Thursday, November 28, 2013

Turks, Turky , Babar's biography and knowldge about our lands

Turks, Turky , Babar's biography and knowldge about our lands

READ HERE
http://urdu.dawn.com/news/1000268//1

Opium Trade & Afghanistan..All Players are pro-active

Opium Trade & Afghanistan..All Players are pro-active

In 1852, after annexation of the Punjab (1849) , it was British government who launched opium war from Burma. Use of opium as as old as these lands and from Burma, China till Afghanistan it was used extensively in medicine too. till 1979, no one knew about Heroin yet after 1979, extraction of Heroin started and it became multi billion dollar trade. Who were the player in it? it is another big part of afghan conflict and from charlie Wilson war till Ahmad Rasheed book we can know impact of heroine trade. read and enjoy



http://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2013-11-27&edition=LHR&id=741207_87802140


Friday, November 22, 2013

Politics of drones & sectarianism




Politics of drones & sectarianism
2014 is knocking, national and international players are proactive. Using sectarianism and drone strikes by opponent groups  is visible. No doubt Pakistan can provide a safe passage to NATO forces either from KPK or Balochistan but in the presence of drone strike and  sectarian fire no one can grantee safe exit at all. Issue is neither straight nor simple yet some forces are portraying it in black & white. During 1953, 1977 & 1999 non elected elite used religious sentiments smartly in Pakistan. Keep an eye on all power players, either internal or external who are proactive these days. As the game is complex, so we common people should stay away from it. read it
  http://www.wichaar.com/news/119/ARTICLE/30242/2013-11-23.html

Wednesday, November 20, 2013

When English annexed Afghanistan: A Story of three year 1839-42

When English annexed Afghanistan: A Story of three year 1839-42
Usually it is considered that no one ever conquer Afghanistan and FATA areas yet historical facts denied that imagined theory. In reality, that theory was spread under post 1894 political scenario. Afghanistan was a Mughal province not only during Akbar and auranzeab times, FATA was under Lhore Darbar and even British forces conquered Afghanistan too. Just read the story and enjoy

 http://urdu.dawn.com/2013/11/20/when-afghanistan-was-game-for-british-aamir-riaz-aq/

انگریزوں کا افغانستان

Wednesday 20 November 2013
2
سیکنڈ اینگلو-افغان وار، بیٹل آف قندہار  -- وکی میڈیا کامنز
سیکنڈ اینگلو-افغان وار، بیٹل آف قندہار — وکی میڈیا کامنز
عام طور پر بڑھک تو یہی ماری جاتی ہے کہ افغانستان اور قبائلی علاقے یعنی فاٹا کبھی کسی کے زیر تسلط نہیں رہے مگر تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈیورینڈ لائن بنانے کے بعد اس تھیوری کو بڑی مہارت سے بوجوہ پھیلایا گیا۔
انیسویں  صدی سے جاری برطانیہ-روس سرد جنگ (دی گریٹ گیم) ہو یا پھر بیسویں صدی کی امریکہ-روس سرد جنگ، اس تھیوری کو پھیلانے والوں میں باہر والے، قوم پرست اور جہادی سبھی پیش پیش رہے۔
کابل مغلوں کا اک صوبہ رہا اور کنڑ، باجوڑ اور خیبر کے خان، مہاراجہ رنجیت سنگھ کے “لہور دربار” سے نا صرف تعلقات رکھتے تھے بلکہ مراعات بھی لیتے رہے اور باج (ٹیکس) بھی دیتے رہے، یہ کہانی قیام پاکستان سے محض 107 سال پرانی ہی ہے۔ اس سے بھی پہلے سکندر اعظم اورنادر شاہ سرزمین افغانستان کو جی بھر کے روند چکے تھے جو سب تاریخ کا حصّہ ہے.
اس وقت ان تین سالوں کا ذکر مقصود ہے جب کابل و قندھار انگریزی فوجوں کی پریڈ دیکھتے رہے تھے۔ یہ 1839 سے 1842 کا زمانہ تھا کہ جب انگریزوں نے احمد شاہ ابدالی کے پوتے شاہ شجاعکی حمایت کا ارادہ کیا اور اسے کابل کے تخت پر بٹھانے کے لیے فوجوں کا رخ کابل و قندھار کی طرف کر دیا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال یعنی 27 جون 1839 کے دو ماہ بعد ہی انگریز کابل پر شاہ شجاع کو بٹھا چکے تھے جبکہ کابل کا حکمران دوست محمد خان بارک ذئی بامیان کے راستے پہلے بخارا گیا اور جب وہاں مدد نہ ملی تو پھر پنجاب سے ہوتا ہوا لدھیانہ انہی انگریزوں کے پاس پناہ گزین ہوا جنہوں نے اس کی حکومت ختم کی تھی۔
تاریخ میں اسے “پہلی انگریز-افغان جنگ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ مگر انگریزوں کے ہمراہ اسی جنگ میں بے شمار افغاں سردار اور قبائلی علاقوں کے “خان” تھے لہٰذا اسے اینگلو افغان جنگ کہنا بھی مزید غلط فہمیوں کو جنم دینے کا ‘بہانہ’ ہی لگتا ہے۔
اس جنگ سے قبل انگریزوں نے ایک ‘سہ ملکی معاہدہ’ کیا تھا جس میں لہور دربار، شاہ شجاع اور کمپنی بہادر شامل تھے۔ شاہ شجاع 1802 سے 1809 تک افغانستان کا پادشاہ رہا تھا اور اس کے بعد سے وہ پنجابی سکھوں اور انگریزوں کی مدد سے کابل کا تخت دوبارہ حاصل کرنے میں جتا رہا۔
1809 سے مہاراجہ کئی بار انگریزوں کی فوج کو افغانستان پر حملہ کے لیے پنجاب سے گذرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتا رہا تھا۔ مگر اس دوران افغانستان کے بادشاہ ‘لہور دربار’ سے تعلقات بہتر بنانے میں کبھی سنجیدہ نہ ہوئے بلکہ پشاور اور ملحقہ علاقوں پر قبضے کے بہانے تراشتے رہے۔ پشاور میں دوست محمد خان کا بھائی سلطان محمد خان حکمران تھا مگر وہ بھی ‘لہور دربار’ کے ساتھ تھا۔
1839 کے وسط میں کلکتہ اور بمبئی سے انگریز فوج بمعہ رائل بنگال آرمی، سندھ کی طرف بھیجی گئی جسے سندھ کے تالپوروں اور قلات کے خان نے مدد فراہم کی۔ شاہ شجاع سندھ میں ان کا منتظر تھا اور یہ جنگی قافلہ قندھار کو چل دیا۔ تاریخ اسے ‘فوج سندھ’ کے نام سے یاد کرتی ہے۔
دوسری طرف وائسرائے آک لینڈ (ابھی تک پنجاب و کشمیر پر قبضہ نہیں ہوا تھا اس لیے یہ صاحب وائسرائے ہند کی بجائے سرکاری طور پر “وائسرائے آف بنگال” ہی کہلاتے تھے) شاہ شجاع کے بیٹے تیمور شاہ کو لے کر لاہور سے کابل کی طرف روانہ ہوئے۔
پشاور سے قبائلی علاقہ تک بہت سے پختون اس میں شامل ہوئے۔ مہاراجہ نے معاہدہ میں طے کروا لیا تھا کہ انگریزوں کو “لہور دربار” عسکری مدد فراہم نہیں کرے گا اور شاہ شجاع کابل کے تخت پر بیٹھنے کے بعد فاٹا تک “لہور دربار” کی عملداری تسلیم کر لے گا۔
انگریزوں سے یہ بھی تسلیم کروایا گیا تھا کہ انگریزی لشکر کابل جاتے یا واپس آتے ہوے لہور دربار کے علاقوں میں کسی قسم کی قتل و غارت گری یا لوٹ مار نہیں کریں گے۔
مشہور زمانہ دلی کالج میں زیرتعلیم شہامت علی وہ طالب علم تھا جو بطور فارسی مترجم اس مہم میں وائسرائے کے ہمراہ تھا۔ اس کی کتاب “سکھ اور افغان” (انگریزی) میں اس جنگ کی تفصیلات درج ہیں۔ کنگھم، سٹین بیچ، موہن لال کشمیری اور دیبی پرشاد نے بھی اس واقعہ کی تفصیلات اپنی کتب میں درج کی ہیں۔ موہن لال کشمیری تو شہامت علی کا کلاس فیلو بھی تھا۔ دلی کالج سے ایسے نوجوان طلباء کو انگریزی سفارتی مشنوں کے لیے چنا جاتا تھا جو فارسی اور انگریزی میں مہارتیں رکھتے تھے۔
شاہ شجاع کو انگریزی مدد سے کابل کے تخت پر تو بٹھا دیا گیا اور افغانستان 1842 تک انگریزوں کے زیرتسلط بھی رہا مگر اس دوران دونوں “لہور دربار” کے تحفظات کو بھول گئے۔ دیبی پرشاد نے 1850 میں تاریخ پنجاب لکھی اور اس میں لکھا کہ 1841 سے دوست محمد خان کے حواریوں کو اٹک اور پنڈی میں پناہ گاہیں مل چکی تھیں اور اب انہوں نے پنجاب میں بیٹھ کر شاہ شجاع کو ہتھل کرنا شروع کر دیا۔
انگریزی فوج کو جب بلوچستان سے افغانستان جانا پڑا تھا تو اس کا بہت نقصان ہوا تھا اور اب کابل میں حکومت کو برقرار رکھنے میں بھی وہ اس ہی  لیے ناکام تھے کہ “لہور دربار” ان کے ساتھ نہیں تھا۔
بس تین سال میں انگریزی فوج کا جو نقصان ہوا تو اسے پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ اب انہوں نے لدھیانہ مقیم دوست محمد خان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ ایک ‘غیرتمند اچھے بادشاہ’ کی طرح دوست محمد خان پنجاب آۓ اور پھر یہاں سے 1843 میں دوبارہ کابل کے تخت پر جا بیٹے۔
اس کہانی میں کئی اہم سبق ہیں اور کچھ ایسے زمینی حقائق بھی جن کو سمجھنا آج ہم سب کے لیے ضروری ہے۔
پنجاب پر 1849 میں قبضہ کے بعد جب انگریزوں نے یہاں سے فوج بھرتی کرنی تھی تو پنجابیوں، پٹھانوں کو “مارشل ریس” یعنی جنگجو نسل قرار دیا گیا۔ ایسے ہی 1894 میں ڈیورینڈ لائن بنانے کے بعد جب قبائلی علاقہ کو سرد جنگی پالیسی کے تحت بطور “بفر زون” استعمال کرنا تھا تو یہ تھیوری پھیلا دی گئی کہ اس علاقہ پر تو کبھی کوئی قابض نہیں ہوا۔
تفاخر اور تعصب کو استعمال کرنا انھیں آتا بھی خوب ہے اور ہم ہیں کہ آج تک اسی تفاخر اور تعصب کو گلے لگائے بیٹھے ہیں۔ 2014 کو سامنے رکھتے ہوئے اگر اس تعصب و تفاخر سے پرے رہ کر سوچ بچار کی جائے تو ہم خطہ کو امن و استحکام کی راہ پر ڈالنے کی راہ دوبارہ دریافت کر سکتے ہیں۔

aamir profile pic555
عامر ریاض لہور میں رہتے ہیں۔ تعلیم، بائیں بازو کی سیاست، تاریخ ہند و پنجاب ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔

Tuesday, November 19, 2013

Rs.25,000,00 award for Punjabi Writers: Dhahan international award

Rs.25,000,00 award for Punjabi writers: DHAHAN INTERNATIONAL PUNJABI LITERATURE PRIZE

Chandi Garh........LHORE......Vancouver

A good move of the Punjabis, by the Punjabis and for the Punjabis, The news came from the coastal Seaport city of Canadian province  Colombie-Britannique or British Columbia. A group of people headed by a Canadian Punjabi Mr. Barj S. Dhaha came to lhore some three days back and announced an annual award for Punjabi short story and novel writers. Lhore, the heart of more then 20 million Punjabis (12.6 million in Pakistan, 6.5 million in Indian provinces and +5 million out of India & Pakistan) was there last destination and they came there after announcing the award in Chandi Garh (East Punjab) and Vancouver. Dhahan is a familiar title and these days Dhahas r living in district Khaniwal yet Barj told that it was name of the village of his ancestors situated at Lhore Amritser border. May be Dahas later on shifted to khanewal but important thing is the award. this award is called 

THE DHAHAN INTERNATIONAL PUNJABI LITERATURE PRIZE

Mr. Barj S. Dhahan was born in Punjab and moved to Canada in 1967. He is a graduate of the University of British Columbia and Regent College. He is the Co-Founder and Director of CIES. Mr. Dhahan has been instrumental in launching numerous education, health and community development projects in British Columbia and in India since the 1980s. One of these projects was the introduction of a nursing program in Punjab which has been affiliated with the University of British Columbia’s School of Nursing since 1998.
The Dhahan International Punjabi Literature Prize has been founded to celebrate the rich history and living present of Punjabi language and literature, around the globe. A cash prize of $25,000 CDN will be awarded annually to one ‘best book’ in either Gurmukhi or Shahmukhi. Two runner-up prizes of $5,000 CDN will be awarded, one for each script. Winners will be honored at an annual Gala, held in Vancouver in its inaugural year and at alternative host cities around the world subsequently.
The Prize will be awarded by Canada India Education Society (CIES) in partnership with the University of British Columbia (UBC). CIES has an over twenty-year history of success in leading educational, community development, healthcare and job creation projects in India. Guided by a strong interest in Punjab, the  Society partners in this venture with the Department of Asian Studies, Faculty of Arts at UBC, which is home to one of the largest and longest standing Punjabi language programs outside of South Asia. The aim of this partnership is to highlight the literature of a rich and passionate language that can speak not only to Punjabis around the world, but to all.
now read the piece here





some useful links
http://www.punjabiliteratureprize.com/

Article translated in Sindhi and published in Daily Abrat

Article translated in Sindhi and published in Daily Abrat

Use of Religion and Trust deficit
A Case of Religious political Parties




Daily Abrat 17th November 2013
عورت جي حڪمراني
عامر رياض
منور حسن ۽ مولانا فضل الرحمان جي بيانن کانپوءِ مون کي هڪ پراڻو قصو ياد اچي ويو، جيڪو اسان جي مذهبي سياستدانن جي ڪِرندڙ ”ساک“ کي سمجهڻ ۾ مدد ڏيندو.
مذهب کي سياست جي طابع رکڻ گهرجي يا سياست کي مذهب جي طابع رکيو وڃي يا انهن ٻنهي جي وچ وارو رستو اختيار ڪيو وڃي؟
اِهو بحث وڏي عرصي کان جاري آهي. ان حوالي سان هتي مان پاڪستاني سياسي تاريخ جي ٻن اهم واقعن جو ذڪر ڪرڻ چاهيندس ته جڏهن ٻن اهم مذهبي پارٽين هڪ ئي مسئلي تي مختلف دورن ۾ سياسي ترجيحات تحت مذهب کي پنهنجي سياسي مفاد لاءِ ٻن مختلف طريقن سان استعمال ڪيو.
اُهو مسئلو هو ”عورت جي حڪمراني“ جنهن تي گهڻو ڪجهه لکجي چڪو آهي، پر اِهو مسئلو تمام منجهيل آهي. ڇو ته ان جو بنياد مذهب کان وڌيڪ ”منفي سماجي روايتن“ ۾ کتل آهي.
اِها روايت صرف اڻ پڙهيل يا ڳوٺاڻن ماڻهن تائين محدود ناهي. بلڪه پڙهيل لکيل شهرين ۾ به بدستور موجود آهي. ڇو ته اسان جي (Over simplistic) ٽيڪسٽ بُڪس به ”عورت کي ڪمزور ۽ ڪمتر“ سمجهڻ جو درس ڏئي ٿي.
محترمه فاطمه جناح ۽ محترمه بينظير ڀٽو جو ڳاڻيٽو اسان جي تاريخي ٻن اهم شخصيتن ۾ ٿيندو آهي. فاطمه جناح هونئن ته سياست ۽ سياستدانن کان لاتعلق ۽ بيزار رهندي هُئي، جنهن جو ثبوت مشهور ڪشميري اڳواڻ ۽ قائداعظم جو پرائيويٽ سيڪريٽري ڪي ايڇ خورشيد جي بيگم محترمه ثريه ڪي ايڇ خورشيد جي ڊائري ”محترمه فاطمه جناح ڪي شب و روز“ آهي.
بيگم صاحبه کي محترمه فاطمه جناح سان گڏ رهڻ جو موقعو 1950ع جي ڏهاڪي ۾ مليو هو. پوءِ خُدا جي ڪرڻي اِئين ٿي جو 1960ع جي ڏهاڪي کان پهريان اڌ ۾ مخالف ڌر وارن محترمه فاطمه جناح کي مجبورن مخالف ڌر جو اڳواڻ بڻائي ورتو. 1964 جي صدارتي چونڊن ۾ اُن جو مقابلو فيلڊ مارشل ايوب خان سان هو، جيڪو آڪٽوبر 1958 کان مارشلا جي زور تي تخت تي ويٺل هو.
هي اُهو وقت هو جڏهن جمعيت العلماءِ اسلام ۽ ايوب خان ۾ پراڻا لاڳاپا هُئا، جڏهن ته جماعت اسلامي ڪراچي گروپ جي اثر هيٺ ايوب خان جي بدترين مخالف هُئي. اڃا پنجاب يونيورسٽيءَ جو ٺيڪو جماعت اسلاميءَ کي نه مليو هو، ڇو ته اِهو ٺيڪ ته اُن کي 1965 کان پوءِ ڀارت ۽ پاڪستان سرد جنگ جي بدلي ۾ نصيب ٿيو.
جمعيت اسلام جي دانشورن ايوب خاني دانشورن سان گڏجي اِهو بحث هلايو ته اسلام ۾ عورت جي حڪمراني جائز آهي يا نه؟ اِن ڳالهه جو جواب نفيءَ ۾ ڏئي هُنن فاطمه جناح کي مذهبي سطح تي ناڪ آئوٽ ڪرڻ جي مهم تيز ڪري ڇڏي.
مقابلي ۾ جماعت اسلامي هُئي، جنهن کي ايوب خان جي بغض ۾ فاطمه جناح کي قبول ڪرڻو پيو هو. اُن مذهبي جماعت به اسلامي حوالن جا انبار لڳائي ڇڏيا. ائين ٻنهي طرفن کان مذهب يعني اسلام کي سياست ۾ استعمال ڪيو ويو.
خير فاطمه جناح هارجي وئي ۽ عورت جي حڪمراني وارو بحث کي به پوئتي ڇڏيو ويو. ٺيڪ 24 سالن کان پوءِ پاڪستاني سياست ۾ هڪ ڀيرو ٻيهر عورت جي حڪمرانيءَ جو شوشو ڇڏيو ويو. اِها 1988ع جي ڳالهه آهي، جڏهن محترمه بينظير ڀٽو جي 10 اپريل 1986ع ”لاهوري“ استقبال کان پوءِ حڪمرانن لاءِ اُن طوفان کي روڪڻ پهرين ترجيح ڄاڻايو ويو هو.
هڪ ڀيرو ٻيهر ميدان ڪارزار ”عورت جي حڪمراني“ جي حق ۽ مخالفت ۾ سجايا وڃڻ لڳا. اسلامي ۽ تاريخي حوالن جا انبار لڳڻ لڳا. هن ڀيري جيڪي صفحون ترتيب ڏنيون ويون اُهي جماعت اسلامي بوجوا عورت جي حڪمراني جي مخالف ڪيمپ ۾ هُئي، جڏهن ته جمعيت العلماءِ اسلام اُن ڪئمپ ۾ هُئي، جيڪا عورت جي حق ۾ دليل ڏئي رهيا هُئا. بس پوءِ اُهو ئي ٿيو جيڪو دنيا ڏٺو. اُنهن ڏينهن جنگين ۾ صرف مذهبي دانشور ئي شريڪ نه هُئا پر سيڪيولر ۽ لبرل فرد به حصو ورتو.
اُنهن ڏينهن ۾ سياسي جنگين فتح بظاهر جعيت علماءِ اسلام کي نصيب ٿي. 1964 ۾ هنن هڪ عورت ”فاطمه جناح“ کي حڪمران بڻجڻ نه ڏنو ۽ 1988ع ۾ هُن هڪ ٻي عورت ”بينظير ڀٽو“ کي وزيراعظم بڻائڻ ۾ ڀرپور مدد فراهم ڪئي.
جي يو آءِ راجنيتي ۾ وڌيڪ بهتر رانديگر ته ثابت ٿي هئي پر اُن سياست جو مذهبي ذهنيت تي خاص طور ۽ پاڪستانين تي عام طور وڌيڪ اثر نه پيو هو. اُنهن کي لڳو ته جيڪڏهن سياست ۽ اقتدار جو حصول ئي مطمح نظر آهن ته پوءِ ’عوامي‘ سياسي پارٽيون ئي وڌيڪ بهتر آهن، جيڪي گهٽ ۾ گهٽ مذهب کي پنهنجي مقصدن لاءِ ته استعمال نٿيون ڪن.
ٻين مسلم م
original article published in
http://urdu.dawn.com/2013/11/13/aurat-ki-hukumraani-aamir-riaz-aq/

Wednesday, November 13, 2013

Use of Religion and Trust deficit A Case of Religious political Parties

Use of Religion and Trust deficit
A Case of Religious political Parties

Why religious political parties failed to get people’s attention? Recent statements by two leaders of major political parties raised a debate yet even a layman or student of history knew that people of Pakistan never ever give votes to these parties. From the failures of Khilafat or hijrat movement s, consistent support of All India Congress , opposition of Pakistan movement, till 1970 and 2013 elections there is a history of gradual trust deficit. Even religious people chose PPP, PML Nawaz or PTI instead of religious political parties. The situation is not restricted to these political parties but people of Pakistan never give their support to religious political parties of other Muslim school of thoughts. Here we r reproducing an old issue which shows how religious political parties used religion for their self interests. Read the story and enjoy

منور حسن اور مولانا فصل الرحمن کے بیانات کے بعد اک پرانا قصہ یاد آگیا جو ہمارے مذہبی سیاستدانوں کی گرتی ہوی ”ساکھ” کو سمجھنے میں مدد دے  گا.
مذہب کو سیاست کے طابع رہنا چاہیے یا سیاست کو مذہب کے طابع ہونا چاہیے یا پھر ان انتہاؤں کے بجائے درمیانہ راستہ اپنانا چاہیے؟
یہ بحث عرصہ دراز سے جاری ہے، اسی حوالے سے یہاں میں پاکستانی سیاسی تاریخ کے دو اہم واقعات کا تزکرہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب دو اہم مذہبی سیاسی جماعتوں نے ایک ہی مسئلہ پر مختلف ادوار میں سیاسی ترجیحات کے تحت مذہب کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے دو مختلف طریقوں سے استعمال کیا۔
یہ مسئلہ تھا “عورت کی حکمرانی” کہ جس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے مگر یہ مسئلہ بہت ٹیڑھا ہے، دفتروں کے دفتر لکھے جا چکے ہیں مگر یہ ٹیڑھا کا ٹیڑھا ہی ہے کیونکہ اس کی بنیادیں مذہب سے زیادہ “منفی سماجی روایات” میں گڑی ہوئی ہیں۔



INDIA: under the cover of tourism

INDIA: under the cover of tourism
On Arrival visa for 40 countries but what is the Policy?

According to NDTV New Delhi India has initiated the process for making it a more tourist friendly destination, which includes extending on arrival visa for 40 more countries, simplifying online visa and attracting senior citizen foreign visitors. The consensus was brought on these issues during a high level meeting convened here today by the Planning Commission. "There was a consensus about initiating the process to make India a tourist-friendly country and extending the on-arrival visa facility to around 40 more countries," 
Though tourism one can earn huge money, can build country's soft image too yet if one has not domestic and regional tourism then every one do ask, for whom we are doing this. There is long list of countries who will get this facility yet how many South Asian countries are in this list? 
As publisher, i knew there is not any two way trade between India & Pakistan. Government of Pakistan has liberaly allowed her traders yet Indian government still rectant in this regard. So we are purchasing books from India yet we cannot send books to Indian counter parts. As there is One way trade so its chunk is not very high. That policy is in favor of piracy and against writers. if India donot allow Pakistani books then how can they allow tourists? Read the piece urself by clicking it
http://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2013-11-13&edition=LHR&id=713927_99138633



Sunday, November 10, 2013

New world alliances are On the Way??



New world alliances are On the Way??

دنیا اک وار فیربدلن لگی جے؟


نویں نویں اتحاد بنن جا رہے جے، جس نوں یقین نہ آے اوہ ذرا 20ویں صدی دے اتحاد اں بارے مڑجھات مار چھڈے۔ کسنجرہوراں نیں اپنی چین بارے لکھی کتاب وچ آکھیا سی پئی امریکہ افغانستان وچ چین نوں واڑے تے اس نوں پھسا کے بھارت تے ویت نام ولوں چین مخالفتاں نوں ودھائے۔ پر اوبامے اس توں اپنا مطلب کڈیا۔ چین، جرمنی، ترکی تے امریکہ کیہہ کردے پئے نیں اس بارے تے ویکھو۔ سعودی عرب نیں سیکورٹی کونسل وچ اپنی سیٹ کس غصے وچ چھڈی ہے، ایس بارے جھات پاؤ۔ ایرانی مڑ’’سامراج‘‘ دی یاری وچ جا رہے نیں؟ پر دنیا دی سیاستاں وچ ترکی دی وادھوپھرتیاں اتے معاہدے تے تسی ویکھ ہی سکدے ہو۔ ویسے ہر نویں صدی وچ، کھٹو کھٹ دو ترے صدیاں توں پہلے ویہہ سالاں وچ نویں کم پیندے نیں۔
New alliances are on the way while old alliances are shifting. Recent abrupt Rise in anti drone campaign has roots not in  FATA but some where else. According to Guardian's writer Jonathan Sale said "In 1916, a military scientist conceived of an "aerial torpedo" designed to be loaded with explosives and steered into the deadly Zeppelins on their bombing raids over southern England". His article published in feb 2013 under the title "The secret history of drones". But from at-least 2004, it is in use yet in the 2nd decade we observed its opposition more from the "friends or old partners" then from its traditional opponents. Although it is a violation of Nation State System yet the question is Where were Amnesty People from 2004? is there a shifting of players on cards?  we may smell it by checking recent shifts of different conflicting nation states, either big or small, developed or under developed. 
Is there a message in this shifting or not, it is up to you to think. India's shift to US camp happened in the first decade, can e seen in this continuation. Saudi Arabia who got first time in history a seat in UN assembly as non permanent member is another case. SA rejection of the seat is another sign. On the other hand, her regional rival Iran is again getting close to "imperialism" which is interesting. Rise in role of Turkey is a common fact and every one knew it well especially in Pakistan. 
If we glance history we will observed that every first 20 years of a the world were very crucial regarding new policies or alliances. i-e in early years of 19th century Britain smartly used fear of Napoleon and in 20th century used Fear of Germany. Fear for recent century is already ready yet this time it is Invisible enemy. It is fact that Britain smartly side lined Germany in 20th century yet she was checked in 1941 by signing Atlantic Charter. 
Trading and sharing of knowledge had an ancient tradition  between Asia & Europe , with Eurasia as epic centre and known in history as Silk Route yet it was dis-mental. In late 19th century (1894) and early 20th century (1914) it was further scraped by introduction of two LINES i-e Durand Line & MecMohan Line. That system  not only ruined any future possibility of  trade till Europe but also disturbed people living from China including Tibet to Turkey and infect East Europe especially Greece and Germany too.  The test case for new alliances is recovery of Silk Route and removal of Evil Lines. Globalization or world with porous borders suits to many big or small , national and multi national companies but before this we have to finish all regional disputes as first step.  It is time for Americans to revive old neutrality concept and say good bye to lend & Lease. But the question remains , Is the world alliances are ready for a new change? What is position of China, Germany, United States and Germany is also an interesting study.Read and enjoy it


Saturday, November 9, 2013

A green card to a grey zone

A green card to a grey zone

Saeed Ur Rehman
Only a fraction of the qualified professionals who come to Denmark to find a job end up getting one; most end up in menial employment or give up
Curtsey 

The Danish Green Card Scheme has attracted around 8,000 well-qualified workers to Denmark since its inception in 2007, but only a scant few of them have landed in the jobs they came here for.
Many of them say there are no employment options beyond menial work, and that the government did not properly prepare the host society and local businesses before launching the scheme.
“The Danish politicians are afraid of losing the votes of the right-wing, conservative and jobless Danish citizens by telling them that a new wave of well-qualified immigrants is on the way,” Ida Sofie Matzen, a PhD student who is an expert on Sufism in Pakistan, said. “So this kind of thing was most likely done on the quiet.”
In 2010, a study conducted by Rambøll for the then Immigration Ministry revealed that only 28 percent of these well-qualified immigrants were able to find a job that could benefit from their professional skills. Of the rest, 43 percent were surviving in unskilled labour and 29 percent were jobless.
But even the 28 percent ‘success’ rate can be questioned.
Fancy job titles
Adnan Virk, a politically-active green card holder from Pakistan who came to Denmark with advanced degrees from Sweden, thinks that creative labelling is padding the numbers.
“You see a lot of green card holders who end up standing on the streets and selling mobile SIM cards who are officially described as ‘marketing specialists’,” Virk said. “These types of official titles have skewed the data and taken it to 28 percent. These aren’t ‘marketing specialists’ – they are nomadic workers with a temporary legal job.”
read complete article here

Tuesday, November 5, 2013

Freemasonaries: Facts, Myths and the case @ Lhore High Court

Freemasonaries: Facts, Myths and the case @ Lhore High Court
The news reminds us myths and stories regarding the building. Many old Lhories remember it very well, even some of them wrote about it in their writings yet Why Khan Abdul Qyum khan, as federal interior minister of Bhutto started this move? if anyone knew about it he must share.  Tribune publishes the story yet there is no room for such stories in the Urdu version of same media group i-e express newspaper. Is it a mixture of Zoroastrianism and Christianity ? Is it merely a moral system? just read the story published about a case of their building at LHORE
http://tribune.com.pk/story/627709/pending-for-years-lhc-allows-freemasonry-petition/



and here r some extra links


Vedio link of  Freemasonry, From Darkness To Light
https://archive.org/details/LysergicAsians-FreemasonryFromDarknessToLight968

link of a book
https://archive.org/stream/freemasonrybrit00garggoog#page/n7/mode/2up

Punjab & Iqbal

وسیب تے وسنیک علامہ اقبال تے پنجاب عامر ریاض پنجاب تے پنجابی اوہ دو اکھاں جے جس پاروں اساں پنجابی عوام، پنجاب دے وسنیکاں اتے پنجابی وس...