Sunday, June 7, 2015

Burma: Fall out of Proxy war fought under the banner of religion

Burma 

Fall out of Proxy war fought under the banner of religion

Will minorities ready to learn lesson

Demographic changes in the region of Arakan by the colonial masters laid foundation of communal-ism in the sino-bengali region


برما کے مسلمان، پرائی جنگیں اور اقلیتیں
تاریخ کے جھروکوں سے
برمی مسلمان: ناکام مذہبی سیاست کی اک تازہ مثال
عامر ریاض
جماعت اسلامی کے بظاہر انقلابی امیر سراج الحق آدھا سچ بولنے میں اپنے پیش رووں سے کم نہیں نکلے۔ برمی مسلمانوں کی حالت زار بتاتے ہوے وہ یہ نہیں بتانا چاہتے کہ ان چار فیصدی برمی مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر انہیں چین مخالفت کی اگ میں جھونکنے والے کون تھے؟ برصغیر کی تاریخ میں مسلم اقلیتوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کی تاریخ بڑی تگڑی رہی ہے کہ آج برما میں روہینگوں اور بنگالی مسلمانوں جبکہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ، پرائی یعنی پراکسی  (Proxy)جنگوں میں اسلام کو استعمال کرنے کا نتیجہ ہے۔ 2009 میں میں بنگلہ دیش گیا اور ڈھاکہ و چٹاگانگ جانے سے معلوم ہوا کہ بنگلہ دیش میں سیکولر حکمران ہوں یا اسلام پسند، ”برما پراجیکٹ“ پر سب راضی ہیں۔ چین کو خلیج بنگال تک آنے سے روکنے والے اس منصوبے کا عام نام China Containment Policy    ہے۔ جب 1960 کی دہائی میں پاک چین تعلقات بڑھنے لگے تھے اور اس کے بطن سے1966 میں میں شاہراہ قراقرم نے جنم لیا تو 1914سے میک ماہوون لائن بنانے والوں کے کان کھڑے ہو گئے تھے۔ دسمبر1971کو جو کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا اُس کا مقامی حوالہ تو کراچی اور اسلام آباد کا ڈھاکہ اور بنگالیوں سے بدترین سلوک تھا جبکہ اس کا بین الاقوامی حوالہ China Containment Policy ہی تھی جس کا یقین ہماری حکمران اشرافیہ کو فروری 1972 میں جا کر ہوا کہ پھر پاکستان دولت مشترکہ سے باہر آگیا۔
اگر ہمارے پالیسی سازوں نے چودھویں صدی کے چینی مسلم سیاح”ماہ ہوان“ Ma Huan کے کالی کٹ (کلکتہ)، چٹا گاں(چٹا گانگ) سے براستہ لہوری بندر (ٹھٹھہ)، ہرمز( خلیج فارس) کے ساحلی سفر پڑھے ہوتے تو انہیں چینیوں کی ہماری ساحلی پٹی میں دلچسپیوں کی تاریخ اور اس کے خطہ پر اثرات کا پہلے سے اندازہ ہوتا۔
بنگلہ دیش بننے کے بعد China Containment Policy کے زیر اثر بنگالی قوم پرستی کے ذریعہ سفید چمڑی والے علاقہ ”چٹا گاں“ یعنی چٹاگانگ پر نزلہ گرا۔ میں نے بنگلہ دیش ریڈیو کے افسر کمال لوہانی کا انٹرویو کیا تو انھوں نے برملا اعتراف کیا کہ چٹاگانگ کا علاقہ تاریخی طور پر بنگالیوں کا علاقہ نہیں تھا بلکہ کرنل حرام کاسسCox’s  نے اٹھارھویں صدی میں یہاں بنگالیوں کو بسانا شروح کیا تھا۔ چٹا گانگ کے تاریخی باشندوں یعنی ”اراکینوں“ کو پہاڑیوں کی طرف دھکیلنے کی اس پالیسی کا مقصد ساحلی علاقہ اور بندرگاہ پر انگریزی تسلط مضبوط کرنا تھا۔ مگر بنگلہ قوم پرستی کے زعم میں اس تاریخ کو بوجوہ بھلا دیا گیا۔ یاد رہے، 1824 سے برما انگریزی تسلط میں تھا کہ افغانستان کی طرح 1935 میں اسے الگ ملک بنانا انگریزی پالیسی کا حصہ تھا۔ انگریزی پالیسی کے تحت اہل برما کو کیسے غریب رکھا گیا اس کا احوال مشہور ادیب جارج آرویل کی کتاب Burmese Days سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ برما سے لندنی سیاست کا جنازہ 19 جولائی 1947کے بعد نکلا کہ جب برما کے مقبول عام کیمونسٹ لیڈر’ ’آنگ سان “Aung San کو قتل کر دیا گیا۔ برما دولت مشترکہ سے نکل آیا اور پھر اس کے چین سے رشتے مضبوط ہونے لگے۔ اس مطلبی تسلسل کو 1972 کے بعد نئے پا لیسی سازوں نے بوجوہ یاد نہ رکھا۔ مجیب الرحمن نے جب بنگلہ دیش میں بنگالی زبان و کلچرکا نفاذ کیا تو اُن کی بنگالی قوم پرستی میں ”اراکینوں“ کو بنگالی بنانے کی خواہش جھلک رہی تھی۔ اس دکھ کا اظہار خود کمال لوہانی نے کیا۔ 1974 کے بعد سعودی عرب کی رقم، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی بھرتیوں اور بنگلہ دیشی اسٹیبلشمنٹ کی طاقتوں کے ساتھ مغرب اور امریکہ نے اسلام کو چین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کی ٹھانی۔ یہ پراجیکٹ لگ بھگ 53 سال چلتا رہا اور تبلیغ و جہاد کی آڑ میں استعمال ہونے والے چار فیصدی برمی مسلمانوں کے مستقبل بارے کسی نے نہیں سوچا۔ برما میں بسنے والی مسلم اقلیتوں کو سبز باغ دکھاے اور خود ان کے نام پر مال کمایا۔ ڈالروں پر "لبیک" کہنے والوں کی فہرست سراج الحق سامنے نہیں لا سکتے۔ اس پراجیکٹ کو اس وقت دھچکا لگا جب 2011 کے دسمبر میں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے برما کا دورہ کیا۔ یہ چین اور امریکہ میں بڑھتے ہوئے تعلقات کا اشارہ بھی تھا اور ہمارے خطوں کے حوالے سے نوآبادیاتی پالیسیوں سے مراجعت کی شروعات بھی تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس موقعہ پر لندنی سیاست کے ہرکارے اور سعودی عرب و جماعت اسلامی برما کے خلاف ”اسلام“ کو استعمال کرنے کی سیاست کو تَجنے کا اعلان کرتے اور برما میں موجود چار فیصدی مسلمانوں کو نئے سیاسی حالات میں ڈھالنے کا پیغام دیتے۔ مگر انھوں نے برما کے مسلمانوں کو برمی سرکار کے رحم و کرم پر چھوڑ ڈالا۔ اسلام اور بدھ مت کی آڑ میں برما کے باڈر اور چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں میں چین و مغرب کی اس سرد جنگ نے برمی مسلمانوں کو سیاسی تنہایوں میں دھکیل دیا تھا۔ پھر1982میں وہ وقت بھی آگیا جب برما کی مقتدرفوجی سرکار نے برمی مسلمانوں کو برمی وطنیت سے ہی داخل دفتر کر دیا۔ اس سب کے باوجود برما کی مقبول عام لیڈر اور مقتول کمیونسٹ رہنما کی بیٹی آنگ سانگ سوچی نے برملا وطنیت کے حوالہ سے برمی مسلمانون کو ٹارگٹ کرنے والی فوجی تعریف بارے تحفظات کا اظہار کیا۔ اب جاہیے تو یہ تھا کہ برمی مسلمان برما میں ہونے والی جمہوری تحریک کا حصہ بنتے مگر وہ بلعموم مذہبی سیاست میں پھسے رہے۔ برمی حکمران بھی یہی چاہتے تھے کہ برما کی جمہوری جدوجہد کو گھجل کرنے کے لیے اسے "مذہبی جنگ" کا لبادہ اوڑھا جاے۔ پاکستانی تو ااس کھیل سے بخوبی واقف ہیں کہ شہید بے نظیر بھٹو اور ان کے مقتول والد کے خلاف پاکستان کی فوجی حکمرانوں نے یہی کھیل کھیلے تھے۔ چند برمی مسلمان خاندانوں کو سمندر میں دھکیل کر اس مہم کا آغاز کیا گیا۔ اس مہم کا اصل حدف سوچی کو نوے فیصدی بدھسٹوں میں بدنام کرنا ہے۔ اس دہرے وار کو زیرک سوچی نے فہم سے روکتے ہوے وطنیت کی تعریف بارے تحفظات کا اظہار کر دیا۔ مگر اسلامی جماعتوں نے برما کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی تقلید میں اس سیاست کو ایک دفعہ پھر مذہبی رنگ دے ڈالا۔ مذہبی یا فرقہ وارانہ جماعتوں کی چاندی تو مذہبی جنگ سے ہوتی ہے۔ اب یہی لوگ واویلا مچا مچا کر مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ بی بی سی والے کاشغر اور برما کے مسلمانوں کے غم میں سٹوریاں چھاپ رہے ہیں۔ صاف معلام ہو رہا ہے کہ بغض معاویہ میں چلائی جانے والی حالیہ مہم برمی یا کاشغری مسلمانوں کے حق کی بجائے چین مخالفت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ قدیمی سلک روٹ کا ایک رستہ کاشغر سے گوادر آتا ہے تو دوسرا برما سے خلیج بنگال آتا ہے اور چینی دونوں رستوں پر برابر کام کر رہے ہیں۔ سراج الحق یہ نہیں کہ رہے کہ برمی مسلمانوں کو برما کی وطنیت دی جائے بلکہ ان کا اشارہ عالم اسلام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی طرف ہے جس کا ایک حوالہ برما ہے۔ ابھی چند ماہ پہلی جب یمنی مسلمانوں پر افتاد ٹوٹی تھی تو انقلابی سراج الحق کی زبان کس نے بند کر دی تھی؟ ہمارے مذہبی اور فرقہ وارانہ لیڈروں کی انہی دوغلی سیاستوں نے مسلمانوں کو کہیں کا نہیں رہنے دیا اور بچارے چار فیصدی برمی مسلمان بھی اسی مذہبی سیاست کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔


For more reading
http://punjabpunch.blogspot.com/2015/06/is-bbc-love-for-anti-china-muslims-new.html

No comments:

Post a Comment

Punjab & Iqbal

وسیب تے وسنیک علامہ اقبال تے پنجاب عامر ریاض پنجاب تے پنجابی اوہ دو اکھاں جے جس پاروں اساں پنجابی عوام، پنجاب دے وسنیکاں اتے پنجابی وس...