Sunday, January 19, 2020

Manto: An usual legacy. Listen discussion at 65th death anniversary (Lok Lhar Show)


Manto: An usual legacy. 

Listen discussion at 65th death anniversary

 (Lok Lhar Show)  

Why Manto is relevant till today? He died in young age of 43 and his literary life was 23 years yet still after 65 years his impact is expanding. What is the magic, he had? He was among the rare bread of independent writers in South Asia and the world. Let us listen the discussion about him by three representative current writers of Urdu,English & Punjabi i-e Asim Butt, Dr Saeed ur Rahman & Nain Sukh. the discussion I did with these writers about Sadat Hassan Manto may encourage you to know more about Manto. In below we will share an autobiographical writing of Manto about himself in his own unusual way. it was published in Lhore's famous literary magazine Fanoon, few months before his death in September, October 1954 issue. Manto was born at May 11, 1912 in Punjabi city Ludhana, studied in Amritsar and lived in Lhore. He died at January 18, 1955.
The program is recorded in weekly Lok Lhar radio show at MastFM103, Jan 17, 2020 Lhore Studios.


Three video clips of the program

Clip 1
https://www.facebook.com/aamirr/videos/10157293316334032/?t=3

Clip 2
https://www.facebook.com/aamirr/videos/10157293280094032/?t=8

Clip 3
https://www.facebook.com/aamirr/videos/10157293128424032/?t=7


Listen complete recording of the show by clicking the link below
https://voca.ro/l8CfnSIGJz3

To read all writings of Manto click the link below
http://www.sajjanlahore.org/corners/manto/indexmantocorner.php


Read what Manto had written about himself, in his own unusual style.





منٹو (خاکہ)۔ منٹو دے  آپدے قلم نال۔

منٹو کے متعلق اب تک بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ اس کے حق میں کم اور خلاف زیادہ۔ یہ تحریریں اگر پیشِ نظر رکھی جائیں تو کوئی صاحبِ عقل منٹو کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتا۔ میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ منٹو کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا بڑا کٹھن کام ہے۔ لیکن ایک لحاظ سے آسان بھی ہے اس لیے کہ منٹو سے مجھے قربت کا شرف حاصل رہا ہے اور سچ پوچھئے تو منٹو کا میں ہمزاد ہوں۔

اب تک اس شخص کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن میں اتنا سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ان مضامین میں پیش کیا گیا ہے حقیقت سے بالاتر ہے۔ بعض اسے شیطان کہتے ہیں، بعض گنجا فرشتہ۔ ذرا ٹھہرےئے میں دیکھ لوں کہیں وہ کم بخت یہیں سن تو نہیں رہا۔ نہیں نہیں ٹھیک ہے۔ مجھے یاد آگیا کہ یہ وقت ہے جب وہ پیا کرتا ہے۔ اس کو شام کے چھ بجے کے بعد کڑوا شربت پینے کی عادت ہے۔

ہم اکٹھے ہی پیدا ہوئے اور خیال ہے کہ اکٹھے ہی مریں گے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے اور ہمیشہ مجھے یہ اندیشہ بہت دُکھ دیتا ہے۔ اس لیے کہ میں نے اس کے ساتھ اپنی دوستی نباہنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ اگر وہ زندہ رہا اور میں مر گیا تو ایسا ہو گا کہ انڈے کا خول تو سلامت ہے اور اس کے اندر کی زردی اور سفیدی غائب ہو گئی۔

اب میں زیادہ تمہید میں جانا نہیں چاہتا۔ آپ سے صاف کہے دیتا ہوں کہ منٹو ایسا ون ٹو آدمی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا، جسے اگر جمع کیا جائے تو وہ تین بن جائے۔ مثلث کے بارے میں اس کی معلومات کافی ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ ابھی اس کی تثلیث نہیں ہوئی۔ یہ اشارے ایسے ہیں جو صرف بافہم سامعین ہی سمجھ سکتے ہیں۔

یوں تو منٹو کو میں اس کی پیدائش ہی سے جانتا ہوں۔ ہم دونوں اکٹھے ایک ہی وقت 11مئی سنہ 1912ء کو پیدا ہوئے لیکن اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ خود کو کچھوا بنائے رکھے، جو ایک دفعہ اپنا سر اور گردن اندر چھپا لے تو آپ لاکھ ڈھونڈتے رہیں تو اس کا سراغ نہ ملے۔ لیکن میں بھی آخر اس کا ہمزاد ہوں میں نے اس کی ہر جنبش کا مطالعہ کر ہی لیا۔

لیجیے اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ خرذات افسانہ نگار کیسے بنا؟ تنقید نگار بڑے لمبے چوڑے مضامین لکھتے ہیں۔ اپنی ہمہ دانی کا ثبوت دیتے ہیں۔ شوپن ہار، فرائڈ، ہیگل، نٹ شے، مارکس کے حوالے دیتے ہیں مگر حقیقت سے کوسوں دور رہتے ہیں۔

منٹو کی افسانہ نگاری دو متضاد عناصر کے تصادم کا باعث ہے۔ اس کے والد خدا انہیں بخشے بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ بے حد نرم دل۔ ان دو پاٹوں کے اندر پِس کر یہ دانۂ گندم کس شکل میں باہر نکلا ہو گا، اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔

اب میں اس کی سکول کی زندگی کی طرف آتا ہوں۔ بہت ذہین لڑکا تھا اور بے حد شریر۔ اس زمانے میں اس کا قد زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین فٹ ہو گا۔ وہ اپنے باپ کا آخری بچہ تھا۔ اس کو اپنے ماں باپ کی محبت تو میسر تھی لیکن اس کے تین بڑے بھائی جو عمر میں اس سے بہت بڑے تھے اور ولایت میں تعلیم پا رہے تھے ان سے اس کوکبھی ملاقات کا موقع ہی نہیں ملا تھا، اس لیے کہ وہ سوتیلے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اس سے ملیں، اس سے بڑے بھائیوں ایسا سلوک کریں۔ یہ سلوک اسے اس وقت نصیب ہوا جب دنیائے ادب اسے بہت بڑا افسانہ نگار تسلیم کر چکی تھی۔

اچھا اب اُس کی افسانہ نگاری کے متعلق سُنیے۔ وہ اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ پہلا افسانہ اس نے بعنوان ’’تماشہ‘‘ لکھا جو جلیا نوالہ باغ کے خونیں حادثے سے متعلق تھا، یہ اُس نے اپنے نام سے نہ چھپوایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پولیس کی دست برد سے بچ گیا۔
اس کے بعد اُس کے متلوّن مزاج میں ایک لہر پیدا ہوئی کہ وہ مزید تعلیم حاصل 
کرے۔ یہاں اس کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ اس نے انٹرنس کا امتحان دوبار فیل ہو کر پاس کیا، وہ بھی تھرڈ ڈویژن میں اور آپ کو یہ سن کر بھی حیرت ہو گی کہ وہ اُردو کے پرچے میں ناکام رہا۔

اب لوگ کہتے ہیں کہ وہ اردو کا بہت بڑا ادیب ہے اور میں یہ سن کر ہنستا ہوں اس لیے کہ اردو اب بھی اسے نہیں آتی۔ وہ لفظوں کے پیچھے یوں بھاگتا ہے جیسے کوئی جال والا شکاری تتلیوں کے پیچھے۔ وہ اس کے ہاتھ نہیں آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تحریروں میں خوبصورت الفاظ کی کمی ہے۔ وہ لٹھ مار ہے لیکن جتنے لٹھ اس کی گردن پر پڑے ہیں، اس نے بڑی خوشی سے برداشت کیے ہیں۔


 اس کی لٹھ بازی عام محاورے کے مطابق جاٹوں کی لٹھ بازی نہیں ہے، وہ بنوٹ اور پھکیت ہے۔ وہ ایک ایسا انسان ہے جو صاف اور سیدھی سڑک پر نہیں چلتا، بلکہ تنے ہوئے رسّے پر چلتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب گِرا۔ لیکن وہ کم بخت آج تک کبھی نہیں گرا۔ شاید گر جائے، اوندھے منہ۔ کہ پھر نہ اُٹھے، لیکن میں جانتا ہوں کہ مرتے وقت وہ لوگوں سے کہے گا کہ میں اسی لیے گرا تھا کہ گر اوٹ کی مایوسی ختم ہو جائے۔

میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں کہ منٹو اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ اس کا مزید ثبوت 
یہ ہے کہ وہ اکثر کہا کرتا ہے کہ وہ افسانہ نہیں سوچتا خود افسانہ اسے سوچتا ہے۔ یہ بھی ایک فراڈ ہے حالانکہ میں جانتا ہوں کہ جب اسے افسانہ لکھنا ہوتا ہے تو اس کی وہی حالت ہوتی ہے جب کسی مرغی کو انڈا دینا ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ انڈا چھپ کر نہیں دیتا۔ سب کے سامنے دیتا ہے۔ اس کے دوست یار بیٹھے ہوئے ہیں، اس کی تین بچیاں شور مچا رہی ہوتی ہیں اور وہ اپنی مخصوص کرسی پر اکڑوں بیٹھا انڈے دیے جاتا ہے، جو بعد میں چُوں چُوں کرتے افسانے بن جاتے ہیں۔ اس کی بیوی اس سے بہت نالاں ہے۔ وہ اس سے اکثر کہا کرتی ہے کہ تم افسانہ نگاری چھوڑ دو۔ کوئی دُکان کھول لو لیکن منٹو کے دماغ میں جو دکان کھلی ہے اس میں منیاری کے سامان سے کہیں زیادہ سامان موجود ہے۔ اس لیے وہ اکثر سوچا کرتا ہے اگر میں نے کبھی کوئی سٹور کھول لیا تو ایسا نہ ہو کہ وہ کولڈسٹوریج یعنی سردخانہ بن جائے۔ جہاں اس کے تمام خیالات اور افکار منجمد ہو جائیں۔
میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ منٹو مجھ سے خفا ہو جائے گا۔ اس کی ہر چیز برداشت کی جاسکتی ہے مگر خفگی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ خفگی کے عالم میں وہ بالکل شیطان بن جاتا ہے لیکن صرف چند منٹوں کے لیے اور وہ چند منٹ، االلہ کی پناہ۔

افسانہ لکھنے کے معاملے میں وہ نخرے ضرور بگھارتا ہے لیکن میں جانتا ہوں، اس لیے۔ کہ اس کا ہمزاد ہوں۔ کہ وہ فراڈ کر رہا ہے۔ اس نے ایک دفعہ خود لکھا تھا کہ اس کی جیب میں بے شمار افسانے پڑے ہوتے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جب اسے افسانہ لکھنا ہوگا تو وہ رات کو سوچے گا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ صبح پانچ بجے اُٹھے گا اور اخباروں سے کسی افسانے کا رس چوسنے کا خیال کرے گا۔ لیکن اسے ناکامی ہو گی۔ پھر وہ غسل خانے میں جائے گا۔ وہاں وہ اپنے شوریدہ سر کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے گا کہ وہ سوچنے کے قابل ہو سکے لیکن ناکام رہے گا۔ پھر جھنجھلا کر اپنی بیوی سے خواہ مخواہ کا جھگڑا شروع کر دے گا۔ یہاں سے بھی ناکامی ہو گی تو باہر پان لینے کے لیے چلا جائے گا۔ پان اس کی ٹیبل پر پڑا رہے گا لیکن افسانے کا موضوع اس کی سمجھ میں پھر بھی نہیں آئے گا۔ آخر وہ انتقامی طور پر قلم یا پنسل ہاتھ میں لے گا اور 786 لکھ کر جو پہلا فقرہ اس کے ذہن میں آئے گا، اس سے افسانے کا آغاز کر دے گا۔
بابو گوپی ناتھ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ہتک، ممی، موذیل، یہ سب افسانے اس نے اسی فراڈ طریقے سے لکھے ہیں۔

یہ عجیب بات ہے کہ لوگ اسے بڑا غیر مذہبی اور فحش انسان سمجھتے ہیں اور میرا بھی خیال ہے کہ وہ کسی حد تک اس درجہ میں آتا ہے۔ اس لیے کہ اکثر اوقات وہ بڑے گہرے موضوعات پر قلم اُٹھاتا ہے اور ایسے الفاظ اپنی تحریر میں استعمال کرتا ہے، جن پر اعتراض کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ جب بھی اس نے کوئی مضمون لکھا، پہلے صفحے کی پیشانی پر 786 ضرور لکھا جس کا مطلب ہے بسم االلہ۔ اور یہ شخص جو اکثر خدا سے منکر نظر آتا ہے کاغذ پر مومن بن جاتا ہے۔ یہ وہ کاغذی منٹو ہے، جسے آپ کاغذی باداموں کی طرح صرف انگلیوں ہی میں توڑ سکتے ہیں، ورنہ وہ لوہے کے ہتھوڑے سے بھی ٹوٹنے والا آدمی نہیں۔
اب میں منٹو کی شخصیت کی طرف آتا ہوں۔ جو چند القاب ہیں بیان کیے دیتا ہوں۔ وہ چور ہے۔ جھوٹا ہے۔ دغا باز ہے اور مجمع گیر ہے۔

اس نے اکثر اپنی بیوی کی غفلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی کئی سو روپے اُڑائے ہیں۔ ادھر آٹھ سو لا کے دیے اور چور آنکھ سے دیکھتا رہا کہ اس نے کہاں رکھے ہیں اور دوسرے دن اس میں سے ایک سبزہ غائب کر دیا اور اس بے چاری کو جب اپنے اس نقصان کی خبر ہوئی تو اس نے نوکروں کو ڈانٹنا ڈپٹنا شروع کر دیا۔
یوں تو منٹو کے متعلق مشہور ہے کہ وہ راست گو ہے لیکن میں اس سے اتفاق کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اوّل درجے کا جھوٹا ہے۔ شروع شروع اس کا جھوٹ اس کے گھر چل جاتا تھا، اس لیے کہ اس میں منٹوؔ کا ایک خاص ٹچ ہوتا تھا لیکن بعد میں اس کی بیوی کو معلوم ہو گیا کہ اب تک مجھ سے خاص معاملے کے مطابق جو کچھ کہا جاتا تھا، جھوٹ تھا۔

منٹو جھوٹ بقدرِ کفایت بولتا ہے لیکن اس کے گھر والے، مصیبت ہے کہ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس کی ہر بات جھوٹی ہے۔ اس تل کی طرح جو کسی عورت نے اپنے گال پر سرمے سے بنا رکھا ہو۔
وہ اَن پڑھ ہے۔ اس لحاظ سے کہ اس نے کبھی مارکس کا مطالعہ نہیں کیا۔ فرائڈ کی کوئی کتاب آج تک اس کی نظر سے نہیں گذری۔ ہیگل کا وہ صرف نام ہی جانتا ہے۔ ہیولک ایلس کو وہ صرف نام سے جانتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ۔ میرا مطلب ہے تنقید نگار، یہ کہتے ہیں کہ وہ ان تمام مفکروں سے متاثر ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، منٹو کسی دوسرے شخص کے خیال سے متاثر ہوتا ہی نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ سمجھانے والے سب چغد ہیں۔ دنیا کو سمجھانا نہیں چاہیے اس کو خود سمجھنا چاہیے۔
خود کو سمجھا سمجھا کر وہ ایک ایسی سمجھ بن گیا ہے جو عقل و فہم سے بالاتر ہے۔ بعض اوقات ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ہے کہ مجھے ہنسی آتی ہے۔ میں آپ کو پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ منٹو، جس پر فحش نگاری کے سلسلے میں کئی مقدمے چل چکے ہیں، بہت طہارت پسند ہے لیکن میں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ 
سکتا کہ وہ ایک ایسا پاانداز ہے جو خود کو جھاڑتا پھٹکتا رہتا ہے۔

یہ منٹو کی اپنے بارے لکھی  وہ نایاب تحریر ہے جو انھوں نے اپنی موت سے   چند 
ماہ قبل لکھی تھی اور اسے  لاہور کے مشہور رسالہ نقوش نے ستمبر اکتوبر 1954 کے شمارے میں چھاپا تھا۔




Thursday, January 16, 2020

Issues of Students, Youth Power & Student Politics. What is missing in it? Listen

Issues of Students, Youth Power & Student Politics. 

What is missing in it? Listen

What students think about themselves, their teachers, their studies and also about country, student issues and student politics is the important but more important thing is to listen it from youth themselves. Lok Lhar is inviting students and in this regard we did another program, thanks to Dr Imdad of School of Public Policy FCC university at Jan 09, 2020. In this program three students Ms Surteel, Mr Sher Ali and Mr Sanwal Zubair shared their views not only about society and education but also about student power too. just listen them and try to understand what is missing in student debate. 



Surteel is talking and other participants are Sheer Ali and Sawan Zubair. Program was recorded last Friday in weekly Lok Lhar Punjabi show at MastFM103. Watch the clip, 


Listen the complete show at the link below.

Wednesday, January 15, 2020

Let Us meet Muhammad Akram, A Punjabi who lived in KSA (Common Talk)

Let Us meet Muhammad Akram

 A Punjabi who lived in KSA

(Common Talk)

Muhammad Akram is from a village near Dinna, district Jehlum and spent his life in Saudi Arabia too. his small rather common talk may interest you to understand ground realities.
Name of his village is bagaan, later became Kalwant pur. He was born around 1947 in Junjua Rajput family. His village is at 7 miles from Dinna. He studied in a govt primary school inside Rohtas fort that was at two miles distance from his village. it shows that getting education was very difficult at that time. He said, ''In 6th i joined Islamia high school Jehlum where my uncle (mother's brother) was teacher'', i studied till class 10th''. He did his matriculation in 1963 and later on came to Lhore. His both uncles were in Jamat e Islami. Along with various jobs he completed his studies privately. His story will tell you state of governance, situation of jobs, association with a religious ideological group etc during late 1960s till mid 1970s. This common talk will give you an idea what was ground situation and its effects on youth before 1980s. At early 1970s, it was a time when due to policies of Bhutto government there was an opening in middle east especially in Saudi Arab. It altogether changed the State & society. He went to KSA in late 1970s and lived there for almost three decades. He admitted that things for immigrants are changing since last decade. It was a common practice  that you got Aqama (work Permit) for a particular job but you were free to change nature of job but now it is not possible. How immigrants faced difficulties in other countries and back home is still an unheard story. But you may understand it by listening M Akram story well. How it effected families is also a story which needs little attention. After spending prime time abroad he admitted that what you can do in your own country is much better and productive.


Link of the Program

Friday, January 10, 2020

How 1857 confusing us since ages, listen some odd facts & rethink.



How 1857 confusing us since ages, 

listen some odd facts & rethink. 

After 162 years , the debate regarding 1857 still continue,not because of the events but due to interests of new power players. For Empire it was a rebellion or Ghadar yet their opponents called it freedom movement rather The First Freedom Movement. We can easily find various narratives in favor or against such claims. Liberals & Progressives remained largely confused & divided about it yet colonial power & fundamentalists have straight views. Interestingly both Hindu & Muslim fundamentalists had reservations from the activities of Christian Missionaries who were busy in converting locals and had links with Empire. But it was not the sole worry but there was confusion in Royal Bengal Army too regarding their future. In RBA, majority of soldiers were from State of Awadh, a fact often ignored while analysis sepoy mutiny. Much before annexation of the Lhore Darbar (29 March 1849), it two things were decided and reflected in British Assembly debates (1843-44) i-e
1- Formation of new structure after annexation of the Punjab along with formation of a united Army. (Till that time there were 3 Presidencies under East India Company Bombay Army was established in 1742, RBA in 1757 & Madrass Army in 1760. But after 1824 RBA gradually gained power and till late 1830s, it had 74 battalions as against 26 Bombay & 58 Madrass armies. At that time a campaign was raised to captured Muslim majority areas like Kashmir, Kabul, Sindh, Balochistan & the Punjab in late1830s. interestingly majority of new recruitment came from Oudh State yet after 1849 RBA lost its importance. )
2- The next target for future was decided and it was to reduce buffer zone between Satluj & tribal areas and moved towards Oxus.
So after 1849, Northern Command Headquarter  was established in Rawalpindi in 1850. Had RBA sepoys rebelled during three bloody wars during 1846-9 things would be different but at that time only two Purbiya battalions rebelled & joined Lhore darbar army in 1846 but majority remained loyal with royals. They started rebellion when Nawab of Audh was exiled in February 1856 but it was too late.
What happened before 1857, what happended during three months and how 1857 narrative was developed  after that and how it too k new shapes in Pakistan and India needs little attention.   

کیا 1857 کے واقعات کو عوامی ، جمہوری نقطہ نظر 

سے قومی آزادی کی تحریک قرار دیا جا سکتا ہے؟


بالعموم پنجاب اور بالخضوص دھرتی پنچ دریائی کے پس منظر میں  1857 کے اردگرد  پھیلی سیاست، 

تاریخ، مداخلتوں، جھوٹ سچ، بنیاد پرستیوں، فوجی بغاوتوں، گمراہیوں  اور سوشل انجئیرنگ کا از سر

نوع جائزہ۔

1857 کے واقعات کو پہلی جنگ آزادی قراردینا یا پھر غدر کہنا   دونوں ہی درست نہیں۔

گل بات: عامر ریاض 9 نومبر 2019  ارتقا انسٹیٹوٹ، کراچی، سندھ


اس لیکچر کی ریکارڈنگ مست ایف ایم 103 میں لوک لہر پروگرام میں دسمبر کے مہنیے چلائی تھی اور اس

 کے نوٹس  بھی شئیر کیے جا رہے ہیں۔  آخر میں ای میل ایڈریس بھی دیا ہے کہ اس پر اپنے تاثرات بھی 

بھیج سکتے ہیں اور حوالوں بارے بھی پوچھ سکتے ہیں۔




Recording of the Lok Lhar Program based on lecture delivered at Karachi, Sindh.

Click Here and listen it



Notes of the lecture




نوٹس۔

عاشق ہوویں، تاں عشق کماویں

راہ عشق دا    ۔۔۔سوئی دا نکا

دھاگہ ہوویں۔۔۔نال جاویں

کہے حسین۔۔ جے فارغ تھیویں

تاں خاص مراتبہ پاویں

شاہ حسین لہوری 16ویں صدی کے ایک مہان پنجابی صوفی شاعر تھے اور مادھو لال حسین 

کے نام سے مشہور ہوئے۔ انکی یہ کافی مجھے بہت اپیل کرتی ہے اور میں اسے اپنے ریڈیو شو 

میں تواتر سے پڑھتا بھی ہوں۔ جیسے مجھے 19ویں صدی کے میاں محمد بخش کا یہ مصرعہ 

ازحد پسند ہے کہ

لا ہنیرہ، جہل برے دا، چانن لا عقل دا

کچھ باتیں یا خیالات ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم نے  حقیقت مان لیا ہوتا ہے اور ان بارے 

ہم اکثر غور کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔مگرمادھو لال کہتے ہیں کہ جے فارغ تھیویں  یعنی 

سٹیبلش ٹروتھ کو ڈی کنسٹرکٹ کریں تو جس تلاش میں ہیں اس تک بڑھ سکتے ہیں۔






 اس بات کو یہیں تک رکھتے ہوئے میں اصل ٹاپک کی طرف آتا ہوں۔ 1857 کے 

حوالے سے بات کرنے سے قبل چند باتیں کرنی ضروری ہیں۔




سیاسی بیانئیے اور تاریخ   کا فرق

 سیاسی بیانئیے اور تاریخ  کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا چایئے۔ سیاسی بیانئیے میں  واقعات کی 

مخصوص تشریح پر زور رہتا ہے  اور کرداروں کو بھی اسی پیرائے میں پیش کیا جاتا ہے۔اگر 

کوئی تاریخی واقعہ  جاری کردہ سیاسی بیانئیے سے متصادم ہو یا اس کے بیان کرنے سے ابہام 

کا خدشہ ہو تو اس کو منہا کرنے یا اس کی سنتیں کرنے  کو عموما جائز سمجھا جاتا ہے۔ یہی 

نہیں بلکہ سیاسی بیانئیے میں  اس بات کی گنجائش رہتی ہے کہ نتیجہ پہلےسے نکال لیں اور پھر 

واقعات کو قطع برید کے بعد جوڑتے چلے جائیں۔مگر تاریخ لکھتے ہوئے تحقیق  شرط اولین 

ہےکہ جس میں آپ کو تمام تر واقعات اور اس سے جڑے پہلووں کو سامنے لانا ہوتا ہے 

اور پھر ان  کی ممکنہ تشریحات کو الگ الگ بمعہ دلائل بیان کرنے کے بعد نتائج کی طرف 

بڑھنا ہوتا ہے۔ محقق کے لیے لازم ہے کہ وہ کسی پہلے سے طے شدہ نتیجہ پر پہنچنے کے 

لیے تحقیق نہ کرے۔  مذاہب، مسالک، قوموں، قومیتوں، علاقوں کی تاریخ لکھتے ہوئے عموما 

سیاسی بیانئیے اور تاریخ کو غلط ملط کیا جاتا ہے۔

پاکستان اور بھارت جسے کچھ دوست ہندوستان ہی کہنا چاہتے ہیں میں ہندو مسلم اتحاد اور 

ہندو مسلم نفاق کی تاریخ کچھ ایسے ہی لکھی گئی ہے کہ اکثر تحریروں اور تحقیقوں  کو رقم

 کرتے ہوئے کانگرس، جمعیت علما ہند،ہندو مہاسبھا ،آریا سماج، کیمونسٹوں اور   مسلم لیگ  کے

 سیاسی بیانئیے غالب رہے تو 1947 کے بعد  پاکستان اور بھارت  کی سرکاری  کتابوں میں کھڑی کی گئی  سرکاری قوم پرستیوں کا گہرا سایہ ہے۔تاریخ کو سیاسی بیانئیے سے غلط ملط کرنے کی ریت ہمیں اپنے نوآبادیاتی  آقاوں سے ورثہ میں ملیں تھیں جس پر نہ صرف انگریز کے حمائیتی عمل پیرا رہے بلکہ انگریز مخالف ایجنڈے چلانے والے بھی  اکثر و بیشتر  انگریز کے پھیلائے بیانئیوں کو باوجوہ چلاتے رہے۔


  یوں یہ کہنا مغالعطہ  یا مبالغہ نہیں کہ ہماری تاریخ سے متعلق جو گمراہ کن بیانئیے انگریز نے  

پھیلائے تھے ہم نے اسے مزید بگاڑا ہی ہے۔ایک مثال پنڈت نہرو کی ہے جن کی مشہور 

کتاب تلاش ہند 1946 میں پہلی بار چھپی تھی۔ انگریزی میں  لکھی  اس کتاب کو مشہور 

ویب سائٹ انٹرنیٹ  آکائیوز پر پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کے صفحہ324 تا 328 میں  1857 

کے واقعات بارے لبرل ڈیموکریٹ اور فیبین  سوشلسٹ نہرو لکھتے ہیں کہ یہ  لڑائی 

جاگیرداروں ، نوابوںاور تعلقہ داروں   کی  اپنے گھس رہے مفادات کے تحفظ کی جنگ تھی 

جس میں خال خال نیشلسٹ عنصر بھی شامل تھا۔انھوں نےلکھا '' یہ درست ہے کہ اس 

دوران انگریزوں نے بڑے ظلم کیے مگر یہ واقعات جاگیرداروں کا ردعمل تھے جن کی 

رہنمائی بھی جاگیردار کر رہے تھے اور وہی لڑ بھی رہے تھے۔ ایک سال بعد وہ نومولود 

ملک بھارت کے وزیراعظم بنے تو انہیں بھارت کی ایکتا کے لیے  1857 کے واقعات کو 

پہلی جنگ آزادی کہنا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ پنڈت صاحب نے 1955 میں ایک منصوبے کا 

افتتاح بھی کیا  جس کے تحت نئی دلی نے ایک کثیر رقم 1857 کی تاریخ لکھوانے کے لیے 

مختص کی۔مگر جو وہ لکھ گئے تھے وہ  بھی تاریخ میں محفوظ ہو گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 

1857 کے 150ویں  سال چھپنے والی کتاب میں لکھے اپنے مضمون میں مشہور  انڈین 

ہسٹورین عرفان حبیب  نے اس گھپے کا حوالہ دیا۔

Pdf link of Discovery Of India
https://ia600603.us.archive.org/5/items/DiscoveryOfIndia/TheDiscoveryOfIndia-jawaharlalNehru.pdf


Lal Pal Bal.... Founders of Religious Nationalism & Fundamentalism in South Asia in Modern Times.
https://punjabpunch.blogspot.com/2016/03/south-asian-founders-of-religious.html


Irfan Habib Article was published in this book
https://trove.nla.gov.au/work/35398765?q&versionId=44024722



1857 اور مذہبی کارڈ


یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لبرل اور ترقی پسند دانشوروں کی ایک بڑی تعداد 1857 

کےواقعات کو آزادی اور جدوجہد کا  استعارہ بنانے کے حوالے سے منقسم رہے البتہ  ہندو 

اور مسلم قدامت پسند حلقے  اپنے اپنے الگ مذہبی   حوالوں کی روشنی میں 1857 کو  جدوجہد 

کے مطلبی  استعارے کی حیثیت میں چلاتے رہے۔1829 میں ستی کی رسم کے حکما خاتمے، 

1834 میں فارسی کی سرکاری حیثیت کے خاتمے اور مسیحی مشنری اداروں کی سرپرستیوں

 کی وجہ سےاشراف اور ہندو و مسلم قدامت پسندوں کا 1857 کے واقعات کو بطور استعارہ 

استعمال کرنا سمجھ آتا ہے۔انگریزوں کے آنے سے پہلے یہاں فارسی زبان اور اس کا رسم 

الخط  جاری تھا۔ہندو، مسلم، سکھ اور دیگر فارسی لکھتے پڑھتے تھے۔یہاں کی بڑی چھوٹی 

زبانیں جیسے  بنگالی، پنجابی، تامل، سندھی  ایک سے زیادہ رسم الخطوں میں لکھی جاتی تھیں جو 

ریکارڈ کا حصہ ہے۔ مگر جب انگریزوں نے فارسی ختم کی تو چلاکی سے اسے مسلم زبان کہہ 

کر ختم کیا۔پنجاب پر قبضہ کے بعد انگریزوں نے 1851 میں پہلا پنجابی اخبار نکالا اور چلاکی 

سے اس کا رسم الخط گورمکھی رکھا۔وہ یہی تاثر دینا چاہتے تھے کہ پنجابی سکھوں کی زبان 

ہے۔سندھی کو فارسی اوردیوناگری رسم الخطوںکی بجائے عربی رسم الخط میں سرکاری حثیت 

دینا، پنجابی کو  فارسی، دیوناگری  رسم الخط کی بجائے  گرمکھی میں چلانا، لاگو کرنا، بنگالی کو فارسی 

کی بجائے دیو ناگری میں چلانا یہ سب ایک چلاک پالیسی کے مختلف انداز تھے۔ پھراس کا 

ردعمل بھی دیکھنے میں آیا۔ ستی اور فارسی کے خاتمے اور دیگر مداخلتوں کی وجہ سے یہاں 

کے تمام  بنیاد پرست 1857 کی تشریح اسی نقطہ نظر سے کرتے تھے۔ 




نہ منشور، نہ پارٹی نہ تحریک ، البتہ مخصوص چھاونیوں میں  کمزور فوجی بغاوتوں کی بھرمار۔

یہ فوجی نوکریاں   ختم ہونے کے ڈر سے بگڑے تھے جیسے افغان مجاہدین  رات و رات 

جنیوا معاہدے کے بعد امریکہ مخالف طالبان بن گئے تھے؟

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ  لیڈر، منشور اور سیاسی نعروں کے بغیر چلنے والی کسی بھی 

تحریک کو جنگ آزادی کیونکر کہا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل ہمارے ہاں اور دنیا میں کئی 

ایک  مذہبی و غیر مذہبی تحریکیں چل چکی تھیں جن کے مقاصد اور منشور واضح تھے۔ آپ 

ان سے اختلاف کریں یا  اتفاق مگر ان کے پاس  کارکن اور بیانئیے تھے۔تیتو میر، قرات 

العین طاہرہ، چارٹسٹ موومنٹ، کمیونسٹ مینی فسٹو یہ سب 1857 سے پہلے کی تحریکیں 

تھیں۔1857 کے واقعات میں چھاونیوں میں ہونے والی بغاوتوں کا ذکر تواتر سے ہے کہ 

دیکھنا یہ ہے کہ لہور دربار (1799 تا 1849)جیسی آزاد بادشاہت کو تاراج کرنے،  افیون 

کے نام پر لڑی جانے والی چین مخالف مہمیں  (1842 اور 1856)اور کریمیا کی جنگ 

(1853 تا 1856)  میں کرائے کے فوجیوں کی خدمات دینے والی رائل بنگال آرمی اور 

ان کے بھائی بندوں کو یکدم کیا سوجی؟کیا  پنجاب پر قبضہ  کے بعد 1849 میں  پنڈی میں 

نادرن کمانڈ کے ہیڈ کواٹر اسارنے کے بعد ان کو نوکریوں کے گھسنے کا ڈر پیدا ہو گیا تھا؟ 

ملک پاکستان میں چند عشرے قبل جنیوا معاہدے کے بعد جب امریکی سرپرستی میں جہاد 

کرنے والے اس سرپرستی سے باوجوہ محروم ہو گئے تھے تو  وہ امریکہ مخالف طالبان کی 

صورت اختیار کر گئے تھے۔جن حضرات نے 1857 میں یکدم علم بغاوت بلند کیا وہ 50 

سال  تک کیوں خاموش رہے جب پڑوس میں لہور دربار کی آزاد حکومت موجود تھی جس 

میں  نپولین کی جنگ کے ہارے ہوئے جرنیل بھی بھرتی ہوئے اور ان فوجیوں نے اپنی 

تحریروں میں  لکھا کہ اس وقت  کے دوران پنجاب میں ابھرنے والی یہ سب سے طاقتور 

انگریز مخالف حکومت تھی اور ہم مصر، ایران کو چھوڑ کر لہور دربار اس لیے آئے ہیں 

کیونکہ یہ دنیا میں  نپولین کے بعدسب سے بڑا انگریز مخالف مورچہ ہے۔



یہ سوال بھی اہم ہے کہ عام آدمی کو علم بغاوت بلند کرنے والے کیا سمجھتے تھے اور 

بلعموم اس جنگ آزادی یا غدر کا حلقہ اثر عوامی سطح پر کہاں کہاں اور کتنا تھا؟

یہ سب سوال ہیں جن پر میں اپنی بات رکھوں گا اور یہ امید ہے کہ ہم اس بارے کچھ نئے پہلووں پر بات آگے بڑھا سکیں۔

آج ان واقعات کو گذرے 162 سال بیت چکے ہیں ۔ کسی بھی  واقعہ کو سمجھنے اور جاننے کا  یہی قائدہ ہے کہ اس کے پس منظر کو جانا جائے، پھر اس واقعہ کو دیکھا جائے اور پھر اس  کے بعد کس کس نے اس کی حق و مخالفت میں لکھا یا بولا اس کا جائزہ لیا جائے۔یوں اپنی 
بات کو چار  حصوں میں رکھوں گا۔



ایک۔ 1707 سے 1856 تک کے واقعات

دو۔ 1857 کے واقعات، اس دور کی تحریریں، بیانات اور برٹش اسمبلیوں میں ہونے 

والی بحثیں

 ترے۔ 1858 سے 1947 تک کے بیانئیوں میں 1857 کے حق و مخالفت میں آئے 

نقطہ ہائے نظر


چار۔ اگست 1947 کے بعد بھارت اور پاکستان میں جنگ آزادی یا غدر بارے خیالات



اول : 1707 سے 1856 تک کے واقعات

یورپی نوآبادیاتی حملوں یا مداخلتوں کا زمانہ، پرتگالی، ڈچ، فرانسیسی اور پھر انگریز۔دوسری طرف یہ بڑی بادشاہتوں کے ٹوٹنے اور جغرافیہ کی بنیاد پر ابھرنے والی چھوٹی بادشاہتوں کے بننے سے عبارت ہے جسے   کچھ دانشورطوائف الملوکی کہتے ہیں مگر مجھے وہ  ان فارمل عدم مرکزیت پسندی معلوم ہوتی ہے۔اودھ، دکن ، بنگال کی ریاستیں ہوں، کلھوڑوں کا سندھ ہو، یا مثلوں اور جتھے داریوں کا پنجاب یہ سب  1707 کے بعد ہی پیدا ہوئے کہ اس میں اگر نادر شاہ افشار اور ابدالی  اور مرہٹوں کو شامل کریں تو  اس دور کی دھندلی تصویر تو بن ہی جاتی ہے۔انگریزی تعلیم کے مطابق نادر اور ابدالی بیرونی حملہ آور تھے اور جو تعلیم انگریزوں نے ہندووں کو دی اس میں یہ مسلم بیرونی حملہ آور تھے۔ یوں بڑی چلاکی سے انگریزوں نے لاشعوری طور پر ہمارے دماغوں میں  برٹش انڈیا کی حدود  کا نقشہ بھی بنا دیا۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ 1750 کی دہائی میں چند ماہ کے لیے میرے شہر لاہور پر مرہٹوں نے قبضہ کیا تھا مگر بیرونی حملہ آوروں کے پھیلائے تھیس کے تحت  دور دراز سے آئے مرہٹوں کو  بیرونی حملہ آور نہیں لکھا گیا البتہ کچھ دور  قندھار و کابل سے آنے والوں کو تاریخ میں بیرونی حملہ آور لکھا گیا۔1757 سے 1764 تک کے7 سال اس لیے اہم ہیں کہ اس دوران ہونے والی تین جنگوں کے بعد انگریز کی طاقت کا طوطی اس خطہ عرض پر بولنے لگا۔ مغل حکمرانوں کی عملداری تو پہلے ہی  بنگال، اودھ،پنجاب، سندھ وغیرہ میں محدود ہو چکی تھے کہ اب  بکسر کی لڑائی کے بعدکلائیو کی حکمرانی شروع ہوئی۔1803 تک  دھرتی پنج دریائی کے علاوہ انگریز دلی سمیت تمام علاقوں کا حاکم تھا ۔ لہور دربار، میکٹاف  ، ستلج پار معاہدہ اور نپولین۔ جیمز مل کی تصنیف، دلی عربی کالج، سکھ مسلم تضاد، لدھیانے اور پٹیالے کا کردار،  فرنٹئیر فارورڈ پالیسی اور کلکتہ سے کابل براستہ دلی و پنجاب درئائے آمو کی طرف۔ جب تک رنجیت زندہ رہا انگریز سندھ، بلوچستان، قندھار، کابل ، کشمیر اور پنجاب پر قبضہ نہ کر سکے۔ اس کے بعد لائن لگ گئی۔ بلوچستان، قندھار، کابل، پھر سندھ،  پھر کشمیر اور آخر میں پنجاب جس میں ملتان اور پشاور بھی شامل تھے۔ جنرل گف کا بیان یوپی سی پی میں بھرتیوں کے حوالے سے۔ نپولین کے بعد زار کا روس اور لارڈ میکالے کا انتباہ۔ پنجاب پر 29 مارچ 1849 کو قبضہ ہوا تو تمام رکاوٹیں دور ہو گئیں اور بفر زون سکڑ گیا۔دلیپ سنگھ نوں مسیحی بنانا،ریلوے ایکٹ، ناردرن  کمانڈ ہید کواٹر، بلدیاتی سیٹ اپ، دلی پنجاب وچ، چین لئی بھرتی، یوروکریسی دا بندوبست  ملٹری تے سول افسراں لئی مقابلے دا امتحان لازم، وڈز ڈسپیچ، اودھ دے لوکاں دا بنگال تے مدراس دی فوجاں وچ تناسب، کریمیا دی جنگ وچ بھرتیاں، رائل بنگال آرمی دی تطہیر لئی اودھ دی پرو برٹش ریاست دی حجامت،  پہلے مارو، فیر رحم کھاو تے فیر مطلبی اصلاح کرو ۔یہ بات ایک برٹش ممبر اسمبلی نے خود کہی۔ مذہبی ، فرقہ وارانہ، لسانی، رسم الخطی،  نیم لسانی یعنی لہجوں سے کھیلنا۔لارڈ میکالے کی تنبیہہ، ستی، فارسی مکاو،  نئی پکی سنگل آرمی بنانے کا خیال۔
29 مارچ 1849 وہ دن جب انگریز نے '' لہور دربار '' ختم کر کے اپنا تسلط  پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے ملک پر مکمل کیا تھا۔ اس کے بعد   تین اہداف تھے کہ بیوروکریسی، فوج اور عدلیہ کا نیا سوچا سمجھا ڈھانچہ کھڑا کرنا تھا    جس میں ایک متحدہ  آرمی بنانی تھی  پورے برٹش انڈیا کے لیے۔ دریائے آمو یعنی آکسس کی طرف پیش قدمی کرنی تھی جس کے لیے نادرن کمانڈ کا ہیڈ کواٹر 1850 میں پنڈی بنایا گیا کہ اب پرانی رائل بنگال آرمی فارغ تھی اور نئی بھرتیاں کرنی تھیں  مگر اس کے لیے ان علاقوں میں  بھرتیوں کے لیے مناسب ماحول بنانا ضروری تھا کہ  دلی سے کابل تک سوشل انجیرنگ ہدف بنا۔ اسی سال یعنی 1850 میں ریلوے ایکٹ بنا، پھر نئے تعلیمی بندوبست کے لیے 1851 میں پہلا تعلیمی سروے ہوا۔1854 میں ووز ڈیسپیچ اور 1856 میں لاہور کالج بنا۔


A Coin of Lhore Darbar in Persian Script







دو۔1857 کے واقعات، اس دور کی تحریریں، بیانات اور برٹش اسمبلیوں میں ہونے والی 

بحثیں

غالب،برٹش اسمبلیوں کی بحثیں، انبالے اور میروت کی چھاونیوں میں بغاوت، کارتوس سے جڑا مذہب کارڈ،  

غالب کی دستنبو ہو یا اس دور میں برٹش اسمبلیوں میں ہونے والی بحثیں، سرسید کی اسباب بغاوت ہند ہو یا  امریکی صحافی  ایڈورڈ تھامسن کی کتاب  '' دی اتھر سائیڈ آف دی میڈل'' یا دیگر چشم دید واقعات بشمول چھاونیوں میں بغاوتیں ان سب بارے  تفصیلات مل جاتی ہیں۔اسدور کی کتب اور تحریروں میں  انگریزوں کے ظلم اور انگریزوں کو مارنے کے واقعات تو ملتے ہیں مگر ماسوائے فوجیوں کی بغاوتوں کے ان واقعات کا علاقہ محدود ہے کہ اسے پورے برٹش انڈیا کے واقعات بھی نہیں کہا جا سکتا۔




Tuhafa Tul Hind by a Hindu who became Muslim and his book was published in 1850. As par Mollana Ubaid Ullah Sindhi's narrative when he was converted from Sikh religion( around 1880s) he was given name of Ubaid Ullad due to Tuhafatul Hind author. Conversion phenomenon got prominence & State sponsorship since 17th century and Christian Missionaries were active yet the phenomenon flourished especially after annexation of Lhore Darbar ( 29 March 1849). Interestingly in 1835 Lord Thomas Babington Macaulay too mentioned it in his famous/infamous minutes. 
We abstain, and I trust shall always abstain, from giving any public encouragement to those who are engaged in the work of converting the natives to Christianity.  

  

ترے۔ 1858 سے 1947 تک کے بیانئیوں میں 1857 کے حق و مخالفت میں آئے 

نقطہ ہائے نظر


ہندو بنیاد پرستوں اور  مسلم قدامت پسندوں کی اپنی اپنی الگ الگ کہانیاں کہ کوئی اسے 1829 کے ستی کے خاتمے سے شروع کرتا ہے، اس میں ہندو ہیروز بناتا ہے تو کوئی اسے  1831 کی تحریک مجاہدین سے جلا دیتا ہے اور ایسے بھی جو اسے انگریزوں کا ایسا عمل سمجھنے میں غلطاں جس کے ذریعے ہندوستان میں مسلم اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ جس کسی نے اس دوران یعنی 1850 کے عشرے  کی ابتداسے  نئی بیوروکریسی بنانے کی بحث، کمپنی سے جان چھڑوانے کی بحث اور انڈین بل کو برٹش اسمبلی میں بار بار پیش کرنے جیسے مسائل پر برٹش اسمبلی ریکارڈ نہیں دیکھا وہ بہت سی غلط فہمیوں کا شکار رہتا ہے۔1858 کی اسمبلی میں جان برائٹ کی تقریر موجود ہے جو اپنی سلطنت سے کہہ رہا ہے کہ جو بھی نیا بندوبست بناو وہ اس وقت پائیدار ہو گا جب یہاں کی رنگا رنگی کو سمجھو اور مانو گے اور اسے جگہ دو گے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ برٹش انڈیا میں درجنوں زبانیں اور 20 سے زیادہ مذاہب ہیں۔ انہیں ایک قوم بنانے کی چکی میں نہ ڈالومگر مرکزیت پسند مائنڈ سیٹ پر کھڑی برٹش بیوروکریسی نے برائٹ کی بات  رد کر ڈالی۔ اس کا بڑا گواہ انڈین بل ہے۔سوات اور دیگر علاقوں کی 1862 کہ جنگی مہمیں ہوں یا 1872 کا مجرم قبائل ایکٹ یہ سب اسی مائنڈ سیٹ کا حصہ تھا جس نے 1893میں روسیوں سے مل کر ڈیورائینڈ لائن بنائی، 1901 میں  چھ پنجابی اضلاع کو پنجاب سے کاٹ اور قبائلی علاقوں سے ملا کر صوبہ سرحد بنایا پھر اس میں سے فاٹا نکالا۔1849 سے 1900 کے درمیان نئے بندوبست کو اسارنے کا پورا انتظام کر لیا گیا تھا جو تعلیم سےفوج اور بیوروکریسی سے قانون اور میڈیا تک تھا۔ 20ویں صدی میں ابھرنے والی سیاست کا یہ وہ پس منظر ہے جس بارے بات نہیں کی جاتی۔ 1900 سے 1947 تک نئی انڈین قوم پرستیوں کو کھڑا کرنے کی کاوشیں ہوئیں کہ  وی این سوارکر نے 1909 میں پہلی کتاب لکھی جس میں 1857 کو پہلی بار جنگ آزادی کہا اور  پنڈتوں کے بیٹے منگل پانڈے کو اس کا سردار بتایا۔ اس کے ساتھ مولوی محمد شاہ کی کہانی بھی لکھی مگر اس کتاب کو مذہب اور انڈین قوم پرستی کا ملاپ کہنا غلط نہ ہو گا۔ یہ سوارکر ہندو مہاسبھائی تھا اور انگریزوں سے اس لیے آزادی چاہتا تھا تاکہ ہندو راج قائم کر سکے۔ کتاب آن لائن مل جاتی ہے۔ مذہب سے  جڑی انڈین قوم پرستی میں بھی  رنگا رنگی سے انکار کو اولیت حاصل تھی۔ خصوصی طور پر انڈین لبرلوں میں یہ بیماری کچھ زیادہ ہی تھی۔ یہی حال مسلم قوم پرستوں کا بھی تھا۔رنگا رنگی سے انکار یا رنگا رنگی کا مطلبی ورتارا وہ چلاک پالیسی تھی جو انگریزوں اور ان کے مخالفوں میں کامن تھی۔پہلی جنگ عظیم تک انگریز کی مدد کرنے سے تحفہ میں آزادی لینے اور کسی باہرلی طاقت کی مدد سے انگریزوں کو نکالنے جیسے ٹرینڈ چلتے رہے  مگر روولٹ ایکٹ اور جلیانوالہ قتل عام نے سب کو  کلب سیاستوں سے نکال کر عوامی جتھہ بندیوں کی طرف دھکیل دیا۔اسی کے بطن سے تحریک خلافت، ہجرت سے مسلسل تین صوبائی انتخابات اور پھر 1937 اور 1946 کے  محدود حق انتخاب والی سیاست نکلی جو 1947 پر جا کر رکی۔اس سب کے دوران 1857 کو چند متحارب بنیاد پرست اور قدامت  حلقے ہی قومی آزادی کی جنگ کہتے تھے یا پھر  ترقی پسندوں  میں کچھ نے اسے اپنایا تھا۔ نہرو کی مثال تو پہلے ہی دی چا چکی ہے۔ عوامی جدوجہد کے استعارے بنانے والے  1857 کے واقعات میں پنہاں گھاٹوں کو یاد نہیں کرنا چاہتے تھے  جس میں عوام کی شمولیت  نہ ہونا  اور تعلقہ داروں ، قدامت پسندوںاور رائل بنگال آرمی کے کچھ حصوں کا یکدم  متحرک ہونا ایسے اہم  سوال ہیں جنھیں آج بھی  بھولنا مشکل ہے۔ 







Hindu fundamentalist & among founders of term Hindvta and Mahasabha leader V D Sawarkar's famous book 1909. Now Congress is struggling against Mahasabha & Modi yet before & after independence it remained busy to use them rather than its deconstruction. 







چار۔ اگست 1947 کے بعد بھارت اور پاکستان میں جنگ آزادی یا غدر بارے خیالات

نئے ممالک بن گئے پاکستان اور بھارت کہ اب دونوں کو اپنی اپنی نئی قوم پرستیاں کھڑی کرنی تھیں جو وطنی ریاستوں کی مجبوری ہوتا تھا۔ حلانکہ پہلی جنگ عظیم سے 1970 کی دہائی تک   سو سے زیادہ نئے ملک بنے ہوں گے کہ ان  کی تشکیل میں جغرافیہ اور رنگا رنگی کی بجائے دیگر سیاستوں  خصوصا  متحارب یا اتحادی بڑی طاقتوں کے مفادات کو اولیت رہی کہ بھارت اور پاکستان کی نشکیل ان سے مبرا نہ تھی۔ مگر اس بات کو بھولنا شرط اولین سمجھا گیا کہ یہ نئی وطن پرستی یا حمیت کے خلاف تھا۔ بھارت اور پاکستان ایک آزادی ہند قانون کے تحت  بنائے گئے جس پر  جولائی 1947  میں پورے ایک مہینہ برٹش پارلیمنٹ نے بحث کی۔تاہم نئی وطنی تشکیلات میں ان حقائق کو پرے کر دیا گیا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے بنگلہ دیش کی نصابی اور قوم پرست کتب میں یہ حقیقت گول کر دی جاتی ہے کہ بنگالی مسلمانوں نے مسلم لیگ کا ساتھ کیوں دیا تھا اور پاکستان بننے کے بعد ون یونٹ پردستخط   جگتو فرنٹ نے کیے تھے اور پہلے پاکستانی آئین 1956 میں بنگالی کو اردو کے ہمراہ قومی زبان مان لیا گیا تھا۔ کیونکہ بنگالی نیشنلزم کے تحت نئے ملک بنگلہ دیش کی اساری وطنی تشکیلات میں اسے پیچھے کرنا ضروری گردانا گیا۔ یوں جب بھارت نے وطنی تشکیلات یا وننی بیانیہ بنانا تھا تو اسے دو حقائق کا سامنا تھا۔ پہلا یہ کہ ملک ہندو مسلم، اردو ہندی اور کانگرس مسلم لیگ تنازعات میں سے گذر کر بنا ہے۔ دوسرا یہ کہ باوجود تقسیم ہند کے اقلیتی مسلم صوبوں کی 90 فیصد  مسلم آبادی بھارت ہی کی باشندے ہیں۔جو پرلے پاسے  یعنی پاکستان گئے ہیں  ان کی بڑی اکثریت پنجابیوں کی ہے، کچھ مغربی بنگال سے گئے ہیں۔یوں یہ بھارت ماتا کی بجائے پنجاب اور بنگال کی تقسیم تھی۔ مگر پاکستان دشمنی میں اسے بھارت ماتا کی تقسیم کہنا وطنی تشکیلات میں لازم ٹہرا۔ اب اگر مسلمانوں کو مہا  بھارت توڑنے کا ذمہ وار کہا جائے گا تو اس بڑی مسلم اقلیت کا کیا کریں جو نئے ملک بھارت کے شہری ہیں۔ بس انہیں جوڑنے کے لیے 1857 کے اس مردے میں جان ڈالی گئی۔ کل تک 1857 کے واقعات کو تعلقہ داروں کی مہم جوئیاں کہنے والے نہرو نے ایک سال بعد ہی یو ٹرن لیا۔ تاہم بڑا بیانیہ پاکستان دشمنی اور مسلمانوں کو بھارت ماتا توڑنے کا ذمہ وار قرار دینا تھااس لیے بھارتی مسلمان 1857 کی چھلی کے باوجود راندہ درگاہ ہی رہے اور بلا آخر مودی نے آ کر وہ درگاہ بھی ٹھاہ دی۔ مودی اسی بڑے بیانئیے کا مبلغ تھا اسی لیے اب منگل پانڈے براہمن زادہ ہی ہیرو ہے 1857 کا بھی۔ مگر مودی کی آمد سے پہلے تک بھارتی سٹیبلشمنٹ نے 1857 کو خوب استعمال کیا اور تاریخی کتب لکھوائیں، کھوجی  پیپرز لکھے، پی ایچ ڈیز ہوئیں اور پتہ نہیں کیا کیا۔ ان میں ایسی تحریریں بھی تھیں جن میں  جنوبی ہند اور سکھوں کو 1857 کی خود ساختہ  جنگ آزادی میں حصہ نہ لینے والوں کی نندیا کی گئی اور دلی سے لکھنو تک   کے خود ساختہ انقلابیوں ہی نہیں بلکہ نوابوں، تعلقہ داروں کی انقلابیت کی داستانیں گھڑی گئیں۔ ایسی کئی ایک چلاک کتب بعدازاں پاکستان آئیں بھی اور ان کے پاکستانی ایڈیشن بھی آئے۔ دوسری طرف پاکستان میں ابتدائی عشروں میں 1857 کو باوجوہ غدر سمجھنے والوں کا ریاستی سطح پر غلبہ تھا اور ان کے بیانیہ کے مطابق اس غدر کی ناکامی میں سے سرسید پیدا ہوئے جنھوں نے  انگریزوں سے قربت اور ہندوں سے دوری کا سبق دیا جس سے تشکیل پاکستان ممکن ہوئی۔ اس بیانئیے میں ہندو اور بھارت دشمنی ہی کو اولیت تھی اور سرسید کو کاٹ ماٹ کر اسکی مدد کے لیے جوڑا گیا۔ تاہم جب 1965 کی جنگ کے بعد بھارت دشمنی کے تھیسس میں  جہادی رنگ نمایاں ہونے لگا تو مسلم بنیاد پرستوں کو ریاستی راہداریوں میں زیادہ جگہ ملنے لگی۔ بڑا بیانیہ بھارت  اور ہندو دشمنی ہی تھا تو اسمیں  1857 کو  مسلم انقلابی جدوجہد میں ڈھالنے کا کام باوجوہ کرنا لازم ہوا۔ ویسے بھی  1857 کی فوجی بغاوتوں کے ذکر سے اس بات کو تقویت ملتی تھی کہ جدوجہد آزادی میں فوجیوں کا بھی بڑا حصہ ہے۔ کہا یہ گیا کہ انگریزوں نے مسلمانوں سے 1857 میں اقتدار چھینا تھا اس لیے 1947 میں اقتدار کے اصل حقدار مسلمان تھے مگر ہندو نے روڑ اٹکائے اور ہم نے پاکستان بنا لیا۔ بھارت کی طرح 1857 کے واقعات سے  کچھ گروہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ  پاکستان بنانے کے لیے اصل جدوجہد تو لکھنو سے دلی مقیم مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے کی ہے اور باقی تو بس  آخر میں ہوا کا رخ دیکھ کر شامل ہوئے تھے۔پھر جب ریاستی سرپرستی میں اس پر کام ہونے لگا تو  پھر پاکستانی علاقوں سے بھی 1857 کے مجاہد تلاش کیے گئے۔ کچھ ایسے بھی تھے جنھیں اورنگ زیب کی بجائے بہادر شاہ ظفر کو باوجوہ آخری مغل تاجدار کہنا وارا کھاتا تھا۔ تاہم   نظریہ پاکستان کے تحت 
1857 کے فوجی اور قدامت پسند حوالوں ہی کو تقویت ملتی رہی۔

 اگر بغور دیکھا جائے تو 1857 کے واقعات پر لکھی تحریریں مطلبی، متعصبانہ اور چلاک تاریخ لکھنے   کے عمل کو

 سمجھنے کا ایک بڑا حوالہ ہیں مگر اس بارے ابھی  جنوبی ایشیا میں کام شروع نہیں ہوا کہ یہ 

تحریر اگر کچھ سوالات آپ کے ذہن میں  ابھار سکے تو کچھ بات بن جائے گی۔  




For any response or comment you feel free to send email at aamirriaz1966@gmail.com 


Followers of Zia's language Policy & literature festivals ضیاالحق دے لسانی سجن اتے ادبی کانفرنساں

  Followers of Zia's language Policy & literature festivals It was dictator Zia ul Hoq who not only played sectarian card but also d...