No to Infighting Yes to EC
& GST+
Pak
China Economic Corridor (EC) & Generalized Scheme of Preferences (GSP) are
two major opportunities for Pakistan and when youth will get new opportunities
due to new businesses it will reduce extremism in many ways. Fortunately, economic
situation is good as petrol and dollar prices are in control yet political
situation is not supporting it. After Dharna politics and Peshawar incident now
institutional infighting in Port province is neither good nor appreciable in
any way. The situation demands coordination rather infighting among various
parties and institutions. A parliamentary over sight committee is essential to
handle the situation.
“Generalized
Scheme of Preferences (GSP+) obligations are required to be taken as an
opportunity to transform the socioeconomic and political landscape of Pakistan,
I A Rehman added in his concluding remarks at a Multi-Stakeholders Forum on “GSP+
in Pakistan: Towards a Coordinated Implementation Strategy”, organized by
Democracy Reporting International in Lahore.”
The forum
was attended by a large number of high-ranking officials of relevant government
departments, members of the Punjab Provincial Assembly, representatives of
business organizations, civil society, trade unions and media. Members of
Punjab Assembly including Irfan Daultana, Mary Gill,
Ayesha
Javed, Farah Manzoor and Nabeela Hakim Ali; secretary Lahore Bar Association
Muhammad Qayyum; Secretary Punjab Union of Journalists Aami rSohail; officials
of EPA, Services and Admin,
Finance,
Labour, Law departments and PBIT also attended the forum.
Zulfiqar
Shah, Team Leader at DRI while giving background information stated that
Pakistan acquired GSP+ status in January 2014, which grants duty-free exports
of various products within European markets. The status provides Pakistan with
an opportunity to improve trade, promote exports, and increase employment
opportunities, thus the country can economic growth. In return, the status requires
Pakistan to effectively implement 27 international conventions, accept the
reporting requirements imposed by each convention and cooperate in the European
Commission’s monitoring procedures.
Syed Mohsin
Abass, Secretary of Law and Focal Person of the Punjab Treaty Implementation
Cell shared with participants that the provincial Punjab government is heading
towards GSP+ compliance obligations.
Mr. Aamir
Fayyaz Shaikh, Chairman International Trade Committee of All Pakistan Textile
Mills Association (APTMA) emphasized that textile and clothing sector of
Pakistan has the potential to increase Pakistan’s exports from the current $13
billion to $26 billion, effectively creating 15 million more jobs, however this
growth is limited by the country’s obligations to fulfill international
conventions to which Pakistan is a signatory.
Mr. Karamat
Ali, a veteran labour activist and executive director of Pakistan Institute of
Labour
Education
and Research (PILER), expressed concern on existing trends of human and labour
rights violations in Pakistan. Although he did not contradict claims by the
Punjab Government officials yet he told about an increase in child labor too.
Resonance of his pretty long speech was mention by Rahman in his own style.
Issue of continuity of economic activity is linked with democratic
continuity in Pakistan. Either it is disturbing for various groups or not but
it is important for the future of Pakistan for sure
http://humshehrionline.com/?p=12144#sthash.CQshEtcp.dpbs
ایک ایسے وقت میں جب بطور ریاست پاکستان میں معاشی ترقی کے امکانات بڑھ رہے ہیں تو بہت سے گروہوں کو یہ عمل مختلف اور متضاد وجوہات کی بنا پر ’’وارا‘‘نہیں کھارہا۔ کچھ تو ہمیشہ کی طرح لڑائیوں کو بڑھا کر مزے لیتے ہیں تو کچھ ایسے ہیں جو پرانا حساب کتاب چکانے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ فوج اور سیاستدانوں کو’’ ایک صفحہ ‘‘پر نہ دیکھنے کے خواہش مندبرملا بغلیں بجارہے ہیں۔ ان کے اضطراب کا اظہار کبھی دھرنوں میں ہوتا رہا ، کبھی اسمبلیوں سے استعفوں کے پرانے حربے کو آزمانے کی کوششیں ہوئیں تو اب سندھ میں گورنر راج اسی ایجنڈے کی تکمیل کا ادھورہ خواب ہے۔ قادری صاحب بھی بازو ٹنگے دوبارہ سے برآمد ہونے کی تیاریوں میں ہیں۔ ہر ادارہ دوسروں کو موادِالزام ٹہراتا ہے اور یہی تاثر دیتا ہے کہ وہ تو’’پاک ‘‘ہے مگر باقی ادارے بدعنوانیوں میں ملوث ہیں۔ یہ رویہ نہ توپاکستان کے مفاد میں ہے نہ ہی اس سے اصل مسئلہ حل ہونے کی کوئی امید ہے۔ 2015ء کا سال معاشی حوالوں سے محض اس لیے مفید نہیں کہ چینی صدر نے46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کرڈالا ہے بلکہ یہی وہ سال ہے جس میں یورپی یونین کی دی گئی جی ایس ٹی(پلس) کی رعائیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرتے ہیں۔ 2016کے آخر تک ہمیں اس حوالہ سے پیش رفت کرنی ہے ۔مگر پہلے فوجی عدالتوں نے یورپی یونین کے تحفظات کو بڑھایا اور اب گورنر راج کے نعروں کے بعد جمہوری سیٹ اپ کو لپیٹنے کی خبریں چلائی جارہی ہیں۔ یکدم مشرف حمایتی ٹولہ میڈیا اور سیاست میں متحرک ہوگیا ہے جبکہ(ر)حمید گل نے تو قادری اور الطاف بھائی کی تقلید میں سیدھا سیدھا مارشل لاء لگانے کا راگ الاپنا شروع کردیا۔ جی ایس پی(پلس)کے حوالہ سے پاکستانی معیشت کو کھڑا کرنے میں جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ سوال تو تیز طرار بیانات کے ملبے تلے دب چکے ہیں۔ ڈیمو کریٹک رپورٹنگ انٹرنیشنل(ڈی آرآئی) والے دہائیاں دے رہے ہیں کہ پاکستان جی ایس پی(پلس)سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان27سمجھوتوں کو قانونی شکل دے مگر نیرو تو بانسری بجانے میں محوہے۔ عدالتوں نے البتہ فوجی عدالتوں کے حوالہ سے جاری مقدمہ میں بحث جاری رکھی ہے جو بنیادی طور پر 21 ویں اور 18ویں ترامیم کے خلاف اک ٹیڑھا مقدمہ ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ ساری لڑائی جمہوریت چلانے اور جمہوریت سے فائدہ اٹھانے کے گر دلڑی جارہی ہے مگر ایسے گروہ بھی سرگرم ہیں جو اس لڑائی کو جمہورت کے خاتمہ تک لیجانے کے لیے بیتاب ہیں۔ ڈی آر ائی نے گذشتہ دنوں لاہور میں جی ایس پی(پلس) کے حوالے سے تمام ممکنہ حصّہ دار مدعو کیے۔ حاضرین میں پنجاب اسمبلی کے ممبران بھی تھے اور پنجاب سرکار کے افسر ، کاروباری شخصیات اور سول سوسائٹی بشمول ٹریڈ یونین و میڈیا کے نمائندے بھی شامل تھے۔ ممبران اسمبلی میں عرفان دولتانہ، میری گِل، عائشہ جاوید، فرح منظور اور نبیلہ حاکم علی نمایاں تھے۔دیگر حاضرین کے علاوہ پنجاب یونین آف جرنلٹس کے عامر سہیل، سیکرٹری لاہور بار محمد قبوم نے بھی بحث میں حصّہ لیا۔ انسانی حقوق کمیشن کے آئی اے رحمن نے بھی انہیں 27 ضابطوں (Conventions)کا ذکر کیا جن پر ریاست پاکستان دستخط کرچکی ہے مگر انہیں قانونی شکل دینا باقی ہے۔ حکومت پنجاب کی طرف سے سیکرٹری قانون سید محسن عباس نے بتایا کہ حکومت پنجاب اس ضمن میں بڑی تیزی سے کام کررہی ہے۔ انہوں نے خبردی کہ عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالہ سے جلد ایک نیا قانون آرہا ہے۔ تاہم انھوں نے اعتراف کیا کہ حکومت تنہا کچھ نہیں کرسکتی۔ سب حصّہ داروں کو مل جل کر جی ایس پی(پلس)کے حوالہ سے کام کرنا ہوگا۔ ڈائریکٹر لیبر نے چائلڈ لیبر اور جبری مشقت کے خلاف حکومت پنجاب کی کوششوں کا ذکر کیا۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ اگر پاکستان کی مصنوعات ڈیوٹی کے بغیریورپی منڈیوں تک جائیں گی تو ان کی مانگ میں حد درجہ اضافہ ہوگا۔ گذشتہ مالی سال میں اس اضافہ بارے میں برابر خبریں آتی رہیں ہیں۔ ٹیکسٹائل کے کاروبار سے منسلک آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن(APTMA)کے عامر فیاض شیخ نے کہا کہ اگر ہم نے جی ایس پی(پلس)سے فائدہ آٹھا یا تو ہمارے کاروبار کا حجم13ارب ڈالرسے26ارب ڈالر تک بڑھ سکتا ہے۔ اس سے حکومت اور کاروباری حضرات ہی کو فائدہ نہ ہوگا بلکہ ڈیڑھ کروڑنئی نوکریاں بھی نکلیں گی۔ اگر پاکستان اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں نبھاتا رہے گا تو کوئی وجہ نہیں ہم معاشی استحکام کی طرف بڑھیں گے۔ ڈی آر آئی کے ذوالفقار شاہ نے یاد دلایا کہ ہمیں جنوری2014میں جی ایس پی (پلس) کی رعائیت ملی تھی مگر ہمارے ہاں اس سے تاحال بہت زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ انھوں نے کاروباری حضرات سے کہا کہ وہ اپنے کارخانوں میں مزدوروں کے حوالہ سے حالات کو سازگار بنائیں۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=12144#sthash.CQshEtcp.dpuf