مذہبی قوم پرستی کے جنوبی ایشیائی بانی
لال۔
بال۔ پال
عامر
ریاض
مذہب
سے جڑی قوم پرستی نے بحیثیت مجموعی جنوبی ایشائی خطہ کا حلیہ بگاڑ دیا ہے کہ ڈیڑھ
ارب سے زیادہ لوگوں پر مشتمل یہ خطہ “لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ” کی عملی تصویر بنا
ہے
آج آپ کا تعارف اس ٹرائیکا یا تگڑم سے کروارہا ہوں جنھوں نے نو آبادیاتی دور میں مذہبی قوم پرستی کی بنیادیں رکھیں تھیں۔ یہ تھے بال گنگا دھر تلک (23 جولائی 1856 تا یکم اگست 1920) لالہ لاجپت رائے (28جنوری 1865تا 17 نومبر 1928) اور بپن چندر پال (-7 نومبر 1858تا20 مئی1932) ۔
بال گنگا دھر تلک مہاراشٹر کے باسی تھے کہ اس علاقہ میں مراٹھی بولنے والے ہندوﺅں کی اکثریت بھی تھی اور سلطنت موریہ، شیوا جی اور بمبئی سے تعلق پر تقاخر بھی۔ مراٹھا قوم کا المیہ یہ تھا کہ مغلوں اور افغانوں سے لڑتے ہوئے مراٹھے 19 ویں صدی کے اوئل میں انگریزوں کی محکوم بنے تھے کہ اس محکومی کے ردعمل میں شکست خوردہ مراٹھے بتدریج ہندو قوم پرستی کی طرف بوجوہ غلطاں ہوئے۔
Read complete article
Click Here
How
nationalism became part of religion is an interesting story but
important question is related to those who made nationalism subservient to
religion. Kingships started crumbling
during 18th century in South Asia and territory or geography based
Kingship took over the cradle of power in numerous areas from Bengal till
Punjab. They had to transform into nation states yet colonialism strangled the
whole region till 1849. During this period we witnessed a new phenomenon of
religious nationalism in our lands and Lal-Bal- Pal were founders of that phenomenon.
As
par their narrative they were against British not due to colonization but due
to their faith.
آج اس خطہ میں بسنے والے ہندو، مسلم، سکھ اور مسیح سب ہی میں مذہبی قوم پرستی
کا اثر نمایاں ہے۔ اس بگاڑ کی کچھ وجوہات تو نو آبادیاتی دور کی پالیسیوں میں
بدرجہ اتم موجود ہیں تو اس کا ایک حوالہ مقامی بھی ہے۔
آج آپ کا تعارف اس ٹرائیکا یا تگڑم سے کروارہا ہوں جنھوں نے نو آبادیاتی دور میں مذہبی قوم پرستی کی بنیادیں رکھیں تھیں۔ یہ تھے بال گنگا دھر تلک (23 جولائی 1856 تا یکم اگست 1920) لالہ لاجپت رائے (28جنوری 1865تا 17 نومبر 1928) اور بپن چندر پال (-7 نومبر 1858تا20 مئی1932) ۔
بال گنگا دھر تلک مہاراشٹر کے باسی تھے کہ اس علاقہ میں مراٹھی بولنے والے ہندوﺅں کی اکثریت بھی تھی اور سلطنت موریہ، شیوا جی اور بمبئی سے تعلق پر تقاخر بھی۔ مراٹھا قوم کا المیہ یہ تھا کہ مغلوں اور افغانوں سے لڑتے ہوئے مراٹھے 19 ویں صدی کے اوئل میں انگریزوں کی محکوم بنے تھے کہ اس محکومی کے ردعمل میں شکست خوردہ مراٹھے بتدریج ہندو قوم پرستی کی طرف بوجوہ غلطاں ہوئے۔
Read complete article
Click Here
بال
گنگا دھرتلک کے دیگر دونوں ساتھی لالہ لاجپت رائے اور بپن پال ایسے علاقوں میں
پیدا ہوئے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی کہ لالہ جی پنجاب اور پال جی بنگال میں
اقلیتی مذاہب کے پیروکار تھے۔
دونوں صوبوں میں مسلمانوں کا تناسب نہ صرف %50 سے زیادہ تھا بلکہ اکثر اضلاع میں تو مسلم تناسب 60 سے 80 فیصد بھی تھا۔ دونوں صوبوں میں بہت کم اضلاع ایسے تھے جہاں صرف ہندو یا صرف سکھ 50 فیصدی سے زیادہ ہوں۔
1849 میں پنجاب پر قبضہ کے بعد انگریزوں کا تسلط پورے برٹش انڈیا پر مسلمہ حقیقت بن چکا تھا کہ یہ تینوں اسی دور میں 1856 سے1865 کے درمیان دنیا میں وارد ہوئے۔ نئی انگریزی تعلیم سے مستفید ہونے کے بعد تینوں کے سوچ میں مختلف وجوہات کی بنیاد پر محکومی کا حل ہندو قوم پرستی کی ترویج ٹہرا۔
یہ پرچی (ووٹ) اور برچھی (مسلح جدوجہد) دونوں کے استعمال کو جائز سمجھتے تھے کہ نتیجہ اگر “ہندوراج” کی صورت میں برآمد ہو تو انہیں ہر طریقہ و نظام قبول تھا۔ اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے تینوں نے آل انڈیا کانگرس کا رخ کیا کہ ولائتی تعلیم ، امریکہ، یورپ کے دوروں اور محدود حق رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے “ووٹ کی سیاست” کی بھنک انہیں لگ چکی تھی۔
وہ انگریز کی ہندو مذہب میں مداخلت کے سخت خلاف تھے کہ ان کی انگریز مخالفت میں غیر ملکی تسلط کی بجائے مذہب میں مداخلت کو اولیت حاصل تھی۔ ستی اور کمسنی کی شادی جیسی روایات کو ختم کرنے کےانگریزی قوانین کے خلاف یہ آگے آگے رہتے۔ اگر کہیں قوم پرستی اور مذہب میں تکرار ہوتی تو یہ مذہب کو اولیت دیتے اور جب مذہب اور جدیدیت میں تکرار ہوتی تب بھی وہ عقائد پر پہرہ دیتے۔
سیاسی مذہبیت کے دلدادہ ان تینوں رہنماﺅں کی تحریریں دستیاب ہیں کہ وہ 1857 کے “غدر” کو ہندوﺅں کی جنگ آزادی کہتے کہ اس کے لیے انھوں نے نام نہاد جنگ آزادی کا ہیرو منگل پانڈے کو بنایا تھا۔
دونوں صوبوں میں مسلمانوں کا تناسب نہ صرف %50 سے زیادہ تھا بلکہ اکثر اضلاع میں تو مسلم تناسب 60 سے 80 فیصد بھی تھا۔ دونوں صوبوں میں بہت کم اضلاع ایسے تھے جہاں صرف ہندو یا صرف سکھ 50 فیصدی سے زیادہ ہوں۔
1849 میں پنجاب پر قبضہ کے بعد انگریزوں کا تسلط پورے برٹش انڈیا پر مسلمہ حقیقت بن چکا تھا کہ یہ تینوں اسی دور میں 1856 سے1865 کے درمیان دنیا میں وارد ہوئے۔ نئی انگریزی تعلیم سے مستفید ہونے کے بعد تینوں کے سوچ میں مختلف وجوہات کی بنیاد پر محکومی کا حل ہندو قوم پرستی کی ترویج ٹہرا۔
یہ پرچی (ووٹ) اور برچھی (مسلح جدوجہد) دونوں کے استعمال کو جائز سمجھتے تھے کہ نتیجہ اگر “ہندوراج” کی صورت میں برآمد ہو تو انہیں ہر طریقہ و نظام قبول تھا۔ اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے تینوں نے آل انڈیا کانگرس کا رخ کیا کہ ولائتی تعلیم ، امریکہ، یورپ کے دوروں اور محدود حق رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے “ووٹ کی سیاست” کی بھنک انہیں لگ چکی تھی۔
وہ انگریز کی ہندو مذہب میں مداخلت کے سخت خلاف تھے کہ ان کی انگریز مخالفت میں غیر ملکی تسلط کی بجائے مذہب میں مداخلت کو اولیت حاصل تھی۔ ستی اور کمسنی کی شادی جیسی روایات کو ختم کرنے کےانگریزی قوانین کے خلاف یہ آگے آگے رہتے۔ اگر کہیں قوم پرستی اور مذہب میں تکرار ہوتی تو یہ مذہب کو اولیت دیتے اور جب مذہب اور جدیدیت میں تکرار ہوتی تب بھی وہ عقائد پر پہرہ دیتے۔
سیاسی مذہبیت کے دلدادہ ان تینوں رہنماﺅں کی تحریریں دستیاب ہیں کہ وہ 1857 کے “غدر” کو ہندوﺅں کی جنگ آزادی کہتے کہ اس کے لیے انھوں نے نام نہاد جنگ آزادی کا ہیرو منگل پانڈے کو بنایا تھا۔
وہ کانگرس کو گوپال کرشن گھو کھلے، جناح، دادا بھائی نوروجی،موتی
لال نہرو جیسے لبرل عناصر سے پاک کرتے ہوئے مذہبی قوم پرستی میں رنگا دیکھنے کے
خواہاں تھے۔ لبرل ازم اور قوم پرستی کو مذہب کے تابع رکھنے کے خواہاں لال۔ بال۔
پال کی سیاست کو بعد ازاں مہاتما گاندھی، ہندو مہا سبھا، آریہ سماجی تحریک کے
گوریلوں اور سردار پٹیل نے خوب ورتا۔ بعدازاںان کی پھیلائی “سیاسی مذہبیت” کا اثر
مسلمانوں اور سکھوں پر بھی ہوا ۔
1901 میں جب انگریزوں نے پنجاب کے 6 اضلاع کو کاٹ کر پنجابیوں اور پٹھانوں پر مشتمل صوبہ سرحد بنایا تھا تو اسے صوبائی حقوق نہ دیے تھے۔ اسی طرح سندھ کو 1847 سے بمبئی کے زیر تسلط رکھا ہوا تھا جبکہ بلوچستان کو بدستور صوبہ بنانے سے انگریز بوجوہ گریزاں تھے۔ یہ تینوں مسلم اکثریتی علاقے تھے کہ لال۔ بال۔ پال ان کو صوبائی حقوق یا ان علاقوں کو صوبہ بنانے کے شدید مخالف تھے۔ اگر ان علاقوں میں ہندوﺅں کی اکثریت ہوتی تو لال۔ بال۔ پال ان کو صوبہ بنانے یا صوبائی حقوق دلوانے کے حامی ہوتے۔ ان کی مخالفت کے باوجود 1930 کی دہائی کے پہلے نصف میں صوبہ سرحد کو صوبائی حقوق اور سندھ کو بمبئی کے تسلط سے آزادی ملی۔
1901 میں جب انگریزوں نے پنجاب کے 6 اضلاع کو کاٹ کر پنجابیوں اور پٹھانوں پر مشتمل صوبہ سرحد بنایا تھا تو اسے صوبائی حقوق نہ دیے تھے۔ اسی طرح سندھ کو 1847 سے بمبئی کے زیر تسلط رکھا ہوا تھا جبکہ بلوچستان کو بدستور صوبہ بنانے سے انگریز بوجوہ گریزاں تھے۔ یہ تینوں مسلم اکثریتی علاقے تھے کہ لال۔ بال۔ پال ان کو صوبائی حقوق یا ان علاقوں کو صوبہ بنانے کے شدید مخالف تھے۔ اگر ان علاقوں میں ہندوﺅں کی اکثریت ہوتی تو لال۔ بال۔ پال ان کو صوبہ بنانے یا صوبائی حقوق دلوانے کے حامی ہوتے۔ ان کی مخالفت کے باوجود 1930 کی دہائی کے پہلے نصف میں صوبہ سرحد کو صوبائی حقوق اور سندھ کو بمبئی کے تسلط سے آزادی ملی۔
1916
کے معاہدہ لکھنو کی حمائیت انھوں نے اس لیے کی کہ اس
معاہدہ سے برٹش انڈیا میں موجود دونوں مسلم اکثریتی صوبوں یعنی پنجاب و بنگال میں مسلمانوں کا تناسب
50 فی صدی سے کم ہو جانا تھا کہ یوں بھارت ماتا میں کوئی ایک صوبہ بھی مسلم اکثریت
کا نہیں رہ جاتا تھا۔
اپنے مذہبی بیانیے کی وجہ سے یہ قوم پرستی اور جمہوریت کے جدید اطوار کو وطنی و قومی تشکیلات میں سمونے سے عاری تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لال۔ بال۔ پال کے خیالات و نظریات پر مشتمل جس یک قومی نظریہ (One Nation Theory) کی کانگرس حمائیت کرتی رہی اس بارے دیگر گرو ہوں میں اضطراب بڑھا کہ ردعمل میں مسلمانوں اور سکھوں میں بھی مذہبی قوم پرستی توانا ہوئی۔ 1920 میں تلک، 1928 میں لالہ جی اور 1932 میں بپن پال راہی ملک عدم ہوئے مگر جس مذہبی قوم پرستی کے بیچ وہ بوگئے تھے انھوں نے بعد ازاں بہت سے انڈے بچے دیے کہ آج پاک و ہند میں سرگرداں ہندو مسلم اور سکھ بنیاد پرست وہی ہیں جو قوم پرستی، جمہوریت اور جدیدیت کو اولیت نہیں دیتے اور نہ ہی اسے وطنی تشکیلات اور طرز حکمرانی کا نمایاںحصّہ بنانا چاہتے ہیں۔
اپنے مذہبی بیانیے کی وجہ سے یہ قوم پرستی اور جمہوریت کے جدید اطوار کو وطنی و قومی تشکیلات میں سمونے سے عاری تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لال۔ بال۔ پال کے خیالات و نظریات پر مشتمل جس یک قومی نظریہ (One Nation Theory) کی کانگرس حمائیت کرتی رہی اس بارے دیگر گرو ہوں میں اضطراب بڑھا کہ ردعمل میں مسلمانوں اور سکھوں میں بھی مذہبی قوم پرستی توانا ہوئی۔ 1920 میں تلک، 1928 میں لالہ جی اور 1932 میں بپن پال راہی ملک عدم ہوئے مگر جس مذہبی قوم پرستی کے بیچ وہ بوگئے تھے انھوں نے بعد ازاں بہت سے انڈے بچے دیے کہ آج پاک و ہند میں سرگرداں ہندو مسلم اور سکھ بنیاد پرست وہی ہیں جو قوم پرستی، جمہوریت اور جدیدیت کو اولیت نہیں دیتے اور نہ ہی اسے وطنی تشکیلات اور طرز حکمرانی کا نمایاںحصّہ بنانا چاہتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment