Asghar Khan: Profession, Politics, Life, achievements & Gapes..Let us Revisit
We love to analysis things & personalities in Black & White and even some of our intellectuals often ignore gray areas and it is the prime issue in many ways. We often love to accuse others and many of us often remain silent that encourage retreat from rationality. Rational analysis always helps to avoid pride & prejudices largely. Read the article yourself. Link of the article published in Dawn Blog
https://www.dawnnews.tv/news/1071195/06jan2018-asghar-khan-lajawab-muntazim-riyasati-policies-ke-naaqid-magar-awami-siyasat-se-nabalad-aamir-riaz-fp-bmعامر ریاض
لاجواب
منتظم،فوجی پالیسیوں کے ناقد مگر عوامی سیاست سے نابلد
ہم یا تو ہیرو بناتے ہیں یا زیرو، درمیان کا کوئی رتبہ ہم نے کسی کے لیے نہیں چھوڑا۔ معقولاتی تجزیے سے تطہیر، تعصب یا تفاخر تو پیدا کیا جا سکتا ہے مگر ایسے میں حقائق کہیں کھو سے جاتے ہیں۔ شخصیات کے متعلق لکھتے ہوئے تو اکثر سکہ بند لکھاری بھی غچہ کھا جاتے ہیں۔
ائیر
مارشل (ر)اصغرخان پاکستان ائیرفورس کے پانچویں
سربراہ تھے کہ یہ حسین شہید سہروردی کی جمہوری حکومت ہی تھی جب پاکستان ائیرفورس کو قیام پاکستان کے
تقریبا دس سال بعد پہلا پاکستانی سربراہ
ملا اور 27 مئی 1957 کو صرف 36 سال اور چار مہینے کی عمر میں وہ ائیر چیف بن گئے۔پاکستانی فوج کے پہلےپاکستانی
سربراہ کا تعین تو وسط1949 ہی میں ہو گیا تھا کہ اگر جنرل افتخار31 دسمبر1949 کو
فضائی حادثہ میں جان بحق نہ ہوتے تو جنرل ایوب 1950 میں پہلے آرمی چیف نہ
ہوتے۔پاکستان نیوی کےپہلے پاکستانی کمانڈران چیف(اس وقت نیوی کا ہیڈ کمانڈر ان چیف کہلاتا تھا) جنوری
1953 میں ایڈمرل جاجی محمد صدیق چوہدری بنے
کہ ائیرفورس کی باری اتنی دیر سے کیوں آئی اس بارے راوی خاموش ہے۔
1921
کے سال کشمیر میں پیدا ہونے والے اصغر خان رائل انڈین ملٹری کالج سے پڑھنے کے بعد دسمبر1940 میں انڈین
ائیرفورس میں بھرتی ہوئے جسے 1932 میں بنایا گیا تھا۔دوسری جنگ عظیم میں کارکردگی
کی وجہ سے اس کے نام میں رائل کا اصافہ کر
دیا گیا تھا۔1945 میں اصغر خان برطانیہ
بھیجے گئے جہاں انھوں نے رائل ائیرفورس سٹاف کالج، جائنٹ سروس ڈیفنس کالج اور
امپیریل ڈیفنس کالج سے ملٹری ایڈمنسٹریشن اور جائنٹ سروسز میں تعلیم حاصل کی۔وہ اس
کمیٹی میں شامل رہے جس نے ڈیفنس سے متعلق اثاثہ جات دو نومولود مملکتوں میں منقسم کرنے تھے۔
1947
میں پاکستان بننے کے بعد اصغر خان ونگ کمانڈر بنائے گئے کہ وہ پشاور کے نزدیک
رسالپور بنائی گئی پاکستان ائیرفورس اکیڈیمی کے پہلے کمانڈنٹ تھے۔1947 سے اپنی
رٹائرمنٹ 1965 تک اٹھارہ سال میں انھوں نے پاکستان ائیرفورس کو اک ایسا باوقار
ادارہ بنایا جس کے معترف اپنے اور بیگانے
سب۔ تاہم انھوں نے یو-2 اور بڈابیر کا ذکر کبھی نہیں کیا۔جب وہ اگست1965 میں
رٹائرمنٹ لے رہے تھے تو آپریشن جبرالٹرشروع ہو چکا تھا کہ کشمیر کے پہلےصدر کے
ایچ خورشید کی طرح ائیرمارشل بھی سمجھتے
تھے کہ کشمیر کے مسلہ کا حل فوجی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔
اپنے
ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ مجھے آپریشن جبرالٹر کی وجہ سے پاک بھارت جنگ
کا خدشہ تھا اور انھوں نے 3 ستمبر کو جنرل ایوب کو اس سے آگاہ کردیا تھا۔ایوب نے انہیں
کہا کہ دفتر خارجہ سمجھتا ہے کہ بھارت حملہ نہیں کرے گا۔ایک فوجی دور حکومت میں
دفتر خارجہ یا متعلقہ وزیر کی اہمیت کتنی تھی یا پھر ایوب خان1962 کی چین بھارت
جنگ میں کشمیر حاصل کرنے کے نادر موقع کو امریکی دبائو میں گنوا چکنے کا داغ
اتارنا چاہتے تھے ؟۔ویسے بھی جنوری1965 میں مادر ملت فاطمہ جناح سےصدارتی انتخاب جیتنے کے باوجود انہیں اپنی
خود ساختہ مقبولیت کا بخوبی اندازہ ہو چکاتھا کہ وہ اسے بچانا چاہتے تھے۔مگر اصغر
خان اس کا الزام ذولفقار علی بھٹو پر لگاتے رہے کہ ابھی بھٹو عوامی سیاست میں بھی
نہیں آیا تھا۔
ایوب
و بھٹوپر پاکستان کو 1965 کی جنگ میں
جھونکنے کا الزام لگانے والے ائیرمارشل کو جنرل ایوب نےرٹائرمنٹ کے بعد پی
آئی اے کا سربراہ بنایا کہ 1955 میں بنائے جانے والے اس ادارے کے پہلے سربراہ ظفر
الاحسن تھے مگر 1959 میں ائیرمارشل نور خان اور پھر 1965 سے 1968 تک اصغر خان اس
کے مینجنگ ڈائریکٹر رہے۔
ائیرمارشل
اصغر خان اب سیاست کی طرف مائل ہوئے اور1970 کے انتخابات سے قبل پاکستان جسٹس
پارٹی سے اپنی سیاست کا آغاز کیا کہ جس میں ان کے ساتھی بابائے جمہوریت نوبزادہ
نصراللہ تھے۔یہ وہی وقت ہے جب پاکستان کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کی آمد آمد
تھی اور وہ لاہور میں اپنی پارٹی کی بنیاد رکھنے کے بعد بائیں بازو کے بہت سے
دانشوروں و کارکنوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے۔ایک سینئر دوست کا بتانا ہے کہ
جسٹس پارٹی نے بھی بہت کم مدت میں بہت سے لوگوں کو متوجہ کر لیا تھا ۔مگر انتخابات
سے پہلے ہی اصغر خان کیوں تنہا اڑان کی طرف مائل ہوئے اور نوابزادہ کو چھوڑ دیا اس راز سے بھی انھوں نے کبھی پردہ نہ
اٹھایا۔اس دوست کا شمار جسٹس پارٹی کے ان کارکنوں میں تھا جنھوں نے پارٹی ٹوٹنے کے
بعد پیپلز پارٹی میں شمولیت کی تھی۔
پاکستان
ٹوٹنے کا الزام تو وہ جنرل یحی پر دھرتے ہیں مگر جبرالٹر کی طرح یہاں بھی وہ بھٹو
ہی کو مجرم گردانتے ہیں۔16 دسمبر1971 کو پاکستان ٹوٹ گیا کہ اقتدارمغربی پاکستان
میں سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے والے بھٹو کے حوالے کیا جائے۔حالات انتہائی کشیدہ تھے
کہ بھٹو کو اقوام متحدہ سے ملک واپس آنے کا کہا گیا۔18 دسمبر کو اصغر خان اس
ٹرانسفر آف پاور کے خلاف لیاقت باغ میں جلسہ کرنا چاہتے تھےمگر خواجہ سلیم اور
پنڈی کے جیالوں نے ایسا نہ ہونے دیا۔
بھٹودور
میں وہ پہلی عوامی منتخب حکومت کے خلاف
سرگرم رہے کہ ان کی جماعت تحریک استقلال
قومی تحویل میں لی گئی صنعتوں کے مالکوں کو متوجہ کر رہی تھی کہ میاں
نوازشریف بھی ان کی پارٹی میں کچھ دیررہے
۔وہ ان مشہور زمانہ نو ستاروں کے قومی اتحاد میں شامل تھے جس میں مولانا مودودی،
مولانا مفتی محمود،مولانا شاہ احمد نورانی، خان عبدالولی خان ،نوابزادہ نصراللہ،سردار
عبدالقیوم خان جیسے متضاد خیال رہنما بھٹو مخالفت میں یکجان تھے۔اس تحریک نے بھٹو
حکومت کو تو ختم کر دیا مگر اقتدار قومی اتحاد کی بجائے کٹے ہوئے پھل کی طرح ضیا
الحق کی جھولی میں آن گرا جس کے ساتھ پی این اے کی کچھ جماعتیں پہلے سے رابطے میں
تھیں۔
بھٹو
کی پھانسی کے بعد ضیا آمریت سے نبرد آزما ہونے کے لیے تحریک بحالی جمہوریت بنی تو
اصغر خان اور نوابزادہ نصراللہ سمیت بہت سے بھٹو مخالف اس میں شامل ہوئے۔اکتوبر
1979 سےاکتوبر 1984 تک انہیں ان کے ایبٹ آباد والے گھر میں ضیا شاہی نے نظر بند
رکھا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انہیں ضمیر کا قیدی قرار دیا۔اس دوران بائیں بازو کا
ایک گروپ طفیل عباس کی قیادت میں ان کی پارٹی میں شامل ہوا کہ طفیل عباس سے ان کے
مراسم پی آئی اے کے زمانے سے تھے جو پی آئی اےکی مزدور یونین کے مختار کل اور خان
صاحب اس ادارے کے سربراہ تھے۔مگر وہ بھٹو کی طرح عوامی پارٹی کبھی نہ بنا سکے۔
جب
ضیا نے 1985 میں غیر جماعتی الیکشن کروائے تو پی پی پی سمیت ایم آرڈی کی تمام
پارٹیوں نے اس کا بائیکاٹ کیا۔ایم آرڈی نے ضیا آمریت کے خلاف بڑا مورچہ لگایا کہ
10اپریل 1986 کو جب لاکھو ں کے مجمع نے بے نظیر بھٹو کا لاہور میں فقید المثال
استقبال کیا تو ایم آرڈی کی بڑی لیڈر قرار پائیں۔
یہی
وہ موقعہ تھا جب اس تحریک کو اگے بڑھاتے ہوئے سیاسی اتحاد میں بدلا جا سکتا تھا
مگر ایسا نہ ہو سکا کہ ایم آرڈی کی چھوٹی پارٹیاں بشمول تحریک استقلال یہ سمجھتے
تھے کہ عوامی مقبولیت میں وہ پی پی پی کے
برابر نہیں تو کم بھی نہیں۔جونیجو حکومت ٹوٹنے اور ضیا الحق کے مرنے کے بعد جب
انتخابی مورچہ لگا توں ولی خان، غوث بخش بزنجو، اصغر خان اور بے نظیر بھٹو کی
پارٹیاں الگ الگ اپنے طور پر الیکشن لڑیں جبکہ سٹیبلشمنٹ کی ایما پر بنائے اتحاد
آئی جے آئی نے نواز شریف کی قیادت میں حصہ لیا۔اصغر خان اپنی سیٹ بھی نہ جیت سکے
جبکہ پی پی پی نے بس اتنی سیٹیں لیں کہ وہ
حکومت بنا سکیں۔
بے
نظیر بھٹو کی پہلی حکومت ٹوٹنے کے بعد ہونے والے انتخابات میں اصغر خان نے پی پی
پی کے ساتھ اتحاد بنایا اور وہ نواز شریف کے خلاف الیکشن لڑےکہ حلقہ تھا 95۔مجھے
یاد ہے کہ اصغر خان کو بہت پذیرائی ملی مگر اپنی انتخابی تقاریر میں وہ بھٹو پر
تنقید سے خود کو مبرا نہ کر سکے۔ایک بڑی کارنر میٹنگ میں تو کارکنوں نے ان کی
تقریر ہی روک دی۔کجھ لوگ اسے ان کی ایمانداری یا صاف گوئی یا ضد کہ سکتے ہیں مگر پھرانہیں پی پی پی کا اتحادی بن کر الیکشن نہیں
لڑنا چاپیے تھا۔
1990
کے بعد وہ کتابیں لکھتے رہے کہ مشرف آمریت میں ان کے بیٹے کو وزارت دی گئی تو وہ
بھی روشن خیال جدیدیت کے واہمے کا شکار
ہوئے۔2002 کے انتخابات سے قبل عمر اصغر خان نے وزارت سے مستعفی ہو کر بہت سی این
جی اوز اور ترقی پسندوں کے ہمراہ پارٹی بنائی تو اسے والد کی آشیرآباد تھی۔ مگر یہ
بیل بھی منڈھے نہ چڑھی کہ عمر کی اچانک مگر پرسرار موت نے ائیرمارشل کو شل
کردیا۔آخری سالوں میں انھوں نے اپنی بچی کچھی پارٹی کو عمران خان کی جھولی میں ڈال
دیا۔
بطور
منتظم انھوں نے پاکستان ائیرفورس کو ایک لاجواب بنیاد مہیا کی کہ یہ تمغہ تادیر
دمکتا رہے گا۔انھوں نے آئی جے آئی کے
لیڈروں میں ریاستی ادارے کی طرف سےرقمیں
بانٹنے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا اور ڈٹے رہے حلانکہ یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں تھا مگر اس نے
بہت سے بند ذہنوں کو جھنجوڑ ڈالا۔1901 میں وائس رائے ہندلارڈ کرزن نے اک جدیدجاسوسی کا بندوبست بنانے کا حکم جاری کیا تھا جو بقول
پیٹرک فرنچ 1911 تک حجام کی دکانوں تک اس بندوبست کو مکمل کرتے ہوئے رپورٹ کر دیا
گیا تھا کہ قبل اور بعداز تقسیم کی سیاست میں اس کا اثر کلیدی۔پاکستانی سیاست میں انتخابی دھاندلیوں کا پہلا الزام
مارچ 1951 میں پنجاب کے انتخابات میں لگا تھا جس میں آئی سی ایس افسران اور خفیہ
اداروں کی مداخلتوں کی طرف اشارے کرتے ہوئے اخبارات نے جھرلو کی سرخیاں لگائیں
تھیں۔یہی نہیں بلکہ انتخابات سے ایک دن قبل اک سازش کا انکشاف کرتے ہوئے کیمونسٹ
پارٹی کے پنجابی کامریڈوں بشمول انقلابی شاعر فیض احمد فیض کو گرفتار کیا گیا تھا
کہ غداری ، کرپشن اور دباو کا ''گھما'' بہت عرصہ
سےسیاسی مداخلتوں کا جزولاینفک۔آئی جے آئی
کا کیس اسی سلسلہ کا حصہ تاہم اصغر خان اس کے ذریعے جس بندوبست کو للکارتے
رہے اس کے کل پرزے آج ہر سرکاری و غیر سرکاری ادارے بشمول میڈیا میں جڑیں رکھتے
ہیں۔1996 میں ائیرمارشل نے یہ کیس دائر کیا تھا کہ 1999 میں فیصلہ محفوظ کر دیا
گیا۔12 سال بعد جب بظاہر عدالتیں آزاد ہو چکی تھیں تو بڑے دھوم دھڑکے سے اس کیس کو
دوبارہ کھول دیا گیا کہ 2012 میں اک تاریخی فیصلے میں عدالت نے کسی کو خود طلب کرنے سے اجتناب ہی کیا۔جنرل
حمید گل اور جنرل مرزا اسلم بیگ تو کھلے عام
اس بارے ایک سے زیادہ بار اقرار کر چکے تھے مگر ان کو بھی عدالت طلب نہ کر
سکی۔اس کیس کو کسی ایک جماعت یا ادارے کی نظر سے دیکھنے کا رجحان تو بہت حلقوں کو
سوٹ کرتا ہے مگر مسلہ اس قدر سادہ نہیں جیسے میڈیا میں پیش کیا جاتا ہے۔جب پتہ چل
جائے کہ حمام میں سب برہنہ ہی ہیں تو مٹی پاو پالیسی کو قومی مفاد میں چلایا جاتا
ہے۔
انھوں
نے ببانگ دہل کہا کہ انڈیا پاکستان کو ختم
نہیں کرنا چاہتا اور 1948 کی کشمیر جنگ سے کارگل تک تمام جنگیں پاکستان نے شروع
کیں۔یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا کہ فوج کا بجٹ کم کیے بغیر صحت، تعلیم وغیرہ پر رقم
نہیں لگ سکتی۔مگر ان کی حب الوطنی مشکوک نہ ٹہری۔یہ بھی اصغر خان ہی تھے جنھوں نے
بتایا کہ اگر1948 کے کشمیر جہاد میں خان
قیوم خان کے بھیجے جہادی لشکر لوٹ مار نہ کرتے تو وہ بھارتیوں سے پہلے سری نگر
ائیرپورٹ پر آسانی سے قبضہ کر سکتے تھے۔ان کی کہی اور لکھی باتوں پر بحث تو ہو
سکتی ہے مگر جس جرات سے انھوں نے یہ سب
باتیں کیں اسے ضد یا صاف گوئی کہیں تب بھی
اس کی بازگشت تادیر مورخین کو ستاتی رہے گی۔بطور سپاہی وہ ائیرفورس ہی نہیں بلکہ فوج،
نیوی اور تمام سیکورٹی اداروں کے لیے روشن مثال رہیں گےاور بطور دانشور مورخ انہیں
بھول نہیں سکتا۔
No comments:
Post a Comment