Wednesday, December 9, 2015

NAP, Combating Extremism & Terrorism & Our biased TextBooks



Learn How to Unlearn

NAP, Combating Extremism & Terrorism & Our Biased Textbooks

Published in Dawn Urdu blog
We South Asians are product of textbooks we read in schools.
.
Extremism is mother of terrorism and if textbooks of both public and private schools are promoting prejudices, prides and biases then it means we are no ready to tackle extremism at all. Read the piece which has images of textbook writings and try to unlearn what you read in schools.

ہماری نصابی کتب اور قومی ایکشن پلان



نفرت سے بھری نصابی کتب اور قومی ایکشن پلان کا المیہ
عامر ریاض

جس ملک میں نصابی کتب میں نفرتوں، قانون شکنیوں اور کدرتوں کی بھرمار ہو، جس ملک میں خود اساتذہ تعصبات (prejudices) کی عملی تصویر ہوں، دانشور و میڈیا تجزیہ کرتے ہوئے مذہبی، لسانی، قومیتی اور فرقہ وارانہ ترجیحات کو اولیت دیتے ہوں اور ریاستی ادارے بھی انہی تعصبات کو مقدم رکھیں وہاں بھلا قومی ایکشن پلان کیونکر کامیاب ہو سکتا ہے؟
دنیا بھر کے تعلیم ماہر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اگر آپ کی سکول ایجوکیشن بردباری، قانون کی حاکمیت، جدیدیت اور رنگا رنگی (Diversity)کی ترویج نہیں کرتی تو آپ کی نئی نسل کنفیوژن، لاتعلقی اور آزادی کے واہمہ (Illusion of Freedom) میں غلطاں ہو کر لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ کی عملی تصویر بن جاتی ہے۔ بالعموم جنوبی ایشیا اور بالخصوص پاکستان ایسی ہی صورتحال کا شکار ہے۔
میں گذشتہ 10 سال سے پاکستان کی تعلیم بندوبست پر کام کر رہا ہوں۔ 2007ءمیں ایک قومی کمیشن (1998-2010ءکی تعلیمی پالیسی کا وسط مدتی جائزہ) کے ساتھ بطور محقق کام کرتے ہوئے مجھے 1947ءسے تادم تحریر 13 سے زیادہ سرکاری تعلیمی دستاویزات تفصیل سے پڑھنے کا موقع ملا۔ 2010ءاور 2015ءمیں دو بار میں نے سرکاری سطح پر چھپنے والی نصابی کتب کا جائزہ لیا اور پانچ مضامین یعنی اُردو، انگریزی، اسلامیات، مطالعہ پاکستان اور اخلاقیات کی دسویں جماعت تک نصابی کتب کو جستہ جستہ پڑھا۔ اس دوران نجی Privateسکولوں میں پڑھائی جانے والی انہی مضامین کی کتب کو بھی دیکھا جن میں اشرافیہ (Elite) کے سکولوں سے لے کر 200 روپےسے کم فیس والے سکول بھی شامل تھے۔ علاوہ ازیں 2009ءسے تسلسل سے سرکاری و نجی سکولوں میں جا کر اساتذہ اور دیگر عملہ سے ملاقاتیں بھی کیں اور تعلیمی ماحول کا جائزہ بھی لیا۔ ان تمام تر تفاصیل کو دینے کا مقصد یہی ہے کہ اگر ہماری نجی و سرکاری سکول انتہاءپسندیوں کو بڑھانے کی نرسریاں ہیں تو اس میں کوئی اچنبے کی بات نہیں۔ 1980ءکی دہائی سے ہم تعصبات اور نفرتوں سے لیس جو نسل تیار کر رہے ہیں ان میں سے بیشتر آج پاکستان کے سرکاری و نجی اداروں میں مختلف حیثیتوں میں براجمان ہیں۔ وہ اگر عورتوں اور اقلیتوں کے خلاف ہیں تو یہ وہ سبق ہے جو وہ سکول ایجوکیشن سے لے کر آئے ہیں۔ میں 1970ءسے 1980ءتک لاہور کے ایک سرکاری سکول میں پڑھا۔ مگر مجھے 10 ویں تک یہ معلوم نہ تھا کہ میری کلاس میں کس کس مسلم مکاتب فکر(فرقہ) تعلق رکھنے والے طالب علم ساتھی پڑھ رہے ہیں۔ مگر جو بچے 1990ءمیں سرکاری و نجی سکولوں میں پڑھ رہے تھے انہیں اس بات کا ادراک بھی تھا اور ان میں فرقہ وارانہ جراثیم بھی بدرجہ اتم موجود تھے۔ میں نصابی کتب میں تعصبات کے حوالہ سے کچھ مثالیں پنجاب کریلکم و ٹیکسٹ بک بورڈ کی 2014-15ءکی کتب سے دوں گا تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ ہم اپنے بچوں کو کیا پڑھا رہے ہیں۔ 2010ءتک سرکاری سطح پر تعصبات پر مبنی کتب چھاپنے کا فریضہ مرکزی کریلکم ونگ، وزارت تعلیم اسلام آباد تن تنہا ادا کرتا تھا مگر 18 ویں ترمیم کے بعد یہ بوجھ چاروں صوبوں کے ٹیکسٹ بک بورڈ اٹھا چکے ہیں۔ پنجاب میں تو پھر بھی 2010ءکے بعد غیر مسلموں کے لیے اسلامیات کی بجائے اخلاقیات کی کتب چھاپنے سمیت نصابی کتب میں کچھ قابل قدر اضافے بھی ہوئے ہیں مگر بالعموم نجی و سرکاری نصابی کتب میں تعصبات کی بھرمار تاحال ہمارا منہ چڑا رہی ہے۔ یہ تعصبات دیہی زندگی کے خلاف بھی ہیں اور مذہبی، فرقہ وارانہ تعصبات بھی ہیں۔ جن انتہاءپسندیوں کے خلاف لڑنے کا مصمم ارادہ قومی ایکشن پلان میں سول و ملٹری قیادتوں نے کیا ہے ان تعصبات کی نصابی کتب میں موجودگی اس ارادہ کی کاٹ ہے۔ آپ چند ایک مثالوں کا خود جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہماری نصابی کتب کیا گل کھلا رہی ہیں ۔ مطالعہ پاکستان جماعت 7ءص 57 اور مطالعہ پاکستان جماعت 8، ص 70 پر ہندوں کے خلاف یہ تحریریں موجود ہیں۔

ہم اپنی نصابی کتب کے ذریعہ نوخیز ذہنوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ ہندو عیار تھے، مسیحی مسلمانوں کے دشمن تھے تو پھر پاکستان میں بسنے والے لاکھوں ہند اور مسیحی کیونکر پاکستانی قومیت کاحصہ بنیں گے۔ یہی نہیں بلکہ جو مسلمان بچہ ہندوں اور مسیحیوں سے نفرتوں کو جزوایمانی بنا لے گا اسے تو انتہا پسندیوں اور دہشت گردیوں کی طرف دھکیلنے کے لیے کسی بھی انتہا پسند گروہ کو زیادہ تردد ہی نہیں کرنا پڑے گا۔ مذہبی منافرت پھیلانے کا کھیل انتہائی خطرناک ہوتا ہے کہ اس کے بطن سے فرقہ واریت جنم لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نصابی کتب میں مذہبی منافرت یعنی دوسرے مذاہب کی مخالفت بھی موجود ہے اور خود مسلم مکاتب فکر کے خلاف مواد بھی ہے۔ دوسری جماعت کی اُردو کی کتاب کے سبق نمبر 1، ص 95تا 97 میں لکھا ہے کہ مسلمان دو عیدیں مناتے ہیں۔ یہاں عید میلاد النبی کا ذکر ہے ہی نہیں۔ تیسری جماعت میں اسی بچہ نے عید میلادالنبی بارے ایک سبق بھی پڑھا۔ جبکہ جماعت 7 سبق نمبر19، ص 106 میں لکھا ہے کہ ہم عیدالفطر، عیدالاضحی اور عیدمیلادالنبی مناتے ہیں۔
اس طرح مطالعہ پاکستان جماعت 7 کے ص 79 اور ص 106 پر دو الگ الگ واقعات لکھے ہیں جنہیں شیعہ سنی اتحاد کے خلاف باآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایک واقعہ بہادر شاہ اوّل کے دور کا ہے جب خطبہ جمعہ اور اذان میں مسلکی بنیاد پر تبدیلی کی گئی تھی تو دوسرا واقعہ ٹیپو سلطان کے دور کا ہے۔ 2009ءتک تو اس واقعہ میں مسلک کا نام بھی لکھا جاتا تھا۔ اس کی نشاندہی میں نے 2010ءمیں چھپنے والی اپنی رپورٹ میں کی تھی۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ مذہبی منافرت اور فرقہ واریت پر مبنی واقعات کو نوخیز ذہنوں سے کچی عمر میں متعارف کروانے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں۔ اسی دوران مجھے اشرافیہ کے سکولوں میں پڑھائی جانے والی ساتویں جماعت کی کتاب بھی مل گئی جس میں بچوں کو جنگ جمل سے متعارف کروایا گیا تھا۔ مسئلہ یہ نہیں کہ یہ واقعات درست ہیں یا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ نوخیز ذہنوں کو کچی عمروں میں ان اختلافی واقعات سے متعارف کروانے کے مقاصد کیا ہیں۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ مطالعہ پاکستان کی 10 ویں کی کتاب میں ص 15 پر افغان جہاد کی عظمتیں گنائی گئی ہیں۔
یہ وہی جہاد ہے جس نے طالبان کو جنم دیا اور آج انہی طالبان سے نمٹنے کے لئے ہم ضرب عضب بھی کر رہے ہیں اور قومی ایکشن پلان بھی منظور کر چکے ہیں۔ جو مخصوص ذہنی رجحان ہم ان نصابی کتب سے پروان چڑھا رہے ہیں اس کی سب سے خوفناک مثال مفکر پاکستان علامہ اقبال کا خطبہ الٰہ آباد کا غلط اور گمراہ کن ترجمعہ ہے جو مطالعہ پاکستان جماعت 9 کے ص 11 پر چھپا ہوا ہے۔اس کی نشاندہی میں نے2010اور2015کی رپورٹوں میں کی تھی۔

Sir Muhammad Iqbal’s 1930 Presidential Address For Complete text click
Reference: Speeches, Writings, and Statements of Iqbal, compiled and edited by Latif Ahmed



خطبہ الٰہ آباد اصل متن میں ”اسلامی ریاست“ کی اصطلاح استعمال ہی نہیں کی گئی جبکہ اس ترجمے میں نہ صرف ”اسلامی ریاست“ کا اضافہ ہوا بلکہ ”منظم اسلامی ریاست“ کا ذکر خیر بھی ڈالا گیا۔ یقینا نصابی کتب لکھنے اور انہیں تیار کروانے والے علامہ اقبال اور قائد اعظم سے بھی زیادہ ”عقلمند“ ہیں اور وہ اپنے رہنماں کے بیانات میں ترمیم و اضافہ کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ 2010ءمیں جب میں نے پہلی بار پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی نصابی کتب کا جائزہ لیا تھا تو اس میں 23 مارچ 1940ءکو لاہور میں منظور کردہ تاریخی قرارداد پاکستان کے غلط و گمراہ کن ترجمہ کی نشاندہی کی تھی۔ ثبوت کے لیے میں نے مینار پاکستان جا کر اصل عبارت کی نقل بھی چھاپی تھی جو 1966ءمیں نصب کی گئی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ بورڈ نے اپنی غلطی تسلیم کر لی اور آج کل پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتب میں اصل قرارداد ہی چھاپی جاتی ہے۔ مگر یہ رویہ جس کے تحت ہم نصابی کتب میں تعصبات ڈالتے ہیں، بذات خودہمارے بچوں میں انتہا پسندیوں کو بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔
اسلامیات کی جماعت 8 کی کتاب کے ص 36، 48 اور 51 میں امر بالمعروف، جہاد اور اتحاد ملی کے حوالے سے سرخیاں دی گئیں ہیں۔




ان باتوں سے بچوں کو متعارف کرواتے وقت آئین پاکستان کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ یہ بات کہیں نہیں لکھی کہ جہاد کا اعلان ریاست کی ذمہ دار ی ہے۔ امر بالمعروف کی ضمانت آئین پاکستان دیتا ہے مگر یہاں بھی یہ ذکربوجوہ نہیں ہے۔ اتحاد ملی کا ذکر کرتے ہوئے آپ اس حقیقت سے بچوں کو متعارف نہیں کروا رہے کہ ملت (Community) اور قوم (Nation) یا وطنی ریاست (Nation State) میں کیا فرق ہے۔ پاکستان ایک وطنی ریاست ہے اور بطور وطنی ریاست اس کے مخصوص مفادات ہیں۔
یہ متعصبانہ کتب (Prejudiced Books) پنجاب، سندھ، خیبر پی کے، بلوچستان ہر جگہ موجود ہیں۔ نجی سکولوں کی کتب میں بھی ایسے تعصبات کی مثالیں جا بجا موجود ہیں۔ 2009ءکی تعلیمی پالیسی کے بعد ہر صوبہ کے ٹیکس بک بورڈ کو غیر مسلموں کے لیے اخلاقات کی کتب چھاپنی تھیں مگر ماسوائے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کسی نے یہ کام تاحال نہیں کیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے ایک حکمنامہ کے ذریعے بورڈ کو قومی ایکشن پلان سے ہم آہنگ کتب چھاپنے کا ڈائریکٹو بھی جاری کیا مگر تاحال پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ اگر ہم نصابی کتب سے تعصبات کا خاتمہ نہیں کر سکتے تو پھر قومی ایکشن پلا ن پر بیان بازی محض پاجامہ ادھیڑ کر سیاکر تک ہی محدود رہے گی۔ کیا ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ 2016ءمیں پاکستانی بچے تعصبات سے پاک کتب پڑھیں؟

No comments:

Post a Comment

ڈان ڈاٹ کام وچ چھپیاں اردو لکھتاں

  ایس لنک تے کلک کرو کلک کرو تے پڑھو