انکاری صورتحال سے نکلنے کا دن16 دسمبر... مگر
اگر ہم نے 16دسمبر1971سے سبق سیکھا ہوتا تو یقیناًہم 16دسمبر2014سے بچ جاتے
Listen the report of MastFM103 about two incidents and one lesson...
آرمی پبلک سکول کا واقعہ ہو یا 16 دسمبر 1971کا دن کہ ان دونوں میں ایک مماثلث ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ حقائق سے چشم پوشی کا نتیجہ نہ تو کبھی ماضی میں اچھا نکلا ہے نہ ہی آئندہ کبھی نکلے گا۔ ہمیں ہر صورت انکاری صورتحال سے آگے بڑھنا ہے۔ پاکستان کی رنگارنگی کو قبولنا اور مذہبی انتہا پسندیوں کو پالیسی سازی سے نکالنا ہی وہ عزم ہے جو اس دن کو زحمت سے رحمت میں بدل سکتا ہے۔ یہی ہے وہ ویثرن جس کی آج ہمیں ضرورت ہے۔جہوری تسلسل کے بغیر یہ دشت پاٹا نہ جائے گا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب یہ بیان تو آپ نے پڑھا ہی ہوگا کہ میں خدا کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔ یہ جس ’’ارادہ‘‘ کی بات کی جاتی ہے وہ کسی نہ کسی بیانیے ہی پر تشکیل پایا ہوتا ہے اور جب وہ بیانیہ ٹوٹتا ہے تو نئی راہیں کھلتیں ہیں۔ یہی عمل روشن خیالی و ترقی پسندی کی بنیاد ہے کہ صدیوں سے انسانوں نے جب جب پرانے بیانیوں کو چھوڑ کر نئے راستوں کو اپنایا ہے اس کو تاریخ میں سنہرے حروف سے یاد رکھا گیا ہے۔مگر یہ عمل تکلیف دہ اور کٹھن ہے کہ پرانے خیالات اور ان سے وابستہ ارادوں کو تج ڈالنا جوئے شیر لا نے سے بھی مشکل ہوتا ہے۔
16دسمبر کو دو واقعات ہوئے تھے، دونوں کا تعلق اس سر زمین پاکستان سے ہے اور دونوں میں ہمارے پرانے بیانیوں کے مہلک اثرات نمایاں کہ غور کرنے والوں کے لیے اشارے کافی ہوتے ہیں۔ ایک واقعہ 16 دسمبر 1971 کا ہے جبکہ دوسرا واقعہ 16دسمبر 2014۔ ایک عبارت ہے لسانی، ثقافتی و قومیتی رنگانگی کے انکار اور صوبائی خود مختاری سے بیجا خوف سے جبکہ دوسرا عبارت ہے پالیسی سازیوں میں مذہبی و فرقہ وارانہ ترجیحات کو مقدم رکھنے سے۔ ایک کا کھرا مرکزیت پسندی کی طرف نکلتا ہے تو دوسرے کا کھرا مذہبی قوم پرستی کی طرف کہ اب اس پر دوبارہ سے غور کرنے کا وقت ہے۔
افتاد یا زحمت کادر آنا تو زندگی کا حصہ ہے کہ انفرادی و اجتماعی سطح پر افراد یا قوموں سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ اگر غلطیوں کی وجوہات کا نکھیڑا کر لیا جائے اور اپنی کو تاہیوں کو ہٹ دھرمی سے بچتے ہوئے تسلیم کرلیا جائے تو پھر نئے راستے کھلنے لگتے ہیں۔
بقول غالب مشکلیں اتنی پڑیں کہ آساں ہو گئیں کہ اصل چیلنج تو زحمت کو رحمت میں بدلنا ہے۔ مگر جو سازش کے بیانیے کو ہی مقدم جانتے ہیں اور اپنی کو تاہیوں کا جواز خوارج کے عزائم میں ڈھونڈنے میں غلطاں رہتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں اپنے گریبان میں جھانکنا قدرے مشکل امربن جاتا ہے۔ وطنی ریاستوں کی دنیا کی منطق اپنی کہ اس میں نہ تو کوئی کسی کا مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی مستقل دشمن ۔ملکوں کے تعلقات تو مفادات کی سا نجھ یا لڑائی پر استوار ہوتے ہیں۔ یہ گاہک اور دکاندار جیسا رشتہ ہے جو لین دین پر چلتا ہے۔ اس میں سازشیں، محبت، خفیہ و کھلی جنگیں سب چلتاہے۔ نہ ہم اس سے مبّرا ہیں نہ کوئی اور ریاست۔ وطنی ریاستوں کی اس دنیا میں کھلی سازشیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اگر آپ نے زحمت کو رحمت میں بدلنا ہے تو آپ کو محض سازش کے بیانیے پر انحصار کو تج ڈالنا ہوگا۔ اقبال نے کہا تھا ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘۔ مگر جن بیانیوں سے ہم نے اس مٹی کو ’’نم‘‘ کی بجائے ’’سخت‘‘ (متشدد) کرڈالا ہے تو اس میں دھرتی کا تو کوئی قصور نہیں۔ 16 دسمبر کا دن اس لیے یادرکھنا چاہیے کہ سال میں ایک دفعہ ہم اپنے گذرے ہوئے کل پر نظر ڈالنے کے لیے خود کو بحثیت مجموعی بھی تیار کریں اور انفرادی سطح پر بھی اسرنو اچکتی نگاہ ڈالیں۔اگر ہم نے 16دسمبر1971سے سبق سیکھا ہوتا تو یقیناًہم 16دسمبر2014سے بچ جاتے۔ جب بھی کوئی انہونا واقعہ ہوتا ہے تو ہمارے ہاں مجموعی طور پر دو طرح کا ردعمل دیکھنے میں آتا ہے ۔ یا تو ہم سازش کابیانیہ بناتے ہیں یا پھر خود کو کوسنے ہی تک محدود رہتے ہیں۔ 16دسمبر کا دن اپنی خوبیوں اور خامیوں کا گراف بنانے سے مزین کرلیں تو پھر ایسی اعتدال پسند پالیسیوں سے ہم زحمت کو رحمت میں بدلنے کے قابل ہوجائیں گے۔ایک وقت تھا جب یہی مذہبی انتہاپسندی ہماری افغان و بھارت پالیسیوں کا جزولاینفک تھی۔ ہم پاکستان ہی نہیں بلکہ اسلامیان ہند کی بقاء کے لیے انہیں ضروری گردانتے تھے۔ فوجی تربیتوں سے نصابی کتب تک اس کا چلن عام تھا اور گذشتہ 5 دہائیوں میں اس کا رنگ ہر شعبہ زندگی پر گہرے نقوش ڈال چکا ہے۔ 9/11 کے بعد ہم اپنی دہری پالیسیوں کے تحت کبھی انہیں بچاتے رہے تو کبھی پھساتے رہے کہ بلا آخر 2014میں ضرب عضب ان کا مقدر ٹہرا اور پھر اگلے برس قومی ایکشن پلان منظور ہوا۔ اگر ہم پرانے بیانیے کو بدلنے پر تیار نہیں تو پھر ضرب عضبوں اور قومی ایکشن پلانوں کا فائدہ بھی نہیں ہوگا۔ ریاستی پالیسیوں میں جب تک مذہبی و فرقہ وارانہ ترجیحات مقدم رہیں گی تب تک ہم پرانے بیانیے ہی میں مقید رہیں گے۔اس پرانے بیانیے کے انڈے بچے فوجی تربیت سے نصابی کتب تک پھیلے ہیں کہ 16 دسمبر کو اگر ہم پرانے بیانیے کو ہر شعبہ ہائے زندگی میں بدلنے کا ارادہ کر لیں تو پھر یہ دن رحمت میں بدل جائے گا۔
16 دسمبر کا دن ہمیں ہر سال چڑاتا رہے گا کہ یہ شب تار کی علامت ہے۔ اگر ہم چاہیں تو اس شب گذیدہ سحر کو بدل سکتے ہیں۔ مگر اس کی اولین شرط یہی ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں پر نظر
ڈالنے کے لیے تیار ہوں۔
No comments:
Post a Comment