ZIM by Rauf Kalasara
Let us rethink what we have missed.
میں نے اپنے افسردہ چہرے پر زبردستی مسکراہٹ لانے کی کوشش کی‘ جس میں ناکام رہا۔ انہوں نے بغیر کچھ بولے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے دفتر لے گئے۔ مجھے کرسی پر بٹھایا اور پنجابی میں کہنے لگے : چلو مجھے بتائو تم ملتان میں کس قسم کی رپورٹنگ کرسکتے ہو؟ میں انہیں بتاتا رہا۔ وہ چپ چاپ میرے چہرے پر نظریں جمائے سنتے رہے۔ اچانک بولے: چلیں میں تمہیں تین ماہ کے لیے ملتان میں اپوائنٹ کر رہا ہوں۔ ان تین مہینوں میں خود کو ثابت کرنا ہے۔ قسمت کا عجیب کھیل تھا کہ جس نے نوکری دینی تھی وہ انکار کر چکا تھا اور جس کے لیے کوئی سفارش ریفرنس تک نہیں تھا اس نے بیٹھے بٹھائے نوکری دے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ‘لیکن طاہر مرزا صاحب؟ وہ بولے میں ان سے کہہ دوں گا۔
وہیں انہوں نے طے کیا کہ تم ہر ہفتے ملتان سے ڈائری لکھا کرو گے۔ ہر ڈائری کے چھ سو روپے ملیں گے اور ڈائری تم مجھے بھیجو گے۔ اُلجھی ہوئی داڑھی اور لمبی مونچھوں کے درمیان سے انہوں مسکرا کر مجھے آنکھ ماری‘ ہاتھ ملایا اور میری تقدیر بدل گئی۔ ایک اجنبی نے اتفاقا ًملاقات میں سب کچھ بدل دیا تھا۔
سوچتا ہوں اگر ایک لمحہ مرزا صاحب کے دفتر سے لیٹ نکلتا یا وہ وہاں سے نہ گزر رہے ہوتے تو ؟
Link of the complete article reproduced in HumSub & published in Dunya.
Some links to reach ZIM Bhadur
No comments:
Post a Comment