How 1857 confusing us since ages,
listen some odd facts & rethink.
After 162 years , the debate regarding 1857 still continue,not because of the events but due to interests of new power players. For Empire it was a rebellion or Ghadar yet their opponents called it freedom movement rather The First Freedom Movement. We can easily find various narratives in favor or against such claims. Liberals & Progressives remained largely confused & divided about it yet colonial power & fundamentalists have straight views. Interestingly both Hindu & Muslim fundamentalists had reservations from the activities of Christian Missionaries who were busy in converting locals and had links with Empire. But it was not the sole worry but there was confusion in Royal Bengal Army too regarding their future. In RBA, majority of soldiers were from State of Awadh, a fact often ignored while analysis sepoy mutiny. Much before annexation of the Lhore Darbar (29 March 1849), it two things were decided and reflected in British Assembly debates (1843-44) i-e
1- Formation of new structure after annexation of the Punjab along with formation of a united Army. (Till that time there were 3 Presidencies under East India Company Bombay Army was established in 1742, RBA in 1757 & Madrass Army in 1760. But after 1824 RBA gradually gained power and till late 1830s, it had 74 battalions as against 26 Bombay & 58 Madrass armies. At that time a campaign was raised to captured Muslim majority areas like Kashmir, Kabul, Sindh, Balochistan & the Punjab in late1830s. interestingly majority of new recruitment came from Oudh State yet after 1849 RBA lost its importance. )
2- The next target for future was decided and it was to reduce buffer zone between Satluj & tribal areas and moved towards Oxus.
So after 1849, Northern Command Headquarter was established in Rawalpindi in 1850. Had RBA sepoys rebelled during three bloody wars during 1846-9 things would be different but at that time only two Purbiya battalions rebelled & joined Lhore darbar army in 1846 but majority remained loyal with royals. They started rebellion when Nawab of Audh was exiled in February 1856 but it was too late.
What happened before 1857, what happended during three months and how 1857 narrative was developed after that and how it too k new shapes in Pakistan and India needs little attention.
کیا 1857 کے واقعات کو عوامی ، جمہوری نقطہ نظر
سے قومی آزادی کی تحریک قرار دیا جا سکتا ہے؟
بالعموم پنجاب اور بالخضوص دھرتی پنچ دریائی کے
پس منظر میں 1857 کے اردگرد پھیلی سیاست،
تاریخ، مداخلتوں، جھوٹ سچ، بنیاد
پرستیوں، فوجی بغاوتوں، گمراہیوں اور سوشل
انجئیرنگ کا از سر
نوع جائزہ۔
1857 کے واقعات کو پہلی جنگ آزادی قراردینا
یا پھر غدر کہنا دونوں ہی درست نہیں۔
گل بات: عامر ریاض 9 نومبر 2019 ارتقا انسٹیٹوٹ، کراچی، سندھ
اس لیکچر کی ریکارڈنگ مست ایف ایم 103 میں لوک
لہر پروگرام میں دسمبر کے مہنیے چلائی تھی اور اس
کے نوٹس بھی شئیر کیے جا رہے ہیں۔ آخر میں ای میل ایڈریس بھی دیا ہے کہ اس پر
اپنے تاثرات بھی
بھیج سکتے ہیں اور حوالوں بارے بھی پوچھ سکتے ہیں۔
Recording of the Lok Lhar Program based on lecture delivered at Karachi, Sindh.
Click Here and listen it
Notes of the lecture
نوٹس۔
عاشق ہوویں، تاں عشق کماویں
راہ عشق دا ۔۔۔سوئی دا نکا
دھاگہ ہوویں۔۔۔نال جاویں
کہے حسین۔۔ جے فارغ تھیویں
تاں خاص مراتبہ پاویں
شاہ حسین لہوری 16ویں صدی کے ایک مہان پنجابی صوفی شاعر تھے
اور مادھو لال حسین
کے نام سے مشہور ہوئے۔ انکی یہ کافی مجھے بہت اپیل کرتی ہے اور
میں اسے اپنے ریڈیو شو
میں تواتر سے پڑھتا بھی ہوں۔ جیسے مجھے 19ویں صدی کے میاں
محمد بخش کا یہ مصرعہ
ازحد پسند ہے کہ
لا ہنیرہ، جہل برے دا، چانن لا عقل دا
کچھ باتیں یا خیالات ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم نے حقیقت مان لیا ہوتا ہے اور ان بارے
ہم اکثر غور
کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔مگرمادھو لال کہتے ہیں کہ جے فارغ تھیویں یعنی
سٹیبلش ٹروتھ کو ڈی کنسٹرکٹ کریں تو جس
تلاش میں ہیں اس تک بڑھ سکتے ہیں۔
اس بات کو یہیں تک
رکھتے ہوئے میں اصل ٹاپک کی طرف آتا ہوں۔ 1857 کے
حوالے سے بات کرنے سے قبل چند
باتیں کرنی ضروری ہیں۔
سیاسی بیانئیے اور تاریخ کا فرق
سیاسی بیانئیے اور
تاریخ کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا چایئے۔
سیاسی بیانئیے میں واقعات کی
مخصوص تشریح
پر زور رہتا ہے اور کرداروں کو بھی اسی
پیرائے میں پیش کیا جاتا ہے۔اگر
کوئی تاریخی واقعہ جاری کردہ سیاسی بیانئیے سے متصادم ہو یا اس کے
بیان کرنے سے ابہام
کا خدشہ ہو تو اس کو منہا کرنے یا اس کی سنتیں کرنے کو عموما جائز سمجھا جاتا ہے۔ یہی
نہیں بلکہ
سیاسی بیانئیے میں اس بات کی گنجائش رہتی
ہے کہ نتیجہ پہلےسے نکال لیں اور پھر
واقعات کو قطع برید کے بعد جوڑتے چلے جائیں۔مگر
تاریخ لکھتے ہوئے تحقیق شرط اولین
ہےکہ جس
میں آپ کو تمام تر واقعات اور اس سے جڑے پہلووں کو سامنے لانا ہوتا ہے
اور پھر
ان کی ممکنہ تشریحات کو الگ الگ بمعہ
دلائل بیان کرنے کے بعد نتائج کی طرف
بڑھنا ہوتا ہے۔ محقق کے لیے لازم ہے کہ وہ
کسی پہلے سے طے شدہ نتیجہ پر پہنچنے کے
لیے تحقیق نہ کرے۔ مذاہب، مسالک، قوموں، قومیتوں، علاقوں کی تاریخ
لکھتے ہوئے عموما
سیاسی بیانئیے اور تاریخ کو غلط ملط کیا جاتا ہے۔
پاکستان اور بھارت جسے کچھ دوست ہندوستان ہی کہنا چاہتے ہیں
میں ہندو مسلم اتحاد اور
ہندو مسلم نفاق کی تاریخ کچھ ایسے ہی لکھی گئی ہے کہ اکثر
تحریروں اور تحقیقوں کو رقم
کرتے ہوئے کانگرس،
جمعیت علما ہند،ہندو مہاسبھا ،آریا سماج، کیمونسٹوں اور مسلم لیگ
کے
سیاسی بیانئیے غالب رہے تو 1947 کے بعد پاکستان اور بھارت کی سرکاری
کتابوں میں کھڑی کی گئی سرکاری قوم
پرستیوں کا گہرا سایہ ہے۔تاریخ کو سیاسی بیانئیے سے غلط ملط کرنے کی ریت ہمیں اپنے
نوآبادیاتی آقاوں سے ورثہ میں ملیں تھیں
جس پر نہ صرف انگریز کے حمائیتی عمل پیرا رہے بلکہ انگریز مخالف ایجنڈے چلانے والے
بھی اکثر و بیشتر انگریز کے پھیلائے بیانئیوں کو باوجوہ چلاتے
رہے۔
یوں یہ کہنا
مغالعطہ یا مبالغہ نہیں کہ ہماری تاریخ سے
متعلق جو گمراہ کن بیانئیے انگریز نے
پھیلائے تھے ہم نے اسے مزید بگاڑا ہی ہے۔ایک مثال پنڈت نہرو کی ہے جن کی
مشہور
کتاب تلاش ہند 1946 میں پہلی بار چھپی تھی۔ انگریزی میں لکھی
اس کتاب کو مشہور
ویب سائٹ انٹرنیٹ
آکائیوز پر پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کے صفحہ324 تا 328 میں 1857
کے واقعات بارے لبرل ڈیموکریٹ اور
فیبین سوشلسٹ نہرو لکھتے ہیں کہ یہ لڑائی
جاگیرداروں ، نوابوںاور تعلقہ داروں کی
اپنے گھس رہے مفادات کے تحفظ کی جنگ تھی
جس میں خال خال نیشلسٹ عنصر بھی
شامل تھا۔انھوں نےلکھا '' یہ درست ہے کہ اس
دوران انگریزوں نے بڑے ظلم کیے مگر یہ
واقعات جاگیرداروں کا ردعمل تھے جن کی
رہنمائی بھی جاگیردار کر رہے تھے اور وہی لڑ
بھی رہے تھے۔ ایک سال بعد وہ نومولود
ملک بھارت کے وزیراعظم بنے تو انہیں بھارت کی
ایکتا کے لیے 1857 کے واقعات کو
پہلی جنگ
آزادی کہنا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ پنڈت صاحب نے 1955 میں ایک منصوبے کا
افتتاح بھی
کیا جس کے تحت نئی دلی نے ایک کثیر رقم
1857 کی تاریخ لکھوانے کے لیے
مختص کی۔مگر جو وہ لکھ گئے تھے وہ بھی تاریخ میں محفوظ ہو گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ
1857 کے 150ویں سال چھپنے والی کتاب میں
لکھے اپنے مضمون میں مشہور انڈین
ہسٹورین
عرفان حبیب نے اس گھپے کا حوالہ دیا۔
Pdf link of Discovery Of India
https://ia600603.us.archive.org/5/items/DiscoveryOfIndia/TheDiscoveryOfIndia-jawaharlalNehru.pdf
Lal Pal Bal.... Founders of Religious Nationalism & Fundamentalism in South Asia in Modern Times.
https://punjabpunch.blogspot.com/2016/03/south-asian-founders-of-religious.html
Irfan Habib Article was published in this book
https://trove.nla.gov.au/work/35398765?q&versionId=44024722
1857 اور مذہبی کارڈ
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لبرل اور ترقی پسند دانشوروں کی ایک
بڑی تعداد 1857
کےواقعات کو آزادی اور جدوجہد کا
استعارہ بنانے کے حوالے سے منقسم رہے البتہ ہندو
اور مسلم قدامت پسند حلقے اپنے اپنے الگ مذہبی حوالوں کی روشنی میں 1857 کو جدوجہد
کے مطلبی استعارے کی حیثیت میں چلاتے رہے۔1829 میں ستی کی
رسم کے حکما خاتمے،
1834 میں فارسی کی سرکاری حیثیت کے خاتمے اور مسیحی مشنری
اداروں کی سرپرستیوں
کی وجہ سےاشراف اور ہندو و مسلم قدامت پسندوں کا 1857 کے
واقعات کو بطور استعارہ
استعمال کرنا سمجھ آتا ہے۔انگریزوں کے آنے سے پہلے یہاں
فارسی زبان اور اس کا رسم
الخط جاری
تھا۔ہندو، مسلم، سکھ اور دیگر فارسی لکھتے پڑھتے تھے۔یہاں کی بڑی چھوٹی
زبانیں
جیسے بنگالی، پنجابی، تامل، سندھی ایک سے زیادہ رسم الخطوں میں لکھی جاتی تھیں جو
ریکارڈ کا حصہ ہے۔ مگر جب انگریزوں نے فارسی ختم کی تو چلاکی سے اسے مسلم زبان کہہ
کر ختم کیا۔پنجاب پر قبضہ کے بعد انگریزوں نے 1851 میں پہلا پنجابی اخبار نکالا
اور چلاکی
سے اس کا رسم الخط گورمکھی رکھا۔وہ یہی تاثر دینا چاہتے تھے کہ پنجابی
سکھوں کی زبان
ہے۔سندھی کو فارسی اوردیوناگری رسم الخطوںکی بجائے عربی رسم الخط
میں سرکاری حثیت
دینا، پنجابی کو فارسی،
دیوناگری رسم الخط کی بجائے گرمکھی میں چلانا، لاگو کرنا، بنگالی کو فارسی
کی بجائے دیو ناگری میں چلانا یہ سب ایک چلاک پالیسی کے مختلف انداز تھے۔ پھراس کا
ردعمل بھی دیکھنے میں آیا۔ ستی اور فارسی کے خاتمے اور دیگر مداخلتوں کی وجہ سے
یہاں
کے تمام بنیاد پرست 1857 کی تشریح
اسی نقطہ نظر سے کرتے تھے۔
نہ منشور، نہ پارٹی نہ تحریک ، البتہ مخصوص
چھاونیوں میں کمزور فوجی بغاوتوں کی
بھرمار۔
یہ فوجی نوکریاں ختم ہونے کے ڈر
سے بگڑے تھے جیسے افغان مجاہدین رات و رات
جنیوا معاہدے کے بعد امریکہ مخالف طالبان بن گئے تھے؟
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ لیڈر،
منشور اور سیاسی نعروں کے بغیر چلنے والی کسی بھی
تحریک کو جنگ آزادی کیونکر کہا
جا سکتا ہے۔ اس سے قبل ہمارے ہاں اور دنیا میں کئی
ایک مذہبی و غیر مذہبی تحریکیں چل چکی تھیں جن کے
مقاصد اور منشور واضح تھے۔ آپ
ان سے اختلاف کریں یا اتفاق مگر ان کے پاس کارکن اور بیانئیے تھے۔تیتو میر، قرات
العین
طاہرہ، چارٹسٹ موومنٹ، کمیونسٹ مینی فسٹو یہ سب 1857 سے پہلے کی تحریکیں
تھیں۔1857
کے واقعات میں چھاونیوں میں ہونے والی بغاوتوں کا ذکر تواتر سے ہے کہ
دیکھنا یہ ہے
کہ لہور دربار (1799 تا 1849)جیسی آزاد بادشاہت کو تاراج کرنے، افیون
کے نام پر لڑی جانے والی چین مخالف
مہمیں (1842 اور 1856)اور کریمیا کی جنگ
(1853 تا 1856) میں کرائے کے فوجیوں کی
خدمات دینے والی رائل بنگال آرمی اور
ان کے بھائی بندوں کو یکدم کیا سوجی؟کیا پنجاب پر قبضہ
کے بعد 1849 میں پنڈی میں
نادرن
کمانڈ کے ہیڈ کواٹر اسارنے کے بعد ان کو نوکریوں کے گھسنے کا ڈر پیدا ہو گیا تھا؟
ملک پاکستان میں چند عشرے قبل جنیوا معاہدے کے بعد جب امریکی سرپرستی میں جہاد
کرنے والے اس سرپرستی سے باوجوہ محروم ہو گئے تھے تو وہ امریکہ مخالف طالبان کی
صورت اختیار کر گئے
تھے۔جن حضرات نے 1857 میں یکدم علم بغاوت بلند کیا وہ 50
سال تک کیوں خاموش رہے جب پڑوس میں لہور دربار کی
آزاد حکومت موجود تھی جس
میں نپولین کی
جنگ کے ہارے ہوئے جرنیل بھی بھرتی ہوئے اور ان فوجیوں نے اپنی
تحریروں میں لکھا کہ اس وقت
کے دوران پنجاب میں ابھرنے والی یہ سب سے طاقتور
انگریز مخالف حکومت تھی
اور ہم مصر، ایران کو چھوڑ کر لہور دربار اس لیے آئے ہیں
کیونکہ یہ دنیا میں نپولین کے بعدسب سے بڑا انگریز مخالف مورچہ ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ عام آدمی کو علم بغاوت بلند
کرنے والے کیا سمجھتے تھے اور
بلعموم اس جنگ آزادی یا غدر کا حلقہ اثر عوامی سطح
پر کہاں کہاں اور کتنا تھا؟
یہ سب سوال ہیں جن پر میں اپنی بات رکھوں گا اور یہ امید ہے
کہ ہم اس بارے کچھ نئے پہلووں پر بات آگے بڑھا سکیں۔
آج ان واقعات کو گذرے 162 سال بیت چکے ہیں ۔ کسی بھی واقعہ کو سمجھنے اور جاننے کا یہی قائدہ ہے کہ اس کے پس منظر کو جانا جائے،
پھر اس واقعہ کو دیکھا جائے اور پھر اس کے
بعد کس کس نے اس کی حق و مخالفت میں لکھا یا بولا اس کا جائزہ لیا جائے۔یوں اپنی
بات کو چار حصوں میں رکھوں گا۔
ایک۔ 1707 سے 1856 تک کے واقعات
دو۔ 1857 کے واقعات، اس دور کی تحریریں،
بیانات اور برٹش اسمبلیوں میں ہونے
والی بحثیں
ترے۔
1858 سے 1947 تک کے بیانئیوں میں 1857 کے حق و مخالفت میں آئے
نقطہ ہائے نظر
چار۔ اگست 1947 کے بعد بھارت اور پاکستان میں
جنگ آزادی یا غدر بارے خیالات
اول : 1707 سے 1856 تک کے واقعات
یورپی نوآبادیاتی حملوں یا مداخلتوں کا زمانہ، پرتگالی، ڈچ،
فرانسیسی اور پھر انگریز۔دوسری طرف یہ بڑی بادشاہتوں کے ٹوٹنے اور جغرافیہ کی
بنیاد پر ابھرنے والی چھوٹی بادشاہتوں کے بننے سے عبارت ہے جسے کچھ دانشورطوائف الملوکی کہتے ہیں مگر مجھے
وہ ان فارمل عدم مرکزیت پسندی معلوم ہوتی
ہے۔اودھ، دکن ، بنگال کی ریاستیں ہوں، کلھوڑوں کا سندھ ہو، یا مثلوں اور جتھے
داریوں کا پنجاب یہ سب 1707 کے بعد ہی
پیدا ہوئے کہ اس میں اگر نادر شاہ افشار اور ابدالی اور مرہٹوں کو شامل کریں تو اس دور کی دھندلی تصویر تو بن ہی جاتی
ہے۔انگریزی تعلیم کے مطابق نادر اور ابدالی بیرونی حملہ آور تھے اور جو تعلیم
انگریزوں نے ہندووں کو دی اس میں یہ مسلم بیرونی حملہ آور تھے۔ یوں بڑی چلاکی سے
انگریزوں نے لاشعوری طور پر ہمارے دماغوں میں
برٹش انڈیا کی حدود کا نقشہ بھی بنا
دیا۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ 1750 کی دہائی میں چند ماہ کے لیے میرے شہر لاہور پر
مرہٹوں نے قبضہ کیا تھا مگر بیرونی حملہ آوروں کے پھیلائے تھیس کے تحت دور دراز سے آئے مرہٹوں کو بیرونی حملہ آور نہیں لکھا گیا البتہ کچھ
دور قندھار و کابل سے آنے والوں کو تاریخ
میں بیرونی حملہ آور لکھا گیا۔1757 سے 1764 تک کے7 سال اس لیے اہم ہیں کہ اس دوران
ہونے والی تین جنگوں کے بعد انگریز کی طاقت کا طوطی اس خطہ عرض پر بولنے لگا۔ مغل
حکمرانوں کی عملداری تو پہلے ہی بنگال،
اودھ،پنجاب، سندھ وغیرہ میں محدود ہو چکی تھے کہ اب بکسر کی لڑائی کے بعدکلائیو کی حکمرانی شروع
ہوئی۔1803 تک دھرتی پنج دریائی کے علاوہ
انگریز دلی سمیت تمام علاقوں کا حاکم تھا ۔ لہور دربار، میکٹاف ، ستلج پار معاہدہ اور نپولین۔ جیمز مل کی
تصنیف، دلی عربی کالج، سکھ مسلم تضاد، لدھیانے اور پٹیالے کا کردار، فرنٹئیر فارورڈ پالیسی اور کلکتہ سے کابل
براستہ دلی و پنجاب درئائے آمو کی طرف۔ جب تک رنجیت زندہ رہا انگریز سندھ،
بلوچستان، قندھار، کابل ، کشمیر اور پنجاب پر قبضہ نہ کر سکے۔ اس کے بعد لائن لگ
گئی۔ بلوچستان، قندھار، کابل، پھر سندھ،
پھر کشمیر اور آخر میں پنجاب جس میں ملتان اور پشاور بھی شامل تھے۔ جنرل گف
کا بیان یوپی سی پی میں بھرتیوں کے حوالے سے۔ نپولین کے بعد زار کا روس اور لارڈ
میکالے کا انتباہ۔ پنجاب پر 29 مارچ 1849 کو قبضہ ہوا تو تمام رکاوٹیں دور ہو گئیں
اور بفر زون سکڑ گیا۔دلیپ سنگھ نوں مسیحی بنانا،ریلوے ایکٹ، ناردرن کمانڈ ہید کواٹر، بلدیاتی سیٹ اپ، دلی پنجاب
وچ، چین لئی بھرتی، یوروکریسی دا بندوبست
ملٹری تے سول افسراں لئی مقابلے دا امتحان لازم، وڈز ڈسپیچ، اودھ دے لوکاں
دا بنگال تے مدراس دی فوجاں وچ تناسب، کریمیا دی جنگ وچ بھرتیاں، رائل بنگال آرمی
دی تطہیر لئی اودھ دی پرو برٹش ریاست دی حجامت، پہلے مارو، فیر رحم
کھاو تے فیر مطلبی اصلاح کرو ۔یہ بات ایک برٹش ممبر اسمبلی نے خود کہی۔
مذہبی ، فرقہ وارانہ، لسانی، رسم الخطی،
نیم لسانی یعنی لہجوں سے کھیلنا۔لارڈ میکالے کی تنبیہہ، ستی، فارسی
مکاو، نئی پکی سنگل آرمی بنانے کا خیال۔
29 مارچ 1849 وہ دن جب انگریز نے '' لہور دربار '' ختم کر کے اپنا تسلط پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے ملک پر مکمل کیا تھا۔
اس کے بعد تین اہداف تھے کہ بیوروکریسی،
فوج اور عدلیہ کا نیا سوچا سمجھا ڈھانچہ کھڑا کرنا تھا جس میں ایک متحدہ آرمی بنانی تھی پورے برٹش انڈیا کے لیے۔ دریائے آمو یعنی آکسس
کی طرف پیش قدمی کرنی تھی جس کے لیے نادرن کمانڈ کا ہیڈ کواٹر 1850 میں پنڈی بنایا
گیا کہ اب پرانی رائل بنگال آرمی فارغ تھی اور نئی بھرتیاں کرنی تھیں مگر اس کے لیے ان علاقوں میں بھرتیوں کے لیے مناسب ماحول بنانا ضروری تھا کہ دلی سے کابل تک سوشل انجیرنگ ہدف بنا۔ اسی سال
یعنی 1850 میں ریلوے ایکٹ بنا، پھر نئے تعلیمی بندوبست کے لیے 1851 میں پہلا
تعلیمی سروے ہوا۔1854 میں ووز ڈیسپیچ اور 1856 میں لاہور کالج بنا۔
A Coin of Lhore Darbar in Persian Script
دو۔1857 کے واقعات، اس دور کی تحریریں، بیانات
اور برٹش اسمبلیوں میں ہونے والی
بحثیں
غالب،برٹش اسمبلیوں کی بحثیں، انبالے اور میروت کی چھاونیوں
میں بغاوت، کارتوس سے جڑا مذہب کارڈ،
غالب کی دستنبو ہو یا اس دور میں برٹش اسمبلیوں میں ہونے والی بحثیں، سرسید کی
اسباب بغاوت ہند ہو یا امریکی صحافی ایڈورڈ تھامسن کی کتاب '' دی اتھر سائیڈ آف دی میڈل'' یا دیگر چشم دید
واقعات بشمول چھاونیوں میں بغاوتیں ان سب بارے
تفصیلات مل جاتی ہیں۔اسدور کی کتب اور تحریروں میں انگریزوں کے ظلم اور انگریزوں کو مارنے کے
واقعات تو ملتے ہیں مگر ماسوائے فوجیوں کی بغاوتوں کے ان واقعات کا علاقہ محدود ہے
کہ اسے پورے برٹش انڈیا کے واقعات بھی نہیں کہا جا سکتا۔
Tuhafa Tul Hind by a Hindu who became Muslim and his book was published in 1850. As par Mollana Ubaid Ullah Sindhi's narrative when he was converted from Sikh religion( around 1880s) he was given name of Ubaid Ullad due to Tuhafatul Hind author. Conversion phenomenon got prominence & State sponsorship since 17th century and Christian Missionaries were active yet the phenomenon flourished especially after annexation of Lhore Darbar ( 29 March 1849). Interestingly in 1835 Lord Thomas Babington Macaulay too mentioned it in his famous/infamous minutes.
We abstain, and I trust shall always abstain, from giving any public encouragement to those who are engaged in the work of converting the natives to Christianity.
ترے۔ 1858 سے 1947 تک کے بیانئیوں میں 1857 کے حق
و مخالفت میں آئے
نقطہ ہائے نظر
ہندو بنیاد پرستوں اور
مسلم قدامت پسندوں کی اپنی اپنی الگ الگ کہانیاں کہ کوئی اسے 1829 کے ستی
کے خاتمے سے شروع کرتا ہے، اس میں ہندو ہیروز بناتا ہے تو کوئی اسے 1831 کی تحریک مجاہدین سے جلا دیتا ہے اور ایسے
بھی جو اسے انگریزوں کا ایسا عمل سمجھنے میں غلطاں جس کے ذریعے ہندوستان میں مسلم
اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ جس کسی نے اس دوران یعنی 1850 کے عشرے کی ابتداسے
نئی بیوروکریسی بنانے کی بحث، کمپنی سے جان چھڑوانے کی بحث اور انڈین بل کو
برٹش اسمبلی میں بار بار پیش کرنے جیسے مسائل پر برٹش اسمبلی ریکارڈ نہیں دیکھا وہ
بہت سی غلط فہمیوں کا شکار رہتا ہے۔1858 کی اسمبلی میں جان برائٹ کی تقریر موجود
ہے جو اپنی سلطنت سے کہہ رہا ہے کہ جو بھی نیا بندوبست بناو وہ اس وقت پائیدار ہو
گا جب یہاں کی رنگا رنگی کو سمجھو اور مانو گے اور اسے جگہ دو گے۔ وہ کہہ رہا تھا
کہ برٹش انڈیا میں درجنوں زبانیں اور 20 سے زیادہ مذاہب ہیں۔ انہیں ایک قوم بنانے
کی چکی میں نہ ڈالومگر مرکزیت پسند مائنڈ سیٹ پر کھڑی برٹش بیوروکریسی نے برائٹ کی
بات رد کر ڈالی۔ اس کا بڑا گواہ انڈین بل
ہے۔سوات اور دیگر علاقوں کی 1862 کہ جنگی مہمیں ہوں یا 1872 کا مجرم قبائل ایکٹ یہ
سب اسی مائنڈ سیٹ کا حصہ تھا جس نے 1893میں روسیوں سے مل کر ڈیورائینڈ لائن بنائی،
1901 میں چھ پنجابی اضلاع کو پنجاب سے کاٹ
اور قبائلی علاقوں سے ملا کر صوبہ سرحد بنایا پھر اس میں سے فاٹا نکالا۔1849 سے
1900 کے درمیان نئے بندوبست کو اسارنے کا پورا انتظام کر لیا گیا تھا جو تعلیم
سےفوج اور بیوروکریسی سے قانون اور میڈیا تک تھا۔ 20ویں صدی میں ابھرنے والی سیاست
کا یہ وہ پس منظر ہے جس بارے بات نہیں کی جاتی۔ 1900 سے 1947 تک نئی انڈین قوم
پرستیوں کو کھڑا کرنے کی کاوشیں ہوئیں کہ
وی این سوارکر نے 1909 میں پہلی کتاب لکھی جس میں 1857 کو پہلی بار جنگ
آزادی کہا اور پنڈتوں کے بیٹے منگل پانڈے
کو اس کا سردار بتایا۔ اس کے ساتھ مولوی محمد شاہ کی کہانی بھی لکھی مگر اس کتاب
کو مذہب اور انڈین قوم پرستی کا ملاپ کہنا غلط نہ ہو گا۔ یہ سوارکر ہندو مہاسبھائی
تھا اور انگریزوں سے اس لیے آزادی چاہتا تھا تاکہ ہندو راج قائم کر سکے۔ کتاب آن
لائن مل جاتی ہے۔ مذہب سے جڑی انڈین قوم
پرستی میں بھی رنگا رنگی سے انکار کو
اولیت حاصل تھی۔ خصوصی طور پر انڈین لبرلوں میں یہ بیماری کچھ زیادہ ہی تھی۔ یہی
حال مسلم قوم پرستوں کا بھی تھا۔رنگا رنگی سے انکار یا رنگا رنگی کا مطلبی ورتارا
وہ چلاک پالیسی تھی جو انگریزوں اور ان کے مخالفوں میں کامن تھی۔پہلی جنگ عظیم تک
انگریز کی مدد کرنے سے تحفہ میں آزادی لینے اور کسی باہرلی طاقت کی مدد سے
انگریزوں کو نکالنے جیسے ٹرینڈ چلتے رہے
مگر روولٹ ایکٹ اور جلیانوالہ قتل عام نے سب کو کلب سیاستوں سے نکال کر عوامی جتھہ بندیوں کی
طرف دھکیل دیا۔اسی کے بطن سے تحریک خلافت، ہجرت سے مسلسل تین صوبائی انتخابات اور
پھر 1937 اور 1946 کے محدود حق انتخاب
والی سیاست نکلی جو 1947 پر جا کر رکی۔اس سب کے دوران 1857 کو چند متحارب بنیاد
پرست اور قدامت حلقے ہی قومی آزادی کی جنگ
کہتے تھے یا پھر ترقی پسندوں میں کچھ نے اسے اپنایا تھا۔ نہرو کی مثال تو
پہلے ہی دی چا چکی ہے۔ عوامی جدوجہد کے استعارے بنانے والے 1857 کے واقعات میں پنہاں گھاٹوں کو یاد نہیں
کرنا چاہتے تھے جس میں عوام کی
شمولیت نہ ہونا اور تعلقہ داروں ، قدامت پسندوںاور رائل بنگال
آرمی کے کچھ حصوں کا یکدم متحرک ہونا ایسے
اہم سوال ہیں جنھیں آج بھی بھولنا مشکل ہے۔
Hindu fundamentalist & among founders of term Hindvta and Mahasabha leader V D Sawarkar's famous book 1909. Now Congress is struggling against Mahasabha & Modi yet before & after independence it remained busy to use them rather than its deconstruction.
چار۔ اگست 1947 کے بعد بھارت اور پاکستان میں جنگ
آزادی یا غدر بارے خیالات
نئے ممالک بن گئے پاکستان اور بھارت کہ اب دونوں کو اپنی
اپنی نئی قوم پرستیاں کھڑی کرنی تھیں جو وطنی ریاستوں کی مجبوری ہوتا تھا۔ حلانکہ
پہلی جنگ عظیم سے 1970 کی دہائی تک سو سے
زیادہ نئے ملک بنے ہوں گے کہ ان کی تشکیل
میں جغرافیہ اور رنگا رنگی کی بجائے دیگر سیاستوں
خصوصا متحارب یا اتحادی بڑی طاقتوں
کے مفادات کو اولیت رہی کہ بھارت اور پاکستان کی نشکیل ان سے مبرا نہ تھی۔ مگر اس
بات کو بھولنا شرط اولین سمجھا گیا کہ یہ نئی وطن پرستی یا حمیت کے خلاف تھا۔
بھارت اور پاکستان ایک آزادی ہند قانون کے تحت
بنائے گئے جس پر جولائی 1947 میں پورے ایک مہینہ برٹش پارلیمنٹ نے بحث کی۔تاہم
نئی وطنی تشکیلات میں ان حقائق کو پرے کر دیا گیا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے بنگلہ
دیش کی نصابی اور قوم پرست کتب میں یہ حقیقت گول کر دی جاتی ہے کہ بنگالی مسلمانوں
نے مسلم لیگ کا ساتھ کیوں دیا تھا اور پاکستان بننے کے بعد ون یونٹ پردستخط جگتو فرنٹ نے کیے تھے اور پہلے پاکستانی آئین
1956 میں بنگالی کو اردو کے ہمراہ قومی زبان مان لیا گیا تھا۔ کیونکہ بنگالی
نیشنلزم کے تحت نئے ملک بنگلہ دیش کی اساری وطنی تشکیلات میں اسے پیچھے کرنا ضروری
گردانا گیا۔ یوں جب بھارت نے وطنی تشکیلات یا وننی بیانیہ بنانا تھا تو اسے دو حقائق
کا سامنا تھا۔ پہلا یہ کہ ملک ہندو مسلم، اردو ہندی اور کانگرس مسلم لیگ تنازعات
میں سے گذر کر بنا ہے۔ دوسرا یہ کہ باوجود تقسیم ہند کے اقلیتی مسلم صوبوں کی 90
فیصد مسلم آبادی بھارت ہی کی باشندے
ہیں۔جو پرلے پاسے یعنی پاکستان گئے
ہیں ان کی بڑی اکثریت پنجابیوں کی ہے، کچھ
مغربی بنگال سے گئے ہیں۔یوں یہ بھارت ماتا کی بجائے پنجاب اور بنگال کی تقسیم تھی۔
مگر پاکستان دشمنی میں اسے بھارت ماتا کی تقسیم کہنا وطنی تشکیلات میں لازم ٹہرا۔
اب اگر مسلمانوں کو مہا بھارت توڑنے کا
ذمہ وار کہا جائے گا تو اس بڑی مسلم اقلیت کا کیا کریں جو نئے ملک بھارت کے شہری
ہیں۔ بس انہیں جوڑنے کے لیے 1857 کے اس مردے میں جان ڈالی گئی۔ کل تک 1857 کے
واقعات کو تعلقہ داروں کی مہم جوئیاں کہنے والے نہرو نے ایک سال بعد ہی یو ٹرن
لیا۔ تاہم بڑا بیانیہ پاکستان دشمنی اور مسلمانوں کو بھارت ماتا توڑنے کا ذمہ وار
قرار دینا تھااس لیے بھارتی مسلمان 1857 کی چھلی کے باوجود راندہ درگاہ ہی رہے اور
بلا آخر مودی نے آ کر وہ درگاہ بھی ٹھاہ دی۔ مودی اسی بڑے بیانئیے کا مبلغ تھا اسی
لیے اب منگل پانڈے براہمن زادہ ہی ہیرو ہے 1857 کا بھی۔ مگر مودی کی آمد سے پہلے
تک بھارتی سٹیبلشمنٹ نے 1857 کو خوب استعمال کیا اور تاریخی کتب لکھوائیں،
کھوجی پیپرز لکھے، پی ایچ ڈیز ہوئیں اور
پتہ نہیں کیا کیا۔ ان میں ایسی تحریریں بھی تھیں جن میں جنوبی ہند اور سکھوں کو 1857 کی خود ساختہ جنگ آزادی میں حصہ نہ لینے والوں کی نندیا کی
گئی اور دلی سے لکھنو تک کے خود ساختہ انقلابیوں ہی نہیں بلکہ نوابوں،
تعلقہ داروں کی انقلابیت کی داستانیں گھڑی گئیں۔ ایسی کئی ایک چلاک کتب بعدازاں
پاکستان آئیں بھی اور ان کے پاکستانی ایڈیشن بھی آئے۔ دوسری طرف پاکستان میں
ابتدائی عشروں میں 1857 کو باوجوہ غدر سمجھنے والوں کا ریاستی سطح پر غلبہ تھا اور
ان کے بیانیہ کے مطابق اس غدر کی ناکامی میں سے سرسید پیدا ہوئے جنھوں نے انگریزوں سے قربت اور ہندوں سے دوری کا سبق دیا
جس سے تشکیل پاکستان ممکن ہوئی۔ اس بیانئیے میں ہندو اور بھارت دشمنی ہی کو اولیت
تھی اور سرسید کو کاٹ ماٹ کر اسکی مدد کے لیے جوڑا گیا۔ تاہم جب 1965 کی جنگ کے
بعد بھارت دشمنی کے تھیسس میں جہادی رنگ
نمایاں ہونے لگا تو مسلم بنیاد پرستوں کو ریاستی راہداریوں میں زیادہ جگہ ملنے
لگی۔ بڑا بیانیہ بھارت اور ہندو دشمنی ہی
تھا تو اسمیں 1857 کو مسلم انقلابی جدوجہد میں ڈھالنے کا کام باوجوہ
کرنا لازم ہوا۔ ویسے بھی 1857 کی فوجی
بغاوتوں کے ذکر سے اس بات کو تقویت ملتی تھی کہ جدوجہد آزادی میں فوجیوں کا بھی
بڑا حصہ ہے۔ کہا یہ گیا کہ انگریزوں نے مسلمانوں سے 1857 میں اقتدار چھینا تھا اس
لیے 1947 میں اقتدار کے اصل حقدار مسلمان تھے مگر ہندو نے روڑ اٹکائے اور ہم نے
پاکستان بنا لیا۔ بھارت کی طرح 1857 کے واقعات سے
کچھ گروہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ
پاکستان بنانے کے لیے اصل جدوجہد تو لکھنو سے دلی مقیم مسلم اقلیتی صوبوں
کے مسلمانوں نے کی ہے اور باقی تو بس آخر
میں ہوا کا رخ دیکھ کر شامل ہوئے تھے۔پھر جب ریاستی سرپرستی میں اس پر کام ہونے
لگا تو پھر پاکستانی علاقوں سے بھی 1857
کے مجاہد تلاش کیے گئے۔ کچھ ایسے بھی تھے جنھیں اورنگ زیب کی بجائے بہادر شاہ ظفر
کو باوجوہ آخری مغل تاجدار کہنا وارا کھاتا تھا۔ تاہم نظریہ پاکستان کے تحت
1857 کے فوجی اور قدامت
پسند حوالوں ہی کو تقویت ملتی رہی۔
اگر بغور دیکھا جائے تو 1857 کے واقعات پر لکھی تحریریں مطلبی، متعصبانہ اور چلاک تاریخ لکھنے کے عمل کو
سمجھنے کا ایک
بڑا حوالہ ہیں مگر اس بارے ابھی جنوبی
ایشیا میں کام شروع نہیں ہوا کہ یہ
تحریر اگر کچھ سوالات آپ کے ذہن میں ابھار سکے تو کچھ بات بن جائے گی۔
For any response or comment you feel free to send email at aamirriaz1966@gmail.com