Two 16 Decembers
Can Pakistan Turn challenges of Extremism & Terrorism into opportunities
The day of December 16 is important for Pakistan due to its dual importance. 44 years back Pakistan had lost its eastern wing yet politicians did well in post 16 December 1971 scenario and Pakistan got its first consensus Constitution within 15 months. similarly last year after APS attack civil military leadership has developed a consensus regarding combating extremism and terrorism and signed NAP. it is important to implement NAP at civil side too. But for this one has to come out from the state of denial first.
We are in this situation because of double game of Mushraff who in post 9/11 situation wanted to use that opportunity just to save its unconstitutional government. He remained reluctant to turn those challenges of extremism and terrorism in favor of opportunities for Pakistan.
Since 2008 Pakistan is gradually moving to turn challenges into opportunities. But there are still many areas at civil side which need to address as early as possible.
Our textbooks , Environment of educational institutions, (both Public and Private) are not in line with NAP still after a year of APS. how media is spreading hatred is another case which needs immediate attention. Presence of numerous biases (communal, sectarian, gender & Urban) in textbooks is just opposite from what we approved in NAP. Below the belt criticism of elected representatives and absence of rule of law always give ample spaces to extremists. In short regarding combating extremism we are still not prepared enough. Extremism is mother of terrorism and we have still many forms of extremism in media and education. Our textbooks have material against Muslim sects, our textbooks have material against other religions, our textbooks are not ready to acknowledge services of non-Muslim Pakistanis. Women are depicted as domestic entity but in reality Pakistani girls and women are working in numerous fields. Urban bias is also part and parcel of our books. i observed (in my study of textbooks 2014-15) how badly we treated our rural and tribal people. provincial histories and cultures are not part of our textbooks. It is late but not too late and it is time to link media and textbooks(public & Private) with NAP.
Click and Read
انسانوں اور قوموں کی زندگیوں میں حادثات اور المیے آتے ہی رہتے ہیں۔ مگر وہ جو ان حادثوں یا المیوں پر محض ماتم کرتے رہتے ہیں وہ وہی ہیں جو ان سے سبق سیکھنے سے بوجوہ قاصر رہتے ہیں۔ سبق سیکھنے کی اوّلین شرط تو یہی ہے کہ آپ انکاری کیفیت(State of denial) سے باہر نکلتے ہوئے زمینی حقائق کو تسلیم کریں۔ کسی بھی واقعہ کے رونما ہونے میں اندرونی و بیرونی عوامل کا ہاتھ ہوتا ہے اوربصیرتوں پر مشتمل اعتدال پسند پالیسی وہی ہوتی ہے جس میں آپ دونوں عوامل سے صرف نظر نہ کریں۔ جو وحدت الوجود کے فلسفہ کو سمجھتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ جب ’’اندر اور باہر‘‘ کی دوئی (Duality) کا خاتمہ ہوتا ہے تب جاکر انسانی معراج ممکن ہوتی ہے۔ -
یہ بات جس قدر انسانوں پر لاگو ہوتی ہے اتنی ہی قوموں اور ملکوں پر بھی کہ نہ تو سارا قصور ’’باہرلوں‘‘ پر ڈالنا کوئی مثبت عمل ہے نہ ہی خود کو100فیصدی مجرم قرار دیتے ہوئے محض ماتم میں غلطاں رہنا۔ پاکستانیوں کے لیے16 دسمبر آفت کو موقعہ میں بدلنے کا دن بن سکتا ہے بشرطیکہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے اور ’’اندر باہر‘‘ پر نظر رکھتے ہوئے دہری پالیسیوں کو خیرباد کہہ سکیں۔ -16دسمبر 1971 سے کسی حد تک ہم نے سبق سیکھا تھا اور 20 دسمبر 1971 کے بعد آنے والی منتخب قیادتوں یعنی سیاستدانوں نے قوم کو 1973 کے آئین کا تحفہ دے کر اس المیہ سے نکلنے کی طرف مفاہمتی قدم اٹھایا تھا۔ آئین پاکستان 1973 میں صوبوں کو مزید توڑنے کے عمل کو صوبائی اسمبلیوں کی اجازتوں سے مشروط کرنے کا جو آرٹیکل ڈالا گیا تھا اس میں16 دسمبر سے سیکھنے کی بصیرت نمایاں تھی۔ اگر سیاسی بصیرتوں پر مشتمل یہ آرٹیکل شامل آئین نہ ہوتا تو آج پاکستان نہ ختم ہونے والے انتشار میں دھکیلا جا چکا ہوتا۔ یہی نہیں بلکہ باوجود مخالفت کے ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان جناب حمودالرحمن کی قیادت میں 1947 سے 1971 تک کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطحی کمیشن بھی بنایا تھا۔ -
اگر بھٹو اس ’’ناپاک‘‘ کام میں ملوث ہوتے تو وہ کبھی کمیشن نہ بناتے۔ کس نے اس کمیشن رپورٹ کو چھپنے نہ دیا، یہ اب کوئی راز نہیں رہا۔ مگر وہ قوتیں جو المیہ پاکستان سے سبق سیکھنے کی بجائے ملک ٹوٹنے کا سارا الزام ’’شراب و کباب‘‘ اور بیرونی سازشوں کے کھاتے ڈالنے پر کمربستہ تھیں ان میں اور حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کے مخالفوں میں حسیں اتفاق ہوگیا۔ حیران نہ ہوں، اس اتفاق میں ترقی پسند، اسلام پسند،قوم پرست، نفاذ اُردو کے ہاون دستے، نیشنلائزیشن کے ستائے ہوئے سبھی حصہ بقدر جثہ رَلے ہوئے تھے۔ بھٹو نے مشہور ترقی پسند تاریخ دان جناب کے۔ کے ۔عزیز کومغربی جرمنی سے پاکستان بلوایا اور بقول بیگم کے۔ کے۔ عزیز اْن کے گھر فوج کی نگرانی میں 39 مقدس صندوق باری باری آتے رہے۔ مگر نہ تو حمود الرحمن رپورٹ منظر عام پر آسکی نہ ہی محترم کے۔ کے۔ عزیز کی کتاب کو چھپنے دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ بھٹو صاحب کو اس کمیشن کو بنانے کی سزا دیتے ہوئے پہلے جنرل ضیاء نے اقتدار سے بے دخل کیا اور پھر بذریعہ عدالت ان کا سرعام ’’قتل‘‘ کر ڈالا۔ وہ39 صندوق کہاں ہیں، کسی کو معلوم نہیں البتہ بھارت سے2 جلدوں پر مشتمل اک کتاب بعدازاں چھپی تو یہ گمراہ تاثر دیا گیا کہ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے۔ کبوتر آنکھیں بند کرلے تو بلی غائب نہیں ہوجاتی، ایسے ہی حقائق کو چھپانے سے مسائل حل ہونے کی بجائے گھمبیر ہوجاتے ہیں۔ اس سب کے باوجود 1973 کے متفقہ آئین نے قوم کو دلاسہ ضرور دیا تھا کہ اب پاکستان بطور ریاست مسلمان ممالک میں جمہوری اقدار پر عمل کرنے والا پہلا ملک تھا۔ مگر اس دلاسہ کو پہلے جزل ضیا الحق، بعدازاں اسحق خان، اسلم بیگ اور آخر میں جنرل پرویز مشرف نے رگید ڈالا کہ8ویں اور 17ویں ترامیم نے متفقہ آئین کا حلیہ بگاڑ دیا۔ بھلا ہو سیاستدانوں کا کہ انھوں نے18ویں ترمیم کرکے قوم کو 16دسمبر کا بھولا ہوا سبق دوبارہ یاد دلایا اور صوبائی خودمختاری جیسے دیرینہ مسئلہ کو حل کر ڈالا۔ پچھلے برس 16دسمبر کو جو کچھ آرمی پبلک سکول میں ہوا وہ اک اور گہرا زخم تھا جو بیک وقت پاکستانی ریاست و قوم کے سینے پر لگا۔ ایسے زخم افغان جہاد کے زمانے سے دھرتی سہتی آرہی تھی جب ہم روس، امریکہ سرد جنگ میں حاضریاں بھی لگارہے تھے اور مال غنیمت بھی کما رہے تھے۔ جب آگ امریکہ پہنچی اور مذہب سے کھلواڑ کے نتائج سب بلا امتیازبھگتنے لگے تو 9/11 کے بعد ہمیں بھی بوجوہ پالیسی بدلنے کا خیال آگیا۔ تاہم اس وقت کے آمر جنرل مشرف نے دہری پالیسیوں کے ذریعے ڈنگ ٹپانے کا آہر کیا۔ وہ دہشت گردیوں و انتہا پسندیوں کے خلاف جنگ کو اپنے اقتدار کی ضمانت کے طور پر استعمال کرنے میں غلطاں رہے۔ اگر کوئی اسمبلی ہوتی تو پرانی پالیسی کو چھوڑنے اور نئی پالیسی کو اپنا نے پر سیرحاصل بحث ہوتی۔ جمہوری ادارے ہوتے تو کوئی حمودالرحمن کمیشن بنتا جو افغان جہاد سے طالبان مخالفت تک ہر پالیسی کا جائزہ بھی لیتا اور منفعت کمانے والوں کی فہرست بھی بناتا۔ مگر آمریتوں میں بحث و مباحثہ کی گنجائشیں ’’نشتہ‘‘ ہوتی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو تو1988 سے چیخ رہی تھیں کہ جن طالبان نما مجاہدین کو امریکہ، برطانیہ والے روس مخالفت میں پال پوس کر چھوڑے جارہے ہیں وہ ہمارے گلے کا ہار نہیں بلکہ حلق کا کانٹا ہیں۔ چاہے تو یہ تھا کہ9/11کے بعد جنرل مشرف سیاسی و عسکری قوتوں کو ایک صفحہ پر مجتمع کرتا اور دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف بڑا مورچہ لگاتا مگر وہ تو ہوس اقتدار میں رُجھا رہا اور پاکستان میں9/11کے المیہ کو موقعہ میں بدلنے کی بجائے محض اقتدار میں طوالت کے لیے استعمال کرتا رہا۔ جنرل(ر) طلعت محمود سمیت چند ’’سر پھرے‘‘ فوجی اسے ضرور یاددلاتے رہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر وہ نہ صرف سرد جنگ میں ہونے والی حرکتوں سے جان چھڑالے بلکہ پرانے بیانیے کو بھی بدل دے مگر وہ کبھی عبدالقدیر خان سے معافی منگواکر اورکبھی لال مسجد ہنگامہ برپا کرکے اپنی دہری پالیسیوں کو چلاتا رہا۔ آرمی پبلک سکول کا واقعہ ان دہری پالیسیوں کا شاخسانہ تھا جنھیں دہشت گردی اور انتہا پسندیوں کے خلاف جنگ میں ہم نے سینے سے لگائے رکھا تھا۔ جارج بش اور جنرل مشرف کے بعد ملکی و بین الاقوامی سطح پر کسی حد تک ٹھہراؤ آیا اور جب پارلیمان اور عسکری قیادت ایک صفحہ پرآگئی تو بالاآخر شمالی وزیرستان میں آپریشن کی باری بھی آگئی۔ مگر گونگے کی ماں کی موجودگی میں گونگے تو پیدا ہوتے رہیں گے کہ اسی لیے گونگوں کو جنم دینے والوں کا بندوبست کرنا گونگے سے نمٹنے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ پنجابی اکھان تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ یہ اکھان یا ضرب المثل درحقیقت صدیوں کی ریاضت کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ انتہاپسندی درحقیقت دہشت گردی کی ماں ہے اور جب تک معاشرے میں انتہاپسندیاں رہیں گی تب تک دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو برباد کرنے یا انہیں پھانسیاں دینے سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے گھمبیر ہوتا رہے گا۔ 16 دسمبر کے دوسرے المیہ کا سبق یہی ہے کہ گونگے کی ماں کا بندوبست کیا جائے۔ ہمارا نصاب تعلیم تاحال قومی ایکشن پلان سے ہم آہنگ نہیں۔ ہمارے میڈیا کا بڑا حصہ یا تو انتہاپسندیوں کا نقیب ہے یا پھر لا تعلق یعنی دونوں صورتوں میں وہ انتہا پسندیوں کے خلاف یکجان نہیں۔ انتہا پسندیوں کے بہت سے مظاہر ہمارے معاشرے میں جابجا نظر آتے ہیں۔ ان میں مذہبی و فرقہ وارانہ انتہاپسندیاں بھی ہیں اور عورتوں و اقلیتوں کے خلاف رویے بھی جبکہ سونے پر سہاگہ ہمارا شہری تعصب ہے۔ قانون کی حکمرانی کے فقدان اور منتخب قیادتوں کو رگیدنے سے انتہاپسندوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ کیا وقت آ نہیں گیا کہ ہم اپنی اسمبلیوں، یونیورسٹیوں، بارکونسلوں، مقتدر اداروں اور پریس کلبوں میں انتہاپسندیوں کے خلاف اور قانون کی حکمرانی کے حق میں بامعنی، پر مغز بحث کا آغاز کریں۔ 16دسمبر کا دن، گذرے33 سال پر دوبارہ نظر ڈالنے کا سندیسہ لیے آیا ہے کہ ہم مزید وقت ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ایرانی مولویوں اور بھارتی مودی کی انتہاپسندیوں پر نظر رکھنے والوں کو اب ذرا اپنے گھر بارے بھی ازسرنو غور کے لیے کمر کسنی چاہیے۔ غیر مسلم پاکستانیوں کو دوسرے درجے کا پاکستانی شہری سمجھنا، عورتوں کو کمتر و حقیر کہنا، پینڈوؤں اور قبائلیوں کو جاہلیت اور گنوارپن کی علامت قرار دینا اور دوسرے مذہب و مسلک والوں سے جینے کا حق بھی چھین لینا کیا انتہاپسندیاں نہیں؟ 16دسمبر کے دہرے المیہ سے بھی اگر ہم نے سبق نہیں سیکھا تو پھر یہ کوتاہی نئے المیوں کو دعوت دے گی کہ میڈیا گر خاموش تماشائی بھی رہے مگرمستقبل کا مورخ تو ضرور ان پہلوؤں پر لکھے گا۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=15301#sthash.AWAH2vLD.dpuf
No comments:
Post a Comment