بچھاڑ کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ 29 مارچ کا دن ہمیں اس سماجی اتھل پتھل یعنی سوشل انجینئرنگ کی یادلاتا ہے جس سے ہمارے بچوں کا آگاہ ہونا ضروری ہے۔ یہ مسئلہ محض پنجاب کا نہیں بلکہ خیبر پی کے’ بلوچستان اور سندھ کا بھی ہے اور مشرقی پنجاب اور کشمیروگلگت بلتستان کا بھی۔ افسوس ہمارا باخبر اور مقتدر میڈیا بھی 29 مارچ کے دن کی اہمیت سے تاحال ناآشنا ہے۔ ہم جانتے یا ناجانتے ہوئے سکھ مسلم اور پنجابی غیر پنجابی تضادات کے مہلک اثرات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مذہبی بنیاد پرست اور انتہا پسند تو انہی تضادات کو استعمال کر رہے ہیں مگر ترقی پسند اور لبرل دانشور بھی اسی مطلبی تاریخ کے اسیر نظر آتے ہیں۔ آج اگر ہماری یونیورسٹیاں اور میڈیا اس بارے غور کریں تو کوئی وجہ نہیں ہم اپنی تاریخ سے آگاہی حاصل کرنے کی طرف سکیں۔ کیا آپ یونیورسٹیوں میں پنجاب سٹیڈیز کے نام سے شعبہ جات نہیں بناسکتے؟ کیا آپ تاریخ ' سماجیات’ سیاسیات اور جغرافیہ کے شعبہ جات میں ایم فل’ ایم اے اور پی ایچ ڈی کے لیے پنجاب کی تاریخ و ثقافت کے حوالہ سے مقالے تجویز نہیں کر سکتے؟ آجا کر ہمیں 1857 جیسے واقعات ہی یاد رہتے ہیں جنھیں 1948 کے بعد بھارتی قوم پرستی کا جزو لاینفک بنالیا گیاحالانکہ خود نہرو اس کے حق میں نہیں تھے۔ ہندو بنیاد پرست ساور کر وہ پہلا شخص تھا جس نے 1857 کو جنگ آزادی کہاتھا اور حوالہ اس کا ہندو قوم پرستی تھی۔ انگریز اگر 29 مارچ کو یاد نہیں رکھنا چاہتے تھے وہ تو سمجھ آتا ہے مگر ہم آخر کیوں تاحال انگریزی پالیسیوں کے اسیر ہیں؟ ہم اپنے بچوں کو بابا فرید’ بابا نانک’ مادھو لال حسین’ بابابلھے شاہ’ وارث شاہ’ بابافرید’ میاں محمد بخش کے متعلق نہیں بتانا چاہتے۔ ان باکمال بزرگوں کے لازوال کلام کو نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ انگریزی کی 8 ویں کی کتاب میں میلہ چراغاں پر سبق شامل ہوتا تھا مگر اب وہ بھی نکال دیا گیا ہے۔ حسن نظامی کی پنجابیوں کے خلاف لکھی تحریروں کو تونصابی کتب میں ہشیاری سے شامل کیا جاتا ہے مگر امرتا پریتم کی ’’اج آکھاں وارث شاہ نوں۔۔۔ کھتے قبراں وچوں بول‘‘ کو نصابی کتابوں میں شامل کرنا گناہ عظیم ہے۔ ایک زمانہ میں تیسری سے 8 ویں جماعت تک ہر ضلع کی الگ الگ کتب چھپتی تھیں جو کسی حد تک طالب علم کا اپنی دھرتی سے تعلق جوڑتی تھیں۔ مگر اب ان کتب کو چھاپنابھی بند کر دیا گیا ہے۔ اگر ہمارے بچوں کو یہی معلوم نہ ہو گا کہ انگریزوں کے قبضہ سے قبل پنجابی و سیب کیا تھاتو وہ احساس کمتری کا شکار رہیں گے۔ بس 69 سالوں سے اس احساس محرومی کو بڑھاوا دیا جاتا رہا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ بس اس لیے 29 مارچ کے دن کو یاد رکھنا ہم سب پر لازم ہے۔

Sunday, March 14, 2021

Listen the Story of Mahesh Kumar, A Sindhi intelectual, journalist, political worker & broadcaster @ Lok Lhar Punjabi program

 


Listen the Story of Mahesh Kumar,
A Sindhi intelectual, journalist, political worker & broadcaster @ Lok Lhar Punjabi program 
Recorded at MastFM103, 12th March 2021


، صحافی، سیاسی کارکن،براڈ کاسٹر،گلاں مہیش کمار دیاں

یکم مارچ 1963 نوں سندھ دے ضلع گھوٹکی دے پنڈ عادل پور وچ تیکم مل دے گھر جمے۔ 

ماموں جیوت رام آر منگلرانی وی صحافی سن

بھرا جئے سندھ توں متاثر سی تے مہیش آپ لیفٹ ول آ گیا

بچپن توں تنظیماں بناون ول گل چھوئی

درسی ٹیسٹ پیپراں تے نقل نے تعلیمی بندوبست دا بیڑا غرق کر دتا

سکول وچ ساڈے نال تعصب نہیں سی۔1963 وچ جمن دا مطلب ہے کہ 1975 یا 77 تیک ماحول بہتر سی۔

قوم پرستی دا جیہڑا رستہ نسل پرستیاں ول جاندا ہے میں اس دے خلاف ہاں

سندھیاں نال نوکریاں وغیرہ وچ زیادتی ہوندی سی


A video clip of Mahesh Kumar in the program

https://www.facebook.com/aamirr/videos/10158407260669032

ساڈے علاقے وچ بہوں پنجابی رہندے سن

پنجابیاں خلاف سندھ وچ جان بجھ کے نفرتاں پھیلایاں گیاں

 لسانی تے قومیتی بنیاداں تے 1972 وچ جیہڑی آگ لگائی گئی اس نوں اسی آج تیک بھگت رہےہاں

لوکاں نوں لڑاون والی پالیسی نے سب نوں نقصان دتا

 بھٹو دی پھانسی خلاف اسی گھوٹکی وچ جلوس کڈیا سی

ساڈے سکول دے منڈے گرفتار وی ہوئے





میں 1982 وچ ایف اے کیتا۔

میں صحافی بننا چاہندا ساں پر گھر والے خلاف سن۔ 

میں 1983 وچ 8 مہینے ایم آر ڈی دی لہر وچ جیل رہیا

ساڈے تے بہوں ظلم ہوندا سی۔ 

لوکاں نوں کہندے سن کہ معافی نامے لکھو تے گھر جاو۔ مینوں وی آکھیا کہ معافی نامہ لکھو کہ مڑ ایہہ کم نہیں کرو گے۔ میں 20 سال دا ساں۔ میں آکھیا کہ تسی لکھ کے دیو کہ تسی ہر 5 سال بعد اپنے ہی ملک نوں فتح نہیں کرو گے۔ 

 جیل اک یونیورسٹی ثابت ہویا

میری سیاسی تربیت دا نواں بوہا گھلیا

بےنظیر بھٹو ہوراں مینوں پلیسمنٹ بیورو راہیں سرکاری نوکری ملی جو میرٹ پاروں سی'

گھوٹکی وچ پہلی روٹا مشین میں لائی سی

فیر میں تے دوجے دوستاں نے 1995 وچ بےنطیر دے دوجے دور وچ قرضہ لے کے ''سند'' اخبار کڈیا جس ریکارڈ سیل کیتی

صوبیاں نوں توڑن نال اشرافیہ نوں فیدے ہون گے

میں 18ویں ترمیم دے حق وچ ہاں پر ہلے اس تے پورا عمل نہیں ہویا

ایہہ ترمیم جمہوری میثاقاں دا پردھان لشکارا سی

عمرانی سرکار 18ویں ترمیم مکاون لئی آئی ہے۔

زبردستی مذہب تبدیل کروان دا مسلہ وی سیاسی ہے

جے کوئی بالغ کڑی مذہب تبدیل کرے تے تسی اوس نوں ڈک نہیں سکدے۔ پر بہوں سارے کیساں وچ نکی نکی کڑیاں، بالڑیاں نوں زبردستی مذہب بدلن ول لیجایا جاندا ہے۔ سانوں ایس بارے پوری گل کرنی چاہیدی ہے۔ایہہ مسلے ضیائی دور وچ پیدا کیتے گئے۔

جداں کیمونسٹ پارٹی جمال نقوی گروپ وچ پاڑ پیا تے اوہ اقلیتی تے اکچریتی گروپاں وچ منقسم ہوئی 1987 وچ فیر میں پارٹی وچ نہیں رہیا۔ 

جنہاں جمال نقوی یا جام ساقی نوں زندیق قرار دتا اوہ غلط سی



تمام قوم پرستاں نوں پی ڈی ایم وچ آنا چاہیدا ہے بشرطیکہ پی ڈی 
ایم وچ پاڑ نہ پئے تے فیر جمہوری لہر تگڑی ہوئے گی۔ 

ملک وچ اک بلدیاتی بندوبست ہونا چاہیدا ہے تے سیاستداناں  نوں ایس بارے سوچنا چاہیدا ہے




Listen Complete recording of the radio show 

https://voca.ro/161XA3Ea6sgi

Some pictures of Mahesh in MastFM103


Akram Warriach, Irfan Malik,Mahesh Kumar & Ijaz Syed



Hamza, Ijaz, Irfan & Mahesh


Three in One


Two in One



Wednesday, March 10, 2021

Is Micro credit a miracle for the POOR? listen Asjid Qureshi talk with MastFM103

 


Is Micro credit a miracle

for the POOR?

 Listen Asjid Qureshi talk with MastFM103 

A special radio show regarding microcredit phenomenon, recorded at Lhore Studios, MastFM103,  March 01, 2021

Mr. Asjid Qureshi brings over a decade of experience working in the microfinance industry. He started his career at the grass root level, successfully performed different roles like credit officer, branch manager, area manager, regional manager and finally attained the position of Head of Product Sales at FINCA.

Mr Asjid possesses multi-disciplinary, multi-cultural and multi-institutional knowledge of working closely with rural/urban segment of the society; grip on individual EMI Based lending. 

Mr. Asjid has a degree in Master of Business Administration in Finance from University of the Punjab Lahore.

Listen the complete recording by clicking HERE


Website of FINCA

Monday, March 8, 2021

Women Day 2021 & Challenges. Listen unusual discussion in two Punjabi Radio programs (Lok Lhar) MastfM103

 


Women Day 2021 & Challenges. Listen unusual discussion in two Punjabi Radio programs

(Lok Lhar) MastfM103

عالمی زنانی دیہاڑ 2021

سنو کجھ گھجیاں گلاں دا بھنڈار

اتے کجھ اونترے سوال تے پڑچول۔

زنانیاں دی زبانی، کجھ نویں، بہتی پرانی

Can we judge our past with present norms, ideas or vice versa? How to interpret past? Issue of Women rights is a multi class issue so it has many supporters from various classes. How women related legislation and laws help us in forming a better society. What are the pertinent issues of women from lower classes. Is Harassment law needs little attention?  and many more questions, click and listen 

Guests: Abida Ch Sec General AWP Punjab & Lawyer. Salma Butt MPA Punjab from PML Nawaz. Hibba, Lawyer & Teacher, Eamen Buchha (Multan) Development Studies. Fatima Student. 



Abida Ch born in Punjabi district Khaniwal and she recorded her story in Punjabi about women issue

https://www.facebook.com/aamirr/videos/10158391359159032


Video clip of Hiba 

https://www.facebook.com/aamirr/videos/10158396298044032


Abida Ch talking about her demands 

https://www.facebook.com/aamirr/videos/10158391419844032



Recording of Lok Lhar radio program recorded at March 5th, 2021 at MastFM103, Lhore studios with Abida Ch & Salma Butt

https://voca.ro/1ew8g7NYPI2B


Complete recording of Lok Lhar Punjabi program recorded at March 7th 2021 at MastFM103,Lhore with Eamen,  Hibba & Fatima

https://voca.ro/1dWfAW1kipd2


Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...