Extremism in Yuhanabad
A Double Edge Weapon
Lesson from the ground
Question of Pakistani citizenship is at stake?
No common Muslim Pakistani can favour attack on the churches neither no common
Christian Pakistani can support burning of men yet both things happened in Lhore,
Pakistan and it raised serious concerns rightly. Like Taliban the crowed took the Law in their hands and burnt two people. Was there any conspiracy? Or
killing and burning helps some groups to justified and further raise their
funding in future? Government and State of Pakistan through a judicial
commission must find it sooner or later. Some private media channels too played
badly and promoted communalism which was also very bad. Yet presence of sane and rational journalists played vital role which is very good. Attributing terrorist
attacks with Sunni, Shia or Christian killing always supported terrorist point
of view. It is time to call terrorist attacks as acts of terrorism and one
should analyze it under the rule of Law. Either the incident or subsequent
events were planned or not, but it reminds street destruction in past too. From civil disobedience of Mahatma Gandhi till recent Container speeches in Islamabad,we have a past record to link politics with destruction which is self negation of democratic rights itself. According to information 21 people died, 14 Christian and 7 Muslim Pakistanis.
Among Muslims two policemen and 3 common shopkeepers died on the spot and two
were burned by the crowd. It is time to rethink what is happening on the
ground. Raed and unlearn.
Click for reading article published in Humshehri
another link of magazine is
http://issuu.com/hum_shehri/docs/23.03.2015/56?e=12088494/11937212
اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کو منظر عام پر لانا تو ایک حوالہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے اقدامات اٹھانے سے ہی مستقبل میں ایسے حالات سے بچنے کی پیش بندی کی جاسکتی ہے۔ پشاور چرچ پر حملہ کے بعد بالخصوص خیبر پی کے اور بالعموم ملک بھر میں ایسی پیش بندیاں کرلی جا تیں تو آج ان حالات سے ہمیں نہ گذرنا پڑتا۔ پشاور میں سکول پر حملہ کے بعد قومی ایکشن پلان تو بنا مگر اس پلان پر صوبوں، اضلاع، سرکاری محکموں اور نجی شعبہ بالخصوص میڈیا میں کیسے عمل ہوگا؟ یہ ہے وہ سوال جس پر آج فوری عمل کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اُردو کی ساتویں جماعت میں صلیبی جنگوں کا سبق پڑھاتے ہیں تو پھر مذہبی ہم آہنگی کا دعوےٰ کہاں جاتا ہے ؟ حد تو یہ ہے کہ ہماری نصابی کتب میں مختلف مسلم فرقوں کے خلاف بھی مواد شامل ہے۔ تاریخ کے اوراق سے مطلبی تاریخی واقعات ڈھونڈ کر نکالے جاتے ہیں اور پھر انہیں کسی ایک سبق میں جڑ دیا جاتا ہے۔ اگر مطلب پورا نہ ہو تو پھر خود ہی گھڑ لیا جاتا ہے۔ میں نے 2010 اور 2014 میں نصابی کتب کا تفصیلی جائزہ لیا کہ ان میں قرار داد لاہور، خطبہ الٰہ آباد اور قائداعظم محمد علی جناح کی تقریروں کے غلط ترجموں کی نشاندہی بھی کی اور اقلیتوں کے خلاف لکھی گئی تحریروں کو ضبط تحریر میں لایا۔ غلط ترجموں پر مشتمل تحریریں وضاحت سے اس مائنڈسیٹ یعنی ذہنی رجحان کی نشاندہی کر رہی تھیں جن کے تحت نصابی لکھاریوں نے اقبال و جناح کو بھی نہ بخشا۔ انگریز مصنفین کی گمراہ کن تاریخ کو سامنے رکھ کر ہندو، مسلم اور سکھ دور جیسی گمراہ کن اصطلاحوں کوہی استعمال نہ کیا بلکہ مسلم فرقوں کے متنازعہ واقعات کو بھی نصابی کتب میں ڈالا۔ صوبوں میں موجود تعلیم کی سٹینڈنگ کمیٹیاں جب تک صنفی ، مذہبی، فرقہ وارانہ، لسانی، شہری تعصبات کے حوالہ سے نصابی کتب کا جائزہ نہیں لیں گے اس وقت تک مذہبی ہم آہنگی کے ذریعہ پاکستان کو مضبوط کرنے کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ ایسا مواد انگریزی میڈیم سکولوں کی نصابی کتب میں بھی ہے اور سرکاری سکولو ں کی کتب میں بھی۔ انہی نصابی کتب کو پڑھ کر جوان ہونے والے آج چینلوں پر اینکریاں بھی کر رہے ہیں اور تبصرے بھی کہ مذہبی منافرت کا زہر پھیلانے میں ہمارا میڈیا بھی کسی سے کم نہیں ہمارے ملک میں مذہبی، فرقہ وارانہ، لسانی اور قومیتی انتہا پسندوں کا اک جم غفیر مجتمع ہے کہ جس کی پرورش ضیا الحق تا مشرف، خیبر سے کراچی تک تواتر سے کی جاتی رہی۔ محض افغان جہاد ہی نہیں بلکہ مشرف دور میں ایم ایم اے اور ایم کیو ایم کے ذریعے انتہاپسندیوں کو سیاست میں خوب ورتا گیا۔ -
میڈیا ہاؤسوں کو بھی خبریں چھاپتے یا نشر کرتے ہوئے ازخود یہ خیال کرنا ہوگا کہ وہ فرقہ وارانہ منافرت اور متشدد سیاست کو بڑھاوا نہ دیں۔ جب تک ان نقاط کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا تب تک پاکستانی سٹیزن شپ کا تصور پنپ نہیں سکے گا۔ یہ بات عملی طور پراپنانی پڑے گی کہ قانون کی نظر میں تمام پاکستانی برابر ہیں اور کسی شخص کو بھی کسی دوسرے پاکستانی کے عقائد میں دخل دینے یا اس کے مذہبی و فرقہ وارنہ جذبات کی تضحیک کی اجازت نہیں۔ ریاست پاکستان کی عملداری اور اخلاقی جواز کے لئے پرویز مشرف کا مقدمہ ایک امتحان سے کم نہیں۔ قانون کی حکمرانی کا سبق عدالتوں کے احترام سے منسلک ہے۔ محض پھانسیوں اور پکڑ دھکڑ سے یہ دیرینہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اب ہمیں ’’مٹی پانے‘‘ کی پالیسی ختم کرنا ہوگی بصورت دیگر کسی نئے واقعہ کے بعد بھی یہی تحریر دوبارہ سے چھاپنی پڑے گی۔ شاید سانحہ یوحنا آباد کے بعد آپ کو قائداعظم کی 11 اگست1947 کی تقریر میں کی گئی باتوں کی حقانیت زیادہ سمجھ آنے لگے۔ اگر ہمارے دانشور اور اینکر حضرات اس تقریر کو خطبہ الٰہ آباد کے ساتھ رکھ کر ایک دفعہ پڑھ لیں تو انہیں یہ بات سمجھنے میں زیادہ دقت نہیں آئے گی کہ وہ جو کچھ لکھ، چھاپ یا کہہ رہے ہیں اس میں گمراہیوں کا کتنا عمل دخل ہے۔ نواز شریف یا زرداری کی مخالفت آپ ضرور کریں مگر اس مخالفت میں ’’لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ‘‘ کی عملی تفسیر نہ بنیں کہ آپکی’’ افسریاں‘‘ اسی وطن کی وجہ سے ہیں۔ ماردھاڑ، گھراؤ جلاؤ اور افراتفری کا کلچر آپ کو مالی یا سیاسی فائدہ تو دے سکتا ہے، آپ کے ’’ویریوں‘‘ کو نکرے بھی لگا سکتا ہے مگر یہ بربادی پھر’’ نہ رکنے والا طوفان‘‘ بن جائے گی۔ اس لیے جتنا جلدی ہو تعصب و تقاخر کی اندھی گلی سے نکل آئیں اور پاکستانی سٹیزن شپ ہی کو اولین ترجیح دیں -
میڈیا ہاؤسوں کو بھی خبریں چھاپتے یا نشر کرتے ہوئے ازخود یہ خیال کرنا ہوگا کہ وہ فرقہ وارانہ منافرت اور متشدد سیاست کو بڑھاوا نہ دیں۔ جب تک ان نقاط کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا تب تک پاکستانی سٹیزن شپ کا تصور پنپ نہیں سکے گا۔ یہ بات عملی طور پراپنانی پڑے گی کہ قانون کی نظر میں تمام پاکستانی برابر ہیں اور کسی شخص کو بھی کسی دوسرے پاکستانی کے عقائد میں دخل دینے یا اس کے مذہبی و فرقہ وارنہ جذبات کی تضحیک کی اجازت نہیں۔ ریاست پاکستان کی عملداری اور اخلاقی جواز کے لئے پرویز مشرف کا مقدمہ ایک امتحان سے کم نہیں۔ قانون کی حکمرانی کا سبق عدالتوں کے احترام سے منسلک ہے۔ محض پھانسیوں اور پکڑ دھکڑ سے یہ دیرینہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اب ہمیں ’’مٹی پانے‘‘ کی پالیسی ختم کرنا ہوگی بصورت دیگر کسی نئے واقعہ کے بعد بھی یہی تحریر دوبارہ سے چھاپنی پڑے گی۔ شاید سانحہ یوحنا آباد کے بعد آپ کو قائداعظم کی 11 اگست1947 کی تقریر میں کی گئی باتوں کی حقانیت زیادہ سمجھ آنے لگے۔ اگر ہمارے دانشور اور اینکر حضرات اس تقریر کو خطبہ الٰہ آباد کے ساتھ رکھ کر ایک دفعہ پڑھ لیں تو انہیں یہ بات سمجھنے میں زیادہ دقت نہیں آئے گی کہ وہ جو کچھ لکھ، چھاپ یا کہہ رہے ہیں اس میں گمراہیوں کا کتنا عمل دخل ہے۔ نواز شریف یا زرداری کی مخالفت آپ ضرور کریں مگر اس مخالفت میں ’’لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ‘‘ کی عملی تفسیر نہ بنیں کہ آپکی’’ افسریاں‘‘ اسی وطن کی وجہ سے ہیں۔ ماردھاڑ، گھراؤ جلاؤ اور افراتفری کا کلچر آپ کو مالی یا سیاسی فائدہ تو دے سکتا ہے، آپ کے ’’ویریوں‘‘ کو نکرے بھی لگا سکتا ہے مگر یہ بربادی پھر’’ نہ رکنے والا طوفان‘‘ بن جائے گی۔ اس لیے جتنا جلدی ہو تعصب و تقاخر کی اندھی گلی سے نکل آئیں اور پاکستانی سٹیزن شپ ہی کو اولین ترجیح دیں -
No comments:
Post a Comment