وہی رنڈی رونا! وہی پاکستان
Punjab Punch
عامر ریاض
بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے 1950 کی دہائی میں پاکستان پر طنز کا نشتر چلاتے ہوئے یہ کہا تھا کہ میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے ویراعظم پاکستان بدلتا ہے۔ اس طنز کی بڑی وجہ تو سکندر ایوب گٹھ جوڑ تھی جو سول ملٹری اشرافیہ کا اس دور کا چہرہ تھا اور وزیراعظموں کی اکھاڑ پچھاڑ کا محرک بھی مگر اس کا وار پاکستان کی دھرتی کوہی سہنا پڑا۔اکتوبر1958 کے بعد تسلسل سے اوپر نیچے دو مارشلاء آئے۔13 سالہ فوجی حکومتوں کی ’’برکات‘‘ کے کارن آدھا ملک گنوانے کے بعد جب اقتدار سیاستدانوں کو ملا تو دامے سخنے انہوں نے پہلا متفقہ آئین بنا کر قوم کو نئے سویرے کی امید دلائی۔ 1972 کو بھٹو صاحب نے تاریخی تقریر کرتے ہوئے غیر آئینی قوتوں اور ان کے حواریوں کو مبتنہ کیا اور کہا کہ اب تو’’ اسلام خطرے میں ہے ‘‘والا نعرہ ترک کردیں اب تو اس ملک میں 95 فیصدی مسلمان ہیں۔ بھٹو صاحب کا واضح اشارہ ان قوتوں کی طرف تھا جو قرار داد مقاصد کی منظوریوں سے ’’اسلام‘‘ کی آڑ میں اپنا الو سیدھا کرنے میں مگن رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جناح کے پاکستان میں 22 فیصدی غیر مسلم پاکستانی رہتے تھے کہ 16 دسمبر 1971 کے بعد ان کی تعداد محض 5 فیصدی رہ گئی۔المیہ مشرقی پاکستان یا قیام بنگلہ دیش کا سب سے زیادہ نقصان غیر مسلم پاکستانیوں کو ہوا کیونکہ ان کی بڑی تعداد مشرقی پاکستان میں رہتی تھی۔یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جو پاکستان میں اسلامی ایجنڈے چلانا چاہتے تھے وہ بنگالیوں سے اس لیے بھی نالاں تھے کیونکہ مشرقی بنگال میں بہت بڑی تعداد میں غیرمسلم رہتے تھے۔1972 والی اپنی مشہور تقریر میں بھٹو صاحب نے سول ملٹری اشرافیہ کو یہ بات یاد دلاتے ہوئے بتایا کہ اب اس ملک میں جہاں 95 فیصدی مسلمان رہتے ہیں تو اب بھلا اس ملک میں اسلام کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟ بھٹو صاحب شاہنواز بھٹو کے فرزند بھی تھے اور خود 1950 کی دہائی سے اقتدار کے ایوانوں کو انتہائی نزدیک سے دیکھ رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اسلام کو خطرے کی بات محض اک بہانہ تھا جسے اقتدار کے کھیل میں بار بار استعمال کیا گیا۔خواجہ ناظم الدین اور میاں ممتاز دولتانہ کی لڑائی میں ’’احمدی مخالف‘‘ مہم بارے بھی انہیں معلوم ہو گا کہ جس کے جواب میں مرکز نے پہلی بار شہر لاہور میں مارشلاء لگا کرسیاست میں نئے کھلاڑی کو جی آیا نوں کہا تھا۔ جس خدشہ بارے بھٹو صاحب 1972 میں اشارے کررہے تھے وہ قومی اتحاد کی تحریک میں سچ ثابت ہوا۔ طرفہ تما شہ یہ ہے کہ 45 سال بعد بھی نواز شریف کے خلاف آنے والے عدالتی فیصلے میں بھی63,62 کی شقیں استعمال کی گئیں کہ ضیا الحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے ان شقوں کو آئین میں شامل کیا تھا۔ اس ملک میں محض مشال خان کو قتل کرنے کے لیے ہی اسلام کا نام ا ستعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اقتدار کے کھیل میں جسے جہاں ضرورت پڑتی ہے وہ اسے استعمال کرتا ہے۔
یہ بھی ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے کہ جب 1979 میں بھٹو کو اک عدالتی حکم کے تحت پھانسی دینی تھی توں اس وقت بیانیہ یہی تھا کہ بھٹو کے خاتمے کے بعد پاکستان میں دودھ کی نہریں نکل آئیں گی۔ اک دفعہ اس قائد عوام سے جان چھڑا لیں تو پھر پاکستان ترقی کی منازل طے کرنے لگے گا۔ بھٹو اور پاکستان اک ساتھ نہیں چل سکتے۔ بھٹو کو جمہوریت کا دشمن اور سول آمر کہنے والے وہ تھے جو خود ضیا الحق کی گود میں بیٹھے تھے۔ متضاد فکر اسلامی، سیکولر و قوم پرست پارٹیوں نے محض بھٹو کو ہٹانے کے لیے نظام مصطفی تک کا نعرہ لگا یا تھا۔ وہ بھٹو جو دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان تھا اسے اپنے ہی ملک میں ذلیل و رسوا کیا گیا۔ بات بھٹو کے قتل پر رکی نہیں بلکہ بھٹو کے قتل کے بعد بھٹو کی پارٹی کو ختم کرنے کامصمم ارادہ تھا کہ 1980 سے اس ایجنڈے پر عمل شروع ہوگیا۔ریاست کے تمام کل پرزے اک عوامی پارٹی کو صفحہ ہستی سی ختم کرنے پر مامور کر دیے گئے۔ 10 اپریل 1986 کو ان تمام ایجنڈوں کو لاہور کی سڑکوں پر عوام نے پاؤں تلے روند یا۔
جنھوں
نے 16 دسمبر 1971 سے سبق نہ سیکھا تھا وہ بھلا 10 اپریل 1986 سے سبق کیسے سیکھ
سکتے تھے۔ اب سول ملٹری اشرافیہ نے جمہوری میدان میں پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کا
ایجنڈا بنایا اور اس کے مقابلے کے لیے آئی جے آئی بنوائی۔ اس سیاست کی وجہ سے نواز
شریف وزیراعظم بنے مگر جب انھوں نے بھی خود کو حکمران سمجھنا شروع کیا تو کاکڑ
فارمولے کے تحت انہیں بھی چلتا کردیا کہ اس کھیل میں جب وہ دوسری مرتبہ وزیراعظم
بنے تو انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ آئینی شق 58(2) بی کو بی بی کے ساتھ مل کر
ختم کر ڈالا۔ بات یہاں ختم نہ ہوئی کہ بھارتی وزیراعظم کو بلاکر جب معاہدہ لاہور
کیا تو وہ ناپسندیدہ قرار پائے اور سیکولر ڈکٹیٹر آ دھمکا۔ اس سیکولر ڈکٹیٹر یعنی
جنرل مشرف نے دہری پالیسی کے تحت طالبان کو کمال مہارت سے بچایا۔ اب 2008 سے 2017
تک جو برا بھلا جمہوری تسلسل جارہی ہے تووہ اس کی قیمت پر بھٹو کی طرح نواز شریف
کو ہمیشہ کے لیے سیاست سے نکالنے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں۔63,62 کی شقیں ’’اسلام
خطرے میں ہے‘‘ والے ایجنڈے کا اک حصہ ہیں۔ طریقہ واردات بدل جاتا ہے، کھلاڑی بدل
دیے جاتے ہیں مگر ایجنڈا وہی ہے جو بھٹو مخالفت میں بنایا گیاتھا۔ نہ تو منتخب
وزیراعظم اہم فیصلے کریں اور نہ ہی منتخب ایوانوں کو توفیر ملے۔ یہ وہی رنڈی رونا
ہے جو 1950 کی دہائی سے ہمارے ہاں چل رہا ہے کہ بقول فیض
گڑی ہیں کتنی صلیبیں تیرے دریچے پہ
گڑی ہیں کتنی صلیبیں تیرے دریچے پہ
No comments:
Post a Comment