DR Mehdi Hassan & his times (1937-2022)، Some personal details
کیا آپ ڈاکٹر مہدی
حسن بارے جاننا چاہتے ہیں
عامر ریاض
صحافی، استاد، دانشور، انسانی حقوق کے رہنما، محقق ڈاکڑ
مہدی حسن کا شمار پنجاب سے تعلق رکھنے والے ان پاکستانیوں میں ہوتا ہے جو جرات اظہار کی وجہ سے اپنی اک منفرد پہچان رکھتے تھے۔ان کی فکر اور
خیالات اور طریقہ کار سے اختلاف کیا
جاسکتا ہے مگر ان کے علم ، جرات اور طلبا
سے تعلق بنانے کے دوست دشمن سب قائل تھے۔
27 جون 1937 کو مہدی حسن برٹش پنجاب کے تاریخی شہر پانی پت میں پیدا ہوئے جو جنگ و
جدل کی وجہ سے مسلم اور ہندو بیانئیوں میں شہرت رکھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی شہر کی تاریخ کی تفسیر تھے۔ا ن
کے والد محکمہ مال سے وابستہ رہے اور 1947 کے بعد پنجاب کی مذہبی تقسیم کی وجہ سے
ان کا گھرانہ واہگہ پار کر کے منٹگمری
چلا آیا جہاں ان کے والد تحصیلدار رٹائر
ہوئے۔ والد کی دو بیویاں تھیں، پہلی سنی العقیدہ تھی تو دوسری اہل تشیع کہ اسلام
کے متفرق عقائد سے ان کا واسطہ گھر سے ہی پڑا۔منٹگمری جو پاکستان بننے کے19
سال بعد ساہیوال ہو گیا اس کے بھی وہ
گواہوں میں ایک تھے۔ پنجاب کی پرانی مسلم روائیت کے عین مطابق اس گھرانے کو فارسی
پر عبور تھا کہ سائیوال میں آج بھی مہدی
حسن کے بھائی اپنے پنجابی، اردو جملوں
میں فارسی جڑنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ خواجہ عنصر حسن ان کے سوتیلے بھائی تھے
جن کی سول سرونٹ بیٹی مشہور ترقی پسند
فتحیاب علی خان کی بیگم تھیں۔ مہدی حسن اپنے والد کی دوسری بیگم کی اولاد
تھے جو اہل تشیع برادری سے تعلق رکھتی تھیں ۔آپ کے دو بڑے بھائی خواجہ احمد حسن
اور خواجہ اظہر حسن انتقال کر چکے ہیں اور تین چھوٹے بھائی ائیرکموڈور (ر)خواجہ جعفرحسن ، خواجہ عسکری حسن
اور مظفر حسن حیات ہیں۔ جو بھائی ائیرفورس میں رہے انھوں نے جنرل ضیا سے متعقہ لگایا
اور اسے بھگتا تو دوسرے بھائی خواجہ عسکری حسن
1970 میں سائیوال سے پیپلزپارٹی کے رہنما تھے اور پھر ضلعی صدر بھی بنے اور
1976 میں پارٹی ٹکٹ پر ایم پی اے بھی بنے اور ایک زمانے میں غنوی بھٹو کے ساتھ بھی
گئے۔ ڈاکٹر مہدی حسن کی بہن میمونہ کلثوم بعد میں مشہور اینکر و صحافی نصرت جاوید
کی ساس تھیں۔ ڈاکٹر مہدی حسن کو جاننے کے لیے اس سماجی پچھوکڑ کے علاوہ کچھ
مزید باتیں بھی اہم ہیں۔ سائیوال میں اس گھرانے کے گھر بوستان نامی احاطہ میں ہیں۔ خود مہدی حسن گورنمنٹ ہائی سکول منٹگمری سے پڑھے جو اب اے پی ایس سکول بن چکا ہے مگر یہ
وہی سکول ہے جسے گولڈن جوبلی سکول کہا جاتا تھا کہ یہ ملکہ کی 50 سالہ سالگرہ پر
1864 میں بنایا گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب بارے چھپے اک مقالہ کی مصنفہ کے بقول ڈاکٹر مہدی حسن کی ابتدائی زندگی میں دو واقعات
کی اہمیت رہی کہ جس میں ڈاکٹر الف دال
نسیم اور منیر نیازی شامل تھے۔ ڈاکٹر اللہ دتہ نسیم 1948 میں اردو میں پی ایچ ڈی کرنے والے اولین طالب علم
تھے جن کا مقالہ خواجہ میر درد پر تھا اور ان کے سپروائزر عبدالماجد دریابادی تھے۔
ہشیار پور سے آئے یہی اللہ دتہ نسیم مہدی
حسن اور ان کے بھائیوں کے وہ استاد تھے جنھیں ڈاکٹر صاحب خوب یاد کرتے تھے۔وہ کہتے
تھے کہ مجھے بنانے میں اللہ دتہ نسیم کا
بڑا ہاتھ ہے۔ ہشیار پور سے سائیوال آکر
بسنے والے پنجابی منیر نیازی نے 1957 کے آس پاس سائیوال جیسے پچھڑے ہوئے شہر میں
ترقی پسند کتب کی دکان کھولی تھی کہ مہدی
بتاتے ہیں کہ ان کے بڑے بھائی خواجہ اظہر حسن اور بہن میمونہ کلثوم کی منیر
سے دوستی بھی تھی اور یہ دونوں اس دکان سے جو ترقی پسند کتب وغیرہ لاتے تھے وہ میں
بھی پڑھ لیتا تھا اور یوں مجھے بہت سے
باتیں سمجھ آنے لگیں۔ سائیوال کالج سے
فارغ ہونے کے بعد وہ لاہور آ گئے اور پھر
انہی دنوں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے جنرلزم پڑھا بھی اور اخباری صنعت سے وابستہ بھی ہوگئے۔ 1967 میں
وہ پنجاب یونیورسٹی میں استاد بھرتی ہو
گئے۔ 50 سال تک آپ نے صحافت کے استاد کی حیثیت میں پہلے پنجاب یونیورسٹی اور
بعدازاں ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھایا،
ریڈیو، اخبارات کے لیے کام کیا، پی ایچ ڈی بھی کی اور امریکہ جا کر بھی اپنے علم
کا لوہا منوایا۔ یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر مہدی حسن کا شمار ان اساتذہ میں ہوتا ہے
جنھوں نے نہ صرف ضیا شاہی کو بھگتا بلکہ
پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبا
اور جماعت اسلامی کی جارحیت کا مقابلہ بھی
کیا۔ 2010 کے بعد وہ پاکستان انسانی حقوق کمیشن کے پردھان بھی
بنے اور تادم مرگ اس عہدے پر کام کرتے رہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن 85 برس کی عمر میں گذشتہ دنوں پورے ہو گئے۔
انھوں نے بلاشبہ ایک بھرپور زندگی گذاری۔ ان کی شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہو
گی۔ ان میں بہت سے مداح بھی ہیں تو ان کے ناقدین بھی ان میں شامل ہیں۔ ان کی کتب
اور تجزیوں سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم ڈاکٹر
مہدی حسن کو جانتے ہیں؟ کیا ہم ان کی
زندگی کے نشیب و فراز اور سیاسی و صحافتی خیالات
کو سامنے رکھتے ہوئے ناقدانہ تعریف کر سکتے ہیں؟
Various articles of Aamir Riaz at Dawn Blog
https://www.dawnnews.tv/authors/1487/aamir-riaz
No comments:
Post a Comment