Friday, September 22, 2017

Anti China Wars: Proxy wars, misuse of Religion & humanitarian Crisis. Rethink the bad narratives for Once

Anti China Wars

Proxy wars, misuse of Religion & humanitarian Crisis.

Rethink the bad narratives for Once

روہینگے، حقائق اور گمراہ بیانیہ۔پراکسی جنگیں اور مذہب کا ورتارا
تحریک خلافت سے روہنگیا مسلمانوں تک

میڈیائی ناخدائوں سے معذرت کے ساتھ

عامر ریاض

Unpublished


تحریک خلافت و ہجرت سے روہنگے مسلمانوں کے المیہ تک زمینی حقائق کو بلائے طاق رکھ کر محض جذبات کو گرمانے والے بیانییے اکثر و بیشتر ہمیں بند گلی میں لے جاتے ہیں کہ اگر ہم عالمی و مقامی حقائق کو سامنے رکھ کر بیانیہ بنائیں تو گمراہیوں سے انفرادی و اجتماعی پدر پر بچا جا سکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں جو کجھ روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے لکھا گیا یا پھر نشر ہوا، یہ سب اس بات کا ثبوت کہ  خلافت و ہجرت ہی نہیں بلکہ 1947 اور 1971 کی طرح آج روہنگیوں بارے بات کرتے ہوئے ہم میں سے بہت سے ، خصوصا وہ جو حقائق جانتے ہیں، جان بوجھ کے کچھ حقیقتوں پر بات نہیں کرنا چاہتے تو کچھ محض جذباتی نعروں سے حقائق کو بھولنا چاہتے ہیں۔
 1971 میں جو کھیل رچایا جارہا تھا اس کی سمجھ ہمیں فروری 1972 میں آئی تو ہم نے دولت مشترکہ چھوڑ کر رانجھا راضی کیا مگر نقصان ہو چکا تھا۔اگر یحی خانی ٹولہ بشمول جنرل وائیں، گل حسن،شیرعلی پٹودی،غلام عمر ،غلام جیلانی،،ائیرمارشل نور خان  ،جنرل صاحبزادہ یعقوب خان جیسے اعلی فوجی افسروں کو تیزی سے بدلتے عالمی حالات  کی خبر نہیں تھی  تو اس کا قصور وار کون تھا؟ جو کھیل عالمی و ملکی پدر پر آج ہو رہا ہے اس بارے بھی جن کو معلوم ہے وہ یا چپ ہیں یا پھر ہشیار کھیل میں منہمک جبکہ باقیوں کو جذباتیت میں غوطے لگانے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔
دلچسپ تضاد تو یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کے شہری حقوق کے مخالف بھی برما سے یہ مطالبہ کرتے نظر آئے کہ وہ روہنگیوں کو برابر کے شہری حقوق دیں۔حقیقت تو یہ بھی ہے کہ بہت سے روہنگیے1960کی دہائی سے پاکستان میں رہ رہے ہیں کہ انہیں اس دور میں یہاں کون، کیوں لایا تھا؟  جب برما میں تمام کاروبار کو قومیا لیا گیا تھا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں اکثریت ایسے روہنگیوں کی ہے جو یہاں ہی پیدا ہوئے ہیں مگر وہ پاکستان کے دو نمبر شہری بھی نہیں۔ایسے میں کجھ سینئر پاکستانیوں اور میڈیا کے شیروں کا مزید روہنگیوں کو پاکستان لانے کا مطالبہ رزاقی نہیں بلکہ حقائق سے منہ موڑنے والی بات ہے۔1962 کی چین بھارت جنگ کے بعد کچھ عالمی طاقتوں نے چین مخالف محاذ کے لیے بھارت کا انتخاب 1960 کی دہائی کے وسط ہی میں کیا تھا جس میں برمی مسلمانوں کو استعمال کرنے کا ہشیار کھیل تیز کیا گیا۔
روہنگے کون ہیں کہ اس بارے  کجھ حقائق حالیہ دنوں میں   میڈیا  سے چھپائے جا رہے ہیں۔یہ بھی نہیں بتایا جا رہا   کہ برما میں کچھ دیگر غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ بھی ناروا سلوک ہو رہا ہے  جن میں بدھ مت کے کجھ فرقے شامل ہیں جو چین برما سرحد ی صوبہ میں رہتے ہیں۔چٹاگانگ کا علاقہ تاریخ میں ہمیشہ سے بنگال کا حصہ نہیں رہا 
بلکہ یہاں کی آبادی سفید رنگت والے برمی ہی تھے۔
اس علاقہ میں بنگالی کب، یوں بسائے گئے س کا اک پس منظر ہے جسے جاننا لازم۔ 
بکسر کی جنگ (1764)کے بعد انگریزوں کی عملا بنگال وغیرہ پر حکومت قائم ہو گئی تھی اور اگلے 25سالوں میں انھوں نے چٹاگانگ سے منسلک علاقوں میں کاروائیاں شروع کردی تھیں کہ جہاں بدھ مت کے دوفرقے، ایک   اصلاحی اور دوسرا قدامت پرست آپسی لڑائیوں میں رجھے ہوئے تھے  ۔اصلاح پسند بدھ مت فرقہ کے ڈانڈے ان لوگوں سے ملتے تھے جو نیپال اور سری لنکا سے آئے تھے جبکہ جن کو قدامت پسند کہا جا رہا تھا وہ مقامی تھے۔1810 میں  یہ لڑائی اس قدر شدید ہوئی کہ برما کے قدیمی مرکز اور بدھ مت کے مشہور مقدس مقام امر پورہ ، جو رنگون کے ساتھ تھا،کو جالا دیا گیا تھا۔اس کے نتیجہ میں اصلاح پسندوں کے خلاف  شدید ردعمل آیا اور ان جھگڑوں کی وجہ سے بہت سے بدھ مت کے پیروکار اپنے گھروں کو چھوڑ کر چٹاکانگ آن بسے۔  اس فرقہ وارانہ لڑائی کو انگریزوں نے کیسے استعمال کیا اور کیسے چٹاکانگ کے ہمسائے میں مقیم بنگالی مسلمانوں کو  بدھ مت  مہاجرین کی بحالیوں کی  آڑ میں موجودہ رخائن  اور قدیمی اراکان صوبہ ہی میں نہیں بلکہ چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں میں بسایا کہ یہ کہانی کیپٹن ''حرم کاکس'' کی ڈائریوں میں محفوظ ہے۔چٹاگانگ میں موجود کاکسس بازار اسی کپتان کی یادگار بھی ہے اور برٹش مظالم کی نشانی بھی۔1823اور1852کی اینگلو برمی جنگوں کے بعد اس علاقہ میں غیر برمی آبادیوں کو بڑھانا اک ہشیار برٹش پالیسی تھی۔  چٹاگانگ بندرگاہ کی سٹریٹیجک اہمیت دیدنی کہ کبھی  یہاں پرتگالیوں اور ولندیزیوں نے قبصے کیے توپھر یہ بندرگاہ انگریزوں کے تسلط میں آگئی۔صوبہ اراکان  کے باسیوں کے لیے یہ بندر گاہ وہی اہمیت رکھتی تھی جیسی سندھ، پنجاب  کے باسیوں کے لیے ٹھٹہ سے سمندر کو جاتے ہوئے آبی گذرگاہ پر واقع لہوری بندر یا لہوری ڈاہرو۔ہشیار انگریزوں نے دریائوں سے جڑی لہوری بندر کو بند کر کے1843 میں کراچی  کی بندرگاہ اساری جو گہرے سمندر میں نہ تھی۔ چٹاگانگ کی بندرگاہ کو بنگال میں شامل کرنے سے لے کر نئی آباد کاریوں تک جو کھیل ہمیں ورثہ میں ملا روہنگیوں کا مسلہ اسی کا شاخسانہ ہے۔روہنگیا مسلمان وہ ملی جلی نسلیں ہیں جو نئے، پرانے برمیوں کے امتزاج سے پیدا ہوئیں کہ انہیں باہرلے یا غیر برمی کہنا اک زبردست غلط فہمی ہے۔تاہم روہنگے مسلمان ان علاقوں میں  بہت قلیل تعداد میں ہیں کہ بنیاد پرست روہنگے لیڈر اس حقیقت کو یاد نہیں رکھنا چاہتے۔1824 سے 1948 تک برما برٹش کنٹرول میں رہا تاہم 1935 میں انگریزوں نے اسے برٹش انڈیا سے الگ ملک بنا دیا کہ جیسے ماضی میں انھوں نے افغانستان اور نیپال کو  زیر تسلط لانے کے باوجودالگ الگ ملک بنایا تھا۔یہ وہ ہشیار فیصلے تھے جن بارے انگریز مخالفوں نے بھی بہت کم غور کیا۔
کیونکہ بہت سے بنگالی قوم پرست اڑیسہ کی طرح چٹاگانگ اور اس سے منسلک پہاڑی سلسلہ کو بھی گرئیٹر بنگال کا حصہ سمجھتے تھے اس لیے اس پہاڑی سلسلہ کی دوسری طرف رہنے والے روہنگے بھی خود کو مسلم بنگال کا حصہ سمجھنے پر  خصوصا 1935 کے بعدکچھ زیادہ ہی مائل ہوئے۔وہ دوسری جنگ عظیم میں  برما کے قومی مفاد کے خلاف انگریزوں سے کیوں جا ملے کہ اس بات کو چھپایا جاتا ہے۔وہ برٹش انڈیا کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی مسلم لیگ سے رشتے بڑھانے میں رجھ گئے اور پاکستان کا حصہ بننا چاہتے تھے مگر قائداعظم کو اس ہیجان انگیز پالیسی  کے مظمرات کا احساس تھا  اس لیے انھوں نے انہیں زمینی حقائق ماننے کا مشورہ دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ1947 میں بھی چٹاگانگ کے پہاڑی سلسلہ میں اکثریت بدھ مت کے رہنے والوں کی تھی کہ 
روہنگوں کے بعض لیڈر جغرافیہ پر نظریے یا مذہب کو ترجیح دینے کے زعم میں مبتلا رہے
و20ویں صدی میں بہت سی مسلم اقلیتی برادریوں میں ایسے سیاسی ہیجان پائے جاتے تھے۔اس ہیجان کو اکثر مفاد پرست بڑی ہوشیاری سےاستعمال کر لیتے ہیں۔20ویں صدی  میں چلنے والی خلافت و ہجرت جیسی تحریکیں اس ہیجان کے گمراہ کن استعمال  کا بڑا اظہار تھیں۔
جب خلافت و ہجرت اور عدم تعاون جیسی لہو گرم کرنے والی تحریکیں چلیں تھیں تو علامہ اقبال اور قائداعظم سیاست میں بھرپور طریقے سے سرگرم تھے۔ان کی عالمی و مقامی حالات پر نہ صرف گہری نظر تھی بلکہ زمینی حقائق سے بھی آگاہ تھے۔وہ انگریز کی چالوں کو بھی پہچانتے تھے بلکہ ان کی پہلی جنگ عظیم کے بعد تیزی سے بدلتی سیاست پر بھی نظر تھی۔جنوبی ایشیائی مسلمانوں کا مفاد انہیں عزیز تھا مگر انہیں ان مسلمانوں کی کمزوریوں اور طاقتوں کا بھی کما حقہ علم تھا۔دونوں نے ہی خلافت، ہجرت و عدم تعاون جیسی بظاہر ولولہ انگیز تحریکوں سے خود کو الگ بھی رکھا اور انگریز کا ساتھ بھی نہیں دیا۔عالمی سطح پر انھوں نے لاغر عثمانی پادشاہت کی بجائے جمہوری ترکی اور اتاترک سے امیدیں وابستہ کیں تو اندرون خانہ قانون کو ہاتھ میں لینے اورگھراؤ جلاؤ کی بھرپور مخالفت کی۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے دارلسلا م و دارالحرب کے جذباتی نعرے تلے اپنا جغرافیہ بدلنے کی بھی کبھی حمائیت نہ کی۔وہ تعلیمی اداروں اور دفتروں کے بائیکاٹ کو بالعموم ہند سندھ کے باسیوں اور بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اچھا شگون نہیں سمجھتے تھے۔علی گڑھ کالج کا بائیکاٹ کرنے والوں نے دلی میں جامعہ ملیہ کے نام سے اک متبادل ادارہ کھڑا کرنے کا قصد کیا جو انگریزی تعلیمی اداروں کے بائیکاٹ کی مہم کا ہشیار حصہ تھا۔ مہاتما گاندھی کا خط ریکارڈ پر ہے جس میں انھوں نے علامہ اقبال کو اس نئے ادارے کا سربراہ بننے کی آفر کی۔زیرک اقبال نے جوابی خط میں معذرت کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا مسلمانوں کی تعلیم کا ادارہ بنانے سے قبل آپ نے مسلم مکاتب فکر میں مسلم تعلیم کے حوالے سے کوئی تصفیہ کروایا ہے؟اقبال جانتے تھے کہ اگر سوال مسلم ملت کا ہو گا تو اس میں اولیت مسلم مکاتب فکر میں تصفیہ ہی کو حاصل رہے گی۔
 ان باتوں کو لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ جب آپ کی نظر عالمی و مقامی حالات پر ہوتی ہے اور زمینی حقائق آپ کے روبرو ہوتے ہیں تو آپ جذباتی فیصلے نہیں کرتے۔اقبال و جناح ان اسمبلیوں کے ممبر بنے جن کا حق رائے دہی بھی محدود تھا اور اختیارات پر قدغنیں تھیں مگر انھوں نے مسلح جدوجہد، عدم تعاون جیسی جذباتیت سے سخت پرہیز کیا۔جناح جب مشہور انقلابی بھگت سنگھ کا مقدمہ لڑ رہے تھے تب بھی انھوں نے اْس مضطرب پنجابی کے عمل کی حمائیت نہ کی بلکہ عدالت کو بتایا کہ جمہوری حقوق کے فقدان کی وجہ سے یہ نوجوان پرتشدد راستے اپنانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ ہے وہ ویژن اور میانہ رو پالیسیاں و بصیرتیں جن کا آج ہم میں انفرادی و اجتماعی پدر پر فقدان ہے ۔ اسی فقدان کا مظاہرہ ہمیں پچھلے چند دنوں میں تواتر سے سہنا پڑا کہ جب عالمی و قومی میڈیا پر روہنگے مسلمانوں کی آہ پکار پر مبنی ویڈیوز چلنے لگیں۔انسانی المیوں کا مقابلہ تو نہیں کرنا چاہیے مگر حقیقت یہ ہے کہ روہنگیوں کے بارے میں خبروں نے ایک ایسے وقت پر میڈیا بہت متحرک نظر آیا جب گذشتہ پانچ ماہ سے عالمی ادارہ صحت 95% مسلم آبادی کے ملک یمن میں ڈیڑھ کڑوڑ باشدوں کی حالت ذار بارے چیخ رہا ہے۔سعودی عرب اور اس کے حواریوں کی ناکہ بندی کے بعد یمن میں قحط اور بیماریوں کا راج ہے۔وہی مغربی میڈیا جو مسلم اکثریتی کشمیر کے حوالے سے بالعموم بے اعتناہی برتتا ہے اور فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی مظالم پر در وٹی رکھتا ہے اْسے بھلا روہنگے مسلمانوں کا درد کیسے یاد آگیا؟کتنے نوبل ایوارڈ یافتہ اسرائیلیوں سے ملالہ نے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینیوں کے حق میں بولیں؟ کتنے نوبل ایوارڈ یافتہ بھارتیوں سے ایسا مطالبہ کشمیر کے ضمن میں ہوا؟ کیا روہنگوں کی جنگ کسی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے؟
میں2008 میں بنگلہ دیش گیا تھا جہاں ہر کوئی یہ جانتا تھا کہ 1975کے بعد بنگلہ دیشی سٹیبلشمنٹ سعودی عرب کی مدد سے امریکہ اور برطانیہ کی چین مخالف مہم کا جزو لاینفک ہے۔بنگلہ دیش کی ترقی کی کہانیوں کے پیچھے اس پراکسی وار کا اثر نمایاں ہے کہ بہت سے بینک بشمول مائیکرو کریڈٹ ادارے ہی نہیں بلکہ این جی اوز،مدارس، عالمی فوڈ و موبائل کمپنیاں سب مختلف انداز میں برما مہم کا حصہ تھے۔کردار الگ الگ تھا مگر ٹیچا ایک ہی رہا۔بنگلہ دیش کے ایک کیمونسٹ رہنما اجوئے رائے نے یہ کہہ کر حیران کر دیاّ''اگر بنگلہ دیش میں کیمونسٹ بھی اقتدار میں آجائیں تو بھی بنگلہ دیش میں برما محاذ ٹھنڈا نہیں ہو گا۔انھوں نے بتایا کہ جو انٹرنیشنل سرمایہ مسلسل آرہا ہے اس کا اثر بہت ہے۔افغان جہاد کی طرح یہاں بھی بنگلہ دیش کے مدارس اور مذہبی جماعتیں چین مخالف جہاد کا ہر اول دستہ تھیں۔برما کی فوجی حکومت کو چین کی حمائیت حاصل تھی اور برما کا اکثریتی مذہب بدھ مت تھا۔یوں بنگلہ دیشی سرکار اور مذہبی جماعتیں بدھ مت اور اسلام کی آڑ میں اپنے ہی عوام کو چین و امریکہ کی پراکسی جنگ میں جھونک رہیں تھیں۔روہنگے برما میں ایک اقلیت ہیں کہ انہیں اس جنگ میں عسکریت پسندی کی طرف لایا گیا اور انھوں نے ’’اراکان روہنگا سالویشن آرمی‘‘ جیسی جتھے بندیاں بنا ڈالیں۔اس تیظیم کا پرانا نام حرکت  الیقین تھا۔2012میں یہ نام کیوں بدلا گیا اور اسے مسیحی مسلم نام کیوں دیا گیا اس بارے بھی بات کرتے ہیں۔یہ وہی تنظیم ہے جس نے25اگست 2017کو 30تھانوں کو جلا ڈالاتھا کہ جس کے بعد برمی حکومت نے روہنگوں پر یکدم تشدد تیز کر دیا۔ یاد رہے، اس واقعہ سے صرف دو دن پہلے اقوام متحدہ کے سابقہ سیکٹری جنرل نے ایک سال کی محنت کے بعد برما بارے جو رپورٹ جاری کی تھی اس میں روہنگوں سمیت برما میں بسنے والی دیگر اقلیتوں کا ذکر بھی نمایاں تھا اور روہنگوں کو شہریت دینے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔اس رپورٹ  کو تیار کرنے کی درخواست بھی سوچی ہی نے 2015 میں کی تھی اور اب 23 اگست  کو سوچی نے ہی خوداسے وصول کیا تھا۔ مگر25اگست کے واقعات کے بعد ایک طرف کوفی عنان کی رپورٹ سے برما پر پڑنے والادباؤ کرراہے پڑ گیا تو دوسری طرف برما کی اکثریتی بدھ مت آبادی میں موجود متشدد مذہبی جتھے بندیوں نے اپنا کھیل رچایا اور رہنگیوں پر حملے کیے۔اگر پاکستان میں اقلیتیں عسکریت پسندی کی طرف چلی جائیں تو اس کا سب سے زیادہ تقصان انہیں کو ہو گا۔برٹش انڈیا میں تو مسلمان25% سے بھی زیادہ تھے، کجھ مسلمان عسکریت پسندی کی طرف بھی مائل ہوئے مگر اقبال و جناح نے قانونی و آئینی حدود میں رہ کر ان کے حقوق کی کامیاب جدوجہد کی۔روہنگے برمی معاشرے میں قابل قبول مقام کیوں نہ حاصل کر سکے اس میں  غیروں کی غلط کاریوں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی انتہا پسندیوں کا بڑا عمل دخل ہے کہ جسے جاننے کی ضرورت ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران  جدید برما کے بانی اور موجودہ برمی رہنما آنگ سان سوچی کے والد آنگ  سان نے قومی برمی فوج بنا کر برٹش قبضہ کے خلاف جاپانیوں کی مدد حاصل کرنے کا جرم کیا تھا اور برمیوں میں قومی جاگرتی کی روح  پھونکی تھی۔ وہ بائیں بازو کے اہم رہنما ہی نہ تھے بلکہ وہ ان 30 کیمونسٹوں میں شامل تھے جنھوں نے  1939 میں برما نیشنل آرمی بنائی تھی۔ اس موقعہ پر روہنگے مسلمان برٹش فوج کے ساتھ مل گئے تھے کہ جس کی وجہ سے برمیوں سے ان کی دوریاں بڑھ گئیں تھیں۔جنگ کے بعد نئے سمجھوتے ہوئے اور آنگ سان کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے کہ انھوں نے برما کی اآزادی کے لیے انگریزوں سے کامیاب مذاکرات کیے اور یہ بھی منوا لیا کہ برما دولت مشترکہ کا حصہ نہیں ہو گا۔12فروری 1947کو برما کی جغرافیائی حدود کا معاہدہ طے پا گیامگر جولائی 1947کو انہیں آزادی سے 6 ماہ قبل برٹش حمائیت یافتہ ٹولہ کے ذریعے قتل کروا دیا گیا۔اس بارے پاکستانی، برطانوی و امریکی میڈیا میں ذکر نہیں ہوتا۔
پاکستان بننے کے بعد روہنگے کس پراکسی جنگ کا ایندھن بنے اس کی کہانی بھی بڑی دردناک ہے جسے بیان کرنے سے بہت سے عالمی لکھاری بھی کتراتے ہیں۔1949کے بعد چین میں سرخ انقلاب آگیا جبکہ چٹاگانگ کے پہاڑی سلسلے سردار پٹیل جیسوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان میں شامل ہو چکے تھے کیونکہ یہ علاقے چٹاگانگ ضلع کا حصہ تھے۔انگریز برٹش انڈیا کا بھی مالک تھا اور برما بھی اسی کے زیر تسلط تھا۔اگر انگریز نے یہ پہاڑی سلسلے برما کو لوٹا دیےہوتے تو روہنگے مسلم بنگال کی طرف دیکھنا بند کردیتے کہ اگست1947تک  برما اور متحدہ ہندوستان انگریز ہی کے زیر تسلط تھے۔روہنگوں نے دوسری جنگ عظیم میں انگریز کاساتھ دیا مگر وہ ان کا مسلہ حل کیے بغیر چلے گئے۔پاکستان میں ابھرنے والی بنگلہ قوم پرست تحریک چٹاکانگ کے پہاڑی علاقوں میں رہنے والی غیر مسلم و غیر بنگالی اقلیتوں کو بنگالی قوم پرستی میں رکاوٹ سمجھتے تھے کہ اس تضاد کی وجہ سے روہنگوں کےلیے بنگلہ قوم پرست لہر میں نرم گوشہ پیدا ہوا۔یہ وہی نرم گوشہ ہے جسے بعدازاں بنگلہ دیشی مذہبی جماعتوں نے خوب استعمال کیا۔اکتوبر1957میں امریکی مدد کے ساتھ چٹاگانگ پہاڑی سلسلے میں کرنافلی دریا پر کپتائی ڈیم بنانے کے کام کا اآغاز ہوا۔پہلے ڈیم کا مقام اور تھا مگر اس کو اس ہشیاری سے بدلا گیا جس کی وجہ سے کچھ مخصوص اقلیتیں زیادہ متاثر ہوں۔ اس ڈیم کی تعمیر سے1960میں رنگ ماٹی کے علاقے میں سب سے زیادہ افتاد غیربنگالی اور بدھ مت کے ماننے والے چکما قبائل کی آبادیوں پر پڑی اور علاقے میں افراتفری مچ گئی کہ ایک لاکھ لوگ ہجرت کر کے بھارت چلے گئے۔حیران نہ ہوں،مشرقی پاکستان کےبنگالی قوم پرستوں نے پہاڑی علاقوں میں مزید بنگالی بسانے کی حمائیت کردی۔حتاکہ شیخ مجیب الرحمن نے بھی اس بے اآسرا اقلیت کی مدد کرنے کی بجائے اسی مطامبہ کی طرفداری کی۔یوں بدھ ازم اور اسلام کی اس بڑھتی ہوئی لڑائی میں سرحد پار بیٹھے روہنگوں کو اک اور سراب نظرآیا۔وسری طرف برما میں فروری1948 سے 1962 کے درمیان تین بار انتخابات ہوئے اور ان میں روہنگیا مسلمان بھی حصہ لیتے رہے کہ ان منتخب روہنگوں میں ایم اے غفار اور  سلطان محمود شام جیسے رہنما شامل رہے۔برٹش انڈیا سے برما آنے والے سلطان محمود تو1957 میں وزیر صحت بھی بنے۔تاہم 1960 میں انھوں نے شمالی اراکان کے ان  چندعلاقوں کو جہاں مسلمان اکثریت میں تھے، الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کر دیا۔1950 کی دہائی میں ایسے روہنگیا مسلم لیڈر بھی تھے جو برما سے علیحدگی اور اسلامی ریاست بنانے کی بات کرتے تھے حلانکہ ان کی آبادی محض چار فیصدی تھی۔پاکستانی و مغربی میڈیا میں ایسی باتیں بوجوہ رپورٹ نہیں ہوتیں۔اگر پاکستانی مسیحی پاکستان میں یا برطانوی مسلمان برطانیہ میں ایسا کوئی مطالبہ کریں تو  بھلا کیسا لگے گا؟
1935کے بعدبالعموم  اور 1948 میں آزادی کے بعد بالخصوص برما میں نئے تضادات سر اٹھا رہے تھے۔14 سال تک ان کو حل کرنے بارے سوچا نہ گیا۔جو غیر برمی اشرافیہ انگریزوں نے کھڑی کی تھی وہ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں تھی۔اس تضاد کے بڑھنے کی وجہ سے ہی 1962  میں برما میں ویسٹ منسٹر جمہوریت کا خاتمہ کر دیا گیا اور یہ خاتمہ آنگ سان کے دست راست'' نی ون'' نے کیا جو 1940 میں بنائی گئی برمی قومی فوج میں شامل تھا۔ نی ون بھی ان 30 کیمونسٹوں میں ایک تھا جنھوں نے یہ فوج کھڑی کی تھی۔اسےآزادی کے کجھ سالوں بعدبرمی فوج کاسربراہ بنایا گیا تھا۔1958 میں اسے ایک ایسے وقت پر عبوری وزیراعظم بنا دیا گیا جب حکمران اتحاد کے سیاستدان آپس میں بری طرح لڑرہے تھے۔ تاہم 1960 میں اس نے نئے انتخابات کروا کر حکومت سیاستدانوں کو دے دی۔تاہم دو سال بعد اس نے  مارشلا لگا دیا۔انقلابیوں کو بجا طور پر اس بات پر شدید تحفظات تھے کہ غیر برمی اس ملک میں انگریز دور سے بڑے بڑے کاروباروں کے مالک ہیں اور ان  کا مفاد برما سے باہر زیادہ ہے۔ انھوں نے فوجی  سرکار بنائی اور1964 میں تمام بڑے کاروباروں کو قومی تحویل میں لے لیا۔یہ سوشلزم کی طرف جست بھی تھی اور چین کے ساتھ اک نئی شراکت داری کاآغاز بھی مگر اس کے پیچھے قوت متحرکہ  وہ نئے تضادات تھے جن کا برمیوں کوآزادی کے بعد سے سامنا تھا۔یاد رہے کہ 1962 ہی وہ سال ہے جس میں بھارت اور چین کی جنگ میں چینیوں کو کامیابیاں ملیں تھیں کہ  شکست خوردہ بھارت کو چین مخالف مہم کے لیے منتخب کرنے میں روس و امریکہ میں سانجھ بڑھتی جارہی تھی۔چین بھارت جنگ میں پاکستان امریکہ کے دبائو کی وجہ سے کوئی فائدہ اٹھانے سے  قاصر رہا کہ  ایوب خان کی کتاب"فرینڈز ناٹ ماسٹر'' میں امریکی صدر کینیڈی کا خط چھاپ رکھا ہے  جس میں کشمیر کی طرف سے پاکستانی فوج ہٹانے کا "حکم" شامل ہے جس پر فیلڈ مارشل نے پورا عمل کیا تھا۔تاہم ایوبی کابینہ میں شامل بھٹو اس وقت بھی چین سے رشتے تگڑے کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہا جو پاکستان کے مفاد میں تھی۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں پہلے دن سے چین کے ساتھ تعلقات بنانے اور نہ بنانے کے حوالے سے  مضبوط لابیاں متحرک رہیں۔میاں افتخار الدین کی اسمبلی تقاریر پر مبنی کتاب اس بات کی گواہ ہےکہ وہ تو1950 کی دہائی  کے ابتدائی برسوں میں  چینی انقلاب کی دوسری سالگرہ پر اک بڑا پاکستانی وفد لے کر چین گئے تھے۔مارشلا لگانے کے بعد ایوب نے پہلا حملہ میاں صاحب کے اخبارات پر باوجوہ کیا تھا۔تاہم جب برما میں نیشنلائزیشن ہوئی تو اس کے بعد  مغربی پاکستان  کے شہر کراچی میں برمیوں کو بسانا بھی اک ہشیار پالیسی تھی۔ 1960 کی دہائی کا وسط پاک چین دوستی میں نئے سنگ میل سے عبارت ہے کہ 1966 میں پاکستان نے شاہراہ قراکرم بنانے کا معاہدہ کیا۔چین کو روکنے کی پالیسی کے آغاز کا بھی یہی زمانہ ہے ۔شکست خوردہ بھارت کھل کر چین مخالفت نہیں کر سکتا تھا کہ چین مخالف پالیسی کے لیے سب سے موزوں مقام مشرقی پاکستان ہی تھا۔دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ امریکہ میں بھی  چین روس طلاق کے بعد چین سے تعلقات کے حوالے سے متضاد خیالات پائے جاتے تھے  کہ پاکستان کی مدد سے امریکیوں کی چین یاترا اپنی جگہ ایک حقیقت تھی۔ چین کے خلاف برما محاذ  گرم کرنے پر روس، امریکہ اور برطانیہ میں کب اتفاق ہوا اس بارے پاکستان کے فوجی حکمرانوں کو یا ہوش ہی نہیں تھا، یا خوش فہمی تھی یا وہ بنگالیوں سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سب سے پہلے، نئے ملک کو بنگلہ قوم پرستی کا لبادہ پہناتے ہوئے، نئے حکمرانوں نے بنگلہ دیش کی لسانی رنگا رنگی کو یکسر مسترد کر ڈالا۔بظاہر یہ قدم بنگلہ قوم پرستیوں سے عبارت تھا مگر اس کا نشانہ چٹاگانگ پہاڑی سلسلہ میں رہنے والے غیر مسلم و غیر بنگالی ہی تھے جنھیں برما محاذ کو گرم کرنے میں زبردست رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔ جب میں 2008 میں بنگلہ دیش گیا تو کمال لوہانی کا انٹرویو بھی کیا جو بنگلہ دیش ریڈیو کے پہلے ڈائیریکٹر رہے تھے۔انھوں نے بتایا کہ چکمہ قبائل کے لوگ  متحدہ پاکستان کے زمانہ میں سرکاری دفاتر میں اپنے رنگ برنگے لباس پہن کے آسکتے تھے مگر مجیب نے بنگالی قومی لباس کی پالیسی بنا کر انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں میں اسلامی مذہبی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے اثر کا زمانہ بھی یہی ہے کہ 1970 کی دہائی کے وسط سے سعودی عرب سے ان مدارس کو امداد ملنے لگی تھی جس کے بارے میں پاکستانی و مغربی میڈیا میں لکھنا منع ہے۔عرب نیوز نے 15 ستمبر2017 کی اشاعت میں ترکی تعینات سعودی سفیرولید الخریجی کا بیان چھاپا ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ سعودی عرب روہنگے مہاجرین کو 1948 سے پناہ دے رہا ہے۔اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے بعد  سعودی عرب ہی وہ ملک ہے جہاں روہنگے مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد موجود ہے۔بنگلہ دیش کی فوجی سرکار نے چین مخالف برما مہم  کو تیز کیا تو 1978 میں نی ون نے  اسلامی ریاست بنانے والوں کو روکنے کے لیے رخائن میں بڑا فوجی آپریشن کیا ۔1982 میں نی ون نے نئے شہریت کے قانون کے تحت روہنگیوں کی عبوری شہریت بھی ختم کردی کہ اب وہ بے وطنے بن گئے۔یہ پاکستان میں افغان جہاد اور بنگلہ دیش میں برما محاذ کے زمانے ہیں کہ دونوں جگہ  امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب مل کر مذہب کی آڑ میں پراکسی لڑائیوں کو بڑھاوا دے رہے تھے۔

 1988 میں نی ون کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی 2011 تک یہ پراکسی جنگ چلتی رہی جس میں اسلام اور بدھ مت سے وابستہ بنیاد پرست جماعتوں اور گروہوں کی پشت پناہیاں کی جاتی رہیں۔دسمبر 2011 میں جب چین و امریکہ میں قربت بڑھی تو اس پراکسی جنگ میں کجھ وقفہ آیا۔برما میں جمہوریت کے لیے سرگرم، جدید برما کے بانی آنگ سان کی بیٹی  آنگ سان سوچی کو اس وقت کے برمی آمر کے ساتھ بٹھا دیا گیا۔مگر آئین بھی وہی رہا اورپراکسی جنگوں میں تگڑے ہو چکے گروہ بھی اکثریتی و اقلیتی مذاہب و لسانی برادریوں میں برابر موجود رہے۔یہ صورتحال جنیوا معاہدے کے بعد  مسلح افغان گروہوں کو کھلا چھوڑنے جیسی ہے۔2016 میں برما میں پہلا غیر فوجی صدر بنا ہے  مگر اس سے قبل اک آئینی ترمیم کے ذریعے سوچی کوصدر بننے سے روک دیا گیا تھا حلانکہ وہ الیکشن جیت چکی تھی۔ یہ سوچی ہی تھی جس نے کوفی عنان سے برما کے بارے میں رپورٹ تیار کرنے کی درخواست کی تھی۔ مگر رپورٹ کے آتے ہی نیا تنازعہ کھڑا کر دیا گیا۔کیا یہ اک نئی جنگ کی تیاری 
ہے؟

Read another Article on the same Subject

بوتھا اک کوڑ بیانیے دا۔میڈیا ،سیاستاں اتے روہنگے

عالمی پراکسی جنگوں نے کیسے کیسے انسانی المیوں کو جنم دیا ہے ، روہنگیوں کا مسلہ انہیں میں سے ایک ہے۔جیسے افغان جہاد میں مذہب کے استعمال سے افغانستان اور پاکستان کا بہت نقصان ہوا تھا ایسے ہی چین مخالف مہم کا مہرہ بن کر مذہب کے استعمال سے بنگلہ دیش  اور برمانے ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دیا ۔جیسے افغانوں کی مدد افغان جہاد کے بغیر بھی کی جاسکتی تھی ایسے ہی روہنگیوں کی حمائیت کرتے ہوئے ہمیں چین مخالف مہموں سے بچنا چاہیے۔یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ برما میں چینی، ملائشیائی اور پاکستانی نژاد مسلمان بھی رہتے ہیں مگر مسلہ صرف روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ یوں اس مسلہ کے سیاسی، تاریخی اور سماجی پہلو بھی ہیں مگر میڈیا پر سارا زور اس مسلہ کے فقط مذہبی پہلو پر رہا۔اس مضمون کو لکھنے کا صرف یہی مقصد ہے کہ ہمیں لہو گرم کرنے والی جذباتی فضاء کی بجائے ایسا بیانیہ بنانا چاہیے جس میں عالمی و مقامی زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے مسلوں کو حل کرنے کی بصیرت نمایاں رہے۔

No comments:

Post a Comment

Struggle & Paradox ..G M Syed: Gandhiite, Muslim Leaguer, Sindhi Nationalist (1904-1995)

  Struggle & Paradox ..G M Syed Gandhiite, Muslim Leaguer, Sindhi Nationalist (1904-1995) The study of personalities often raise many un...