Unusual Book Launch
Kundera's Novel Immortality
translated in Pakistan by Arshad Waheed
Mukh wkhalli Program was held at Nairang Art Gallery, Lhore@ 24th November
Some Quotes of Kundera
Happiness is the longing for repetition.
Metaphors are dangerous. Love begins with a metaphor. Which is to say, love begins at the point when a woman enters her first word into our poetic memory.
تقریب
رونمائی بقائے دوام
نیرنگ
آرٹ گیلری لاہور میں چیکو سلواکیہ کے اچھوتے ادیب میلان کنڈیرا کے مشہور ناول Immortality کے اردو ترجمہ”بقائے دوام“ کی تقریب
رونمائی 24 نومبر کو ہوئی۔ اچھوتے ناول نگار کی تقلید میں تقریب بھی اچھوتے انداز
میں ہوئی کہ جسے عامر ریاض نے پنجابی زبان میں غیر رسمی انداز میں چلایا۔ اکادمی
ادیبات پنجاب کے ڈائریکٹر اور مشہور کہانی کار محمد عاصم بٹ کے مضمون سے تقریب کا
آغاز ہوا۔ انہوں نے نہ صرف ترجمہ اور کنڈیرا بارے بات کی بلکہ مترجم بارے بھی
روشنی ڈالی۔ ناول کے مترجم ارشد وحید نے کتاب سے چند اقتباسات پڑھے اور بعد ازاں
مترجم نے میلان کنڈیرا کے ترجمہ کے انتخاب کی شان نزول بیان کی۔ مترجم اس سے قبل
نہ صرف مارکیز کے مشہور ناول”وبا کے دنوں میں محبت“ کا ترجمہ کر چکے ہیںبلکہ بائیں
بازو کی تحریک پر لکھے پاکستانی ناول کے مصنف بھی ہیں۔ محبت، انفرادی حقوق اور
جدیدیت کے طرفدار ارشد وحید، بابا فرید، بابا نانک، مادھولال حسین، سچل سرمست،
بلھے شاہ، خواجہ فرید اور اسد اللہ غالب سے متاثر ہیں ۔ تقریب سے ادارہ ثقافت
اسلامیہ کے ڈائریکٹر اور مشہور نقاد قاضی جاوید اورمشعل کے ڈائریکٹر، مشہورکالم
نگار و ناقد مسعود اشعر نے خطاب کیا۔
قاضی
جاوید نے کافکا، کنڈیرا جیسے ادیبوں کی کاوشوں پر روشنی ڈالی اور اُردو میں ایسے
ترجموں کو سراہتے ہوئے بطور مترجم ارشد وحید کی صلاحیتوں کی تعریف کی۔ انہوں نے
ارشد وحید کو طبع زاد کی ترغیب دی اور پھر تراجم کے حوالہ سے شاہد حمید کا ذکرخیر
کیا جنہوں نے ”جنگ اور امن“، ”برادرز کرامازوف“ جیسی ضخیم اور معرکتہ الآرا کتب کے
تراجم کیے ہیں۔
مسعود
اشعر نے ترجموں کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہمارے ہاں اُردو کے قومی
ادارے اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے ہیں۔ اکادمی ادیبات کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے انھوں نے کہا کہ جو کام شاہد حمید سے ارشد وحید تک مترجمین تن تنہا کررہے ہیں
اس کا بیڑہ تو اکادمی کو اٹھانا چاہیے تھا۔ ان کا استدلال تھا کہ ضروری نہیں ایک
ادیب اچھا مترجم بھی ہو۔ اس ضمن میں انتظار حسین کی مثال دی اوربتایا کہ ان کے
ترجمے انتہائی کمزور ہیں۔ تاہم انھوں نے ارشد وحید کے ترجمہ کو قابل ستائش
قراردیا۔
عامر
ریاض نے حاضرین کی توجہ مایہ ناز ادیب سعادت حسن منٹو کی اپنے استاد باری علیگ پر
لکھے خاکہ کی طرف کروائی۔ اس خاکہ میں منٹو نے اقرار کیا ہے کہ اگر باری علیگ ان
سے روسی ادب کے تراجم نہ کرواتے تو آج منٹو آپ کے روبرو نہ ہوتا۔ ترجمہ کرنے کا
عمل خود آپ کو اپنی خداداد صلاحیتوں سے روشناس کروانے میں کردار ادا کرتا ہے منٹو
نے اس کا سرعام اقرار کیا۔ عامرریاض نے یہ بھی بتایا کہ ہمارے ترجمہ کی روایت
قدیمی ہے۔ عربی، فارسی اور ترک زبانوں سے تراجم کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ 1920 کی
دہائی میں جب سبھاش چندربوس پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن سے خطاب کرنے لاہور آئے تو
انہوں نے یہ بتا کر حیران کر دیا تھاکہ پنجابی صوفی شعراءکے بنگالی تراجم بنگالی
ادب کا لازوال حصہ ہیں۔ تقریب کے آخر میں حاضرین نے مترجم سے سوالات بھی کیے اور
مکالمہ کی روایت کو برقرار رکھا۔
تقریب
میں ڈاکٹر امداد حسین، محمد ناظر، ڈاکٹر نصرت حبیب، ارشد رضوی(میرو)، جاوید ملک،
عاصمہ ملک، کاشف بخاری، خالد محمود نین سکھ، شفقت اللہ، ارشاد امین، زاہد حسن،
مظہر ترمذی، میڈم پون کے علاوہ ایف سی کالج پبلک پالیسی کے طلباءو طالبات نے بھی
شرکت کی۔ پبلشر فرخ سہیل گوئندی نے بتایا کہ ہم کاپی رائٹ ایکٹ کا احترام کرتے ہیں
اور اس کے ناول کے ترجمہ کی منظوری خود میلان کنڈیرا نے دی ہے۔ ناول ہر جگہ دستیاب
ہے۔
A FB page was created as invitation which was viewed by more than 3000 people. One may check the page at Lok Lhar Page for book launch
To introduce Milan Kundera here is a recent article How important is Milan Kundera today?
Reviews of the Book
Anwer Hussain Roy @ Jang Sunday magazine November 2015
Pictures of the Program
Arshaed Waheed(author), aamir Riaz(host), Masood ashar(Mashal),
Asim butt(academy of letters), Qazi Javed(Institute of Islamic culture)
and Furrukh Suhail Goindi(Publisher)
Audience: You can see Arshad ameen, Nain Sukh, Nazir Mahmood, Dr Nusrat Rana and Afzal malik in front line and many familiar faces in other lines.
mazhar termazi, Pawan, Rida riaz while Asma Malik is selling Waheed's translation and his Novel Gumman. In back line Zahid hassan is seen
Qazi Javed with the Publisher
Another style of speakers
Listening the arguments
Author horay ki soch reha hai
Two in One: Tahir asghar and Pervaiz majeed
Style of the author
another view
unusual appearance
Qazi ji, sochaan vich gayachy nai
Listening and thinking
Sinning the book. female presence always make author happy. Even Dr Imdad is also smiling
Novel the Guman is written by Arshad waheed written in the back ground of Left movement in Pakistan Published by same Publisher
Two wara panchi
No comments:
Post a Comment