2nd Phase LB Polls: Pitfall for MQM & PTI
The case of local bodies is very interesting. Although local bodies is the third vital part of any democratic system yet due to its bad use by dictators it was rightly or wrongly not in priority list of politicians. First time in Pakistani history local government elections are being held under democratically elected government and all the major federal and provincial power players are participating in it. After First democratic transition it is another historic event. Due to a bad media we are not yet ready to celebrate this historic change. There are some forces who are not very happy to see it. They will try to make it a bad lesson but hopefully they have to bear it. The phase-1 has already exposed many players not only in Sindh but also in the Punjab. Phase-2 is ready and at November 19 people will use power of vote in another 27 districts of Sindh and the Punjab. PTI who won only 7 seats out of 1070 in Sindh and below 10% in the Punjab in phase-1 is trying to attract arrians in Punjab and anti PPP votes in Sindh. In the Punjab Ch Sarwar is the ringmaster but this time his defeat may end his carrier. PML Nawaz is confident due to its Diamond Balti Policy . PPP is confident too but in Sindh. In the Punjab PPP is not in the competition but they are fighting for their survival. If they perform better than phase-1 (48 seats out of 2650) it will help party confidence. Like PTI, another political party is in trouble waters. This is MQM who in phase-1 failed to attract people in Sukkar. For MQM Hyderabad election is vital yet unlike Mushraff period they may not install their Nazim. 2nd phase is important because results of 2nd phase will effect 3rd phase.
Read the complete article by clicking below
عامر ریاض۔۔۔۔۔
علامہ اقبال کی سیاسی بصیرت باکمال تھی کہ اپنے دورس خطبہ الٰہ آباد میں معاہدہ لکھنؤ کے لیے انہوں نے انگریزی کا لفظ Pit fall استعمال کیا تھا۔ لغت میں اس کا مطلب غیر متوقع خطرہ یا چور کھڈا / گڑھا یا پھر کھوبہ بنتا ہے۔ پنجاب و بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت کو گھٹانے والا یہ معاہدہ لکھنؤ بالآخر انڈیا ہی نہیں بلکہ کانگرس کی سیاست کا بھی کھڈا ثابت ہوا۔ کچھ یہی حال پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی قوت تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے جسے 2011 سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اکثریتوں کو گھٹانے پر لگایا گیا ہے۔حکیم اجمل خان نے اپنی سوانح میں لکھا ہے کہ کسی کی اکثریت کو زبردستی گھٹانے کا نتیجہ الٹا پڑ جاتا ہے۔کیا مقامی حکومتوں کے انتخابات پی ٹی آئی کے لیے ’’چور کھڈا‘‘ ثابت ہوں گے؟ اس بارے سیاسی پنڈتوں نے بھی اب چپ سادھ لی ہے۔ اگر اس پارٹی نے پی پی پی کے ساتھ مل کر ’’عزت‘‘ سے دھرنا ختم کر کے انتخابی اصلاحات اور نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کروائی ہوتیں تو آج اسے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ مگر وہ کنٹینر پر چڑھ کر قائد حزبِ اختلاف خورشید شاہ کو نواز شریف کا ’’منشی‘‘ کہتے
کہتے بلدیاتی انتخابات کے کھڈے کی نذر ہو گئے۔ -
اگر آپ بلوچستان، خیبر پی کے اور سندھ و پنجاب کے پہلے مرحلہ پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں نشستیں حاصل کرنے والوں کا چارٹ بنائیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جائے گی کہ پاکستان میں عوامی سطح پر جو سیاسی قوتیں برسرپیکار ہیں ان میںآج بھی مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ پی پی پی ہی سے ہے۔ میڈیا پر برابر کی نشست حاصل کر لینا اور بڑے شہروں میں ’’کھپ ‘‘ڈال دینا دوسری بات ہے مگر عوامی سطح پر پنڈوں، قصبوں میں تنظیم بنانا خالہ جی کا واڑہ نہیں۔ تحریک انصاف بہت سی پارٹیوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے ضرور آئی کہ عوامی سطح پر پنڈ پنڈ جس طرح تنظیم کھڑی کرنی تھی وہ اس سے غافل ہی رہی۔ اس غفلت کو اب محض دھاندلیوں کے شور سے چھپانا ممکن نہیں کہ اکثر بلدیاتی حلقوں میں تو پی ٹی آئی امیدوار بھی نہ دے سکی اور جہاں امیدوار مل بھی گئے وہاں انہیں ذات برادری کی سیاست پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔سبق یہی ہے کہ محض Electablesکے آنے سے پارٹیاں نہیں بنتیں۔ -
پارٹیاں نہیں بنتیں۔ -19 دسمبر کا طبل بج چکا ہے کہ جب سندھ کے 15 اور پنجاب کے 12 اضلاع میں رن پڑے گا۔ سندھ کے جو اضلاع دوسرے مرحلہ میں شامل ہیں ان میں شہید بے نظیر آباد، عمرکوٹ، حیدرآباد، بدین، دادو، جامشورو، مٹیاری، میرپور خاص، نوشہرو فیروز، سجاول، سانگھڑ، ٹنڈواللہ یار، ٹنڈو محمد خان، تھرپارکر اور ٹھٹھہ شامل ہیں۔ ان اضلاع میں 80 لاکھ 5 ہزار ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔ جن اضلاع میں ووٹروں کی تعداد 5 لاکھ یا اس سے زاہد ہے ان میں حیدرآباد، بدین،دادو، میرپور خاص، نوشہرو فیروز، سانگھڑ، شہید بے نظیر آباد اور تھرپارکر شامل ہیں۔ 2013 کے قومی انتخابات میں ان اضلاع سے جیتنے والوں کی مجموعی اکثریت پی پی پی ہی کی تھی اس لیے اس کا اثر دوسرے مرحلہ پر بھی پڑنے کی توقع ہے۔ اس مرحلہ میں بھی اگر ایم کیو ایم کی کارکردگی پہلے مرحلہ جیسی رہی تو پھر اس کا اثر تیسرے مرحلہ پر کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر بھی پڑے گا۔ شاید یہی وہ دباؤ ہے جس کی وجہ سے اب تحریک انصاف کی طرح ایم کیو ایم کو بھی جان کے لالے پڑے ہیں۔ ایم کیو ایم کی اسمبلیوں میں واپسی ہو یا پھر ’’بدعنوان‘‘ سندھ سرکار سے ملاقاتیں اس کا پس منظر دوسرے اور تیسرے مرحلہ پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات ہی ہیں۔ الطاف بھائی کے بھاشنوں کی غیر موجودگی بھی ایم کیو ایم کو کھائے جا رہی ہے کہ عاصمہ جہانگیر کے توسط سے عدالت میں جمع کروایا گیا معافی نامہ کارگر نہیں ہو رہا۔ ایم کیو ایم کی انتہائی کوشش ہے کہ الطاف بھائی کے بھاشنوں والی پابندی تیسرے مرحلہ سے پہلے کسی نہ کسی طرح ،منت سماجت ہی سے، بس ہٹ جائے۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ تحریک انصاف کے غبارے سے مزید ہوا نکالنے کا سبب بنے گا کہ جن سندھی قوم پرستوں پر وہ تکیہ کر رہے تھے وہ تو خود ’’شمالی اتحاد‘‘ ہیں۔ شاہ محمود قریشی کے مریدوں سے کچھ امید ضرور تھی مگر قریشی صاحب بوجوہ ’’سروری سیاست‘‘ پارٹی سیکھچے کھچے سے ہیں۔ پنجاب میں دوسرے مرحلہ پر بھی 12 اضلاع ہی میں انتخابات ہوں گے جن میں ایک کروڑ 46لاکھ 5 ہزار ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ان 12 میں سب سے زیادہ ووٹر گوجرانوالہ ضلع میں ہیں جن کی تعداد 24 لاکھ سے زائد ہے۔ گوجرانوالہ کے علاوہ جن اضلاع میں ووٹروں کی تعداد 10 لاکھ سے زیادہ ہے ان میں اٹک، خانیوال، ساہیوال، سرگودھا، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور شیخوپورہ شامل ہیں۔ باقی 5 اضلاع میں چنیوٹ، حافظ آباد، جہلم، میانوالی اور منڈی بہاؤالدین شامل ہیں۔ دوسری بڑی سیاسی قوت بننے کی دعویدار پی ٹی آئی کے لیے دوسرا مرحلہ انتہائی اہمیتوں کا حامل ہے۔ اگر پہلے مرحلہ کی طرح وہ محض 10 فیصد بلدیاتی نشستیں جیتیں گے تو پھر اس پارٹی کے پاتال کی طرف سفر کو ’’میڈیائی جدوجہد‘‘ بھی روک نہ سکے گی۔ انتخابی جوڑتوڑ میں ماہر ’’سروری شہزادہ‘‘ آرائیوں کو جوڑنے والے ضیاالحقی فارمولا کو استعمال تو کر رہا ہے کہ اب تحریک انصاف کی امید اسی جوڑتوڑ یا مک مکا سے وابستہ ہے۔ دوسرے مرحلہ میں اگر پیپلز پارٹی پہلے مرحلہ کی 48 نشستوں کے مقابلہ میں زیادہ نشتیں جیت لیتی ہے تو اس پارٹی کو بغیر فاتحہ پڑھے دفنانے کا اعلان کر چکے میڈیائی دانشوروں کے بھاشن کم ہو جائیں گے۔ اگر پی پی پی کے لیڈر میڈیا پر بیانات دینے کی بجائے ان اضلاع کے پرانے 10 فیصد جیالوں کو بھی متحرک کر پائے تو اس پارٹی کے پنجاب میں نتائج پہلے مرحلہ سے بہتر ہو سکتے ہیں۔ پنجاب میں پہلے مرحلہ میں تحریک انصاف کی گرتی ہوئی مقبولیت کو سامنے رکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 2013 کے انتخابات کی نسبت 2015 میں پیپلز پارٹی کے پکے ووٹر اب تحریک انصاف کے دام میں پھنسنے والے نہیں ہیں۔ پی پی پی جتنی جلدی اس تاثر کو غلط ثابت کرے گی اس سے پنجابیوں میں وہ دوبارہ سے جگہ بنا سکے گی۔ 2011 کے بعد پنجاب میں پی ٹی آئی نے جو جگہ بنائی ہے وہ پی پی پی سے چھینی ہے مگر اس کا ادراک 2013 کے انتخابات میں بوجوہ نہیں تھا۔ پارٹی اور اس کی قیادت جونہی اپنے غلط فیصلوں پر خود تنقیدی کرے گی تو اس کے جیالے متحرک ہو سکیں گے۔ میں نے تو انہی صفحات میں پہلے ہی لکھا تھا کہ پہلے انتخابی اصلاحات، مردم شماری اور نئی حلقہ بندیاں ہوں اور بعدمیں بلدیاتی انتخابات ۔ یوں ان اصلاحات کو پرکھ بھی لیا جائے گا اور لوگوں کا انتخابی عمل پر اعتماد بھی بڑھے گی جو پہلے جمہوری تسلسل کے لیے پائیداری کی ضمانت ہوگا۔ بلاشبہ پی پی پی نے بطور حزبِ اختلاف دھرنوں کے دوران یہی کوشش کی بھی تھی۔ اگر تحریک انصاف اس وقت خورشید شاہ کی سیاسی بصیرت کو سمجھ لیتی تو آج بلدیاتی انتخابات زیادہ بہتر انداز میں ہوتے۔ تحریک انصاف اس وقت بھی نہ سمجھی جب عمران خان کو خیبر پی کے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات بارے تحفظات کا اظہار کرنا پڑا۔ ایم کیو ایم نے ایک مرحلہ پر مردم شماری کی بات تو کی تھی مگر کراچی میں وہ وہی حلقہ بندیاں رکھنا چاہتے تھے جو پرویز مشرف کے دور میں انہوں نے ڈکٹیٹر کی مرہون منت بنوائی تھیں۔ یقیناًپیپلز پارٹی کی بات نہ تو ایم کیو ایم نے مانی نہ ہی تحریک انصاف نے کہ اس کا فائدہ اگر مسلم لیگ (ن) نے اٹھایا تو اب لکیر پیٹنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ افسوس کہ پیپلز پارٹی کے کردار کو ’’مک مکا‘‘ کہہ کر میڈیا نے بھی خوب پھکڑی اُڑائی اور کالم نگاروں نے صفحے کے صفحے کالے کیے۔ مگر اس دھول اڑانے سے کسی کے ہاتھ کچھ نہ آیا کہ دوسرے مرحلہ میں بھی سندھ و پنجاب کے مجموعی نتائج میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) ہی پہلی دو پوزیشنوں پر نظر آئے تو پھر پاجامہ ادھیڑ کے سینے کے علاوہ ان دانشوروں کے پاس کیا رہ جائے گا۔جب 2013 کے انتخابی نتائج آئے تھے تو میڈیا میں بیٹھے دانشوروں نے پارٹیوں کو پڑنے والے ووٹوں کے اعدادوشمار کی بنیاد پر یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ تحریک انصاف دوسری بڑی قوت ہے۔ اب بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں کسی چینل نے یہ نہیں بتایا کہ سندھ و پنجاب میں پڑنے والے کل ووٹوں کے تناسب کے حساب سے کون سی پارٹیاں پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔ وہ سندھ و پنجاب کے نتائج بڑی ہوشیاری سے الگ الگ ہی دکھاتے ہیں کہ کہیں یہ بتانا نہ پڑ جائے کہ پہلی دو پوزیشنیں کن سیاسی جماعتوں کی ہیں۔میڈیائی مہمیں عوامی سطح کی سیاست میں کتنی کارگر رہتی ہیں اور اشتہاروں پر رقمیں خرچنے سے سیاسی جماعتوں کو کتنا فائدہ ہوتا ہے، اس کا حساب کتاب بلدیاتی انتخابات میں ہو رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اصل قوت ان کی پنڈوں اور اضلاع میں بنائی گئی تنظیموں اور سیاسی کارکنوں میں ہی ہے کہ اب سب کو اصل حقیقت مان لینی چاہیے۔ -
No comments:
Post a Comment