Lessons in Post LB Pakistan
Role of Political Actors, Civil Society,
Media &
Non-elected Elite
In 1988,
it was BB who warned elite to adopt new narrative and develop a New Social
Contract yet from Aslam Bag+Ishaq Khan till Mushraff, no one was ready to
listen. But since 2008 Pakistan is gradually moving toward it. During the first
democratic transition we have witnessed another land mark and it is too
unprecedented. First time, a democratic government held local bodies’ polls
with political consensus in all the 4 provinces. It is not important who win in
provinces or big cities but it is important that the 3rd important
tier is working now. Courts, Law enforcement agencies, Political actors, Media
and Provincial governments have played their role and now it is time to think
about Post LB Pakistan. Will Donor community support LB system as they did during Mushraff period or not, is a big question. Role of Pakistani Civil Society is also very vital and it will expose their love with decentralize system too. Linking decentralization with security at grass root level is the important task but before it we have to make it permanent part of political system too.
Click and Read سیاسی کلاس، میڈیا اور اشرافیہ کا امتحان
We have a
history of misusing LB polls by dictators just to strengthen their
unconstitutional regimes and to develop parallel pro-dictatorship political
class. Geeral Ayub, Zia and Mushraff all followed it and made LB polls controversial
in Pakistan. misuse of LB polls was a colonial policy and for this we have to check colonial history regarding LB system first.
We have a
history of LB type system since ages in the form of Punjiats, Jirgas &
Mhalla committees which was in use much before annexation (1849). In 1850, we
had witnessed first Local Bodies Law and it was enforced in limited areas with appointed
local leaders. In 1862 it was expanded in numerous selected districts and it
was Lord Mayo who wanted to make revolutionary changes in late 1860s (as par county system in UK under adult franchise) yet the Bureaucracy was against him.
Poor Viceroy was killed in a prison smartly in 1872. It was Lord Rippon, a
follower of Mayo who made tangible reforms in LB system in 1882 but it remained
under limited franchises. As selective democracy was in practice and double
standards remained on the top in policy so South Asians did not get adult
franchise till 1947. From 1947 till
1958, LB polls were held in numerous areas/districts time and again under
limited franchises. After adoption of 1956 Constitution the practice continued
and in 1957 we had witnessed LB Polls in Karachi, most probably under adult
franchises. Jamat e Islami got majority in that elections. Meanwhile Central
government had announced general election but the process was halted by General
Ayub Khan in October 1958. Since that times, dictators started using LB polls
and ruined its spirit. The last misuse of LB polls was done by General mushraff
who smartly ignored LB polls in cantonment areas and the Capital.
Now
during this civilian rule, we have witnessed LB polls not only in cantonment
areas but also in Islamabad. In many ways, holding LB polls in cantonments, Islamabad
and 4 provinces is a big achievement and it is time to protect it. Are we ready
to accept the challenge? Read the piece and contribute in the changing
political scenario of Pakistan.
خدا خدا کرکے ملک پاکستان میں پہلی دفعہ جمہوری و منتخب دور اقتدار میں تمام سیاسی قوتوں کے تصفیہہ کے ساتھ بلدیاتی یعنی عوامی سطح پر انتخابی عمل مکمل ہونے کو ہے۔ اسی مہینہ میں تمام اضلاع میں میئر یا ناظم بھی بن جائیں گے۔ ماضی کے برعکس یہ ناظم جمہوری عمل میں رکاوٹ کی بجائے صوبائی و مرکزی اسمبلیوں کے تسلسل کا حصّہ بنیں گے۔ جب آپ یہ شمارہ پڑھ رہے ہوں توسندھ و پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلہ کے انتخابی نتائج بھی سامنے آ چکے ہوں گے۔ اگر یہ تیسرا مرحلہ بھی کسی بڑے سانحہ کے بغیر پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو پھر اس کا کریڈٹ بجا طور پر سندھ اور پنجاب کی منتخب حکومتوں سمیت سول ملٹری اداروں اور وفاقی سرکار کو دیا جانا چاہیے۔ اگر صوبائی حکومتیں ان انتخابات کے انعقاد میں روڑے اٹکانا چاہتیں تو یہ انتخابات نہیں ہوسکتے تھے۔ یہ درست ہے کہ ان انتخابات کے انعقاد میں عدلیہ نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا تاہم صوبائی حکومتوں نے چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرواکے عدالتوں کے فیصلے سے خود کو ہم آہنگ کیا۔ وہ قوتیں جو بلدیاتی انتخابات کو سیاستدانوں و جمہوری عمل کے لیے کھڈا (Pitfall) بنانے کے متمتی تھے وہ اب خاصے پریشان ہیں۔ 2008 کے بعد جس جمہوری عمل کا آغاز ہوا تھا اس میں بلدیاتی انتخابات کے ملک گیر سطح پر انعقاد سے مضبوطی آئے گی۔ کراچی میں میدان کون مارتا ہے یہ اک ضمنی مسئلہ ہے کہ ملکی سطح کی سیاست میں منتخب صوبائی سرکاروں کا بلدیاتی انتخابات کروانا اور پھر گلی، محلوں اور پنڈوں میں بننے والے جمہوری اداروں کا کام کرنا ہی جمہوری سفر کی کامیابی کی اولین ضمانت ہے۔ -
قابل تحسین اَمر تو یہ ہے کہ ڈکٹیٹر مشرف کے عہد کے برعکس موجودہ جمہوری عہد کے دوران نہ صرف چھاونیوں میں بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے بلکہ تخت شاہی یعنی اسلام آباد میں بھی اک منتخب میئر یا ناظم براجمان ہوگا۔ اسلام آبادی بیوروکریسی کو تو اس کی عادت ہی نہیں کہ وہ تو محض اعلیٰ گریڈوں والوں کی عزت کرتے ہیں یا پھر ڈنڈے کے گاہک ہیں۔ اسلام آباد کی سول سوسائٹی کو البتہ عدم مرکزیت کے فلسلفہ سے تو بہت محبتیں ہیں مگر وہ ان جمہوری اداروں کی تکریم کریں گے یہ کہنا مشکل ہے۔ ان جمہوری اداروں کے قیام کے بعد سول سوسائٹی کا امتحان بھی سر پر آن پڑا ہے۔ گو کہ ہمارا آزاد میڈیا تسلسل سے چینلوں پر فتح و شکست دکھانے پر کمر بستہ ہے کہ بوجوہ عوام کو ’’جموری خاکہ‘‘ کی مضبوطی سے دور ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ انتخابی نتائج دیکھنے کے لیے ہر کسی کی نظر ٹی وی پر تھی۔ اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عام آدمی کو میڈیا یہ تو بتاسکتا تھا کہ کون کون سے سرکاری وغیر سرکاری محکمے اور شعبہ جات بلدیاتی اداروں کے ماتحت ہیں اور ان اداروں سے کیونکر رجوع کیا جاسکتا ہے۔ مگر’’ مہا بھارت‘‘ کھیلنے کے مرض میں مبتلا میڈیا نے ایسی الیکشن ٹرانسمیشن چلائیں جہاں جنگ کا سامان بندھا ہوا تھا اور دوسری طرف ایسے ایک اینکر براجمان تھے جن کے الفاظ کا چناؤ ان کی رعونت کا نقیب رہا۔ منتخب نمائندوں کو سرعام چوراچکا، لٹیرا کہنے والی میڈیائی ناخداؤں کا احتساب اسمبلیاں کب کریں گی وہ وقت بھی پاکستان میں کبھی نہ کبھی آہی جائے گا۔ -
چینلوں پر ڈھنگ کی بات نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ بلدیاتی اداروں کے حقوق و فرائض جاننے کے لیے کم از کم چاروں صوبوں کے بلدیاتی قوانین کے مسودے پڑھنے ضروری تھے۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی دیکھنا ضروری تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں بلدیاتی ادارے کیا کیا کام کرتے ہیں؟ سیاسی جماعتوں اور بلدیاتی اداروں میں کیا تعلق ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے مرحلہ پر بدین(سندھ) اورپھر اسلام آباد کے بلدیاتی کے انتخابات کے حوالہ سے جو رپورٹنگ ہوئی اس نے میڈیا کا رہا سہا بھرم بھی نکال دیا۔ تیسرے مرحلے پر کراچی فوکس میں رہا حالانکہ بلدیاتی انتخابات ڈیڑھ درجن سے زیادہ اضلاع میں ہوئے جن میں ملتان، سیالکوٹ، بہاولپور، راولپنڈی بھی تھے اور سانگھڑ سمیت سندھ کے دیگر اضلاع بھی۔ اب جبکہ یہ انتخابات پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں تو اب ان سے حاصل کردہ نتائج کو سامنے رکھ کر آپ نیا سیاسی زائچہ بناسکتے ہیں۔ بلوچستان، خیبر پی کے، سندھ اور پنجاب میں ہونے والے ان انتخابات نے ایک دفعہ پھر انتخابی عمل کے گھاٹوں کو آشکارا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب منتخب اسمبلیوں کو انتخابی اصلاحات کی طرف تیزی سے متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر دھرنوں میں وقت ضائع نہ ہوا ہوتا تو انتخابی اصلاحات نہ صرف2014میں ہوچکی ہوتیں بلکہ موجودہ بلدیاتی انتخابات میں اصلاحات کا ٹیسٹ بھی ہوجاتا۔ شو مئی قسمت پہلے پی ٹی آئی اور بعد ازاں ایم کیو ایم اسمبلیوں ہی سے باہر جا بیٹھے۔ ان دونوں جماعتوں کو ’’عقل کل‘‘ ہونے کا گماں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی ہے مگر دور رس سیاست بارے ان کا علم بوجوہ محدود ہے۔ یوں ان بلدیاتی انتخابات سے جو دہرے فائدے ہوسکتے تھے وہ نہ ہوئے۔ تاہم اب بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ جمہوری رستہ کو کھجل کرنے سے پرہیز برتا جائے۔ دیکھا جائے تو یہ بلدیاتی انتخابات سیاسی جماعتوں کے لیے اک نادر موقعہ بھی لائے ہیں۔ گلی، محلے اور پنڈوں تک پارٹیوں کی تنظیم سازی سیاسی پارٹیوں کا اولین ہدف ہوتا ہے۔ پارٹی کے مقامی رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کو موثر بلدیاتی ادارے چلانے کا ہنر سکھاتے ہوئے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں جمہوریت کو توانا و مضبوط کرسکتی ہیں۔ مگر اس کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کو یونین کونسلوں کی سطح پر اپنی اپنی موثر تنظیمیں کھڑی کرنا ہوں گی۔ سیاسی جماعتوں کو انتخابی اصلاحات میں سیاست کی تکریم کو بڑھانے کے لیے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کی حوصلہ افزائیاں بند کرتے ہوئے قانونی پیش قدمی کرنی چاہیے۔ آزاد امیدوار سیاسی رشتوں کی گنجائشیں پیدا کرتے ہیں۔ ماضی میں بلدیاتی انتخابات کروانے والے ڈکٹیٹر انہی آزاد امیدواروں کے دلدادہ رہے کہ جس سے ان کی عدم مرکزیت اور بلدیاتی سیاست سے دلچسپی کی قلعی کھل جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو آزاد امیدوار نامی جنس کا ذکر بھی نہیں ہوتا مگر ہمارے ہاں’’آزاد امیدواروں‘‘ کو محض ’’بغض معاویہ‘‘ میں سرکاتاج بنایا گیا تھا جس کا مقصد جمہوریت کو مذاق بنانا تھا۔ سب سے اہم سبق تو سیاسی جماعتوں کی گلی، محلوں تک تنظیم سازی ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت یہ کام کرلے گی اس کی2018 کے قومی انتخابات میں کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔ دوسری طرف اب ہماری غیر منتخب اشرافیہ کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیں کہ عوامی اقتدار کے دور میں انہیں سیاسی عمل کو توانا کرنے میں مدد دینا چاہیے۔ یہ وہ کام ہے جو 1947سے غیر منتخب اشرافیہ نے نہیں کیا کہ اس کا فائدہ آمروں نے اٹھایا۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ جو یونین کونسلیں یا ان کے چیرمین بہتر کارکردگی دکھائیں ان کی بطور مثال حوصلہ افزائی کریں اور بلدیاتی قوانین کے گھاٹوں اور خوبیوں پر پرائم ٹائم میں پروگرام کریں۔ 1947 سے1958 کے درمیان ملک کے بہت سے اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہوتے رہے تھے مگر ان میں بالغ راہے دہی کے اصول کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا تھا۔ غالباً1957 میں کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات بالغ رائے دہی کے تحت ہوئے تھے کیونکہ1956کا آئین نافذ عمل تھا۔ پھر ایوب سے مشرف تک بلدیاتی نظام کو غیر آئینی اقتدار کے جواز کے طور پر آمروں نے تواتر سے استعمال کیا جس کی وجہ سے بلدیاتی بندوبست متنازعہ ہوگیا۔ اب پہلے جمہوری تسلسل کے ساتھ ساتھ جب ملک بھر میں بلدیاتی ادارے بن چکے ہیں تو پھر ان کی تکریم بھی لازم ہے۔ یوں بلدیاتی انتخابات کا سبق سب کے لیے ہے کہ اشرافیہ، میڈیا، الیکشن کمیشن، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتیں اگر اس سے سبق سیکھ لیں تو نہ صرف فیصلہ سازیوں میں عام آدمی کی شمولیت کے فلسفہ کو تقویت ملے گی بلکہ ملک کا وقار بھی بلند ہوگا۔ یہی تو ہے وہ نیا عمرانی معاہدہ جس کے لیے محترمہ بے نظیربھٹو نے1988 میں نعرہ مستانہ بلند کیا تھا۔ پاکستان کو جمہوری سفر کی طرف لیجانے کے لیے انھوں نے ہی میاں نوازشریف کے ساتھ2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط بھی کیے تھے۔ اپنی اس کاوش میں انھوں نے اپنی جان کی پرواء بھی نہ کی۔ وہ آج ہمارے درمیان جسمانی طور پر تو موجود نہیں مگر جو رستہ وہ وکھا گئیں تھیں آج پاکستان اسی پر تیزی سے گامزن ہے۔ ان نئے جمہوری اداروں کو مثالی بنانے کا فریضہ جیتنے اور ہارنے والے بلدیاتی امیدواروں پر بھی ہے اور خصوصی طور پر اس فریضہ کو سیاسی کارکنوں کو اٹھانا چاہیے۔ یہ سیاسی کارکن ہیں جوبلدیاتی بندوبست کوتکریم دلوا سکتے ہیں مگر اس کے لیے انہیں ان اداروں کو موثر انداز میں چلانے کے حوالہ سے تیاریاں کرنی ہوں گی۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=15176#sthash.TKHLJ4eK.dpuf
No comments:
Post a Comment