1951-2018 (series of articles)
What is happening now a days has a history to play with democratic options. It included many actors yet narrative remains same and that is to support selective people & parties before any election. 2018 elections are largely rigged in many ways partly before elections and partly after the end of polling day and before giving final results.
One major proof of recent flawed elections is Report of European Commission Observers . Will write a detail analysis of 25th July elections soon but here is history of Pakistani Elections from 1951 till 2013.
One major proof of recent flawed elections is Report of European Commission Observers . Will write a detail analysis of 25th July elections soon but here is history of Pakistani Elections from 1951 till 2013.
Read yourself
انتخابی تاریخ: خلائی مخلوق کی مداخلتیں : دسمبر
1951 اور صوبہ سرحد قسط نمبر2
پہلا پاکستانی بنگالی الیکشن 1954 اور عوامی طاقتوں سے خلائی مخلوق کی شکست۔ قسط نمبر4
یوں 1970 کے انتخابات نے بہت سے فیصلے بھی کر دئیے اور
سیاسی جماعتوں اور ہرکاروں کو عوامی رائے سے آگاہ بھی کر دیا۔ بڑا سبق یہی تھا کہ
12 سال تک قوم کو ایوب و یحی نے جس حبس میں رکھا تھا اسے لوگوں نے یکسر مسترد کر
دیا۔ ان سیاسی جماعتوں کو جو سٹیبلشمنٹ کی لاڈلی تھیں لوگوں نے لفٹ تک نہ
کرائی۔پنجاب کے فقید المثال مینڈیٹ نے جس میں وسطی پنجاب کا حصہ کہیں زیادہ تھا نے
بھٹو کو مغربی پاکستان کا واحد نمائندہ بنا دیا کہ وہ قائد عوام بن گئے۔ مگر جنرل
یحی خان نے ہٹ دھرمی اور چلاکیوں سے کام
لیا یا شاہد بنگالیوں سے جان چھڑانے والے ایجنڈے کو چلانے والوں نے اپنا کھیل رچایا۔ اگر عوامی مینڈیٹ کا احترام
کیا جاتا تو حالات یکسر مختلف ہوتے کہ اس کی واحد ذمہ وار اس وقت کی سٹیبلشمنٹ ہی
تھی۔ کاش ہم اس سے کوئی سبق لے سکیں۔
بھٹو سے نواز: انتخابی
معرکے اور بدترین مداخلتیں1977سے 2018تک (آخری قسط)
Part 6 link. Elections interventions from Bhutto to Nawaz (1977-2018)
http://sujag.org/nuktanazar/pakistan-general-election-history-1977-2018
Part 5 Link. Election 1970
http://sujag.org/nuktanazar/1970-general-election-awami-league-ppp
Part 4 Link 1954 Elections in East Bengal
http://sujag.org/nuktanazar/east-pakstan-election-1954-united-front
Part 3 link. May 1953 Election in Sindh
http://sujag.org/nuktanazar/sindh-election-1953-ayub-khuro
کیا اس بار ووٹ کو عزت مل سکے گی؟ لڑی
وار
عامر ریاض
ہماری انتخابی تاریخ ،مداخلتیں و
کامیابیاں:1951 اور پنجاب
ملک پاکستان میں جب سے انتخابات ہونے لگے ہیں تب سے
”جھرلو“، ”دھاندلیوں“ کی آوازیں بھی بلند ہوتی رہی ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود
انتخابات اور جمہوریت سے عوام کی لگن کم ہونے کی بجائے کچھ زیادہ ہی بڑھتی گئی۔
چار بار تو اس وطن عزیز کو آمریتوں کا سامنا کرنا پڑا کہ جن میں تواتر سے من پسند
سیاستدانوں کی کھیپیں
تیار کی گئیں مگر بار بار ان من پسند سیاستدانوں میں سے بھی ”باغی“ پیدا ہوتے
رہے۔لاتعداد سیاستدانوں کو غدار، بھارتی ایجنٹ، کرپٹ کہا گیا، گرفتاریاں بھی کیں
اور سزائیں بھی دلوائیں مگر لوگ، جب بھی موقعہ ملتا ہے، انہیں کو ووٹ دیتے ہیں۔ کیا
لوگوں کو واقعی جمہوریت سے پیار ہے؟ یا لوگ سمجھتے ہیں کہ جمہوری تسلسل کی وجہ
سے وہ بہتر نمائندوں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ الیکشن کا زمانہ ہے کہ چند دنوں میں پاکستانیوں نے 2018 کے انتخابات
کے ذریعے اگلی حکومت بنانے والوں کو چننا ہے۔ ایسے میں ملک پاکستان کی انتخابی
تاریخ بارے جاننا ضروری ہے۔ہو سکتا ہے
آمدہ انتخابات میں ان معلومات کی مدد سے آپ بہتر امیدوار کا انتخابات کریں۔
مارچ 1951 میں ملک میں پہلے انتخابات ہوئے تھے کہ اگلے
روز اخبارات میں ”جھرلو“ کی سرخیاں جمی تھیں۔ کراچی میں بیٹھے آئی سی ایس افسران
نے پنجاب میں ہونے والے اس پہلے پاکستانی الیکشن کو مجروح کرتے ہوئے وہ ریت ڈالی
جو آج تلک ملکی سیاست کا جزو لاینفک ہے۔ الیکشن سے دو سال قبل اس کھیل کا آغاز اس وقت ہوا جب مرکزی
حکومت کے مخالف، پنجاب کے وزیراعلیٰ افتخار حسین ممدوٹ کو کرپشن کا الزام لگوا کر
نکال باہر کرتے ہوئے پنجاب میں گورنر راج لگا دیا گیا تھاکہ یہ وہی ممدوٹ خاندان
تھا جس نے پنجاب میں مسلم لیگ کو اس وقت توانا کیا تھا جب مسلم لیگ پنجاب میں دو
سیٹیں ہی جیت سکتی تھی۔ اس وقت کے انگریز گورنر سر فرانسس موڈی سے ممدوٹ کا کیا
اختلاف تھا اور کراچی بیٹھے آئی سی ایس افسران اس کے کیوں خلاف تھے ، اسے جاننا
ضروری۔
ملک پاکستان کی انتخابی تاریخ جاننے کے لیے ابتدائی دور کی پنجابی
سیاست جاننا ضروری ہے کیونکہ پہلے
انتخابات پنجاب ہی میں ہوئے تھے۔
پاکستانی پنجاب بارے ابتدائی دورکی
تاریخ افتخارممدوٹ کے بغیر نامکمل کیونکہ
وہ پاکستانی پنجاب کے پہلے وزیراعلی تھے۔ان کے والد شاہنوز ممدوٹ اس خاندان کے
فرزند تھے جن کے بزرگوں نے چند نسلوں قبل پنجاب پر قبضہ (1849) کے وقت شیر
پنجاب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لہور دربار کا ساتھ دیا تھا اور وہ انگریزوں کے علاوہ
رائل بنگال آرمی سے لڑتے رہے تھے۔ پنجاب پر قبضہ کے بعد ایسے بہت سے پنجابی
خاندانوں کو نئے حاکموں نے سبق سکھلایا اور یہی ممدوٹوں کے ساتھ بھی ہوا۔ان کے
خاندان کے ایک ملازم نما رشتہ دار کو ان کی تمام جائیداد دے کر انہیں بے دخل کر
دیا گیا۔ ایسی بہت سی داستانیں سیکولر و جدت پسند انگریزوں نے برٹش پنجاب ہی نہیں
بلکہ برٹش انڈیا میں رقم کیں مگر تاحال یہ تاریخ ابھی تک لکھی نہیں گئی۔ 1930 کی
دہائی کے پہلے نصف میں نسلوں کی مقدمہ بازیوں کے بعد شاہنواز ممدوٹ کو خاندانی
زمینیں واپس ملیں تو انہوں نے یونینسٹ پارٹی کی بجائے مسلم لیگ، پنجاب میں شمولیت
اختیار کی۔ 1940 میں جب قراردادِ لاہور منظور ہوئی تو اس اجلاس کی صدارت بھی
شاہنواز ممدوٹ ہی کر رہے تھے۔ ان کا بیٹا افتخار حسین ممدوٹ پاکستان بننے کے بعد
صوبہ مغربی پنجاب کا پہلا وزیراعلیٰ بنا۔یہ وہی افتخار تھا جو 1942 میں اپنے والد
کے انتقال کے بعد پنجاب مسلم لیگ کا صدر بھی بنا تھا۔
1949
میں قراردادِ مقاصد کی منظوری سے پہلے پنجاب حکومت کے
وزیراعلیٰ کو ہٹانا کیوں ضروری تھا؟ یہ وہ راز ہے جس پر مورخین نے بہت کم کام کیا
ہے۔ کراچی میں بیٹھ کے صوبوں کی حکومتوں کو کرپشن کی آڑ میں اڑانےکا شافی نسخہ
”پروڈا“ کا قانون قرار پایاجسے آئی سی ایس افسران ہی نے لیاقت علی سرکار کو بنا کر
دیا تھا۔ بقول عائشہ جلال ممدوٹ کو نکالنے میں
پنجاب کےانگریز گورنر نے اہم کردار ادا کیا تھا۔یہ وہی انگریز افسر تھا جو
پاکستان کو کیمونزم کے خلاف بڑا مورچہ سمجھتا تھا کہ اس کی تحریریں اب چھپ چکی ہیں۔”پروڈا“
خلائی مخلوق کی پہلی مداخلت تھی کہ جس نے مرکز کو صوبوں پر وار کرنے کا رستہ
سمجھایا جسے جنوری 1949 کو جاری کیا گیا۔ افتخار حسین ممدوٹ ہی کی طرح لیاقت سرکار
کو آئی سی ایس افسران نے حسین شہید سہروردی سے بھی خوب ڈرایا۔ یہ حسین شہید وہی
شخص تھے جن کی مسلم لیگ کے لیے خدمات قابل فخر تھیں اور وہ متحدہ بنگال کے آخری
وزیراعلیٰ بھی رہے تھے۔ مقبول عام حسین شہید کو اسمبلی میں بھارتی ایجنٹ اور غدار
کہنے کا عمل بھی قراردادِ مقاصد سے قبل کا ہے۔ یہ سب کہانی ایک نہ ایک دن
پاکستانیوں کو معلوم ہو جائے گی۔جو آجکل پاکستان میں ہو رہا ہے یہ انہی روایات کا
تسلسل ہے جو انگریز افسران سے ہمیں تحفے میں ملیں۔
پنجاب میں گورنر راج لگانے کے بعد بھی کراچی مقیم آئی
سی ایس افسران کو چین نہ آیا۔ وہ تو ملک پاکستان کو اپنی من مرضیوں سے چلانا چاہتے
تھے کہ جس کی تربیت انہیں انگریز آقا دے کے گئے تھے۔ مگر وہ یہ بات بھول گئے کہ جس
ملک میں وہ یہ طرزِ سیاست چلانا چاہتے ہیں وہ ایک سیاسی عمل کے نتیجہ میں بنا تھا۔
اس ملک کے خالق یعنی اقبال و جناح میں سے کوئی سرکاری افسر نہیں تھا اور انہوں نے
محدود اختیارات کی حامل اسمبلیوں کے انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔ جبکہ دوسری طرف
یہ وہی خطے تھے جنہوں نے 20ویں صدی سے سیاسی تحریکوں میں خون دیا تھا۔پنجابی و
بنگالی مسلمانوں کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ انھوں نے 20ویں صدی کے پہلے نصف
میں آبادی کے تناسب سے انتخابی نشستوں کی
جدوجہد کی تھی جس میں سب سے بڑی رکاوٹ
لکھنو پیکٹ تھا۔ یہی نہیں بلکہ پگڑی سنبھال جٹا(1906)، غدر تحریک(1913) کے بعد
پنجابیوں نے جلیانوالہ باغ قتل عام کے
بعد عوامی سیاسی تحریکوں کی ایسی طرح ڈالی کہ جس نے برٹش انڈیا کی روائیتی کلب
سیاست کو ختم کرڈالا۔ علامہ اقبال کا خطبہ الہ آباد(1930) ہو یا قرارداد
لاہور(1940) ان میں جو حل پیش کیے گئے تھے ان میں جمہوری روایات سے جڑے رہنے کا
عزم نمایاں تھا۔
پنجاب میں گورنر راج لگنے کے بعد کے سیاسی حالات
میں نہ صرف ممدوٹ و سہروردی نے اپنی اپنی
سیاسی جماعتیں بنا لیں بلکہ میاں افتخارالدین، خان عبدالغفار خان، جی ایم سید،شیخ
حسام الدین سمیت بہت سے افراد اپنی اپنی سیاسی جماعتیں بنانے لگے جن میں مغربی
پاکستان اور مشرقی بنگال کے ترقی پسند اور کیمونسٹ بھی پیش پیش رہے۔۔ جلد ہی
افتخار حسین ممدوٹ اور حسین شہید سہروردی نے جناح مسلم لیگ اور عوامی مسلم لیگ کو
ملا کر جناح عوامی لیگ بنا ڈالی۔ مارچ 1951 کے انتخابات میں یہ دونوں پرانے مسلم
لیگی رہنما اسی جماعت کے ساتھ کراچی کی حاکمیت سے نبرآزما ہونے کو نکلے۔
انتخابات سے ایک دن قبل خلائی مخلوق نے ایک اور اوچھا
وار کیا۔ یہ وار عالمی و مقامی سیاستوں کا گھما تھا۔ انتخابات میں آئی سی ایس
برادری کا رعب جمانے کے لیے ملک میں ایک سازش کے پکڑے جانے کا انکشاف ہوا۔اس سازش
کا ایک عالمی تناظر تھا جبکہ دوسرا آمدہ پنجاب کے انتخابات میں من مرضیاں و مداخلتوں کو ٹیک دینا تھا۔ اب تمام دستاویزات
بھی سامنے آ چکے ہیں اور متعدد لوگ اس بارے لکھ بھی چکے ہیں جس کی کجھ تفصیل دی جا
رہی ہے۔
1947
سے میکارتھی ازم کا دنیا میں بول بالا نئی سپر پاور
امریکہ کر رہا تھا۔ یہ امریکی بلاک بنانے کی کوششوں کا حصہ تھا۔ کمیونزم کو روکنا
اس کا اولین زریں اصول تھا۔یوں سمجھیں جیسے نو گیارہ کے بعد دہشت گردوں، انتہا
پسندوں کو مارنا اہم عالمی ایجنڈا بنا تھا ویسے ہی میکارتھی ازم کے بعد کمیونزم کو
روکنا اہم ترین حدف تھا کہ اس کے لیے اسلام سے بھی مدد حاصل کی گئی۔یاد رہے کہ
انقلاب روس(1917) کے بعد سلطنت برطانیہ اور انقلابی روس دونوں ہی نے اسلام سمیت
دیگر مذاہب کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال
کرنے کے طریقے اپنائے تھے۔اب سرد جنگ کے زمانے میں نئی سپر پاور اس پرانی بوتل میں
میکارتھی ازم کی تازہ شراب لائی تھی۔اب آپ پنجاب میں انتخابات سے قبل منظر عام پر
لائی جانے والی سازش بارے پڑھیں۔
9
مارچ کو پاکستانی اخبارات میں یہ سرخی جمی کہ حکومت
پاکستان کے تجربہ کار ہرکاروں نے ایک عظیم سازش پکڑی ہے۔ اس سازش کے سرخیل پاکستان
کے کمیونسٹ ہیں اور اس میں بہت سے فوجی افسران بھی شامل ہیں۔ بعدازاں ریکارڈ سامنے
آنے پر پتہ چلا کہ سازش میں جن فوجیوں کو ملوث کیا گیا ہے انہیں حکومت کی کشمیر
پالیسی سے اختلاف ہی نہ تھا بلکہ وہ جنرل ایوب خان کے سخت ناقدین بھی تھے۔ اس سازش
کو عرف عام میں ”پنڈی سازش کیس“ کے عنوان سے شہرت ملی۔ کراچی میں ان دنوں کمیونسٹ
پارٹی آف پاکستان سے جڑے ایرک رحیم بتاتے
ہیں کہ اس مقدمے کے بعد زیادہ تر گرفتاریاں اور پکڑ دھکڑ پنجاب ہی میں ہوئیں، کراچی
میں تو ہمارے خلاف کچھ ہل جل نہ تھی۔ انتخابات تو پنجاب ہی میں ہو رہے تھے کہ سازش
کا یہ وہ مقامی حوالہ تھا جس کا بعدازاں سب کو پتہ چل ہی چکا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا
کہ سازش کے سرخیل جنرل اکبر خان کی بیگم پنجابی سیاست کے ایک پرانے کھلاڑی میاں محمد
شفیع کی نواسی اور پنجاب اسمبلی کی مایہ ناز خاتون رکن جہاں آرا شاہنواز کی بیٹی
تھیں۔ بقول سی آر اسلم، نسیم اکبر کے کمیونسٹوں سے تعلقات بھی رہے ۔پنجابی سیاست
کے پرانے گھرانے سے تعلق کی وجہ سے وہ یقینا بہت سے لوگوں کو جانتی تھیں۔ مگر اب
اس سب تانے بانے کو بنانے میں جو حکمت تھی وہ انتخابی مداخلتوں کا پہلا وار تھا۔یاد
رکھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی انتخابی
تاریخ میں ان چار صوبائی انتخابات کی
اہمیت دیدنی ہے جو مارچ 1951 سے 1954 کے درمیان پنجاب، سرحد، سندھ اور مشرقی بنگال
میں ہوئے۔ ان انتخابات کو پہلی دفعہ بالغ
رائے دہی کی بنیاد پر کرایا گیا مگر یہ تا حال معلوم نہیں کہ ان انتخابات کو کن
قوانین کے تحت کروایا گیا تھا۔ کون ووٹ ڈالنے کا اہل تھا، ووٹر لسٹیں تھیں یا
نہیں؟ امیدواروں کے لیے کیا شرائط تھیں وغیرہ وغیرہ۔ بہت سے لوگوں کو تو یہ بھی
نہیں معلوم کہ ان چاروں انتخابات کو آئین
بنانے سے قبل کروانا کیوں ضروری تھا؟ کیا صوبائی قیادتیں کراچی بیٹھے ہرکاروں و
افسران کی من پسند آئینی تشریحات سے اتفاق نہیں کرتے تھے یا پھر مشرقی بنگال کی
اکثریت سے کجھ گروہوں کو ڈر تھا؟ یہ وہ سوال ہیں جو پاکستان کی نوزائیدہ جمہوریت
کو اول دور سے درپیش تھے کہ انتخابات میں
حصہ نہ لے سکنے والے گروہوں نے ان تضادات کو خوب استعمال کیا اور انتخابات میں
مداخلتوں کی نئی تاریخ رقم کی۔
ہمارے کجھ دوستوں نے 1970 اور اس کے بعد کی انتخابی
تاریخ پر تین جلدوں میں لاجواب کام کیا ہے کہ اب آپ حلقوں، صوبوں، سیاسی جماعتوں
کے حوالے سے تماتر ڈیٹا خود پڑھ سکتے ہیں۔ اگر وہ کبھی اس کام میں 1947 سے 1966 تک
کے قومی و صوبائی اسمبلیوں کا ڈیٹا بھی ڈال دیں تو ایک حد تک انتخابی تاریخ مکمل
ہو سکتی ہے۔پوری پاکستانی انتخابی تاریخ رقم کرنے کے لیے 1947 سے آج تک کے بلدیاتی
انتخابات کا ڈیٹا اس میں شامل کرنا ہو گا۔
پاکستان کی انتخابی تاریخ کا تجزیہ کرتے ہوئے انتخابات میں
لڑنے والے امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے تجزیے سے بات سمجھ نہیں آتی بلکہ اس کے
ملکی و عالمی صورتحال پر نظر بھی رکھنی پڑتی ہے۔ پہلی قسط میں پہلی پاکستانی
انتخابات کا احوال اور اس سے جڑی ملکی و عالمی صورتحال پر تبصرہ آپ پڑھ چکے ہیں
جسے اخبارات نے ''جھرلو'' لکھ کر مداخلتوں کی تاریخ رقم کی۔
پنجاب میں انتخابی ''فتح'' کے بعد اگلا پڑاو صوبہ سرحد تھا
جہاں دسمبر1951 میں بالغ رائے دہی کے ذریعے انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔ یہ انتخابات
ایک ایسے وقت ہوئے جب متحدہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل ہوئے
دو ماہ بھی نہیں ہوئے تھے۔ پنجاب کے انتخابات کو تو جھرلو الیکشن کہا گیا تھا جبکہ
صوبہ سرحد کے الیکشن کو جھرلو کے ساتھ ساتھ ہٹلری الیکشن بھی کہا گیا۔
اس صوبہ کو اک خاص مقصد کے تحت انگریزوں نے 1901 میں پنجاب
ست کاٹ کر بنایا تھا۔یہاں کا گورنر لندن سے براہ راست ہدائیات لیتا تھا کہ
وائسرائے کا اس پر رعب نہیں تھا۔ اس کو اک لما چوڑا خصوصی فنڈ لندن سے ملتا تھا جو
فاٹا اور منسلک علاقوں کے خانوں کو خریدنے کے لیے تھا۔ صوبہ تو 1901 میں بن گیا
تھا مگر اس کع صوبائی حقوق 1935 کے ایکٹ کے تحت ملے تو اس کی اسمبلی 1937 میں پہلی
دفعہ بنی۔ اسکے پہلے وزیراعلی صاحبزادہ سر عبدالقیوم خان تھے جبکہ ان کی مخالفت
میں خان عبدالغفار خان اور خان عبدالقیوم خان یکجان و یک قالب تھے۔ یاد رہے کہ
صاحبزادہ اورسکندر مرزا دونوں قبائلی علاقوں میں افسر رہے تھے۔ جلد ہی غفار خان
اور قیوم خان نے صاحبزادہ کی وزارت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کھری کر دی اور
انہیں ہٹا ڈالا گیا۔ صوبے کے نئے وزیراعلی کے انتخاب پر مگر دونوں میں اختلاف ہو
گیا۔ خان عبدالقیوم خان کود امیدوار تھے مگر قرعہ غفار خان کے بھائی ڈاکٹرخان کے
نام بوجوہ نکلا جن کی سکندر مرزا سے خوب بنتی تھی۔ 1939 کے ضمنی انتخابات میں ایک
اور کردار اسمبلی میں داخل ہوا جوچند سالوں میں سپیکر اسمبلی بھی بن گیا۔ یہ جنرل
ایوب خان کا بھائی سردار بہادر خان تھا اور اس کا تعلق پنجابی(ہندکو) بولنے والے
ترین (پٹھان) خاندان سے تھا۔ قیوم خان اور غفار خان کی لڑائی ہمیں ورثہ میں ملی۔
صوبہ سرحد کی اسمبلی کی 50 سیٹیں تھیں کہ جن میں حیران کن
حد تک غیر مسلموں کی سیٹیں بہت زیادہ یعنی 13 تھیں۔1946 کے انتخابات میں کل 37
مسلم سیٹوں میں سے ایک آزاد جیتا، 17 مسلم لیگ، دو جمعیت علما ہند جبکہ 17 ہی
کانگرس اور خدائی خدمتگاروں کے اتحاد نے جیتیں تھیں۔ غیر مسلم نشستوں میں یورپی،
ہندو اور سکھ ممبران شامل تھے اور سب نے کانگرس و خدائی خدمتگاروں کا ساتھ دیا۔
یوں سکندر مرزا کت دوست ڈاکٹر خان دوبارہ وزیراعلی بنے۔ تاہم 3 جون کے منصوبے کے
تحت صوبہ سرحد اورسلہٹ میں ریفرنڈم ہونا تھا۔ غیرمسلموں کی مدد سے بنی حکومت کو
اپنی عددی حثیت کا علم تھا یوں انھوں نے بائیکاٹ کر ڈالا۔ پیر آف مانکی شریف، یوسف
خٹک، ابراہیم جھگڑا،پیر زکوڑی شریف اور غلام محمد خان لنڈ خور ریفرنڈم میں سرگرم
رہے اور صوبہ سرحد پاکستان میں شامل ہو گیا۔ 13 غیرمسلم اور جمعیت کے دو ارکان
بھارت چلے گئے یوں اسمبلی ممبران کی تعداد 35 رہ گئی تو ڈاکٹر خان کی حکومت کو
پاکستان بننے کے بعد توڑ دیا گیا اور خان عبدالقیوم خان صوبے کا مختار کل بن گیا۔
بہادر خان لیاقت علی سرکار میں کیسے مرکزی وزیر بنا یہ راز ہی ہے مگر یہ سکندر
ایوب گٹھ جوڑ کے بنتے رشتوں کا آئینہ تھا۔موصوف ناظم الدین اور بوگرا کی حکومتوں
میں بھی وزیر رہے جس سے پتہ چلتا ہے وہ کیسی مخلوق تھے۔ اس کے بعد خدائی خدمت
گاروں پر زمین تنگ کردی گئی۔
اس پس منظرکو سامنے رکھتے ہوئے دسمبر 1951کے انتخابات کی
کہانی زیادہ سمجھ آتی ہے۔ مارچ 1951 میں مرکزی سرکار نے صوبہ سرحد میں الیکشن
کروانے کا بل منظور کیا اور نومبر1951 کو الیکشن کروانے کا کہا۔ مگر اس کے ساتھ
ساتھ کجھ ایسی فیصلے کیے جو سمجھ سے باہر تھے بلکہ انتخابات سے قبل دھاندلی کا
ثبوت بھی۔ ایک طرف صوبائی سیٹیں 50 سے 85 کر دی گئیں تو دوسری طرف حلقہ بندیوں کو
بدلنے کے لیے لیفٹنٹ کرنل اللہ داد خان کی قیادت میں کمیٹی بنا دی گئی۔ یہ بھی کہا
گیا کہ اسمبلی تو توڑ دی جائے گی مگر عبدالقیوم خان وزیراعلی رہیں گے۔ پاکستان
ٹائمز کے مظہر علی خان نے اداریہ لکھا اور اسے کھلی دھاندلیاں قرار دیا۔ پنجاب میں
سرکار سے ٹکر لینے والی جناح عوامی لیگ سرحد میں بھی مقبول تھی۔ پیر آف مانکی
شریف، یوسف خٹک، ابراہیم جھگڑا،پیر زکوڑی شریف اور غلام محمد خان لنڈ خورمسلم لیگ
چھوڑ کر جناح عوامی لیگ میں آ چکے تھے۔ سب قیوم کے خلاف تھے۔ قیوم نے پرانے مسلم
لیگی محمد علی خان ہوتی کو بھی ٹکٹ نہیں دیا تو مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ
میں محترمہ فاطمہ جناح نے اعتراض کر دیا۔ فاطمہ جناح قیوم خان کی دھاندلیوں پر
کیوں خاموش تھیں، یہ ایک اہم سوال ہے۔
پاکستان ٹائمز ہی نہیں بلکہ سول ملٹری گزٹ،نوائےوقت،
آفاق،خیبر میل سبھی میں قیوم خان کی پری پول رگنگ بارے پہلے سے تواتر سے لکھا جانے
لگا۔ یہ اس بات کا ثبوت کہ میڈیا میں ہمشہ سی ایسی آوازیں رہیں جنھوں نے برابر ان
مداخلتوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ مگر قیوم کان نے خدائی خدمت گاروں پر پابندی لگا دی
کہ انہیں یہ اعلان کرنا پڑا کہ وہ اس الیکشن میں نیوٹرل رہیں گے۔ اس دور میں
الیکشن میں نشانوں کی بجائے رنگ ملتے تھے۔ جناح عوامی لیگ نے سرخ رنگ مانگا مگر
انہیں نہیں ملا جبکہ قیوم نے مسلم لیگ کے لیے سبز رنگ لیا۔ یہی نہیں بلکہ اپوزیشن
کے بہت سے ممبران کے کاغزات بہانے بہانے سے مسترد کیے گئے۔ قیوم خان دو حلقوں سے
لڑ رہا تھا کہ یہاں بھی مخالفوں کے کاغذات مسترد کروا کے قیوم بلا مقابلہ جیت گیا۔
لیاقت علی کے قتل کے بعد ناظم الدین گورنر جنرل کی سیٹ چھوڑ
کر وزیراعظم بن چکا تھا مگر ان کی ناک کے نیچے جو کھلم کھلی دھاندلیاں ہورہیں تھیں
وہ اس میں خاموش تماشائی رہے۔
یوں جمہوری عمل کا دوسرا باب بھی جھرلو کی نذر ہوا کہ اگلی
قسط میں سندھ کا احوال آئے گا۔
سندھ میں پہلے پاکستانی انتخابات اور مداخلتیں: مئی 1953 قسط نمبر 3
·
پنجاب اور صوبہ سرحد(خیبر پختونخوا) میں 1951 کے سال
انتخابی معرکے جیتنے میں کراچی بیٹھے
ہرکاروں نے انگریز افسروں کی مدد سے دو حربوں کا کامیاب استعمال سیکھ لیا تھا جن
میں ایک تھا منتخب صوبائی سرکار کو ختم کر کے گورنر راج لگانا اور دوسرا تھا
صوبائی نشستوں پر من پسند افراد لانے کے لیے ان افراد کی مرضیوں سے من پسند حلقہ
بندیاں بنانا۔دونوں کشتے کارگر رہے اور پنجاب و سرحد میں لاڈلوں کو مسند اقتدار پر
بٹھا دیا گیا۔ فیصلہ یہی ہوا کہ جہاں مرضی کا وزیر اعلی نہ ہو وہاں گورنر راج لگا
کر مداخلتیں کیں جائیں اور جہاں وزیراعلی لاڈلہ ہو وہاں حلقہ بندیوں کا گھما چلایا
جائے۔منحوس 18ویں ترمیم نے گورنر راج کا رستہ بند کر ڈالا تو اب مداخلتوں کے لیے
دوسرے حربے چل رہے ہیں مگر اس سب کے پیچھے وہی مائنڈ سیٹ کارفرما ہے جو براستہ آئی
سی ایس لابی کے ڈکٹیٹروں و ہرکاروں تلک پہنچا۔
·
کچھ ماہ پہلے میں اسلام آباد سے لاہور واپس آرہا تھا۔ ایک
وکیل صاحب ساتھ والی نشست پر براجمان تھے
اور باآواز بلند موبائل فون سے صوتی آلودگیاں پھیلا رہے تھے۔ وہ اپنے گاہک (کلائنٹ)کو ان معرکوں کی تفصیلات بتا رہے تھے جو وہ الیکشن
کمیشن میں سرانجام دے کر آئے تھے۔ ان کی گفتگو سی پتہ چلا کہ ان کا گاہک کوئی اور
نہیں بلکہ وہ مشہور زمانہ گوندل صاحب آف سرگودھاہیں جو کبھی پی پی پی کے وزیر تھے
مگر کرپشن کا کیس لگنے کے بعد پاک ہونے کے لیے تحریک انصاف پہنچ چکے تھے۔وکیل صاحب
نے فون پر بتایا کہ انھوں نے بڑی محنت سے گوندل مخالف پنڈوں کو ان کے حلقہ سے نکلوایا ہے اور کچھ من
پسند علاقے شامل بھی کروائے ہیں۔
·
سندھ میں الیکشن کی
تاریخ پنجاب و بنگال کی نسبت پرانی نہیں کہ سندھ پر قبضہ(1843)کے بعد سندھ کو
بمبئی کا حصہ بنا ڈالا گیا تھا۔سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے صوبہ بنانے کی سفارش 14
نکات(1928) اور الہ آبادی خطبہ(1930) میں موجود ہے مگر نہرو رپورٹ(1928) میں یہ
دلیل تواتر سے دی گئی کہ سندھ تو بمبئی سے الگ ہونے کے بعد معاشی طور پر اپنے
پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔288 صفحات کی رپورٹ میں ایک مکمل باب اس پر ہے جس میں
سندھ و پنجاب اور دلی کے غیر مسلم لیڈر و دانشورمسلسل سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے
خلاف صف آرا نظر آتے ہیں۔دوسری طرف شاہنواز بھٹو سمیت بہت سے سندھی و پنجابی
مسلمان اس دلیل کو رد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد1935 تک کامیاب ہوئی اور 1937 کے
انتخابات میں سندھیوں کو اپنے صوبہ میں حکمرانی کا حق ملا۔ شاہنواز بھٹو اور سر
عبداللہ ہارون کو اس کی قیمت دینی پڑی کہ دونوں ہی اسمبلی کا حصہ نہ بن سکے۔مسلم
پیپلز پارٹی کے سر غلام حسین ہدائیت اللہ پہلے وزیراعلی بنے جبکہ اگلے سال اللہ بخش سومرو نے ان کی جگہ لی جن کا تعلق
اتحاد پارٹی سے تھا۔کچھ دیر کے لیے میر بندے علی خان تالپور کی وزارت بنی جو مسلم
لیگی تھے مگر پھرسومرو اور ہدائیت اللہ نے دوبارہ باریاں لیں۔پاکستان بننے کے بعد
البتہ وزارت اعلی کا تاج ایوب کھوڑو کے سر سجا جو لاڑکانہ کے بڑے زمیندار تھے۔شاہنواز
بھٹو سے ان کا کیا جھگڑا تھا اس پر بھر کبھی بات ہو گی۔البتہ کھوڑو صاحب مسلم لیگ،
قائداعظم اور کراچی کی سیاست کے رازدان تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ جناح صاحب
لیاقت علی خان کو فروری 1948میں وزارت سے ہٹا کر وزیر خزانہ غلام محمد کو نیا
وزیراعظم بنانا چاہتے تھے۔وہ قائداعظم سے متفق تھے کہ جس کی انہیں جلد سزا ملی۔انہیں معلوم تھا کہ
کراچی کو عارضی طور پر پاکستان کا کیپیٹل بنایا گیا ہے مگر کچھ آئی سی ایس افسران
اور لیاقت علی اس کو مستقل مرکز بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔فاطمہ جناح اور رعنا لیاقت
علی کے اختلافات کے گواہ کھوڑو صاحب کی حکومت کو مگر اپریل 1948 میں فارغ کر دیا
گیا۔ان کے بعد پیر الہی بخش، یوسف ہارون
اورقاضی فیض اللہ عبیداللہ تخت سندھ پر بیٹھے مگر مارچ 1951 میں کھوڑو دوبارہ
وزیراعلی بنا دیے گئے۔ صوبہ سرحد کا معرکہ سر کرنے کے بعد اب سندھ کی باری تھی کہ29
دسمبر 1951 کو سندھ میں بھی پنجاب کی طرح گورنر راج لگا دیا گیا۔
·
پاکستان بننے کے بعد سندھ کے شہروں میں یوپی، سی پی کے
مہاجرین کی آمد ایک ایسا مسلہ تھا جس نے
سندھی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔سونے پر سہاگہ اس وقت چڑھا جب کراچی و آدھے
حیدرآباد میں انہیں بسایا گیا اور کراچی کو ملک کا عارضی مرکز بناتے ہوئے سندھ سے
عملی طور پر الگ بھی کر دیا تھا۔کراچی تو انگریزوں نے بسایا تھا کہ اس سے قبل سندھ
ہی نہیں بلکہ کشمیر، پنجاب، خیبرپی کے اور بلوچستان کی سب سے بڑی بندگاہ''لہوری
بندر'' تھی جو دریائی رستے سے جڑی تھی اور قبل از انگریز دور کی تمام اہم فارسی و انگریزی کتابوں میں اس کا تواتر سے ذکر
ہے۔سولہویں صدی کی کتاب تاریخ طاہری میں تو 1538 کا واقعہ رقم کیا گیا ہے جب
پرتگالیوں نے اسے جلا ڈالا تھا۔ ٹھٹہ سے ایک دن کی مسافت پر سمندر اور دریائے سندھ
کے سنگم پر یہ بندرگاہ سندھی معیشت کی جان تھی۔کچھ کتابوں میں اس کا
نام لہوری داہڑو بھی لکھا ہے۔حالیہ سندھی
دانشور لفظ ''لہوری '' کو ختم کرنے کے در ہیں مگر وہ پرانی کتابوں کا کیا
کریں گے۔اس بندگاہ کو انگریزوں نے ختم کیوں کیا، یہ الگ داستان مگر اس کے بعد
کراچی ہی سندھی معیشت کی جان ٹہری اور پاکستان بننے کے بعد وہ بھی ان سے چھن گئی۔
·
اس زمانے میں ابھی نیب یا ایبڈو ایجاد نہیں ہوئے تھے کہ
لیاقت علی نے پروڈا کا کالا قانون اپنے مخالفین کے لیے بنوایا تھا جس میں انگریز
افسران نے معاونت کی تھی۔پروڈا کو آپ اس زمانے کی 62،63 ہی کہہ سکتے ہیں۔
·
ایوب کھوڑو کو الیکشن میں ہرانے کا فیصلہ تو گورنر راج
لگاتے ہی ہو چکا تھا کہ اب مناسب موقعہ کا انتظار تھا کہ جب ہرکارے اپنا کام کر
لیتے اور پھر انتخابات کروا دیے جاتے۔22 مئی 1953 تک سندھ میں گورنر راج رہا اور
پھر دھاندلیوں اور جھرلو کا بازار گرم ہوا۔ کھوڑو کی سندھ مسلم لیگ اور جی ایم سید
کے سندھ عوامی محاذ کو 111 میں سے7،7 نشستیں ملیں جبکہ حکمران مسلم لیگ نے78 سیٹیں
جیتیں۔جیتنے والوں میں 19 آزاد امیدوار بھی تھے جن میں دس غیر مسلم شامل تھے۔1955
میں عدالتی کمیشن کی رپورٹ آئی جس میں سرعام دھاندلیوں کو تسلیم کر لیا گیا۔رپورٹ
میں لکھا کہ مخالف امیدواروں کو اغوا تک کیا گیا، بیلٹ بکسوں کو زبردستی بھرا گیا
اور انتظامیہ کے جانبدارانہ کردار کی بات کی گئی۔اس سب کے بعد پیرزادہ عبدالستار
وزیر اعلی بنے مگر وہ محض چھ ماہ میں فارغ ہو گئے اور ایوب کھوڑو تیسری بار صوبے
کے وزیراعلی بن گئے۔
آئین سازی کی بجائے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروانے کا
آخری معرکہ بنگال میں لڑا گیا کہ اس کا احوال اگلی بار۔
پنجاب ،سرحد اور سندھ میں صوبائی انتخابات میں لاڈلوں کو جتانے کے لیے گورنر راج لگانےاور حلقہ بندیوں کو بدلنے کے جو
حربے
آزمائے گئے اس نے سیاسی مخالفوں کو میاں افتخار حسین ممدوٹ اور حسین شہید سہروردی
کے راستے پر چلنے کی راہ دکھائی کہ 1954 کے مشرقی بنگال میں ہونے والے انتخابات سے
قبل صوبہ کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے'' جگتو فرنٹ''(یونائیٹڈ فرنٹ) بنا کر
ریاستی حربوں کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا۔ یہ طریقہ کارگر رہا اور حکمران جماعت اور
کراچی براجمان ہرکاروں کو تاریخی شکست ہوئی۔ یہ داستاں عبرت ناک بھی ہے اور سبق
آموز بھی کہ اگر اس سے سبق سیکھا ہوتا تو پاکستان کو 16 دسمبر کا دن کبھی دیکھنا
نہ پڑتا۔
بنگالی سیاست میں ہیجان 20ویں صدی کی پہلی دہائی سے شروع
ہوا تھا جب بنگالیوں کو پتہ چلا تھا کہ اب
برٹش انڈین انگریز سلطنت کا دارالحکومت کلکتہ سے دلی منتقل ہونے کو ہے۔اس
کا بڑا ثبوت 1904 کا دوسرا دلی دربار تھا جس میں انگریزوں نے اپنی بھرپور طاقت کا
مظاہرہ کلکتہ کی بجائے دلی میں کیا تھا۔
ویسے تو پنجاب پر قبضہ(1849) کے بعد رائل بنگال آرمی کی مرحلہ
وارتطہیر 1850 کی دہائی کے پہلے نصف سےشروع ہو چکی تھی کہ جس کے جواب میں 1857 کی
نام نہاد جدوجہد آزادی کے دوران نوکریاں ختم ہونے کے خوف میں مبتلا فوجیوں نے
چھاونیوں میں غلغلہ پیدا کرنے کی ناکام کوششیں کیں تھیں۔ تاہم رائل بنگال آرمی کی
باقائدہ تدفین ، ڈیورینڈ لائن معاہدہ کے ایک سال بعد یعنی 1895 میں ہوئی جب تینوں پریذیڈنسیوں کی فوجوں کو انڈین آرمی کا
حصہ بنا دیا گیا۔
انگریزوں کی اساری سول بیوروکریسی میں بنگالیوں کو مقام خاص
حاصل رہا۔16ویں صدی سے بنگالی انگریزوں کے''بابو'' تھے کہ جتنا وہ انگریزوں کو
جانتے تھے اتنا ہی انگریز بھی بنگالیوں کو سمجھتے تھے۔فرنٹئیر فارورڈ پالیسی کے
تحت پنجاب پر قبضہ کے بعد انکا رخ زار روس کی طرف تھا کہ اس لیے ہی
پنڈی میں نادرن کمانڈ کا ہیڈکواٹر 19ویں صدی میں بنایا گیا تھا۔وسط ایشیا
اور سلک روٹ کی اہمیتوں سے آشنا انگریزوں
نے تو مہاراجہ رنجیت سنگھ سے تین بار کابل جانے کے لیے فوجوں کو رستہ دینے کی اجازتیں مانگیں تھیں
مگر مہاراجہ نے انکار کیا تھا جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔اب جب انگریز خود قابض ہوا تو
پنجاب، کشمیر، فرنٹئیر کو گریژن سٹیٹ بنانے پر عمل شروع ہوا اور پنجاب کو بازوئے
شمشیر زن بنانا اس کھیل کا حصہ تھا۔مگر اس کے ساتھ ساتھ بنگالیوں کو قابو کرنا ضروری تھا کہ ان کے
ممکنا ردعمل کو کراہے ڈالنے کے لیے تقسیم بنگال کا چکر چلایا گیا۔1905 میں جب
بنگال پریذیڈنسی کو تقسیم کیا گیا تو اس میں آسام ،اڑیسہ و بہار بھی شامل تھے جس
کی وجہ سے ہندووں کا تناسب بہت زیادہ تھا۔تقسیم یوں کی گئی کہ مسلم اکثریت کا
مشرقی بنگال اوربڑی مسلم اقلیت والا آسام اکٹھا کر دیا گیا جبکہ ہندو اکثریت والا
مغربی بنگال، اڑیسہ و بہار اکٹھا کر کے دوسرا حصہ بنا دیا گیا۔ یہ بنگال پریذیڈنسی
کی تقسیم تھی جسے تقسیم بنگال کہنا درست نہیں۔متحدہ بنگال کی تحریک کچھ یوں شروع کی گئی کہ اس میں بدقسمتی سے اینٹی مسلم
الار زیادہ تھا کہ اس کا نیہہ پتھر کالی کےمندر پر رکھا گیا۔تقسیم بنگال کے خلاف
چلنے والی تحریک کا لٹریچر گواہ ہے کہ اس میں بندے ماترم سمیت ہندو مذہب و متھالوجی سے جڑے
استعارے باکثرت استعمال ہوئے۔یوں جو مذہبی تفریق انگریز چاہتے تھے وہی ہوا۔دسمبر
1911 میں بظاہر تقسیم بنگال ختم کر دی گئی مگر نفرتی سیاستوں کے بیج بو دیے
گئے۔تقسیم بنگال کچھ یوں ختم کی گئی کہ اڑیسہ و بہار کے نام سے الگ صوبہ بنا دیا
گیا ، آسام بھی صوبہ بنا جبکہ باقی کے علاقوں کو ملا کر ایک بنگالی صوبہ بنایا گیا
جس میں مسلمان54 فیصدی اور ہندو46 فیصدی تھے۔ یہی نہیں بلکہ 12 دسمبر 1911 ہی کو
تیسرے دلی دربار کے موقعہ پر برٹش انڈیا کا مرکز کلکتہ سے ختم کیا گیا اور دلی کو
پنجاب سے نکال کر اکال تخت یعنی نیا کیپیٹل بنا دیا گیا۔ بنگالی طاقت کا جنازہ نکل
گیا مگر ایسے کہ بنگالی ہندوں کو متحدہ
بنگال پر اکتفا کرنا پڑا اور بنگالی مسلمانوں کو مسلم اکثریت ملی ۔ علامہ اقبال ان
چند سیاسی مفکرین میں شامل تھے جن کی اس
بدلتی سیاست پر نظر تھی کہ اکثر کانگرسی دانشور تو آج بھی متحدہ بنگال کے
فیصلے پر بغلیں بجاتے ہیں۔عطیہ فیضی کو لکھے دسمبر1911 کے خط میں اقبال نے اپنا
ایک ایسا شعر لکھ بھیجا جو ان کی سیاسی بصیرت کا ثبوت۔
تاج شاہی یعنی کلکتے سے دلی آ گیا
مل گئی بابو کو جوتی اور پگڑی چھن گئی
1916 میں ایک نیا کھیل کھیلا گیا جس کا شکار شکست خوردہ
بنگالی مسلمان ہی ٹہرے مگر اس بار وہ تنہا نہیں تھے بلکہ اس کھیل کا دوسرا شکار
پنجابی مسلمان تھے اور اس کھیل کا عرف عام میں نال ''معاہدہ لکھنو'' تھا۔پہلی جنگ عظیم کے دوران
اس معاہدے کی کیا ضرورت تھی ؟انگریزوں کو
اس سے کیا مدد ملی؟اس بارے زیادہ تحقیق کی
ضرورت ہے۔البتہ یہ وہی معاہدہ تھا جسے انگریز حکمرانوں نے بعدازاں 1919 کے آزادی
ہند ایکٹ کا حصہ بنایا ۔ اس معاہدے کے وقت
برٹش انڈیا میں دو ہی مسلم اکثریتی صوبے پنجاب اور بنگال تھے۔ سرحد کو صوبہ تو
بنایا گیا تھا مگر اسے صوبائی حقوق نہیں دئیے گئے تھے ، سندھ بمبئی کا حصہ تھا
جبکہ بلوچستان کو صوبہ نہیں بنایا تھا۔پنجاب میں مسلمان 56 جبکہ بنگال میں 54 فی
صد تھے۔ باقی صوبوں میں ہندوں کی اکثریت 65 فی صد سے زیادہ تھی۔لکھنو پیکٹ نے ہر
صوبہ میں اقلیتی مذاہب کو 10 فیصدی کوٹہ دینے کی ہشیار ترکیب نکالی جس سے پنجاب و
بنگال میں مسلم اکثریت ختم ہونے سے برٹش انڈیا کے تمام صوبوں میں مسلم اکثریتی
صوبوں کا خاتمہ ہو گیا۔ یہی وہ بنیاد تھی جس نے اگلے 30 سالوں کی سیاست میں ہندو
مسلم خلیج ہی کو نہیں بڑھایا بلکہ مسلم
علیحدگی پسندی کو بڑھانے میں بھی مہمیز کا
کردار ادا کیا اور اسمیں بنگالی مسلمان پیش پیش تھے۔لکھنو معاہدے خلاف پنجاب کا
ردعمل تو پہلی لڑی میں بیان کر دیا تھا
تاہم بنگال میں جس غیر مسلم رہنما نے
لکھنو معاہدے خلاف بروقت علم اٹھایا وہ تھے چترنجن داس یعنی سی آر داس۔داس
ان کانگرسی لیڈروں میں شامل تھے جنھیں جناح و اقبال کی طرح گاندھی کی ہشیار
سیاستوں کی سمجھ آ گئی تھی کہ عدم تعاون
اورخلافت تحریک کی ناکامیوں کے بعد داس، موتی لال جیسے کانگریسیوں نے گاندھی سیاست
سے کنارہ کشیاں کرتے ہوئے ''سواراج پارٹی'' بنائی تھی۔1923 میں مشہور سی آر داس
فارمولا آیا جس میں بنگال کی سطح پر مسلم اکثریتوں کو مانتے ہوئے لکھنو معاہدے سے
مراجعت اختیار کی گئی۔گاندھی اور ان کے حواریوں نے سی آر داس کی بھرپور مخالفت
کی۔1923 میں بنگال میں صوبائی انتخابات ہوئے جس میں سواراج پارٹی نے سب سے زیادہ
یعنی 46 سیٹیں جیتیں۔یوں سی آر داس نے ہندو مسلم تضاد کو عملی طور پر ختم کرنے کا
آہر کیا۔یہی نہیں بلکہ سی آر فارمولا کے تحت لوکل باڈیز میں بھی مسلم اکثریت کو
مانا گیا۔ 1924 میں کلکتہ میونسپل
کارپوریشن کے مئیر سی آر داس بنے تو اس میں حسین شہید سہروردی اور سبھاش
چندر بوس کو اہم عہدے دئیے گئے۔1925 میں سی آر داس کا انتقال ہو گیا تو کانگرس پر
دوبارہ سے گاندھی سیاستوں کا قبضہ ہو گیا۔اقبال نے داس فارمولے کو آگے بڑھانے کے
جتن کئے مگر کانگرس بدستور ہشیار لکھنو
پیکٹ پرڈٹی رہی جو مسلم اکثریتوں سے انکار پر مبنی تھا۔1932 کے کیمونل ایوارڈ نے
کچھ حد تک لکھنو پیکٹ سے مراجعت کی مگر اب بھی غیر مسلموں کو پنجاب و بنگال میں
اپنی آبادی سے کہیں زیادہ سیٹیں ملی ہوئیں تھیں۔1937 اور 1946 کے انتخابات
میں بنگالی مسلمانوں نے اپنا وزن مسلم لیگ
کی جھولی میں ڈالا۔ ان کا یقین تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ان کو حقوق مل جائیں گے
مگر پاکستان بننے کے بعد جو سیاست ہوئی اس میں انہیں اندازہ ہو گیا کہ جو پنجاب،
سرحد اور سندھ میں عوامی حقوق دینے کو تیار نہیں اور من مرضی کی حکومتیں بنوا رہے
ہیں وہ بنگالیوں سے کیوں بہترسلوک کریں گے؟دلچسپ حقیقت یہ تھی کہ 14 اگست 1947 کو
جو ملک وجود میں آیا تھا اس میں بنگالیوں کو بہت بڑی اکثریت حاصل تھی اور وہ 50
فیصد سے بھی زیادہ تھے۔وہ سب سے بڑے صوبہ سے تعلق رکھتے تھے مگر کراچی براجمان آئی
سی ایس افسران بھلا کسی عددی اکثریت کو کب گھاس ڈالتے۔ بنگالی اکثریت کو گھجل کرنے
کے لیے لیاقت علی خان، سر ظفراللہ ،چوہدری محمد علی، مولانا شبیر احمد عثمانی ،
مولانا مودودی، عمر حیات ملک اور ایڈیٹر
ڈان الطاف حسین جیسوں کی مدد سے قرارداد مقاصد کا گھما بنایا گیا جس کو وزیرخزانہ
غلام محمد کی بروقت مداخلت کی وجہ سے آئین کے دیباچہ تک محدود کرنا پڑا۔پہلی قانون
ساز اسمبلی کے کم از کم دو ممبران اور
قرارداد مقاصد کی حامی چوہدری نذیر احمد اور عمر حیات ملک اپنے انٹرویوز میں غلام
محمد کی مداخلت کے خلاف بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ایک مذہب، ایک زبان اور مضبوط
مرکز کی حمائیت میں لائی جانے والی یہ قرارداد درحقیقت بنگالی اکثریت سے نبٹنے کے کھیل کا آغاز تھا جس
کی بروقت نشاندہی لاہور کے میاں افتخار الدین نے قرارداد کے خلاف اسمبلی میں تقریر
کرتے ہوئے کر دی تھی جو ریکارڈ پر موجود ہے۔
بڑے صوبے کو کنٹرول کرنے کا مائنڈ سیٹ اسی نوآبادیاتی سوچ
کا تسلسل تھا جو ورثہ میں ملی تھی۔ بنگالیوں کو کمتر سمجھنا اسی کا تسلسل تھا۔
اپنے ایک انٹرویو میں کے ایچ اصفہانی نے بنگالیوں کو بکاو مال تک کہا اور سہروردی و
مولوی فضل الحق کے خلاف نازیبا جملے بولے۔لیاقت دور میں سہروردی مقبول ترین رہنما تھے مگر انہیں بھارتی ایجنٹ
کہا گیا۔اس سب کے پیچھے ایک ہی خوف تھا اور وہ یہ کہ ون مین ون ووٹ والی جمہوریت
میں بنگالی اکثریت سے کیونکر نمٹا جائے۔
بنگالیوں کی اکثریت ہی ایک بڑا درد سر نہیں تھا بلکہ مشرقی بنگال میں غیر مسلم
آبادی بھی اک مسلہ تھا جو 30 فیصد کے نزدیک تھی۔ملک کے دونوں حصوں کو ملا کر غیر
مسلموں کا تناسب 22 فی صد بنتا تھا۔1950 میں آئین کا پہلا ڈرافٹ سامنے آیا تو اس
میں دو ایوانی مقننہ بناتے ہوئے سینیٹ و
قومی اسمبلی کے اختیارات برابر رکھے گئے جو بنگالیوں کو منظور نہیں تھا۔1952 میں
جب دوسرا ڈرافٹ بنایا گیا تو اس میں خواجہ ناظم الدین سرکار نے اردو کو واحد قومی
زبان قرار دے ڈالا اور صدر، وزیراعظم کے لیے مسلمان ہونے کی شرط لگا دی۔ یہی نہیں
مشرقی و مغربی حصوں کے لیے پیرٹی کا لکھنو
معاہدے کی طرز پر فارمولا بنایا گیا۔ دو صوبوں میں بالغ رائے دہی پر انتخابات ہو
چکے تھے مگر اب متناسب نمائندگی کو ضروری سمجھا۔اردو کوواحد قومی زبان قرار دینے
کے خلاف بنگالیوں نے بھرپور آواز اٹھائی۔1953
کی احمدی مخالف لہر کے بعد ناظم الدین سرکار کا خاتمہ ہوا اور بنگالی وزیراعظم
محمد علی بوگرا جو امریکہ میں سفیر تھے، وزیراعظم بن گئے۔ان میں اور ناظم الدین میں
اختلافات تھے جبکہ بنگال کا وزیراعلی
نورالامین بھی بوگرا مخالف تھا۔ اکتوبر میں بوگرا نے فارمولا دیا جس میں پہلی دفعہ بلوچستان کو صوبہ بنانے کی
سفارش بھی تھی۔ مگر اس پر بھی اتفاق نہ ہو سکا۔ مارچ میں انتخابات کا اعلان
ہوا تواس صورتحال میں اپوزیشن نے اکٹھے ہو
کر لڑنے کا فیصلہ کیا اور چھ جماعتوں پر
مشتمل ''جگتو فرنٹ''بنا لیا۔اس فرنٹ کی بدولت
انتخابات میں مسلم لیگ کو عبرتناک
شکست ہوئی۔309 میں سے کنگز پارٹی
کو 9 سیٹیں ملیں۔جگتو فرنٹ کے 21 نکات صوبائی خودمختاری کے اردگرد گھومتے تھے۔ان
نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ اگر عوامی طاقت
ساتھ ہو تو لاڈلوں کو شکست دی جاسکتی ہے۔
انتخابی معرکہ1970 اور شوکت اسلام کی شکست فاش ۔قسط نمبر5
پاکستان بننے کے بعد یہ وفاقی سطح پر بالغ رائے دہی کے تحت
ہونے والا پہلا قومی انتخاب تھا جو قیام پاکستان کے 23 سال اور
چار ماہ بعد ہوا۔یوں لگتا ہے کہ جنھیں بادل
ناخواستہ پہلی عوامی جمہوری حکومت کے لیے انتخابات کروانے پڑ رہے تھے وہ اسے اک
عبرتناک مثال بنانے میں غلطاں تھے مگر
عوام نے پاکستان کے مشرق و مغرب میں سب
ایجنڈے الٹا دیئے۔ پہلی دفعہ ہی بنگالیوں کی عددی اکثریت کو تسلیم کیا گیا تھا
مگر اس کے پیچھے بھی کچھ ہشیار سوچ کارفرما تھی جس بارے کم ہی بات ہوتی ہے۔پہلی
دفعہ ہی اہل بلوچستان بطور صوبہ انتخابات
میں حصہ لے رہے تھے۔عورتوں کے لیے پہلی بار 13 مخصوص سیٹیں رکھی گئیں تھیں اور 300
سیٹوں پر قومی اسمبلی کے انتخابات ہونے تھے۔162 نشستوں کا انتخاب مشرقی بنگال نے
کرنا تھا اور138 کا انتخاب سندھ(27)، بلوچستان(4)، سرحد(18) اور پنجاب(82) نے کرنا
تھا۔ پہلے قومی سطح کے انتخابات 13 سال قبل ہو جانے تھے کہ 1956 کی اسمبلی نے جنوری 1959 کی تاریخ بھی
دے رکھی تھی مگر سکندر مرزا اور جنرل ایوب
کے گٹھ جوڑ نے اس سے تین ماہ قبل
اکتوبر1958کو ملک میں مارشلا لگا دیا۔فوجی حکومت نے ملک کا پہلا آئین پھاڑ
ڈالا اور ایک طرف پاکستان ٹائمز اور امروز پر قبضہ کیا تو دوسری
طرف سیاستدانوں پر ایبڈو کے کالے قانون کے تحت کرپشن کے جعلی مقدمے بنا کر چند من
پسند خاندانوں کو لاڈلہ بنایا۔ریاست و حکومت کے ہر شعبہ میں پنگا لیا گیا حتاکہ
وفاقی پارلیمانی سسٹم کی جگہ جعلی صدارتی بندوبست کھڑا کیا گیا۔ جعلی آئین، جعلی
انتخابات کا ایسا ڈول ڈالا کہ لوگ پرانے ''جھرلو'' بھول گئے۔ بھارت چین جنگ(1962)
کے دوران امریکہ کے دباو میں ''لم لیٹ'' ہو جانے کے بعد خود کو فیلڈ
مارشل کہلوایا مگر عوام نے اسے قبولا
نہیں۔
جس طرح صدارتی انتخابات میں بی ڈی ممبران کو خلائی مخلوق کے
ذریعے ورغلایا، دبایا گیا وہ اپنی جگہ
تاحال پاکستانی انتخابی تاریخ میں اک بدبودار مثال ہے۔ڈکٹیٹرایوب خان اپنے آئین سے
بھی وفا نہ کرسکا کہ جب عوامی تحریک زوروں پر تھی تو اس دور کے آرمی چیف جنرل یحی نے اسے نکال باہر کیا اور خود
اقتدار پر قابض ہو گیا۔یوں جو جمہوری نوٹنکی ایوب نے بنائی تھی
وہ اس کے ساتھ ہی فارغ ہو گئی۔ جنرل یحی کی سرکار نے چند پاپولر فیصلے جیسے ون
یونٹ توڑنے ، بالغ رائے دہی پر پہلے انتخابات کا انعقاداور صدارتی پخ سے وفاقی پارلیمانی
بندوبست کی بحالی، کر کے ''عزت سادات''
بحال کرنے کی سعی لاحاصل کی مگر اس کے ساتھ ساتھ بنگالیوں سے جان چھڑانے اور ملک
کو ''اسلامی'' بنانے کا عزم بھی اسی دور کے کارنامے ہیں۔یحی خان سے جڑے اسلام
پسندوں (اس میں ہرکاروں کے علاوہ جماعت اسلامی ''شوکت اسلام'' کے جھنڈے تلے پیش
پیش تھی) کو معلوم تھا کہ بنگالیوں سے جان چھڑانے سے ملک میں غیرمسلمان پاکستانیوں
کا تناسب 22 سے چار فیصد رہ جائے گا اور یوں وہ با آسانی پاکستان میں من مرضی کا
''اسلام'' نافذ کر سکیں گے۔ البتہ اسلام کی اس تشریخ میں ''بھارت دشمنی'' لازمی
''کلمہ'' ہو گا۔اس کا بڑا ثبوت تو چیف جسٹس کارنیلیس کی زیر قیادت بنایا جانے والا
''اسلامی دستور'' تھا جو غالبا ضیائی دور
میں کام آیا۔ یحی خانی دور میں بنائی جانے والی تعلیمی پالیسی بھی اس بدلتے منظر
نامے کا ثبوت تھی جس میں ایک طرف اسلامیات دسویں تک لازمی کر دی گئی تو دوسری
طرف مشنری اداروں کو ''نظریہ پاکستان'' کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے مدارس کو ملک کے مستقبل کے لیے
مثالی کردار کے حامل ادارے کہا گیا۔ ائیرمارشل نور خان کے دستخطوں سے جاری اس
سرکاری دستاویز پر جنرل شیر علی پٹودی کا سایہ نمایاں تھا جنھیں ذولفقار علی بھٹو
''چھوٹا مودودی'' کہتے تھے۔
ایوبی دور کے آخری سال شیخ مجیب پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا
الزام لگا کر ''اگرتلہ سازش کیس'' بنایا گیا جس
سے مجیب بنگالیوں میں محبوب ترین لیڈر بن گیا یا شاہد بنگالیوں سے جان چھڑانے والا دھڑا بھی یہی چاہتا تھا۔مشرقی و مغربی پاکستان کو ایک
رکھنے اور صوبائی خودمختاری کا حامی بھاشانی
بوجوہ پیچھے دھکیل دیا گیا۔یہ کہانی ابھی ملک پاکستان میں لکھی نہیں
گئی۔مگر یہاں تو بات محض دسمبر 1970 کے الیکشن کی کرنی ہے۔
مشرقی پاکستان میں الیکشن تقریبا اسی طرح سے دو واضح
پارٹیوں میں بٹا تھا جیسے 1946 کے انتخابات میں
کہ عوامی لیگ کی وہی پوزیشن تھی جو کبھی آل انڈیا مسلم لیگ کی تھی۔بھاشانی
بائیکاٹ کرنے پر مجبور کر دئیے گئے تھے۔قبل از انتخابات ،ان کا یہ جملہ ریکارڈ پر
کہ جب اپنے ہی ملک توڑنے پر کمر بستہ ہوں توں بھاشانی کیا کر سکتا ہے۔
البتہ مغربی پاکستان میں تکونی لڑائی تھی۔نیب(ولی) قومی
حقوق کی علمبردار تھی، روسی کیمپ کو راہ راست پر سمجھتی تھی اور بھارت نواز کہلاتی
تھی۔دوسری بڑی طاقت شوکت اسلام والوں کی تھی
جسے سٹیبلشمنٹ کے ایک مضبوط دھڑے کی کھلی پشت پناہی حاصل تھی۔ مگر ایک
تیسری نو وارد قوت بھی تھی جس نے ''اسلامی سوشلزم'' کو وڑھنا بچھونا بنایا ہوا تھا
جس کی قیادت ذولفقار علی بھٹواور ان کی نومولود پاکستان پیپلز پارٹی کر رہی تھی۔
قومیتی و اسلامی کے مقابلے میں اس کے منشور میں طبقاتی مسلہ کو اولیت حاصل تھی۔
ہر حلقہ میں اوسط 5 امیدواروں میں مقابلہ تھا کہ 300 سیٹوں
پر پورے ملک میں 1574 امیدوار لڑ رہے تھے۔ 18 سے زیادہ سیاسی پارٹیاں حصہ لے رہی
تھیں جبکہ313 آزاد امیدوار بھی تھے۔عوامی لیگ کے بعد جس پارٹی نے سب سے زیادہ یعنی
151 امیدوار کھڑے کیے تھے اس کا نام تھا جماعت اسلامی کہ اس سے آپ شوکت اسلام کی
امیدوں بارے اندازے لگا سکتے ہیں۔مسلم لیگ (قیوم، کنونشنل اور کونسل) نے با لترتیب
1333، 124 اور 119 امیدواروں کو ٹکٹ دیئے تھے اور پی پی پی نے 120 کو کھڑا کیا
تھا۔ پی ڈی پی نے105 ، جےیو آئی (مغربی پاکستان) نے 91جبکہ نیب(ولی) نے 64
امیدواروں کو ٹکٹ دیئے۔تقریبا 3 کڑوڑ 5 لاکھ مرد اور 2 کڑوڑ 64 لاکھ عورتیں ووٹ
ڈالنے کے اہل تھے۔تقریبا 60 فیصدی لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کیا جو ایک بڑا
ریکارڈ تھا کہ جس نے خلائی مخلوق کو کم از
کم مغربی پاکستان میں ششدر کردیا۔پورے
پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹوں کا تناسب پنجاب میں رہا جو تقریبا 69 فیصد
تھا۔دوسرے نمبر پر سندھ (60٪) رہا اور مشرقی بنگال 57 فیصد کے ساتھ تیسر نمبر پر
رہا۔ سب سے کم تناسب بلوچستان میں رہا مگر وہ بھی 41 فیصد تھا۔
عوامی لیگ سمیت کم از کم چار پارٹیوں نے قومی اسمبلی کے لیے
مشرقی و مغربی پاکستان میں امیدوار کھڑے کیے تھے۔ عوامی لیگ کے 8 امیدوار مغربی پاکستان میں الیکشن لڑے تھے جن میں 3
پنجاب میں کھڑے تھے۔الیکشن میں پنجابیوں کے جوق در جوق حصہ لینے کا سب سے زیادہ
فائدہ پی پی پی کو ہوا جس نے 82 میں سے 62
سیٹیں جیت لیں۔یوں پنجابیوں نے اسلامی و قومیتی سیاست کی بجائے طبقاتی سیاست کو
ترجیح دی۔مسلم لیگ (قیوم) دس سیٹیں لے کر تیسری بڑی پارٹی بنی ۔نیب(ولی) بلوچستان
میں سب سے بڑی پارٹی تھی مگر اس کی لیڈر
شپ چارسدہ(صوبہ سرحد) میں تھی۔
جب آپ صوبوں کے نتائج دیکھتے ہیں تو صوتحال مزید دلچسپ ہو
جاتی ہے۔قومی اسمبلی میں صوبہ سرحد کی 50٪ سیٹیں جیتنے والی مسلم لیگ(قیوم) صوبائی
اسمبلی میں یہ برتری قائم نہ رکھ سکی۔ البتہ اس کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب
نیب(ولی) سے کہیں زیادہ تھا۔ ایسے ہی ایک قومی اور دو صوبائی سیٹیں صوبہ سرحد سے
جیتنے والی پی پی پی نے صوبائی انتکابات
میں سب سے زیادہ سہٹیں جیتنے والی نیب(ولی) سے تقریبا چار فیصد کم ووٹ لیے تھے۔
یادرہے 40 ممبران کی اس اسمبلی میں 13 امیدوار آزاد حیثیت میں جیتے تھے۔پنجاب میں
تو پی پی پی کا کسی سے بھی مقابلہ ہی نہیں تھا کہ بھٹو نے تو پارٹی ہی پنجاب کے دل
لاہور میں آ کر بنائی تھی کہ انہیں 11 سال سٹیبلشمنٹ میں رہنے کی وجہ سے یہ بخوبی
معلوم تھا کہ انہیں کیسے چیلنج کیا جا
سکتا ہے۔180 کے ایوان میں 116 سیٹیں جیت کر بھٹو پنجاب اسمبلی آئے تھے۔ یہاں بھی
نیب(ولی) سے ملتا جلتا معاملہ تھا کہ پارٹی کی عوامی، قانونی طاقت تو پنجاب میں
تھی جبکہ لیڈرشپ لاڑکانہ میں تھی۔ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ جیسی جگہوں پر پی پی
پی کا ایک بندہ بھی پنجاب اسمبلی نہ پہنچ سکا۔سندھ میں پی پی پی نے 60 میں سے 28
سیٹیں جیتیں جبکہ یہاں 14 آزاد امیدوار جیتے۔جیکب آباد، سکھر، سانگڑھ میں ایک بھی
سیٹ پی پی پی نے نہیں جیتی جبکہ تھرپارکر میں 5 میں سے ایک سیٹ ملی۔حیران نہ ہوں کراچی کی 15 صوبائی سیٹوں
میں پی پی پی نے 7اور جمعیت علما پاکستان نے چار سیٹیں جیتیں۔بلوچستان کا رزلٹ بھی
دلچسپ تھا جس کی چار میں سے تین سیٹیں
نیب(ولی) اور ایک جے یو آئی نے لیں تھیں۔مگر صوبائی الیکشن میں وہ یہ برتری قائم
نہ رکھ سکے۔ کل 20 میں سے نیب کے پاس 8 نشستیں تھیں جبکہ 5 جے یو آئی کی تھیں۔چار
آزاد امیدوار تھے تو دو مسلم لیگ(قیوم) کی سیٹیں تھیں۔کوئٹہ کی چار میں سے نیب کے
پاس صرف ایک سیٹ تھی جبکہ لورالائی، ژوب،
کچی اور لسبیلہ میں نیب کا کوئی ممبر نہیں بنا۔
گذشتہ 41سالوں میں 2018کا انتخاب 10واں الیکشن ہے کہ
اگر اس کی تاریخ لکھی جائے تو شرم سے سر جھک جاتا ہے۔ سٹیبلشمنٹ اس زعم میں کم از
کم 2002تک مبتلا رہی کہ وہ اس ملک خداداد پاکستان کی ”خدا“ ہے اور یہاں وہی ہوگا
جو وہ چاہے گی۔ جس خلائی مخلوق کا آج زور وشور سے ذکر ہورہا ہے اس نے 1951 سے جس
طرح اس ملک میں جمہوری عمل کو روکا اس میں اولین دور میں آئی سی ایس برادری کا
کردار تھا کہ فوجی آمروں کی آمد کے بعد ہمیں نئے نا خدا مل گئے۔ پرنالہ وہیں رہا
اور الزامات، مداخلتیں، جوڑ توڑ اور لاڈلوں سے قربتیں بھی جاری رہیں۔ مگر اس سب
میں جو تیزیاں 1977 کے انتخابات سے دیکھنے میں آئیں وہ 2002 کے انتخابات تک جاری
رہیں۔ 2008کے بعد ان کا زور کم تو نہیں ہوا البتہ ان کے مدمقابل قوتیں بھی تگڑی
ہونے لگیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ 1977سے 2002کے درمیان امریکہ اور اس کے حواریوں کے
ایجنڈے کو بڑھانے میں جمہوریت میں بگاڑ کے یہ طریقے ازحد معاون رہے۔ افغان جہاد سے طالبان مکاﺅ
پراجیکٹ تک عالمی مفادات کی ترجمانی کرنے والی سٹیبلشمنٹ 2008کے بعد قومی حمیت،
وطن پرستی، قومی مفادات اور سلامتی کے تقاضوں کے پیچھے چھپ کر جو کھیل چلا رہی ہے
اس کے پاس 1977سے 2007کے 30سالوں کا حساب دینے کی ہمت نہیں۔ جس تھانیداری سوچ سے
اس ملک کو ان 30سالوں تک چلایا گیا اس سے جان چھڑانے میں 15سال اور کم از کم تین
جمہوری تسلسل تو لگیں گے۔ 2018میں مساں مساں کر کے دوسرا جمہوری تسلسل مکمل ہونے
کو ہے کہ جس میں سیاستدانوں نے بہت سے سنگ میل عبور کیے تو دوسری طرف اداروں کی
مداخلتیں اور دھرنے بھی جاری رہے۔ رہی سہی کسر فیض آباد دھرنے، بلوچستان میں
صوبائی سرکار کی تبدیلی اور سنجرانی فارمولے نے نکال دی جبکہ اس سب پر سہاگہ ان
ننگی چٹی مداخلتوں نے چڑھایا جس کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کو دیوار سے لگایا گیا اور
پیپلز پارٹی کو خوب دبایا گیا۔
1977 میں بھان متی کا کنبہ بنا کر قوم پرستوں
اور اسلام پرستوں کے مرغوبے کو استعمال کرتے ہوے دھاندلیوں کے گھمے کے ذریعے بھٹو
سرکار کو ختم کیا گیا۔ ہر کارے جانتے تھے کہ انھیں بھٹو اور پنجاب کو الگ کرنا ہے
جبکہ دوسری طرف بھٹو کو کراچی میں بھی جگہ نہیں دینی۔ 1977 سے 1987 کے درمیان ہر
بھٹو مخالف ریاست کا لاڈلہ تھا۔ جمہوریت کو بے توقیر کرنے کے لیے 1985 کے غیر
جماعتی الیکشن سے قبل بلدیاتی بوٹے لگا گئے تھے۔ ان بلدیاتی بوٹوں کو سیاست میں
استعمال کرنے کا گر وہی تھا جس پر انگریز 1882 سے عمل پیرا تھے کہ بعد ازاں آزادی
کے بعد یہی کھیل فوجی ڈکٹیٹروں نے جاری رکھا۔ پہلے سیاست و جمہوریت کو پراگندہ کیا
گیا پھر کمر پر ہاتھ رکھ کر دہائیاں دینے لگے کہ سیاست کس قدر غلیظ ہوچکی ہے۔ یہ
گاندھی سیاستوں کا خاص انداز ہے کہ خود ہی گند پھیلاﺅ
اور خود ہی ماتم برپا کرو۔ 1985 کا غیر جماعتی الیکشن اس گند کی ابتداءتھی تو 2002
کا الیکشن اس گند کی انتہا۔ مہران بینک سکینڈل جمہوری عمل میں ہرکاروں کی مداخلت
کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا کہ اس کے اہم ترین کردار جنرل اسلم بیگ و جنرل درانی
تو سکندر ایوب گٹھ جوڑ کا تسلسل تھے۔
آزاد عدلیہ کے ”سنہری دور“ میں دونوں زندہ ہیں مگر ان
سے کیسے کنی کترا کر انصاف جاری ہے یہ سب آپ کے سامنے۔ 1988 سے 1996 تک محض 8
سالوں میں چار بار انتخابات کروائے گئے کہ یہ اس بات کی دلیل ہیں کہ سٹیبلشمنٹ
سیاستدانوں سے مل کر چلنے میں ناکام رہی۔ اس ناکامی کی وجہ محض یہ تھی کہ
سیاستدانوں کو خارجہ، داخلہ و سلامتی کی پالیسیوں میں شامل ہونے سے روکنے کی روش
جاری تھی۔ جس طرح افغان جہادیوں کو طالبان پراجیکٹ میں تبدیل کیا گیا وہ ہماری دنیا
کو جانے بغیر بنائی جانے والی داخلہ، خارجہ و سلامتی کی پالیسیوں کی کھلی نشانی کہ
اس کا الزام کسی اور پر ڈالنا ممکن ہی نہیں۔ 1990 کے انتخابات میں کیسے کیسے سرعام
مداخلتیں کیں گئیں اس کا ثبوت تو اصغر خان کیس ہے مگر جنھوں نے یہ فریضہ سر انجام
دیا ان سے تو کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ اس لیے سارا بوجھ نواز پر ڈالنے کی ناکام کوششیں
ہوتی رہیں۔ اجلال حیدر زیدی، روئیداد خان اور غلام اسحاق خان کا تکونی بندوبست تھا
جو اسلام آباد میں بیٹھ کر یہ فیصلے کرتا رہا کہ کون کہاں سے جیتے گا اور اسے جنرل
بیگ و درانی کی آشیرباد حاصل تھی۔ دلچسپ حقیقت تو یہ ہے کہ 1993یں یہی غلام اسحاق
تھے جو اب اسی بے نظیر کو لانے میں رجھ گئے جسے سیکورٹی رسک قرار دینے والوں میں
وہ خود پیش پیش تھے۔ جو بندوبست 1977 سے چل رہا تھا اس میں پہلی دراڑ 1997میں آئی
جب دوسری بار وزیراعظم بنائے گئے میاں نوازشریف نے 58(2)بی کو ختم کرنے کی سعی کی
اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس کی سپورٹ کی۔ یہ ایک بدلتے پاکستان کی موہوم سی
شبیہ تھی کہ جس میں رنگ 2002کی سیاسی مداخلتوں کے بعد بوجہ بھرے گئے۔
2002کے انتخابات 1990کی طرح زبردست دھاندلیوں
کی درخشاں مثال تھے مگر بعد ازاں دھاندلیوں پر دھرنے دینےوالے عمران خان ان مداخلتوں کا حصّہ تھے۔ کس
طرح ق لیگ اور پیٹریاٹ جیسی جماعتیں بنائی گئیں وہ عمل اس بدبودار ریفرنڈم سے
مختلف نہیں تھا جس کی حمائیت کرنے والوں میں عمران خان سمیت بہت سے ایسے لوگ بھی
شامل تھے جو بعد ازاں پاکستان میں انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے بنائےادارے کے
کرتا دھرتا بنے۔ پاکستان کے جمہوری سفر میں 2008کے انتخابات کسی بھی حوالے سے
تادیر یاد رکھے جائیں گے کہ جس جمہوری تسلسل کی حمائیت ہم آج کررہے ہیں وہ انہی
انتخابات کے بطن سے پیدا ہوا۔ جیسے جان ایف کینڈی کی موت نے امریکی کالوں کو ووٹ
کا حق دیا تھاایسے ہی بے نظیر کی شہادت نے
پاکستان میں جمہوری تسلسل کو ٹیک دی۔
2008کے انتخابات میں ایک دفعہ پھر یہ بات
ثابت ہوئی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں ہی مقبول عام پارٹیاں ہیں کہ
میثاق جمہوریت کرنے کی وجہ سے دونوں نے نہ صرف ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کا عہد
کیا تھا بلکہ عوام نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ 2008کی اسمبلی نے آئین و انتخابی عمل کو
راہ راست پر لانے کا کام کیا کہ یہ سفر کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔
سیاستدانوں نے ان گذرے دس سالوں میں غلطیاں بھی کیں مگر اس کے ساتھ ساتھ بہت سے یاد
رکھے جانے والے کام بھی کیے۔ 2008سے 2013 کے درمیان 18ویں ترمیم اور 2013سے 2018
کے درمیان انتخابی اصلاحات کا بل ایسے اقدامات ہیں جس کا کریڈٹ پاکستان کی سیاسی
جماعتوں کو جاتا ہے۔2011کے بعد عمران خان کی پارٹی نے اپنی جگہ پیدا کی کہ وفاقی
پارلیمانی بندوبست میں تیسری پارٹی کی گنجائش موجود تھی۔ تاہم 2013 کے انتخابات سے
قبل جس طرح پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم کو طالبان کے ڈر سے انتخابی مہم
کو محدود کرنا پڑا وہ پاکستانی سیاست میں اک نئے عنصر کی موجودگی کا پتہ دیتا تھا۔
یہ ایک ایسا عنصر تھا جس بارے بروقت کوئی تدبیر نہیں کی گئی تاہم اب سیاسی جماعتیں
اس بارے ضرور غور کریں گی۔ 2013کے انتخابات کو اس لیے اک منفرد مقام حاصل ہے کہ اس
میں یہ تینوں پارٹیاں تین الگ الگ صوبوں کی مختار کل بھی تھیں اور 18ویں ترمیم کے
بعد صوبوں کو مل چکے فنڈز کی ذمہ دار بھی۔
2008 کے بعد بدل چکے عالمی منظر نامے کو اگر
سامنے رکھ کر ان گذرے دس سالوں کا جائزہ لیا جائے تو 2014کے بعد کے حالات کا تجزیہ
کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ افغان جنگ، عراق جنگ اور برما محاذ کے ٹھنڈا پڑنے سے جن
طاقتوں کو عالمی و مقامی سطح پر نقصان پہنچا تھا وہ اپنی جگہ ایک پیچیدہ مسئلہ
تھا۔ یہی نہیں بلکہ چین کے بڑھتے ہوے عالمی کردار کی بدولت پاکستان میں نئے، پرانے
آقاﺅں کی لڑائیاں بھی تیز ہورہی
تھیں۔ 2015میں جب سعودی عرب نے یمن جنگ میں پاکستان کی مدد مانگی تو یمنی قرارداد
کے ذریعے اس کو روکنا وہ عمل تھا جس نے نوازشریف ہی کو نہیں بلکہ جمہوریت کو بھی
خطرات میں ڈال دیا۔ سونے پر سہاگہ صدر ٹرمپ کا حکومت میں آنے سے چڑھا۔ اب ایران کو
دوبارہ سے نشانہ خاص بنادیا گیا اور پاکستان کے سابق آرمی چیف کو ایران مخالف
اسلامی اتحاد کا سربراہ بنا ڈالا۔
جس طرح صدر روجانی کے پاکستانی دورے کے دوران سفارتی
آداب کو بلائے طاق رکھتے ہوئے کلبھوشن کا کیس نکالا گیا وہ اس خدشہ کو بڑھا گیا کہ
پاکستان میں ٹرمپ کی ایران مخالف پالیسیوں پر کوئی دھڑا حمائیت کر رہا ہے۔ مگر
دوسری طرف عالمی سطح پر روس، چین اتحاد ترقی کا دھارہ ایشیا کی طرف موڑنے میں
کامیابی سے آگے بھی بڑھتا جارہا ہے۔ یہ بحث پاکستان میں تاحال جاری ہے کہ ہمیں
امریکہ، چین، روس، سعودی عرب، ایران کی اس کشمکش میں کیا کرنا ہے؟ 2018 کے
انتخابات کا اس عالمی تناظر سے براہ راست تعلق ہے کہ ایک کمزور، منقسم حکومت کسی
بھی طرح ان سے نبردآزما ہونے سے قاصر رہے گی۔ جس طرح میاں نوازشریف کو تیسری بار
بھی وزارت عظمیٰ کی مدت پوری کرنے سے روکا گیا اس کے بعد پرانی مقامی لڑائی اور
تیز ہوگئی۔ اس لڑائی میں کبھی نوازشریف خود سپاہی تھے کہ اب وہ اس پر بجا طور پر
معترض۔ ان میں یہ تبدیلی تو میثاق جمہوریت کے بعد واضح طور پر آچکی تھی اور اس کے
شواہد بھی ایک سے زیادہ۔
خارجہ، داخلہ و سلامتی کے مسلوں پر منتخب حکومت کی رائے
کو فوقیت کی لہر تو 2008 سے ہی تیز ہوچکی
تھی۔ مگر تاحال ان مسائل پر کھلے عام، اسمبلیوں میں بحث نہیں ہوتی۔ اگر آپ 2008سے
2018تک سینٹ و قومی اسمبلی میں ہونے والی بحثوں کا جائزہ لیں تو یہ بات کہی جاسکتی
ہے کہ جو باتیں شجرے ممنوعہ تھیں وہ ایوانوں میں گونجنے لگیں اور اخباروں و چینلوں
کی زینت بنیں۔ دھرنوں کی سیاستوں نے جو ڈی چوک سے فیض آباد تک تواتر سے ہوئے، اس
بات کا اعادہ کیا کہ ریاست میں کئی ایک ریاستیں موجود ہیں اور اب یہ کچھ زیادہ
متحرک بھی ہیں۔ عالمی و مقامی ایجنڈے کہاں ملتے ہیں، کہاں الگ الگ ہیں اس بارے اندازے درست ہونے لگے۔ عدالتی فیصلوں اور
من مرضی کے احتساب نے بھی خدشات کو حقیقت کا رنگ دینے میں مدد دی۔ عمران خان دونوں
پارٹیوں کے خلاف مصلحین کی برات لے کر الیکٹبلز کے ڈیرہ پر پڑاو ڈال چکے ہیں۔ پی پی
پی یہ کہتی نظر آئی کہ جس خلائی مخلوق نے یہ کھیل رچایا ہے وہ ہمیں قبول نہیں۔ میاں نوازشریف ووٹ کو عزت
دو کے نعرے سے آگے بڑھ رہے ہیں کہ جس کا مطلب یہی ہے کہ نئے عمرانی معاہدے کے بغیر
یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔
اب 25 تاریخ کا دن آرہا ہے اور سب پاکستانی ووٹ ڈالیں
گے۔ اسمیں جج، جرنیل، جرنلسٹ، سیٹھ اور عام پاکستانی سب کا ووٹ برابر ہے۔ اگر انتخابات میں دھاندلی ہوئی
تو عوام اس کا احتساب خود کریں گے۔
انتخابی تاریخ
پر یہ سلسلہ ہم اس امید پر ختم کر رہے ہیں کہ پاکستان کی ترقی کا دارومدار جمہوری تسلسل ہی
پر ہے کہ جس میں ریاستی ادارے اور میڈیا غیرجانبدار نظر آئیں۔
Part 6 link. Elections interventions from Bhutto to Nawaz (1977-2018)
http://sujag.org/nuktanazar/pakistan-general-election-history-1977-2018
Part 5 Link. Election 1970
http://sujag.org/nuktanazar/1970-general-election-awami-league-ppp
Part 4 Link 1954 Elections in East Bengal
http://sujag.org/nuktanazar/east-pakstan-election-1954-united-front
Part 3 link. May 1953 Election in Sindh
http://sujag.org/nuktanazar/sindh-election-1953-ayub-khuro
Part Two link December 1951 Elections in NWFP(Khyber PK)
Part 1 link March 1951 Elections in the Punjab
http://sujag.org/nuktanazar/pakistan-electoral-politics-pindi-case
Election Special Radio Shows
11 Radio Shows recorded at MastFM103
https://punjabpunch.blogspot.com/2018/07/election-special-2018-daily-discussion.html
Election Special Radio Shows
11 Radio Shows recorded at MastFM103
https://punjabpunch.blogspot.com/2018/07/election-special-2018-daily-discussion.html
No comments:
Post a Comment