Combating Extremism & Terrorism
Youth should work for New Narrative
Our generation has been failed and now it is up toYoung generation to coin New Narrative.
Our generation cannot
do it for sure. There is no light in the end of tunnel. Don’t depend on our
generation which is a failed case. Old narratives are out of order so youth
have to work on New Narrative regarding combating extremism & terrorism.
This is stated by none the other but a person who’s father was protector of
Ideology of Pakistan and owned Nawa e Waqat Newspaper. Acceptance of failure is
the bold step by famous editor, anchor and intellectual Arif Nizami. Arif is
not the first person in this regard and one should remember Farzind e Iqbal
Justice Javed Iqbal and Mujieb ur Rahman Shami in the same line. Nizami criticized
federal interior minister & Imran Khan and advised them to take bold stand
against extremism & terrorism. Instead of analysing our own faults we prefer to critisized outsiders. Was there any out sider involved in recent Daska (Sialkot) incident? What police did, was wrong but in retiliation what lawyers did relected our general behaviour. International players are proactive in Pakistan but it does not restric us from analysing our own folies. He
was addressing a meeting of youngsters under the banner of “Peaceful Pakistan”
or Puraman Pakistan organized by Civil society organization Bargad and
supported by Umeed Jawan. Nizami was presiding a session regarding National
Action Plan. In the same conference along with Iqbal Haider Butt, I was among
speakers in another session “Peace in Campuses”. Four senior higher education
personalities were also among speakers namely Dr Nizam u din (Chairman HEC,
Punjab), Dr Mujahid Kamran (Punjab University), Dr Khaleeq ur Rehman(Government College University Lahore)
and Dr Khawaja Alqama(Bahauddin Zikrya University Multan). Read full
story based on reflections of conference, and also read some more angles to
understand hurdles in coining new narrative.
Read full article here
دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے حوالہ سے خطاب کرتے ہوئے مشہور ایڈیٹر و دانشور عارف نظامی نے بھی وہ بات کہہ ڈالی جسے کرنے سے بڑے بڑے کتراتے ہیں۔انھوں نے اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ جس بیانیہ کے تحت ہم اس ملک کو چلاتے رہے ہیں اب اسے تبدیل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے مگر یہ کام وہ لوگ نہیں کرسکتے جو خود ’’ناکام‘‘ ہوچکے ہیں۔اپنی نسل کے دانشوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے بر ملا کہا کہ آگر آپ ہمارے طرف دیکھتے ہیں تو مجھے تو اپنی نسل کے حوالہ سے سرنگ کے آخر میں روشنی نظر نہیں آتی البتہ نئی نسل اس ضمن میں روشنی دکھا سکتی ہے۔یاد رہے یہ بات وہ کہ رہے ہیں جن کے گھر میں ’’نظریہ پاکستان‘‘ پیدا ہوا بلکہ انھوں نے ریاست کے بنتے بگڑتے فیصلوں کو انتہائی قریب سے دیکھا۔ وزیر داخلہ اور عمران خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نظامی صاحب نے کہا کہ اگر سیاسی لوگ بھی طالبان کے خلاف کھل کر بات کرنے سے گھبرائیں گے تو پھر قومی ایکشن پلان پر عمل کون کرے گا؟ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے حوالہ سے میڈیااور سول سوسائٹی بھی وہ کردار ادا نہیں کررہے جو وقت کی پکار ہے۔آجاکر ہم ہر مسلہ کا کھرابھارتی خفیہ ایجنسی’’را‘‘کے کھاتے ڈال کر رانجھا راضی کرلیتے ہیں۔ میںیہ نہیں کہہ رہاکہ پاکستان میں بیرونی ایجنسیاں مذموم حرکات میں متحرک نہیں مگر ہم خود اگر تذبذب کا شکار ہیں تو پھر محض ’’باہر لوں ‘‘پر الزام دینے سے کام نہیں چلے گا۔ ڈسکہ کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے عارف نظامی نے سوال اٹھایا کہ کیا اس میں بھی ’’باہر لے ‘‘ملوث تھے؟ ڈسکہ میں جو پویس نے کیا وہ تو غلط تھا مگر ردعمل میں جو وکیلوں نے کیا وہ ہماری مجموعی صورتحال کا عکاس تھا۔یہی صورتحال کراچی میں بھی ہے۔ -
کسی غلط کام کے ردعمل میں ہم اُس سے بھی بر اکام کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں جواک قابل افسوس رویہ ہے۔عارف نظامی تین روزہ’’پرامن پاکستان‘‘کا نفرنس سے مخاطب تھے کہ جس میں پنجاب کے وزیرتعلیم اور سپیکر پنجاب اسمبلی بھی شریک ہوئے اور پنجاب کی تین یونیورسٹیوں سے وائس چانسلرمجاہد کامران ، خواجہ علقمہ ، خلیق الرحمن کے ساتھ ساتھ چیرمین ہائر ایجولیشن کمیشن پنجاب ڈاکٹرنظام الدین بھی شریک تھے۔یہ کانفرنس غیر سرکاری تنظیم برگدنے ’’امید جوان‘‘ کی مدد سے سجائی تھی اور نوجوانوں کی بھرپور نمائندگی اس کانفرنس کو چار چاند لگارہی تھی۔ یہ نوجوان کا لجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم تھے اور کل کلاں کو انہی لوگوں نے پاکستان کے مختلف سرکاری و نجی اداروں میں کام کرنا ہے۔جس سیشن کی عارف نظامی صدارت کررہے تھے وہ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالہ سے
ترتیب دیا گیا تھ -
اس سیشن میں مسلم لیگ (ق)کے سردار وقاص حسن موکل چیر پرسن یوتھ پارلیمنٹرین اتحاد، عمر قریشی(اے آروائے) اورایم کیوایم کے فیصل سبزواری بھی موجود تھے۔ انیق ظفر کی نظامت میں چلنے والے اس سیشن میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نے نہ صرف مقررین کی گفتگو سنی بلکہ انہیں سوال و جواب کے وقفہ میںآڑے ہاتھوں بھی لیا ۔ فیصل سبز واری نے ایم کیو ایم کے دفاع کی ناکام کوشش کی اور جب بات نہ بنی تو پھر’’الباکستان‘‘کے حوالہ سے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ لاہور میں گاڑیوں پر کراچی کی نسبت زیادہ تعداد میں’’الباکستان‘‘ لکھا نظر آتا ہے۔ یہ اعداد وشمار انھوں نے نائن زیرو کی مطلبی لیباٹری سے حاصل کیے یا کسی لندنی ادارے سے انہیں معلومات ملیں،اس بارے حضرت نے کوئی اشارہ بھی نہ کیا۔ یہ وہی رویہ ہے جس کی وجہ سے عارف نظامی پہلے ہی دلبرداشتہ نظر آئے۔ جب تک ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ’’خانوں میں بانٹتے‘‘ رہیں گے اس وقت تک دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو نئے نئے جزیرے ملتے رہیں گے۔ کبھی ہم شیعہ کلنگ،ہزارہ کلنگ کہتے ہیں تو کبھی پنجاب پر سارا ملبہ ڈالتے ہیں تو کبھی دہشت گردی کو محض کراچی کی تین سیاسی جماعتوں کے گلے ڈال دیتے ہیں۔ شکار پور میں ہونے والی دہشت گردی پر ہمارا ردعمل اور ہوتا ہے جبکہ سانحہ پشاور اور کراچی پر بس حملہ پر ردعمل اور نظر آتا ہے۔ جب کچھ نہیں ہوتا تو پھر ’’بیرونی ہاتھ‘‘ کی پرانی راگنی کو جگایاجاتا ہے۔ یہ درست کہ دہشت گردی کا رستہ ریاست کی عملداری یعنی رٹ آف سٹیٹ اور انتہا پسندی سے ہوکر گذرتا ہے ۔ مگر ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے اور انتہا پسندیوں کو سینے سے لگانے والوں کا حوالہ صرف مذہب و فرقہ واریت ہی نہیں ہیں بلکہ دہشت گرد اور انتہا پسندقوم پرستیوں اور لسانی حوالوں کی بھی آڑلیتے ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی سے صولت مرزاکے اعترافات تک ہمارے ہاں غیر مذہبی عناصر کی بھی بڑی کھیپ ہے جو ریاست کی رٹ کو نہیں مانتی اور انتہا پسندیوں میں بھی ملوث ہے۔ اب فیصل سبزواری اسے محض مدارس تک بوجوہ محدود رکھنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی ’’سیاسی مجبوری‘‘ تو ہوسکتی ہے مگر ان کی جماعت کایہی طرز عمل دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف بننے والے وسیع اتحاد میں رکاوٹ بھی بنتا رہاہے۔دہشت گردی وانتہا پسندی کے خلاف وسیع اتحاد بنانے کے لیے ہمارے پالیسی سازوں کو پرانے بیانیہ پر ازسرنوغور تو کرنا ہی پڑے گا اور کسی حدتک ’’کونوں کھدروں‘‘میں اس بارے غورہو بھی رہا ہے۔ریاست کی رٹ کے حوالہ سے تو مسئلہ خاصا گھمبیر ہے کہ ایک طرف ڈیورینڈ لائن اور فاٹا کے اردگرد پھیلا وسیع بارڈر ہے تو دوسری طرف ہمارا ساحلی علاقہ جو ٹھٹہ کے قرب و جوار سے براستہ کراچی ہوتا ہوا گوادر تک جاتا ہے۔ ان علاقوں کے ساتھ ساتھ سمگلروں اور مفروروں کا مافیا ہے کہ یہ سب دہشت گردی و انتہا پسندیوں کو بطور آڑ استعمال کرتے ہیں۔ریاستی اداروں میں بھی ان کے ہمدرد ہیں اور سیاسی جماعتوں میں بھی کہ اس سے نمٹے بغیر دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف مہم توڑ نہیں چڑھ سکتی۔ سیاست ، غیر قانونی تجارت اور جرائم کا یہ تال میل جب تک موجود رہے گا اس وقت تک مسلہ حل نہ ہو گا۔اگر فیصل سبزواری کراچی میں اس مافیا کی موجودگی اور ان کے محفوظ ٹھکانوں سے انکاری ر ہیں گے تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ جس کا جہاں قبضہ ہے وہ اس علاقہ میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو تحفظ دیتا ہے اور دوسروں کی طرف اشارے کرتا ہے۔ایک زمانہ تھا جب پاکستان کے تعلیمی اداروں میں مختلف طلباء گروپوں کے قبضے تھے۔ کراچی سے خیبر تک ان قبضوں کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ کہیں یہ قبضے پختون ، سندھی، بلوچ قوم پرستی کی آڑ لیے تھے، کہیں اسلام پسندوں کی آڑ، کہیں گجر، آرائیں، جٹوں ، کشمیریوں کی آڑ تو کہیں لسانی جماعتوں کی آڑ۔ہر طلباء تنظیم بظاہر قانون کی حکمرانی اور طلباء اتحاد کی بات کرتی تھی مگر اپنا قبضہ ختم کرنے سے بچتی اور متحارب طلباء جماعتوں کو اپنے قابض علاقہ میں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ کچھ یہی حال دہشت گردی و انتہا پسندی میں ملوث لوگوں کا بھی ہے کہ جو اپنے بندوں کو قتل یا غائب بھی کرادیتے ہیں۔بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث ہیں اور دیگر قوموں،مذہبوں اور فرقوں کے لوگوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔پکے مسلم لیگی گھرانے سے تعلق رکھنے والے دانشور، ایڈیٹراور نوائے وقت گروپ کے بانی حمید نظامی کے فرزند عارف نظامی اس لیے دلبرداشتہ ہیں کہ اگر دہشت گردی اور انتہا پسندی کی آڑلینے والوں کے حوالہ سے سیاسی جماعتیں اور مقتدر ادارے ایک صفحہ پر نہیں ہیں تو پھر یہ بیل منڈھے کیسے چڑھے گی۔؟دوسرے دن کے ایک اجلاس میں وائس چانسلروں کے ساتھ میں اور اقبال حیدر بٹ بھی مقررین میں شامل تھے۔ یہاں اس بات کی ظرف توجہ دلائی گئی کہ عام پاکستانی نوجوان کے اضطراب کو بڑھانے میں مدارس سے زیادہ اہم کردار ہمارے نجی و سرکاری نصاب تعلیم اور معیار تعلیم میں فرق کا ہے۔سرکاری سکولوں کے نصاب کے حوالہ سے گذشتہ 6سالوں میں کم از کم پنجاب میں تو پھر قابل توجہ پیش رفت ہوئی ہے مگر معیار تعلیم کے حوالہ سے نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں جو حدفاضل ہے وہ نوجوان میں طرح طرح کے اضطراب بڑھانے کا سبب بن رہا ہے ۔ سوال کا حل یکساں نظام تعلیم جیسے دلفریب مگر ناقابل عمل نعروں میں نہیں بلکہ یکساں معیار تعلیم میں ہے۔ ہمارے دانشوروں کی نہ تو نصاب پر نظر ہے اور نہ ہی وہ نجی تعلیم کی خرابیوں پر توجہ دیتے ہیں۔اکثر تو ایسے ہیں جو ہر الجھن کا حل ’’نج کاری‘‘میں ڈھونڈنے پر کمر بستہ ہیں۔اگر آپ پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک بچوں کے اذہان میں دیہات، عورتوں، مخصوص مذاہب وفرقوں اور پاکستانی مادری زبانوں و ثقافت سے نفرتیں اور کدورتیں بوئیں گے تو بھلا معاشرے کی صورت انتہا پسندیوں کی طرف مائل بہ سفر کیوں نہ ہوگی؟ اگر دسویں تک کی کتب میں ایک سبق بھی کسی غیر مسلم پاکستانی شخصیت بارے نہ ہو گا تو آپ ایک کروڑ سے زائد غیر مسلم پاکستانیوں کو کیا سبق دے رہے ہیں؟نو آبادیاتی دور سے ہمارے سکولوں کی کتب سے صوفیاکے کلام کو دیس نکالا گیا تھا جو کم وبیش آج بھی جاری ہے۔ رواداری اور صلح کل پر مشتمل یہ پیغام آج بھی ہمارے معاشرے کو ایک اکائی میں باندھنے کا سبب بن سکتا ہے۔اس بیانیے کو کون بدلے گا؟ یہی نہیں اگر خطبہ الہ آباد اور قائداعظم کی گیارہ اگست والی تقریر کو ہم نویں، دسویں، اولیول کے نصاب کا حصہ بنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے نوجوان نئے بیانیے کو بنانے میں کامیاب ہوسکیں۔جب تک ہمارے نوجوان نو آبادیاتی عہد سے ترتیب دیے گئے’’بیانیوں‘‘سے جان چھڑاتے ہوئے ازسر نو غور نہیں کریں گے وہ بھی پرانی نسل کی طرح دائروں ہی میں گھومتے رہیں گے۔سوال نہ تو پرانی نسل کا ہے نہ ہی نئی نسل کا، بلکہ اصل مدعا تو ’’پرانے بیانیوں‘‘ سے جان چھڑاتے ہوئے پاکستان کے حوالہ سے نئے بیانیہ کو بنانے کا ہے۔ اس بیانیہ کو بنانے سے قبل ہمیں اس بات پر تصفیہہ کرنا ہوگا کہ وہ کون کون سے کام ہیں جو ہمیں بطور معاشرہ اور ریاست قطعاً نہیں کرنے چاہیں۔ انگریزی میں اسے باٹم لائن(BOTTOM LINE)کہتے ہیں کہ نئے بیانیے کے لیے باٹم لائن میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو خانوں میں منقسم کرکے دیکھنے اور سمجھنے کی روایت کو تج دینا بھی لازم ہے۔ قرار داد مقاصد کو دوبارہ سے آئین کے دیباچہ میں شامل کرنا بھی وہ مسئلہ ہے جس نے آئین کی روح کو مسخ کررکھا ہے۔ یہ کام آمر مطلق ضیاالحق نے کیا تھا اور پچھلے دنوں معزز ججوں نے بھی اس حوالہ سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے جس یکجہتی اور عزم کی ضرورت ہے اس لیے بفض معاویہ سے جان چھڑانا لازم ہے۔بصورت دیگر ہم یونہی دائروں میں گھومتے رہیں گے۔ کانفرنس میں سانحہ پشاور میں شہید ہونے والوں کی ماوٗں نے شرکت کی جو پرامن پاکستان کی صدا بن چکی ہیں۔ کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی یہی تھی کہ اس میں سینکڑوں طلبات و طلبہ نے حصہ لیا کہ یہی مستقبل کے معمار ہیں۔ پرامن پاکستان کانفرنس میں جو تجاویز منظورکی گئیں وہ یہ ہیں * نوجوانوں کو چاہیے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندیوں کے خلاف جدوجہد میں نہ تو پارٹی بازی کو حائل ہونے دیں نہ ہی مذہبی، فرقہ وارانہ، قومیتی یا لسانی پہچان کو آڑے آنے دیں بلکہ ان سے مبرا ہو کر انتہا پسندیوں اور دہشت گردیوں کو آڑے ہاتھوں لیں۔ سوشل میڈیا پر بھی نوجوان اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔ * انتہا پسندیوں اور دہشت گردی کی حمایت کرنے والوں کا روزمرہ زندگی اور سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کریں۔ * پنجاب حکومت سائبر کرائم بل کو زیادہ موثر بنانے کے لیے اس پر ازسرنو غور کرے۔ پابندی لگانا ایک موثر ذریعہ ضرور ہے مگر یہ مسئلہ کا حل نہیں۔ * اُردو میڈیا میں جذبات کو ابھارنے والی ایسی رپورٹنگ سے گریز کیا جائے جو انتہاپسندیوں اور دہشت گردی کو پروان چڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ * حکومت تعصبات پھیلانے کے حوالہ سے چینلوں کے لیے موثر قانون سازی کرے اور اس پر عملدرآمد بھی ہو۔ * نوجوانوں کو غیرنصابی سرگرمیوں میں زیادہ سے زیادہ مواقع دیتے ہوئے یہ خیال رکھا جائے کہ انتہا پسندیوں کے خلاف ان کی تربیت بھی جاری رہے۔ * نوجوانوں میں قومی ایکشن پلان سے آگاہی کے لیے تعلیمی اداروں میں ایسے پروگرام ترتیب دیئے جائیں جن میں نوجوان کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کر سکیں۔ ایسے پروگراموں میں دانشور، اساتذہ، سول سوسائٹی کے اراکین اور پالیسی ساز طالبات و طلباء کے ساتھ شریک ہوں۔ * نصابی کتب میں ایسا کوئی مواد شامل نہ ہو جو رواداری، مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی یا دیگر تعصبات کے برخلاف ہو۔ * دہشت گردی اور انتہا پسندیوں کا شکار ہونے والے لوگ جن نفسیاتی و روحانی مسائل کا شکار ہوتے ہیں ان کے سدباب کے لیے حکومت بندوبست بنائے۔ * انفرادی سطح پر ہم سب کو انتہاپسندی اور دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والوں پر نظر رکھنا چاہیے۔ * معاشرے میں کالعدم تنظیموں کے دوبارہ سرگرم ہونے کے حوالہ سے حکومت کو موثر قانون سازی کرنی چاہیے۔ * محلہ اور علاقہ کی سطح پر موجودہ سماجی تنظیموں کو انتہاپسندی کے خلاف محلوں اور پنڈوں کی سطح پر عوامی آگاہی کے پروگرام کروانے چاہئیں۔ * اقلیتوں کے مسائل اور ان کے ساتھ ہونے والے واقعات کی رپورٹنگ کو بہتر بنایا جائے۔ * یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طالبات و طلباء کے متحرک کردار کے لیے سوسائٹیاں بنائی جائیں اور ان سوسائٹیوں کو تعلیمی ادارہ فنڈ بھی فراہم کرے۔ * یونیورسٹیوں میں طالبات و طلباء کی شمولیت سے ایسے ادارے بنائے جائیں جن کے تحت نوجوان تعلیمی ادارے کے ڈسپلن پر عملدرآمد کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ کی معاونت کریں۔ - See more at: http://humshehrionline.com/?p=11845#sthash.HpEMe6tR.dpuf
Some more things
Peace conference: ‘Ayub era restrictions politicised campuses’
http://tribune.com.pk/story/894042/peace-conference-ayub-era-restrictions-politicised-campuses/
Day#
1 (27-05-15):
Session#1: Opening
The conference opened
with an influx of eager participants, all crowding around the registrations
desk getting their names registered and finding their seats for the conference
commencement. Overview of the conference, introduction and overall explanation
of the basic theme revolved around youth engagement.
·
Activities for youth engagement should be
promoted stimulating youth to combat extremism.
·
Youth involvement is crucial. “Youth
being active on social media is really important. We cannot afford to be
silent. Social media activism cannot be ignored”
·
We need to unify our stance instead of
having confined approached catering to the benefits of a particular sector
province. We have to discuss and come up with a mutual agenda that isn’t
confined to a particular segment but is for the entire nation.
·
A supportive platform for NAP (National
Action Plan) should be formed for debates and discussions on different levels
that have participation from policy makers, academia, youth and civil society.
_________________________________________________________________
Session #2: Deciphering the National Action Plan
·
No stereotyping of extremists should be
done. They should be dealt without any discrimination irrespective of their
background - from a madrassa or schools.
·
Changing the curriculum or syllabus in
our schools is of utmost importance so that it focuses on tolerance rather than
instigating hate and intolerance amongst people.
·
Mr. Sabswari also said that according to
National Plan, any organization with a specific radical motive religious or
otherwise will not be allowed to operate in Pakistan. Recommendation for this
is to play a vigilant role in restricting the activities of such organizations that
have radical motives and they have to be stopped before another regretful
consequence happens. According to the stipulations of the National Action Plan
they must not be allowed to operate in the country.
·
Media and youth should involve themselves
to spread awareness regarding National Action Plan 2014
·
Recommendation for BARGAD: The compilation
video of National Action Plan made by BARGAD is the true reflection of what the
plan proposes. Anyone who is interested in knowing about the policies made
should watch this video atleast.
Session#3: Never Again
This session focused
upon putting forward some recommendations for the implementation of NAP. These
recommendations came directly from the grieving parents of the victims of
Peshawar attacks. The recommendations were discussed and replied to by the
representative parliamentarians.
·
Majority of the audience sided with the
formation of a judicial committee for investigating into the culprits behind
the extremist attacks in Pakistan.
·
Education should be given the first
priority in solving problems like terrorism from the grass root level.
·
‘If we give job opportunities and end
poverty, then there would be no one who would sleep with an empty stomach and
kill to earn his bread.’ Another recommendation from here is the eradication of
poverty.
·
Psychological trauma faced by those
bereaved should be recognized and efforts should be placed to help them, be
made a part of the National Action Plan
Day#2 (28-05-15)
Session # 1
USIP Peace Innovation Fund Workshop
·
Syed Khawaja Alqama,
Vice Chancellor of Bahuddin Zakriya University (BZU) talked about how we never
learnt from the ways of Prophet Muhammad (SAW) but chose to focus on the parts
that suited our convenience and agenda. He continued by saying that we, as a
nation, haven’t learnt from the character of Prophet Muhammad (SAW), who would
even give out blessings to those who abused him. He recommended to learn
tolerance from the Holy Prophet (SAW).
·
He emphasized on the
role of education institutions in alleviating violence. 'University is the roof and schools are the
pillars, for a person's education.' said Mr. Alqama, who used this analogy to
explain how valuable education is at a school level in building up character of
its students. If the child is taught about tolerance and acceptance from very
early on, then he will continue with that mindset for the rest of his life.
·
His recommended that even
the smallest of considerations like saying thank you while talking or
apologizing when need be, can create softness of character in the society.
·
He also identified a
factor of fear in our society, where many choose to use violence as a means of
instilling fear and getting people to follow their way. It starts from even the
basic acts of getting your child to complete his work and threatening violence
if that doesn’t happen.
·
Seher Tariq, refocused
the group by bringing the discussion towards sustainability not simply in terms
of economics but also social sustainability. Contribution towards violence
eradication cannot simply be
accomplished by monetary means. It requires creativity and initiative on an
individual level.
·
Casey Johnson, Senior
Program Officer of USIP (Kabul), spoke of engaging the youth and how there is a
such a vast divide between madrassas and university education. He recommended
that the initiatives should lead to behavioral and attitude changes that can be
gauged.
Recommendations that were made by the participants
at the session on
Militant Organizations’ communication Strategies and
ways to counter them
Individual
Level:
·
Individuals should play an active role
in the process of exterminating the extremist forces in the society people
should create awareness regarding the functions and events of these banned
organizations and make the people around them mindful of the ways in which
these organizations are operating.
·
People should be critical about the
campaigns on social media and be careful about where is the charity money going
and where is it being used.
Government
Level:
·
The main emphasis was put on enforcing
the laws that ban these extremist organizations. Government should take strict
actions if they find any banned organization operating either openly or through
a subsidiary by another name.
·
Government should revamp the school
syllabus to remove any syllabus material that promotes hatred, intolerance and
biases against any religion or sect.
·
Government should also inspect the
material taught in Madrassas and the syllabus should be regulated.
Civil
Society Organizations:
·
CSOs should conduct events to spread
awareness and conduct seminars and workshop to de-radicalize the society. It is
their responsibility to play the role of a medium to represent the concerns of
public to the government. They should scrutinize the policies of the government
and raise voice for the implementation of the policies.
Session # 2: Cyber Extremism
The session intended to
discuss different aspects of Cyber extremism. With the diverse panelists, the
session scrutinized the theme with regards to various aspects and viewpoints.
·
The role of visual media in changing
paradigms/narratives is an imperative to show the diversity that Pakistan
enjoys in terms of ethnicities, religions and cultures.
·
Youth should know the importance of
advocating knowledge more than advocating an opinion. Political idol
worshipping should be avoided and a common man should put his own rationale to
work to form their opinions instead of blinding following the narrative that
comes from a politician.
·
A rational censorship policy will object
on the contents but not the platform on the whole has to be blamed or banned. In
Pakistan, banning of YouTube is a classic example of this deprivation. Lift the
ban on YouTube in Pakistan.
·
Digital surveillance: banning the active
channels or accounts of radical groups would just challenge their online
presence but that wouldn’t confine their activities in practicality. Shutting
their pages off would restrict the state’s access to the activities of such
groups and that could work for the state’s disadvantage. This point has to be
taken into consideration during digital surveillance.
·
Syed Ali Raza, a lawyer by profession
analyzed the legal side of the banning of social websites. Section 5 telegraph
acts 1876 was briefly discussed to give an overview of this category of
legislation to the audience, explaining that while banning is a good choice, It
is not the solution we need to implement.
·
Legal definitions of the Cyber Crime
Bill should have more clarity. Banning is a good choice, but it is not the
solution we need to implement.
Session: Youth Participation for Peace-building
The audience and panel
recognized the importance of youth participation but also identified lack of
youth engagement at a policy and decision making level, as the major obstacle
towards meaningful youth contribution towards peace building. Panelists, within
an interactive discussion helped streamline what can be done to address the
issue:
·
Youth needs to be engaged in conception,
planning, evaluation and execution levels of policy making and government
planning.
·
Education and awareness building of
young people regarding their social responsibility and the role they play
should also be a major focus. The following specific recommendations were made
by the panel regarding this sub issue:
-
The UN Convention on Rights of the Child
(CRC) inculcates and conceptualizes an agenda for youth empowerment from a very
young age (not the age we imagine youth participation to begin from) and this
model needs to be followed.
-
Positive role models that have
meaningfully contributed to society via peaceful means should be introduced in
curriculum, rather than existing role models that have made achievements
through conquest and violence.
-
Young people themselves should focus on
acquiring relevant information, for instance, regarding provincial youth
policies, the Right to Information Act
or the Cyber Bill to recognize how they can utilize avenues available to
them and role they can play for their improvement
·
Policy making towards youth engagement
needs to be preceded by an evaluation of socio-cultural factors that shape
youth views, at all levels of society including affluent youth who remain
susceptible to extremist views.
·
Young people also need to be engaged at
a socio-cultural, political and economic level. This can be done by creating
leadership roles and opportunities within civil society and the political
sphere (political), involving youth in a better understanding of the cultural
institutions that impact problems they face through intergenerational dialogue
and greater dialogue and discussion with youth at grass root level (sociocultural)
and identifying youth role in better economic development and progress.
·
Government and society in general needs
to play a supporting role for youth organizations that are providing
opportunities for young people to articulate their opinions and participate in
civil society.
·
Policies towards youth engagement also
need to be inclusive of different sectors of society, including different
genders, ethnicities and religions. Social, political and economic empowerment
of women specially needs to be focused on within the context of youth
participation.
·
Young people need to be facilitated in
and also need to take the initiative in self-monitoring their local communities
– local mosques, gatherings, local organizations for presence of hate speech
and incitation, and need to utilize support avenues such as the NECTA helpline
but the important and availability of such avenues also needs to be reiterated
to the youth
Session 2: Extremism and Mainstream Media
·
Two differing viewpoints emerged within
the panel and audience regarding media role and responsibility regarding
coverage and communication of banned organizations.
·
Rhetoric based reporting, especially
within Urdu medium newspapers needs to be rectified and substantive content
needs to be ensured.
·
Private channels are problematic due to
lack of regulation and verification of news report, and lack of training of
reporters. Government needs to play a
role in creating and implementation of regulations for the media that improve
reporting.
·
Equal and thorough coverage of
minorities and incidents involving minorities also needs to be provided that
provides their perspective as well.
·
Media stories need to be followed up upon;
to complete narratives and that sufficient and thorough coverage of the
nation’s affairs still requires further improvement.
Peace
Building on Campuses
Recommendations
Recommendations
·
Increased
Student Societies and activities such as community service to engage the youth.
A funding mechanism to fund these events and societies, to ensure the youth do
not look to political parties or other avenues for support. Roll of Honor and
Scholarships that appreciate a student’s involvement in extra-curricular
activities and their dedication towards them.
·
Revamp
of the syllabus and an improvement in the content quality of the textbooks with
more focus on gender equality, religious tolerance and minority rights.
·
Empowering
the youth by forming a Security Council in universities, comprising of students
that could make decisions on disciplinary matters.
No comments:
Post a Comment