Ranjit Singh & his Political Sensibility Part 2
In order to understand last 250 years history of Punjab, Sindh, KyberPK, FAtA, Kashmir, Hazara, Kabul, Jammu, Batistan & Baluchistan it is essential to revisit about Lhore Darbar & Maharaja Ranjit Singh. Without understanding trade, trade roots (both land & water), governance patrons, Who is who in Lhore Darbar, international powers of that period it is not possible to revisit our common past.''لہور دربار'' کو قابو کرنے کی نئی مہمیں شروع ہوتی ہیں جس کی منصوبہ بندیوں میں دلی کے پرانے عربی کالج کا بھی کردار رہا جسے جدید سطح پر استوار کیا گیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس نے میکٹاف سے بڑے پولے منہ سے استفسار کیا، ''تمہارے خیال میں نپولین کو لہور دربار تک آتے آتے کتنا وقت لگے گا؟''۔ میکٹاف سمجھا کہ رنجیت نپولین کے خطرے والے جال میں آ گیا ہے، اس لیے تھوڑا نخرہ کر کے بولا کہ چھ مہینے میں۔ اس پر رنجیت سنگھ نے کہا پھر تو فوری فکر کی کوئی بات نہیں۔ یہ ہشیار جواب سن کر میٹکاف چکرا گیا اور کلکتہ لکھے خط میں مہاراجہ کی سفارتی سمجھ بارے لکھا جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔
تاہم رنجیت یہ جانتا تھا کہ اگر فوری خطرے یعنی انگریزوں کو، کسی ایک طے شدہ حد تک روک لیا جائے تو وہ زیادہ محفوظ ہو جائے گا۔ جب 1809 میں میکٹاف رنجیت سے معاہدہ کرنے دلی سے آیا تھا تو رنجیت دریائے ستلج کے پار علاقوں میں سرگرم تھا۔
میکٹاف نے لکھا ہے کہ رنجیت کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے مشاورتی کونسل سے بات کرتا ہے جس میں فقیر عزیزالدین اور دھیان سنگھ جیسے زیرک وزیر شامل ہیں۔ اس نے یہ بھی اعتراف کیا کہ رنجیت مشاورتی کونسل کے مشورے پر اپنے فیصلے بدل بھی لیتا تھا۔
''میکٹاف مشن ٹو لاہور'' نامی کتاب میں لکھا ہے کہ دھیان سنگھ انگریزوں سے کسی بھی قسم کا معاہدہ کرنے کے خلاف ہے جبکہ فقیر ذرا دھیمے انداز میں بات کرتا ہے اور انگریزوں سے لین دین کو رد نہیں کرتا۔ رنجیت دونوں کے دلائل بڑے غور سے سنتا ہے اور ہر ایک سے بہت زیادہ سوال کرتا ہے۔
Link of complete Article part 2
Link of Part 1
No comments:
Post a Comment