Saturday, November 21, 2015

Pakistan needs Civil Military Balance not Conflict


Pakistan needs 
Civil Military Balance not Conflict

Civil Military Balance is Key to Success in the World of Modern Nation States
Will Pakistan Learn Lesson From it?

In modern nation states borders are like new gods.  The link between borders and securities is understandable but in larger and sustainable context security is linked with C & M balance. Since 2008 Pakistan is experiences CMB , it may have gapes and errors but by and large till today CMB is in practice. As being on one page is a new phenomenon so there are many pitfalls too. Before and after the recent visit of Army Chief to US, we witnessed a debate regarding CMB once again. It could be avoided. 
After WW2 Stalin and Churchill met Roosevelt at Yalta where FDR broke a deal and both agreed with him. The story is written by S M Plokhy in his famous book.  Famous Russian scholar is a Ukranian. He used Russian archives and found that much before the Yalta agreement military leaders of all the three countries had agreed on it and they were in Yalta before hand. As policy makers in modern nation states knew the importance of CMB so Yalta agreement was announced by the Government and not by the commanders. 
we have a history of infighting among institutions largely due to dictatorships. if one institution will dictate others then no one will be on same page. It create Civil military Conflict rather then CMB. 

Now read the piece Published in weekly Humshehri, click


عامر ریاض۔۔۔۔۔ اس وقت پاکستان کے آرمی چیف ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دورہ پر ہیں اور رسالہ چھپنے تک وہ یہ دورہ مکمل کر چکے ہوں گے۔وہ وہاں کیا لے کر گئے ہیں، کیا لے کر آئیں گے اس بارے کچھ لکھا بھی گیا ہے اور بہت کچھ لکھا بھی جائے گا۔ تاہم اس دورے سے قبل ملکی، علاقائی اور انٹرنیشنل میڈیا میں جو متنازعہ باتیں لکھی گئیں ان سے بچا جا سکتا تھا۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے نزدیکی تعلقات کے دعویدار صحافی ہارون رشید نے تو اک نجی ٹی وی پر برملا کہہ ڈالا کہ میں نے آرمی چیف کے دوسری بار امریکہ کے دورے پر جانے کے خلاف مشورہ دیا تھا۔ دوسری طرف سول حکمرانی کے خواہاں بہت سے تبصرہ نگار نہ تو اس بات پر معترض ہیں کہ آخر آرمی چیف نے خود دورہ امریکہ کی خواہش کا اظہار کیوں کیا نہ ہی وہ سول ملٹری تعلقات میں فوج کے بڑھتے ہوئے دباؤکے تناظر میں اس دورہ کو دیکھتے ہیں۔ ایک سال میں جنرل راحیل شریف کا یہ دوسرا دورہ امریکہ ہے۔ جب وہ دسمبر2015 کو امریکہ کے دورہ پر گئے تھے تو اخبارات نے لکھا تھا کہ2010 کے بعد کسی پاکستانی فوجی سربراہ کا یہ پہلا دورہ ہے۔ اکتوبر میں وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کے دورہ کے بعد آخر انہیں کیوں جانا پڑا یہ ہے وہ بات جس پر مختلف حلقوں میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ جدید وطنی ریاستوں میں افواج بشمول بری، فضائیہ و نیوی کے بڑھ چکے کردار بارے تو سب آگاہ ہیں کہ جب دوسری جنگ عظیم کے بعدیالٹا میں دنیا کی نئی تقسیم کا اعلان کرنے امریکی، روسی اور برطانوی سربراہ اکٹھے ہوچکے تھے تو ان کی آمد سے کئی ہفتوں قبل تینوں ممالک کی عسکری قیادتیں نئی عالمی تقسیم کے حوالے سے فیصلے کرچکیں تھیں۔ تاہم مسئلہ اس وقت گھمبیر ہوجاتا ہے جب پارلیمان کو نہ صرف اندھیرے میں رکھا جاتا ہے بلکہ یہ تاثر بھی دیا جاتا ہے کہ فیصلہ سازی تن تنہا افواج ہی کرتی ہیں۔ اس تاثرکے نقصانات کا بخوبی اندازہ روس، امریکہ، برطانیہ کے پالیسی سازوں کو ہے کہ اسی لیے یالٹا معاہدہ کا اعلان منتخب قیادتوں ہی نے کیا۔ 50سال بعد جب سویت یونین ٹوٹا تو نئی روسی قیادت نے ریاستی اداروں کی پرانی خفیہ دستاویزات جاری کیں تو جاکر پتہ چلا کہ نئی دنیا کی تقسیم کے فیصلے فوجی سربراہوں نے کیے تھے۔امریکہ، برطانیہ نے تو تاحال ایسی خفیہ دستاویزات جاری نہیں کیں۔یوکرینی والدین کے گھر پیدا ہونے والے مشہورروسی تاریخ دان ایس ایم پلوخی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’یالٹا: امن کی قیمت‘‘ میں یہ تفاصیل مہارتوں سے دیں ہیں۔کتاب پڑھتے ہوئے آپ کو احساس ہوتا ہے کہ جدید وطنی ریاستیں، ان کا میڈیا اور سیاسی جماعتیں اختلافات کے باوجودمنتخب حکومتوں کی بالادستیوں کے تاثرپر ہردم پہرہ دیتے ہیں۔اس تاثر ہی کی بدولت وہ فیصلے کرنے والوں کو طاقتیں دیتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں جدید وطنی ریاستوں کے برعکس بعض پالیسی ساز غیر جمہوری رویوں کے بوجوہ ’’اسیر‘‘ ہیں۔ - 
اس ’’اسیری‘‘ کی بڑی وجہ چار مارشل لاء ہیں جس کے مہلک اثرات تادم تحریر جمہوری عمل کو متاثر کررہے ہیں۔ پاکستان میں آئین سازی اور جمہوری عمل کو بحال کرنے کے لیے گذشتہ 68 سالوں میں سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں اور صحافیوں نے جو کامیاب جدوجہد کی ہے اس کا مقابلہ دنیا بھر میں نہیں ہوسکتا۔ جنرل یحیٰ خان کے مارشلاء میں تو ملک ہی دو ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا مگر بھٹو دور میں باقی پاکستان کو مزید انتشار سے بچاتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر 1973 کا آئین دے کر ملک کوبچالیا تھا۔ جنرل ضیاالحق کے مارشل لا نے امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں کی مدد سے ملک میں افغان جہاد کے ذریعے طالبانائزیشن کی بنیاد رکھی تھی۔ مگر 2008 کے بعد جو جمہوری تسلسل وطن عزیز میں رواں دواں ہے اس نے یہ امید مضبوط کی ہے کہ پاکستان جلد یا بدیر دوبارہ سے فلاحی مملکت کی طرف کامیاب سفر کرے گا۔ - 
2013 میں اس جمہوری تسلسل کا ایک باب مکمل ہوا تھا جب عوام کے ووٹوں سے ایک حکومت رخصت ہوئی اور دوسری حکومت بن گئی۔ گو اس تسلسل میں بگاڑ پیدا کرنے کی سرعام سازشیں بھی ہوئیں مگر پارلیمان میں بیٹھی اکثر سیاسی جماعتوں اور دیگر اداروں نے تمام تر تحفظات کے باوجود پہلے جمہوری تسلسل پر پہرہ دیا۔ یوں 1973 کے آئین کے بعد یہ دوسرا موقعہ تھا جب پارلیمان منقسم نہ ہوئی۔ اب اس جمہوری تسلسل کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بعد چار چاند لگ رہے ہیں کہ اب جمہوری ادارے گلی، گلی موجود ہوں گے۔ ان حالات میں جو بحث آرمی چیف کے اس دورہ امریکہ کے بعد شروع ہوئی وہ کسی کے حق میں نہیں۔ قائد حذب اختلاف سید خورشید شاہ نے تو برملا اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا استدلال تھا کہ پاکستان میں اداروں کے ٹکراؤ سے بھارت سمیت ہمارے دشمن فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ یہ ٹکراؤ اس تاثر سے پیدا ہوتا ہے جس کے تحت یہ کہا جاتا ہے کہ فوج تمام فیصلے تن تنہا کرتی ہے۔ اس تاثر کو مضبوط کرنے میں بہت سے صحافی اور اینکر بھی رجھے رہتے ہیں کہ انہیں جدید وطنی ریاستوں کی ترقیاں تو من بھاتی ہیں، وہ یورپ و امریکہ کے دورے بھی’’ ٹپ ٹپ‘‘ کرتے ہیں مگر ان جدید وطنی ریاستوں کی خوبیوں کو پاکستان میں دہرانا نہیں چاہتے۔ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے ہیں اور ان میں سے کچھ تو خود کو ’’شاہ‘‘ ہی سمجھنے لگتے ہیں۔ کیونکہ ہماری نصابی کتابیں تادم تحریر’’ڈکٹیٹروں کی برکات‘‘ سے اٹی پڑی ہیں اس لیے اکثر اینکروں اور دانشوروں کی مثالیں بھی انہیں ’’برکات‘‘ سے مستعار ہوتیں ہیں۔پاکستان میں تادم تحریر آئینی جدوجہد کی تاریخ لکھی نہیں گئی اس لیے آج بھی ہماری نصابی کتب میں مارشل لاؤں کو’’سیاستدانوں کی غلطیوں‘‘ کی نظر سے دیکھا جاتا یا پھر یہ جملہ لکھا جاتا ہے کہ حالات کی خرابی کی وجہ سے مارشلاء لگانا پڑا۔ ظاہر ہے جو اینکر ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد میڈیا میں آیا ہے اسے جدید وطنی ریاستوں میں سول ملٹری تعلقات میں میانہ روی کی بات کیسے سمجھ آسکتی ہے۔ نصابی کتب نجی سکولوں کی ہوں یا پھر سرکاری ٹیکسٹ بک بورڈوں کی ان سب کتب میں یہی راگ الاپا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل وزیراعظم نے ’’لبرل پاکستان‘‘ کانعرہ مستانہ تو خوب بلند کیا تھامگر لبرل پاکستان کی تاریخ کون لکھے گا؟ اور اس تاریخ کو نصابوں کا حصّہ کون بنائے گا کہ یہ سوال تادم تحریر تشنہ ہی ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ 1958 سے تادم تحریر ڈکٹیٹروں کا ساتھ دینے والوں کو یا تو اپنا قبلہ جمہوریت کی طرف موڑنا پڑا یا پھر ان کا حشر ریپبلکن پارٹی یاْ ق ۔لیگوں جیسا ہوا۔پارلیمان کے خلاف ’’اسلامی ‘‘ اور ’’سیکولر‘‘ ڈکٹیٹروں میں حسین اتفاق تھا جسے پاکستانی معاشرے میں کبھی بھی پذیرائی نہ ملی۔ان حقیقتوں کا احساس رفتہ رفتہ سبھی کو ہو رہا ہے کہ جس کا زندہ ثبوت 2008کے بعد کا پاکستان ہے۔ سوال ایک دورہ امریکہ یا ٹوئیٹ کا نہیں بلکہ اس تاثر کا ہے جسے عرصہ دراز سے بوجوہ بڑھاوا دیا جاتا رہا ہے۔ 2008 کے بعد نازک حالات کے باوجود جس طرح سول ملٹری قیادتوں نے دامے سخنے پہلے جمہوری تسلسل کو سہارے دیے اس میں گھاٹے تو تھے مگر بالعموم جمہوری تسلسل کو اس دور کی سول ملٹری قیادتوں ہی کی مرہون منت جاری رکھا گیا تھا۔خارجہ امور پر کسی حد تک سمجھوتے کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی سرکار نے اندرون ملک جمہوری تسلسل کو توڑ چڑھایا تھا اور موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اسی جمہوری تسلسل کے طفیل چل رہی ہیں۔ اس تسلسل پر حرف آئے گا تو سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں اور جمہوریت پسندوں میں اضطراب بڑھنا لازمی امر ہے۔ کیونکہ مارشل لاوں میں’’اداروں میں تکرار‘‘ کو ہمیشہ اولیت رہتی ہے اس لیے ہماری تاریخ اس تکرار سے اٹی پڑی ہے اور ان حالات میں دودھ کا جلا اپنے مافی الضمیر کو عوام کے روبرو تو رکھے ہی گا۔ ہارون رشید کیوں جزل راحیل شریف کے دورہ امریکہ کے خلاف تھے یہ تو وہی بتا سکتے ہیں مگر اصل مسلہ تو اس دورہ کو سول ملٹری بیلنس کے تناظر میں دیکھنے کا ہے۔اضطراب اس لیے بھی بڑھا کیونکہ اس سے قبل ’’گورنینس‘‘ کو بہتر کرنے کی ٹویٹ پہلے آچکی تھی۔یوں اس عمل کا لازمی نتیجہ اداروں میں ہم آہنگی کے خلاف نکلا۔ 2008سے سول ملٹری قیادتیں یہ تاثر دے رہیں ہیں کہ ’’ہم سب ایک صفحہ‘‘ پر ہیں ۔ اس تاثر کی وجہ سے بعض متنازعہ اور مشکل فیصلے بھی قابل قبول ٹہرے۔اس تاثر پر پہرہ دینا عین قومی مفاد ہے اور یہ سب اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے سول ملٹری بیلنس(میانہ روی) کو داغدار کر کے ملک و قوم کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ محض اقتدار کی خاطرنہ صرف اداروں کو متنازعہ بنایابلکہ ڈکٹیشنیں بھی لیں۔اس کے برعکس 2008کے بعد بتدریج اداروں میں ٹکراؤ کم ہوا بلکہ منتخب پارلیمان نے ’’یمن‘‘ جیسے دورس فیصلے بھی کیے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جس دہشت گردی اور انتہا پسندیوں کے خلاف ہم بحثیت قوم کمربستہ ہیں کیا سول ملٹری تنازعہ کی موجودگی میں اس کو کامیاب کروایا جا سکتا ہے؟ - 

No comments:

Post a Comment

ڈان ڈاٹ کام وچ چھپیاں اردو لکھتاں

  ایس لنک تے کلک کرو کلک کرو تے پڑھو