Sunday, August 19, 2018

غربت،پسماندگی،مضبوط مرکز،نئے صوبے اور وفاق کا استحکام: مجبوریاں،امیدیں و خدشات


غربت،پسماندگی،مضبوط  مرکز،نئے صوبے اور وفاق کا استحکام
مجبوریاں،امیدیں و خدشات

عامر ریاض

تحریک انصاف  خیبر پختونخوا ، پنجاب اورمرکز میں ''اقتداری'' ہو چکی ہے ۔ پنجاب میں انھوں نے جنوبی پنجاب سے بزدار بلوچ قبیلے کے سردار (تمن دار) کو  وزارت اعلی کے لیے چنا ہے۔ بلوچستان میں وہ  نومولود بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) کے اتحادی ہیں جبکہ بلوچ رہنما اختر مینگل مرکز میں اس پارٹی کے اتحادی ہیں۔ سندھ کی دو پارٹیاں جی ڈی اے اور ایم کیو ایم بھی تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔گو کہ مرکز میں ان کے پاس اتحادیوں سمیت صرف 176 ووٹ ہیں جو کم از کم کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے انتہائی ناکافی ہیں۔یہی نہیں بلکہ وفاقی کابینہ میں  اتحادی پارٹیوں کو ضرورت سے زیادہ وزارتیں دینے کی پیچھے بھی یہی مجبوریاں آڑے رہیں۔سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ حذب اختلاف کی جماعتوں کے پاس150 سے زائد سیٹیں ہیں۔حذب اختلاف نہ صرف قومی اسمبلی میں بہت تگڑی ہے بلکہ وفاقی اکائیوں   کی علامت سینیٹ میں تو اس کی اکثریت ہے۔تاہم پی پی پی کے بطور بی  ٹیم کام کرنے کی وجہ ہی سے سٹیبلشمنٹ اپنے ایجنڈے پر بخوبی عمل پیرا ہے۔مشترکہ صدارتی امیدوار لانے کی بجائے پی پی پی نے اپنا امیدوار کھڑا کر کے  پی ٹی آئی کے لیے رستہ ہموار کر دیا ہے۔یہ بندوبست کب تک چلتا ہے   کہ شاخ نازک پر بنے آشیانے کو ہر وقت کھٹکا لگا رہے گا۔البتہ دھاندلیوں اور الیکشن کمیشن کی کمزوریوں وکارکردگی کے حوالے سےپارلیمانی کمیشن بنا کر نئے رستے نکل سکتے ہیں جس کی وجہ سے پی ٹی آئی پر اتحادیوں کا دباو بھی کم ہوتا جائے گا۔
یہ ہیں وہ حقائق جن کی موجودگی میں پی ٹی آئی کو اپنے منشور پر بھی عمل کرنا ہے جو کسی بھی پارٹی کی سیاسی مجبوری ہوتی ہے۔انہیں ہر دم عوام خصوصا اپنے چاہنے والوں کو  یہ یقین دلانا ہوتا ہے کہ وہ جو وعدے کر کے آئے ہیں انہیں بھولے نہیں۔
پی ٹی آئی کے  انتخابی منشور  میں تیسرا باب ''وفاق پاکستان میں استحکام'' ہے جس میں پارٹی نے کچھ اہم وعدے کیے ہیں جن کا تعلق فاٹا کے انضمام، بلوچستان میں مفاہمت،گلگت بلتستان کے حقوق، کراچی کی اصلاح، جنوبی پنجاب صوبے بارے  بحث شروع کروانے، دیار غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کی شرکت بڑھانے کے ساتھ ساتھ صنفی مساوات اور اقلیتوں کے حقوق سے ہے۔ ان میں سے زیادہ تر مسلوں کا تعلق براہ راست آئین سے  بھی ہے اور قومی سلامتی سے متعلق پالیسی سے بھی۔ان مسائل پراپوزیشن سے تصفیہہ تو دور کی بات، خود اتحادی جماعتوں میں بھی اتفاق نہیں۔ان گونہ گوں مگر اہم مسائل پر بحث کے لیے  پارلیمان ہی نہیں بلکہ پارلیمان سے باہر وسیع تر مشاورت کی ضرورت ہے۔2008 اور 2013 کی حکومتیں 18ویں ترمیم اور الیکشن ایکٹ 2017 پاس کرواتے وقت بھرپور سیاسی تناو کے باوجود ایسے امتحانوں سے  کامیابی سے گذریں ہیں۔اس لیے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ  دوسرے جمہوری تسلسل کے بعد بننے والی سرکار بھی  پارلیمان کے ذریعے  بہت سے اہداف حاصل کر سکتی ہے۔ مگر اس کے لیے کلیدی کردار حکومت وقت ہی کا رہے گا۔
نئے صوبوں کی بحث کرتے ہوئے پارٹی کے منشور میں اکائیوں یعنی صوبوں میں توازن کی بات کرتے ہوئے پسماندگی اور غربت  کا حوالہ دیا گیا ہے۔پاکستان میں بجا طور پر پسماندگی اور غربت ایک بڑا مسلہ ہے  مگر اس کو اگر حل کرنا ہے تو اس کو جانچنے کا پیمانہ صوبوں کی بجائے اضلاع ، تحصیلوں اور یونین کونسلوں کو بنانا ہو گا۔ پسماندگی اور غربت کا شکار لوگوں کی ایک بڑی تعداد تو شہروں میں رہ رہی ہے جس میں بہت سی وجوہات کی بنا پر آئے دن اصافہ ہو رہا ہے۔خود دیہات میں رہنے والے غریب روٹی روزگار کے لیے دھڑا دھڑ شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔آپ ڈیٹا کے مطابق اعداد و شمار دیکھ لیں کہ اضلاع، ٹاون اور تحصیلوں کے حوالے سے پسماندگی و غربت  کی کیا صورتحال ہے۔یو این ڈی پی کی ملٹی ڈیمنشل انڈکس برائے غربت، ایم پی آئی  کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ  غربت فاٹا اور بلوچستان میں ہے جو 73 اور 71 فیصد بتائی گئی ہے۔اس کے بعد سب سے زیادہ غربت خیبر پختونخوا میں 49٪ ہے۔گلگت بلتستان اور سندھ43٪ سے اس کے بعد آتے ہیں جبکہ پنجاب میں غربت کا تناسب 31٪ ہے۔اب اگر ان اعداوشمار کو اضلاع و تحصیلوں میں منقسم کر کے دیکھا جائے تب یہ راز کھلے گا کہ ان صوبوں کے کون سے اضلاع و تحصیلیں غربت و پسماندگی میں زیادہ بری صورتحال کا شکار ہیں۔یو این ڈی پی کی حالیہ رپورٹ ،میں جن 26 اضلاع کو غربت  میں سب سے نیچے بتایا گیا ہے  ان میں پنجاب کا ایک بھی ضلع شامل نہیں۔ان میں تین، تین  اضلاع  توسندھ اور خیبر پی کے میں ہیں جبکہ 20 بلوچستان۔البتہ درمیانے درجے کی غربت کے اشاریے میں چاروں صوبوں کے اضلاع شامل ہیں۔یہاں بھی اگر اضلاع اور تحصیلوں کو معیار مانا جائے تو غربت سے اٹے علاقوں کی نشاندہی مشکل نہیں۔ صوبوں کو تو گذشتہ دس سالوں سے بہت پیسے بھی مل رہے ہیں مگر اضلاع و تحصیلوں تک وہ پہنچ ہی نہیں پاتے۔ خود پی ٹی آئی منشور کے باب دوم اور چہارم میں مقامی حکومتوں کو مضبوط کرنے اور شراکتی ترقی کی جو بات اٹھائی گئی ہے وہ بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ  پسماندگی اور غربت جیسے مسائل پر معاشی عدم مرکزیت کے بغیرقابو نہیں پایا جا سکتا۔ جیسے 18ویں ترمیم  میں صوبوں کی سطح پر معاشی عدم مرکزیت کرتے ہوئے مختض رقوم خودبخود صوبوں کو منتقل ہو جاتی ہیں ویسے ہی اضلاع، تحصیلوں اور یونین کونسلوں تک  فنڈز اور ذمہ داریاں بشمول ترقیاتی پراجیکٹ منتقل کرنے ہوں گے۔
 اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ نئے صوبے بنانے کی بحث کو دفنا دیا جائے ۔ نئے صوبوں کا مطالبہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر چاروں صوبوں میں کیا جاتا رہا ہے۔ اس بارے اگر پارلیمان کی نگرانی میں قومی کمیشن  بنا دیا جائے تو  مختلف وجوہات و پہلوں پر تفصیلی بات ہو سکتی ہے۔ اب وسطی پنجاب اور کراچی والوں کا یہ اصرار ہے کہ وہ ٹیکس بہت دیتے ہیں۔ ایسے ہی  سندھ کے ایک لیڈر نے کہا کہ کیونکہ سندھ کا  تاریخی  تسلسل ہے تو یہ منقسم نہیں ہونا چاہیے۔ پختون قوم پرست ایک پٹھان صوبے کی بات  کرتے ہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ چار صوبوں پر مشتمل اس اکائی کو کسی تعصب یا تفاخر کے تحت  ایک طرف سے ادھیڑنے کی کوشش کی گئی تو بات کہاں سے کہاں نکل جائے گی اس بارے بھی غور کرنے کا وقت یہی ہے۔تاہم ماضی کا تجربہ گواہ ہے کہ قومیتی، لسانی  و ثقافتی رنگا رنگی کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے یہ مسائل بگاڑ کی طرف گئے ہیں نہ کہ ہم آہنگی کی طرف۔یہ سب باتیں توجہ طلب ہیں کہ اگر پی ٹی آئی سرکار حذب اختلاف کے ساتھ مل کر اس بحث کو شروع کرنے کا فورم بنا دے تو ہم بحثیت قوم کسی تصفیہے کی طرف بڑھ سکتے ہیں اور یہی استحکام پاکستان  کے لیے خوش آئیند بھی ہو گا۔تاہم اس میں کلیدی کردار حکومت وقت یعنی پی ٹی آئی ہی کا ہو گا کہ وہ  تنازعات سے کھیلنا چاہتے ہیں یا  نئے رستوں کے متلاشی ہیں۔
Report of UNDP MPI
http://www.pk.undp.org/content/pakistan/en/home/presscenter/pressreleases/2016/06/20/pakistan-s-new-poverty-index-reveals-that-4-out-of-10-pakistanis-live-in-multidimensional-poverty.html

District wise poverty in Pakistan
https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_districts_of_Pakistan_by_Human_Development_Index

No comments:

Post a Comment

Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...