The last message to extremists and terrorists
No one can combat terrorism and extremism if we have open border like FATA , have no go areas like PATA and infected textbooks. we need to fight extremism and terrorism not only at vertical angle but also at horizontal level. No one can fight unilaterally but we need a united front with clear policy. We should link this whole issue with rule of law. From Karachi to FATA there should be one law for all. Removing death planty is not the answer but we have to take some major steps. FATA and PATA are legacies of colonial times and it is high time to finish that legacy. is there any country in the world which have such open border? FATA is open for smugglers, absconders, revolutionaries, sepoys, law breakers and religious extremists and on top of it this land is being used for illegal trade including human trafficking. As it is linked with afghanistan so smugglers, absconders, revolutionaries, sepoys, law breakers and religious extremists from Afghanistan too have access in these lands. Other than FATA we have Provincially administrative areas PATA in all 4 provinces. The other important thing in combating extremism and terrorism is infected textbooks. Provincial government of KPK should give priority to this fight and specially to adjacent districts of FATA.
Textbook reforms is need of the hour in all 4 provinces and after 18th amendment it is duty of all provincial governments to give it a priority. READ THE ARTICLE PUBLISHED IN WEEKLY HUMSHEHRI
http://humshehrionline.com/?p=8403#sthash.PjfdpIai.dpbs
http://humshehrionline.com/?p=8403#sthash.PjfdpIai.dpbs
کسی سیانے کا قول ہے کہ ان پڑھ کو تعلیم یافتہ بنایا جاسکتا ہے مگر کسی گمراہ ہوچکے مرد یا عورت کو اعتدال پسندی و بردباری کی طرف لانا انتہائی کٹھن کام ہے۔ ان خطوں میں ہمارے اجداد تو صوفیاء کی بردباری، یگانگت، انسان دوستی، خلوص و پیار کو دیکھ کر مسلمان ہوئے تھے مگر ہمیں صرف بادشاہوں یا جنگیں اورلشکرکشیاں کرنے والوں کی تاریخ ہی پڑھائی جاتی ہے۔ تاج برطانیہ نے تو 1849سے 1947 تک جو سکول بنائے تھے ان میں پڑھائی جانے والی کتب سے صوفیاء کی تعلیمات کو دیس نکالا دیے رکھا اور ہمیں محض بادشاہوں اور جنگیں لڑنے والوں کی تاریخ پڑھائی گئی۔ جبکہ ہم نے 1947 کے بعد اسی روایت کو ایک اور انداز میں جاری رکھا۔ سوال تو یہ ہے کہ آخر ہم120 سال بعد بھی تاج برطانیہ کی پالیسیوں کے کیوں اسیر ہیں؟ -
انتہاپسندی کے خلاف جدوجہد اس وقت تک بے توقیر رہے گی جب تک ہم عملی سطح پر یہ تاثر نہیں دیتے کہ یہ لڑائی ہر قسم کے قانون شکنوں کے خلاف ہے۔قانون کراچی تا خیبر یکساں طور پر سب کے لیے ایک ہونا چاہیے اور سب کو قانون کی حکمرانی کی اہمیت کو جان لینا چاہیے۔ چاہے وہ فوجی ہے یاسول بیوروکریٹ، سیاستدان ہے یامذہبی پیشوا، شہر میں مقیم ہے یا دیہات یا قبائل میں رہتا ہے، اسے یہ تاثر ہمیشہ ملے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ وہ مسلمان ہے یا مسیحی یا ہندو،سکھ جو بھی پاکستان میں رہتا ہے اسے آئین پاکستان اور قوانین کا عملاً احترام کرنا ہے۔ ملک میں کوئی ’’نو گو ایریا‘‘ نہ ہو نہ ہی وفاقی و صوبائی قبائلی علاقہ جات کے لیے الگ قوانین ۔ کسی فرقہ یا مذہب کے ماننے والوں کو دوسرے مذہب یا فرقہ کے خلاف بولنے، لکھنے کی جرأت نہ ہوسکے کہ ہر پاکستانی کا احترام سب پر لازم ہو۔ اس نسخہ کیمیا کے کارگر ہونے کی اوّلین شرط یہ ہے کہ اس کام کو کوئی فرد واحد نہ کرے کیونکہ ایسی صورتحال میں بھی یہ تمام کوشش بے توقیر رہے گی۔ -
No comments:
Post a Comment