سردھر تلی، گلی مری آو
اک عدالتی قتل ، جس سب
کجھ ایکسپوز کر دتا
بھٹو کی پھانسی سے قبل
اور بعد کا پاکستان کیوں مختلف ہے
عامر ریاض
سیاست میں مذاحمت اور مفاہمت، اک پنتھ دو کاج کی طرح ہمیش مقدم رہتے ہیں۔اگر ٹارگٹ واضح ہو تو مفاہمت بھی مذاحمت کا اک روپ قرار پاتی ہے اور ٹارگٹ یعنی مقصد ہی نظروں سے اوجھل ہوتا جائے تو پھر مذاحمت بھی سراب کہلاتی ہے۔
چاراپریل 1979 کے بعد پاکستانی سیاست میں عوام کی اکثریت یہ راز جان چکے تھے کہ حکومت اور ریاست کوئی اور چلا رہا ہے اور
عدالتیں، میڈیا، سرکاری ادارے سب حکم کے غلام ہیں۔ بس اس دن کے بعد سے اب تک اس
ملک پاکستان میں ایک ہی جدوجہد جاری ہے جسے آج ''ووٹ کو عزت دو'' کہتے ہیں تو کل
بحالی جمہوریت کہتے تھے۔ صوبوں کے حقوق، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی، عدلیہ اور
میڈیا کی آزادی، اداروں میں مداخلتوں کا خاتمہ اور قانون کی حکمرانی اس جدوجہد کی
مختلف شکلیں ہیں۔ ان گذرے 42 سالوں میں یہ لڑائی اور جدوجہد بہت آگے بڑھ چکی ہے
اور اس کا ٹارگٹ جتنا آج واضح ہے اس کی مثال ماضی میں ملنا مشکل ہے۔آج سلیکٹڈ کے
ساتھ ساتھ سیلیکٹروں کی بات طمطراق سے کی
جا رہی ہے۔
ایک عدالتی فیصلہ کیسے
سیاست، انصاف، راج نیتی اور اداروں کو پراگندہ کر سکتا ہے اس کی نمایاں ترین
مثالوں میں بھٹو کیس جیسا اہم ترین
مقدمہ بھی شامل ہے۔جو کچھ آج جسٹس قاضی
فائزعیسی اور میاں نواز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے اس کے ماضی کے تسلسل کو جاننے کے
لیے بھی بھٹو کیس انتہائی اہم دستاویز ہے۔آج سے 42 برس قبل ضیائی آمریت کے دور میں
ملک کے سب سے مقبول اور ہردلعزیز رہنما کو محض 51سال اور تین مہنیے کی عمر میں
تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔ طاقت، گھمنڈ اوربغض میں بھٹو کو پھانسی دینے والے یہ راز نہ جان پائے کہ وہ اپنے ہاتھوں سےپاکستانی سیاست کو اک ''منصور'' دئیے جا رہے ہیں۔ضیائی
آمریت میں محض سیاسی کارکنوں پر افتاد نہیں پڑی تھی بلکہ بھٹو پر ہونے والے منظم حملے کی زد میں کئی سول
ملٹری افسر،جج اور سرکاری ملازمین بھی آئے تھے کہ یہ ان کہی کہانی ابھی لکھی نہیں
گئی۔ جج صفدر شاہ کی کہانی تو بہت سوں نے لکھی ہے جنھیں جج ہوتے ہوئے وطن عزیز سے
افغانستان اورلندن کا رخ کرنا پڑا مگرنصر من اللہ کی بابت بہت کم لکھا گیاجن کا
بڑا جرم یہی تھا کہ وہ جج صاحب کے داماد
بھی تھے اور بھٹو حکومت کے خاتمہ کے وقت صوبہ بلوچستان کے چیف سیکٹری بھی
تھے۔وہی بلوچستان جو ماضی قریب کی تاریخ میں حکومتیں گرانے کی کمیں گاہ بنایا ہوا
ہے۔سیدہ حمید بھٹو بارے لکھی اپنی کتاب
میں لکھتی ہیں کہ نصر من اللہ بھٹو دور کے واحد چیف سیکٹری تھے جن
پر ضیائی دور میں الیکشن میں دھاندلیاں کروانے کا الزام لگایا گیا تھا۔
5 جولائی 1977 سے 4 اپریل
1979 کے درمیان گذرے 21 مہینوں کی داستان تاریخ پاکستان کا وہ انمٹ سیاہ باب ہے جس
بارے گذشتہ 42 برس میں کالموں اور کتب میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے مگر نصابی کتب
میں اس کی جھلک شامل کرنا بھی ''قومی مفاد ''کے خلاف گردانا جاتا ہے۔ان 21 مہینوں
میں بھٹو کی رہائی کے حق میں اور ضیائی
آمریت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کا
ہراول دستہ پنجاب تھا اور زیادہ تر پکڑ دھکڑ بھی لاہور سے پنڈی تک پھیلی جی
ٹی روڈ کے ارد گرد پھیلے پنجابی شہروں ہی
میں ہوئی۔ضیا ایک سوچی سمجھی سکیم کے ساتھ
اقتداری ہوا تھا کہ افسرشاہی، عدلیہ، میڈیا اورسیاستدانوں میں ایسے افراد ڈھونڈے گئے جن کا کبھی نہ کبھی بھٹو سے اختلاف رہا تھا۔سری
لنکا کی سپریم کورٹ کے جج اور رکن پارلیمنٹ راجہ رتنام اپنی انگریزی کتاب ''بحران میں گھری عدلیہ:ذولفقار علی بھٹو
کا ٹرائل''میں لکھتے ہیں کہ جب بھٹو کا تختہ الٹا گیا تو جج مولوی مشتاق حسین
یورپ میں تھے مگر ضیا نےانہیں واپس بلایا اور لاہور ہائیکورٹ کا عبوری چیف جسٹس لگا دیا۔یوپی کے شہر سہارن پور
سے تعلق رکھنے والے مولوی مشتاق سمجھتے
تھے کہ وہ لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس
بننےکے حقدار تھے مگرچھٹی آئینی ترمیم کی وجہ سے بھٹو نے ایسا نہ ہونے
دیا۔مارشلا لگانے کے بعد بھٹو کو مری اورایبٹ آباد رکھا گیا تھا ۔ اپنی سوانح''جہد مسلسل '' میں بابائے سوشلزم شیخ
رشید نے بڑی تفصیل سے ان دنوں بارے لکھا ہے۔ عوامی ردعمل کو بھانپتے ہوئے مارشلا
لگاتے ہی ضیا نے انتخابات کا اعلان کر دیا اور یہی تاثردیا کہ اس نے مارشلا بھٹوکو
بچانے کے لیے لگایا ہے۔شیخ رشید نے 26 جولائی 1977 کو پیپلزپارٹی کے رہنماوں کے
ساتھ بھٹو کی میٹنگ کا لکھا ہے جس میں وہ بقلم موجود تھے۔ ایسے ہی 28 جولائی
کو بھٹو کی مولانا مفتی محموداور پی این اے کے دیگر زعما سے''حفاظتی حصار''
میٹنگ ہوئی جس کا ذکر آئینی جدوجہد پر لکھی کتاب میں وکلا تحریک کے رہنماحامد خان
نے کیا ہے۔ 2 اگست کو ضیا نے اکتوبر کی 18تاریخ کو الیکشن کروانے کا اعلان کر
دیا۔دوسری طرف حیدر آباد سازش کیس کے ملزمان کو
غداری کیس سے بری کرتے ہوئے پختونوں اور بلوچوں کو رام کیا گیا،مگر ضیا
ساتھ ساتھ اپنے ایجنڈے کی طرف مسلسل بڑھ
رہا تھا۔وریں اثنا 1974 میں قتل ہونے والے نواب احمد خان کی ایف آئی آر پر چلنے
والے کیس کی بابت 27 اگست کے دن چپکے سے کہا
گیا کہ ریاست اس کیس میں چلان پیش کرے۔اس ضمن میں حامد خان نے 28 اگست 1977 کے ڈان
اخبار کی خبر کا حوالہ بھی دیا ہے۔یہی نہیں بلکہ ایف ایس ایف کے سابق سربراہ مسعود محمود کو بھی
رام کر نے کی مہم شروع ہو گئی۔ اس دوران بھٹو صاحب جلسے بھی کر چکے تھے جس میں شیخ
صاحب نے لاہور کے فقیدالمثال جلسے بارے لکھا ہے۔ 3 ستمبر 1977 یعنی انتخابات سے45
دن قبل ایجنڈا کھلنے لگا اوربھٹو صاحب کو صبح 70 کلفٹن سے نواب احمد خان کے قتل کے
الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔یہی وہ دن تھا جب ضیا شاہی کھل کے بھٹو مخالف ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے
لگی اور ضیا نے الیکشن ملتوی کرنے کا اشارہ بھی اسی دن دے دیا۔ بھٹو کا کیس سیشن
کی بجائے اب ہائیکورٹ میں آ گیا اور6 ستمبر کو لاہور ہائیکورٹ میں درخواست ضمانت
بھی جمع ہو گئی۔13 ستمبر کو جب لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صمدانی نے بھٹو کی ضمانت
لے لی تو چند دن کے لیے لگا کہ ضیا شاہی کے طوطے اڑ گئے ہیں۔مگر چار دن بعد ہی
مارشلا حکمنامے کے تحت بھٹو کو ہائیکورٹ
کا آڈر اڑاتے ہوئے دوبارہ گرفتار کر لیا
گیا۔عدالتیں اس تمام عمل کو خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہیں۔ 17 ستمبر سے 18 مارچ
1978 کے دوران ہماری عدالتی و سیاسی تاریخ میں جو چمتکار ہوئے ان میں نمایاں ترین
چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تبدیلی تھی جس کی تاریخ 22 ستمبر 1977 ہے۔تبدیل ہونے والے
جسٹس یعقوب علی خان اور نئے آنے والے جسٹس انوار الحق دونوں ہی کا تعلق پنجاب کے
ضلع جلندھر سے تھا کہ خود ضیا الحق کا خاندان بھی جالندھر ہی سے آیا تھا۔جب ایجنڈا
بڑا ہو تو ذاتوں اور صوبے کی اہمیتیں ثانوی رہتیں ہیں مگر بعدازاں توجہ ہٹانے کے
لیے انہیں مطلبی تشریح دی جاتی ہے۔فوجی عدالتوں کے ذریعے بائیں بازو بشمول پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور لیڈروں کی بڑے
پیمانے پر پکڑ دھکڑ کا زمانہ بھی یہی ہے۔مجھے قذافی سٹیڈیم کا وہ دن کبھی نہیں
بھول سکتا جب ہم گوالمنڈی سے انگلینڈ اور
پاکستان کا کرکٹ میچ دیکھنے گئے تھے کہ تاریخ تھی 16 دسمبر1977۔میری اپنی عمر 11
سال اور دو مہنیے تھی۔دوران میچ جیسے ہی نوجوان بے نظیر بھٹو اپنی جہاندیدہ
والدہ بیگم نصرت بھٹوکے ساتھ میچ دیکھنے
آئیں تو سٹیڈیم ضیا مخالف نعروں سے گونج اٹھا تھا۔پولیس نے بے دریغ لاٹھی چارج کیا
اور نصرت بھٹو پر حملہ بھی ہوا اور بے
نظیر بھٹو نے عالمی میڈیا کو صاف بتا دیا
کہ ضیا الحق بھٹو کا عدالتی قتل چاہتا
ہے۔واپسی پر قذافی سٹیڈیم سے گوالمنڈی تک کئی میل کے پیدل سفر میں جگہ جگہ جل چکی
بسیں، ٹائر اور پولیس کی پھرتیاں دیکھنے کو ملیں جو اس عوامی ردعمل کی اک جھلک
تھی۔انصاف کے قتل عام کی تیاری مکمل تھی کہ 18 مارچ کو لاہور ہائیکورٹ کے فل
بینچ نے وہی کیا جو ایجنڈا خاص تھا اور
بھٹو کو پھانسی سنا دی گئی۔اس دن کا احوال لکھتے ہوئے بابائے سوشلزم بتاتے ہیں کہ
میں کوثر علی شاہ کے مکان واقع گلبرگ
لاہور پر تھا کہ رات 8 بجے ایس ایم مسعود
کے گھر جنرل رٹائر ٹکا خان سے ملاقات میں آگے کی حکمت عملی بارے میٹنگ
ہوئی۔اس وقت بھی کچھ لیڈر بشمول ملک معراج خالد مفاہمت کی بات کرتے تھے اور شیخ
رشید کو مہم جو کہتے تھے۔اپنی کتاب کے صفحہ 248 پر شیخ رشید نے جو بات لکھی ہے وہ
آج کی سیاست پر بھی صادق آتی ہے اور جب تک جدوجہد ہوتی رہے گی یہ بحث بھی جاری رہے گی۔شیخ صاحب '' باغباں خوش
رہے، راضی رہے صیاد بھی'' والی پالیسی کے بجا طور پر ناقد تھے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پارٹی میں بہت سے رہنما ان
سے متفق نہ تھے جن میں سے کچھ کے نام بھی انھوں نے لکھے ہیں۔ بہرحال یہ طے ہوا کہ 20 مارچ
سے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا جائے اور
پہلی گرفتاری سابق آرمی چیف جنرل رٹائرڈ ٹکا خان دیں گے۔مرکزی جنرل سیکٹری یاسین وٹو تک اس پالیسی سے متفق نہیں تھے۔ٹکا
خان کی گرفتاری ایک بڑی خبر تھی جس کو عالمی میڈیا نے بھی پک کیا۔مگر اس کے
بعد حکمت عملی بارے اندرونی اختلافات اور
دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے گرفتاریوں کا
سلسلہ چل نہیں سکا البتہ کارکنوں نے
مذاحمتی جدوجہد جاری رکھی۔ 28 مارچ 1978 سے 4 اپریل 1979 کا عرصہ یوں تو ایک سال 9 دنوں پر محیط ہے مگر اس
دوران کراچی، اندرون سندھ، کوئٹہ، پشاور میں
مذاحمت کی کیا شکلیں تھیں تب جا کر تجزیہ مکمل ہو سکتا ہے۔بھٹو کیس اب
سپریم کورٹ میں تھا کہ جس کی تیاری ایجنڈے کے مطابق پوری تھی۔بھٹو کی عدالت میں کی
تقاریر اور بیانات تاریخ کا انمٹ حصہ ہیں۔6 فروری کو سپریم کورٹ نے بھٹو کی پھانسی
پر مہر لگا دی جبکہ جن تین ججوں نے اس سے اختلاف کیا تھا انھوں نے بھی رویو پٹیشن
میں باقی ججوں ہی کا ساتھ دیا۔یاد رہے کہ پورے عدالتی سسٹم کو یرکاتے ہوئے دس فروری 1979
کو ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق نےیہ اعلان بھی کر دیا کہ عدالتی نظام کو اسلامی نظام کے
تحت بدل دیا جائے گا۔4 اپریل کی صبح بھٹو کو پھانسی دی دی گئی، اس کی بیگم اور
بیٹی کو بھی جنازہ میں شرکت نہ کرنے دی مگر اس قتل ناحق نے بھٹو کو امر کردیا۔آج
42 سال بعد بھی بھٹو وطن عزیز میں اک
جدوجہد کی زندہ علامت ہے کہ اس کے مخالفین بھی
بھٹو ہی کا دم بھرتے ہیں 42 سال بعد پوری قوم وہی کہہ رہی ہے جو بھٹو مرحوم
کہتے کہتے تختہ دار جھول گئے۔مفاہمت اور مذاحمت کی تاریخ خود اپنے تائیں اک صبر آزاما بحث کی
متقاضی ہے مگر جب ٹارگٹ واضح ہو جائے تو پھر صورحال میں یکسر تبدیلیاں وقوع پذیر
ہو جاتی ہیں جیسا کہ آج ہم سب مشاہدہ کر رہے ہیں۔اسی لیے 18ویں صدی کے مشہور
پنجابی صوفی شاعر کی یہ بات حاصل بحث ہے کہ
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور
Further readings
No comments:
Post a Comment