Thursday, November 17, 2016

Jhangieer Badar: An obituary of a Jyalla

Jhangieer Badar: An obituary of a Jyalla 

20th century produced numerous political workers & intellectuals  yet under a special scheme many of us still unaware from that history yet it is a fact that majority of those workers never left their parties or groups just to grab money and power . Here you will read story of a political worker cum leader Jhangieer badar


جیالا
لوٹوں کی دنیا میں اجنبی

عامر ریاض
ہمارے خطہ میں درمیانے طبقہ نے 20ویں صدی کے سحرانگیز عہد میں ہزاروں سیاسی کارکن و دانشور پیدا کیے اور ان میں بڑی تعداد ایسے بے مثال لوگوں کی ہے جنھوں نے محض منفعت، چمک اور عہدوں کی لالچ میں اپنی پارٹیوں یا گروپوں کو نہ چھوڑا کہ جہانگیر بدر کا شمار بھی ایسے سیاسی لیڈروں میں ہوتا ہے۔ نوآبادیاتی و فوجی حکمرانوں نے ہمشہ بدبودار سیاست کو پروان چڑھایا اور لوٹوں کو معتبری دی جبکہ سیاسی تحریکوں نے سیاسی کارکنوں کی کھیپ قوم کو دی جن میں سے بیشتر سندھ، خیبرپی کے، بلوچستان اور پنجاب میں متوسط طبقہ کے وہ ہیرے تھے جنھوں نے سیاست کی لاج رکھی۔
ایوب مخالف سیاسی لہر کی کوکھ سے لاتعداد سیاسی کارکنوں نے جنم لیاکہ یہ وہ وقت تھا جب نوجوان جہانگیر بدر پاکستان کی سب سے قدیمی درسگاہ پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ بطور طالب علم رہنما وہ ہیلے کالج میں اسلامی جمعیت طلباء کو شکست دے کر اپنا لوہا منوا چکے تھے اور 1969میں لاء کالج میں تھے۔ اگلے سالوں میں بدر نے پنجاب یونیورسٹی کے انتخابات میں حافظ ادریس اور حفیظ خان کا مقابلہ کیا جو جمعیت کے نمائندے تھے۔دونوں انتخابی معرکوں میں بدر لیفٹ،لبرل اورجمہوری قوتوں کے مشرکہ امیدوار تھے ۔ ان دنوں پنجاب یونیورسٹی میں دو طلباء تنظیموں ہی کا زور تھا کہ جمعیت کا مقابلہ نیشنلسٹ سٹوڈینٹ آرگنائزیشن کرتی تھی۔ یہ یحی خانی دور تھا جس کے طاقتور وزیرمیجر جزل نوابزادہ شیر علی پٹودی اورمیجر جزل غلام عمر جماعت اسلامی اور شوکت اسلام کے دلدادہ تھے۔پنجاب یونیورسٹی کو وہ کیسے سرخوں کے ہاتھ جانے دیتے کہ جہانگیر بدر کو دونوں معرکوں میں شکست ہوئی مگر جس سیاسی بھٹی میں وہ کندن بنے اس کا اثر تادیر ان پر رہا۔
جہانگیر بدر نے ایک ایسی سیاسی جماعت کا انتخاب کیا جس نے نہ صرف اک سیاسی تحریک میں
آنکھ کھولی بلکہ اس کی تاریخ اس کے لیڈروں نے اپنے خون سے رقم کی۔اس پارٹی کے رہنما اک سندھی جناب ذولفقار علی بھٹو تھے جنھوں نے جہانگیر بدر کے شہر لاہور میں آکر پارٹی بنائی تھی اور پنجابیوں نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا تھا۔
جب جزل ضیاالحق کی ایماء پرمقبول عام وزیراعظم بھٹو کو غیر آئینی ہتھکنڈوں سے ہٹانے کے لیے قوم پرستوں اور اسلام پرستوں کا مجموعہ اضداد ’’دھاندلیوں‘‘ کی آڑ میں کھڑا کیا گیا تو بھی بدر کا ’’ایمان‘‘ متزلزل نہ ہوا۔بابائے سوشلزم شیخ رشید نے اپنی سوانح ''جہد مسلسل'' میں صفحہ
/9238 پر قومی اتحاد کی تحریک کے دوران متزلزل ہونے والوں کے نام لکھے ہیں جن میں شیر محمد بھٹی(صدر پی پی پی لاہور)، ڈاکٹر مبشر حسن(مرکزی جزل سیکٹری) اور اعتزاز احسن(وزیر) سمیت بہت سے لوگ شامل تھے۔بدر نے یہ سب کچھ دیکھا کہ بھٹو کو مطلق العنان کہنے والے ضیاالحق جیسے ڈکٹیٹر کے حاشیہ نشیں ہوئے۔بلوچستان پر ملڑی ایکشن کی دہائیاں دینے والوں نے پورے ملک میں ملڑی ایکشن کرنے والوں کو نجات دہندہ قرار دیا کہ کیا قوم پرست (بلخصوص ولی خان)، کیا اسلام پسند، حتاکہ کچھ ترقی پسند بھی اس ’’حمام‘‘ سے برہنہ نکلے۔ اس کھیل کو دیکھ کر بدر سمیت جیالوں کا ’’ایمان‘‘ جمہوریت اور بھٹو پر مزید پختہ ہوا۔ چومکھی لڑائی شروع کی گئی کہ ضیا شاہی نے ایک طرف پی پی پی کے خلاف ظلم کے پہاڑ توڑتے ہوئے خفیہ ایجنسیوں اور فوج کو استعمال کیا، صوبوں میں نفرتیں پیدا کیں، فرقہ پرستوں کو ہلاشیریاں دیں اور سیاست میں پیسے کا استعمال بڑھا دیا۔ ریاست کے کل پرزوں نے فیصلہ کیا کہ پی پی پی کا گڑھ پنجاب ہے، اگر یہاں سے پارٹی کو ختم کر دیا جائے تو اس کو جنازہ پڑھائے بغیر دفنایا جا سکتا ہے۔ مگر بدر اور دیگر جیالوں بشمول کچھ ترقی پسند گروپوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ 10اپریل1986کولاہور میں بے نظیر بھٹو کاجس فقیدالمثال طریقے سے پنجابیوں نے استقبال کیا اس کی نظیر پاکستان میں ڈھونڈنی مشکل کہ بدر اس کا ہیرو اور بے نظیر کا بھائی قرار پایا۔ اسے پی پی پی کے جیالوں کے نام ازبر تھے ۔ مگر یہی وہ وقت ہے جب سیاست میں پیسہ رنگ جما چکا تھا کہ جس کا آغاز غیرجماعتی انتخابات سے ہو چکا تھا۔زرخرید سیاسی ہرکاروں اور غیر جماعتی سیاسی کرداروں کی فصل تیار کی گئی۔مگر پیسہ اور اس کا اثر محض سیاست تک محدود نہ رہا، نہ ہی رہنا تھا بلکہ اس کے رنگ میں قومی سلامتی کے ادارے بھی’’بے رنگ‘‘ ہوئے۔ پارٹی میں ’’سکائی لیپوں‘‘ کی آمد شروع ہوئی کہ یہ اصطلاح پی پی پی میں ہر جیالا ان نئے رہنماؤں کے لیے استعمال کرتا تھا جو 1986 کے بعد پارٹی میں معتبر ہوتے گئے۔ یہ ملک پاکستان میں نئی سیاست کا زمانہ تھا جس میں افغان جہاد سے مال غنیمت لوٹنے والوں کے ہاتھوں میں کمانڈ تھی۔بادل نخواستہ جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود اب وہ پاکستان میں افغان جہاد کا تسلسل چاہتے تھے کہ 1988سے 2001تک سیاست افغان جہاد کا تسلسل جاری رکھنے والوں کے ہاتھوں یرغمال رہی۔اس دوران سکائی لیپ عناصر نے پارٹی میں اپنا رنگ جمایا اور فاروق لغاری جیسوں نے چھرا گھونپا ۔ بدر پر بھی تنقید بڑھی کہ جب وہ اندرون لاہور کا حلقہ چھوڑ کر خوشحال علاقے میں آگیا تو جیالوں سے دور ہوتا گیا۔ مگر ابھی اس کے مزید امتحان باقی تھے کہ وہ پیٹریاٹ کے امتحان سے سرخرو رہا۔ کیسے کیسے پیپلیوں کو جزل مشرف نے اپنا ہمنوا بنایا یہ تو کل کی بات ہے۔ حتاکہ راؤ سکندر ، فیصل صالح اور خود امین فہیم جیسے متزلزل ہوئے۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد اس پر ناہید خان کا ملبہ گرایا گیا کہ یہ ملبہ گرانے والوں میں وہ بھی شامل تھے جو اس کے پرانے ویری تھے اور وہ بھی جو پارٹی میں نووارد تھے۔ وہ پارٹی کا سیکڑی جزل ضرور تھا مگرمحض درشنی پہلوان۔ اب اس کا آخری امتحان شروع ہوا کہ پنجاب کی پارٹی کو عملی طور پر پی ٹی آئی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اب پارٹی کو اس کی چنداں ضرورت نہ تھی مگر بدر تو تادم مرگ اس پارٹی کے ساتھ رہنا چاہتا تھا کہ وہ پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے اور اندرون شہر چھوڑنے کے باوجود جیالا ہی تھا۔
مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے طلباء میں کام کرنے والی اک این جی او برگد نے این سی ای، لاہور میں طلبا سیاست کے حوالہ سے ایک پروگرام کیا جس میں بدر نے بھی تقریر کی۔ بدر کا استدلال تھا کہ سیاسی جماعتوں کو طلبا سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ یہ ایک جیالے ہی کا کمال تھا کہ وہ ماضی سے سبق سیکھنے میں بھی بازی لی گیا۔
بدر پکا ’’لہوریا‘‘ تھا اور اسے ’’ر‘‘ کو ’’ڑ‘‘ کہنے پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔وہ لحد میں پارٹی کا پرچم تھامے اْترا کہ اب بلاول بھی اس کے گھر والوں کو پرسا دینے لاہور آیا ہے۔کاش وہ ایسے جیالوں کی فہرست بنائے جو 1968سے تادم تحریر پارٹی میں رہے اور کبھی لوٹا نہیں بنے۔ اْن کی باتیں تلخ تو ہوں گی مگر یہ تریاق ہو گا۔
اگر بلاول بھٹو یہ ’’کوڑا گھٹ‘‘ پی لیں تو بدر کی روح بھی پرسکون ہو جائے گی۔


No comments:

Post a Comment

ڈان ڈاٹ کام وچ چھپیاں اردو لکھتاں

  ایس لنک تے کلک کرو کلک کرو تے پڑھو