Abdul Hafiz Pirzada
Achievements, flip flop and controversies
He was famous due to his
commitment with 1973 Constitution but when IJI money was distributed among anti
PPP Sindhi nationalists he proved his disloyalty not only with PPP and province
of Sindh but also with the constitution. Unlike NAWAZ SHARIEF he started
his career as democrat but finally landed in web of dictatorship. His
deterioration in politics will remain part of his democratic past forever.
Link
تین نسلوں سے وکالت کے پیشہ سے وابستہ عبدالحفیظ پیرزادہ راہئ ملک عدم ہوگئے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی ٹیم میں ہراوّل دستہ کے سپاہی تھے مگر پیپلز پارٹی کی سیاست سے تادیر وفا نہ کرسکے۔ ان کا شمار پارٹی چھوڑنے والے ان لاتعداد رہنماؤں میں ہوتا ہے جو پیپلز پارٹی کو خیرباد کہہ کر ’’راندہ درگاہ ‘‘ہوئے کہ پھر سیاست میں انہیں وہ عروج کبھی دوبارہ نصیب نہ ہوا جو پارٹی کے وسیلہ سے انہیں کبھی ملا تھا۔پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب پاکستانی سیاست کے طوفانوں میں تنہائی کا شکار ہونے کے بعد وہ’’سیکولر‘‘ ڈکٹیٹر کے اسیر ہوئے اور عمر کے آخری ایّام میں متنازعہ ٹھہرے۔ چند سال قبل دیے اپنے انٹرویو میں انھوں نے اقرار کیا تھا کہ وہ اپنی یاداشتیں قلم بند کررہے ہیں۔ قوی امید ہے کہ یہ کتاب بھی ’’گمشدہ پاکستانی اوراق‘‘ کاحصّہ بنے گی اور حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کی طرح تاریخ میں بس اس کی یاد ہی رہ جائے گی۔ ان کا تعلق سندھ کے پیرزادوں سے تھا یہ’’ پیر‘‘ انگریزوں سے مانگی زمینوں سے بنے تھے یا نہیں اس بارے راوی خاموش ہے۔ 1890 کی دہائی کے دوسرے نصف سے ان کے دادا نے وکالت شروع کی تھی تو1930میں ان کے والد پیرزادہ عبدالستاربھی والد کی تقلید میں وکالت میں ہی چلے آئے تھے۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انگریز کے دَور میں سیاست کی گلی میں وکالت کا دروازہ بڑے طمطراق سے کھلتا تھا۔ یہ وہی پیرزادہ عبدالستار تھے جو مئی 1953سے نومبر1954تک سندھ کے وزیراعلیٰ رہے تھے۔ دسمبر1951میں لاڑکانہ کے ایوب کھوڑو کی حکومت کو کراچی میں براجمان حکمرانوں نے ویسے ہی چلتا کیا جیسے وہ 1949 میں میاں افتخار حسین ممدوٹ کی پنجاب سرکار کو توڑ چکے تھے اورپھر سندھ میں بھی گورنر راج لگا دیا تھا۔گورنر راج کے بعد انتخابات کروا کر من مرضی کے نتائج لینے کا جو کامیاب تجربہ پنجاب میں مارچ 1951 میں کیا گیا تھا اْسے سندھ میں دہرایا گیا۔ فرق صرف یہ پڑا کہ پہلے لیاقت علی خان اس پراجیکٹ کے سرپرست تھے اور اب خواجہ ناظم الدین نے سندھ میں گورنر راج لگایا تھا۔ڈیڑھ سال بعد جب انتخابات کروائے تو پیرزادہ عبدالستار کا کرہ نکلا۔ 1935میں پیرزادہ عبدالستارکے گھرپیدا ہونے والے عبدالحفیظ پیرزادہ کو اشرافیہ کی جوڑ توڑ والی سیاست کی بہت جلد سمجھ آگئی ہوگی کہ گھر کی دہلیز سے ہی وہ یہ سبق پڑھ کر آئے تھے۔ وکالت میں اعلیٰ ڈگری (ایل ایل ایم) لینے کے بعد انھوں نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر بھی کیا اور کمیونزم کے عروج کے بارے تھیسِس بھی لکھا۔ 1957میں مغربی پاکستان ہائی کورٹ سے وکالت شروع کرنے والے عبدالحفیظ پیرزادہ نے ذوالفقار علی بھٹو کے چیمبر کا انتخاب کیا کہ پھر وہ اک طویل عرصہ بھٹو کے اسیر رہے۔ ان کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیوں میں ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر لاہور میں ہونے والے تاسیسی اجلاس سے ان کی سیاست میں دلچسپیوں کو جانا جاسکتا ہے۔ 16دسمبر 1971کے سانحہ کے بعد جب خودساختہ صدرجنرل یحییٰ خان اور اس کے ٹولہ کو باامر مجبوری اقتدار سے ہٹنا پڑا تو 1970 کے انتخابات میں مغربی پاکستان سے فقیدالمثال کامیابی حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کوصدر پاکستان بنا دیا گیا۔ بھٹو کی پہلی کا بینہ میں انفارمیشن اور تعلیم کی وزارت کی ذمہ داریاں عبدالحفیظ پیرزادہ کے حصّہ آئیں۔ بعد ازاں وہ بین الصوبائی امور، قانون اور خزانہ کے بھی وزیر رہے۔ جنوری 1972سے اگست1973کے درمیان گذرے ڈیڑھ سال میں سب سے بڑا چیلنج دل شکستہ اور مایوس قوم کو دوبارہ سے کھڑا کرنا تھا۔ سیاسی زلزلوں سے بھرے اس دَور میں نامساعد حالات اور بیرونی سازشوں کے طوفان سے جس طرح پاکستان کی ناؤ کو بچایا گیا وہ بھٹو اور اس کی ٹیم ہی کا اعجاز تھا کہ جس میں ایک نمایاں نام عبدالحفیظ پیرزادہ کابھی تھا۔ بھٹو انہیں ’’سوہنا منڈا‘‘ کہتے تھے۔ حذب اختلاف سے مذاکرات ہوں یامتفقہ آئین کی تشکیل کا کارنامہ، ان واقعات میں میاں محمود علی قصوری کے بعد اگر کسی شخص کی بہت زیادہ خدمات تھیں تو وہ عبدالحفیظ پیرزادہ ہی تھے۔ ایک بڑے رہنماکی حیثیت میں بھٹو اپنے وزراء کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے اور ان پر نظر بھی رکھتے تھے۔ بھٹو دَور میں بلوچستان کےچیف سیکرٹری رہنے والے لاہور کے سول بیوروکریٹ سید منیر حسین نے حال ہی میں اپنی یادا شتوں ایک
ایسا ہی واقعہ لکھا ہے۔
کتاب کا نام ہے ”Surviving The Wreck”
حفیظ پیرازادہ کے پاس بین الصوبائی تعلقات کی وزارت کا اضافی چارج بھی تھا۔ وہ اکثر بلوچستان آتے تھے جہاں عراق، ایران پراکسی (Proxy) جنگ 1970کی دہائی کے اوائل سے جاری تھی کہ ایران اور اس کے بادشاہ شاہ ایران پر ’’ایٹمی طاقت‘‘ بننے کا الزام 1968میں لگایا گیا تھا۔ اپنے ایک دورے میں وزارتی امور نبٹانے کے بعد پیرزادہ نے بلوچستان میں پرندوں کا شکار کھیلنے کی فرمائش کی۔وفاق کے نمائندے کی خواہش کو چیف سیکٹری پورا کرنے میں جت گئے اوراس کا بندوبست کر دیا ۔ یوں وہ کوئٹہ سے نزدیک شکار کھیلنے گئے۔ بقول سید منیر حسین، جب ہم شام کو شکارکھیل کر واپس آئے تو مجھے کیبنٹ سیکرٹری وقار احمد کا فون آگیا۔ ان کے استفسار پر میں نے اقرار کیا کہ ہم شکار کھیلنے گئے تھے ۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کینیڈا کے سرکاری دورے پر تھے۔ وقار احمد نے مجھے کہا کہ بھٹو صاحب نے فون کرکے انہیں یہ بات بتائی ہے اور اب سید صاحب آپ پیرزادہ کو اس سے مطلع کردیں۔ یہ واقعہ بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ زیرک بھٹو نے حفیظ پیرزادہ کی اس حرکت کو پسند نہ کیاتھا۔ بلوچستان میں فراریوں کے خلاف کاروائیاں ہو رہی تھیں اور ایسے نازک حالات میں وفاق کے نمائندے کو خاص احتیاط برتنی چاہیے تھی۔ عبدالحفیظ پیرزادہ جولائی 1977 تک بھٹو کے ساتھ بھی رہے اور وزارتیں بھی نبھاتے رہے۔ جنرل ضیاالحق نے انہیں گرفتار کرلیا مگر جنوری 1978 کو پیرزادہ کو رہائی دے دی گئی۔ انھوں نے بطور وکیل بھٹو کے مقدمہ میں سرتوڑ کوششیں کیں مگر عدالتوں نے فوجی آمر کی منشاء کے مطابق فیصلہ دیا۔ 1982میں پیرزادہ اور بیگم نصرت بھٹو میں پیدا ہونے والے اختلافات کی وجہ سے وہ لندن چلے گئے مگر پیپلز پارٹی سے جزوی طور پر ان کی وابستگی برقرار رہی۔ اس دوران وہ امریکہ و برطانیہ کے تعلیمی اداروں اور علمی مباحث میں جمہوریت کے حق اور آمریت کے خلاف لیکچر بھی دیتے رہے۔ وہ امریکہ اور برطانیہ کے دانشوروں سے برملا ایک ہی سوال کرتے تھے کہ اگر امریکہ اور برطانیہ کے لیے جمہوریت نیک شگون ہے تو پھر وہ پاکستان کو کیوں اس سے مبرا سمجھتے ہیں۔ ان کا اشارہ واضح تھا کہ پاکستان میں بھٹو حکومت کی بے دخلی میں بیرونی قوتوں یعنی امریکہ، برطانیہ کا کردار تھا۔ جیو ٹی وی کو دیے اپنے انٹرویو میں بھی انہوں نے رفیع رضا کے حوالہ سے یہی بات دہراتے ہوئے کہا تھا کہ جب ہم نے بطور پارٹی ایک سال قبل انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا تو ہمارے خلاف بیرونی قوتوں کے اشارے پر ان کے مقامی ساتھیوں نے سازش تیارکرلی تھی اور بھٹوصاحب اس سے باخبر تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ1977میں انتخابی دھاندلیوں کا الزام اس چومکھی سازش کا حصّہ تھا جس کے تانے بانے پاکستان کی سرزمین سے باہر بُنے گئے تھے۔ ضیاالحق کے مرنے کے بعد جب جزوی طور پر جمہوریت بحال ہوئی تو محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں۔ بے نظیر بھٹو 10 اپریل 1986 کو جلاوطنی کے بعد لاہور اتری تھیں مگر ان کے ہمراہ عبدالحفیظ پیرزادہ نہیں تھے۔ بیگم نصرت بھٹو کی طرح اب ان کے بے نظیر بھٹو سے بھی اختلافات ہوچکے تھے۔ 1988سے1999تک پیرزادہ کو سیاست میں پذیرائی نہ ملی کہ اب وہ اپنا زیادہ وقت وکالت کو دیتے تھے۔ کوششیں تو انھوں نے بھرپور کیں مگر اب سیاست میں نئے کھلاڑی آچکے تھے۔ سیاست میں ٹائمنگ کی کتنی اہمیت ہوتی ہے، اسے پیرزادہ عبدالستار کے فرزند کبھی سمجھ نہ سکے۔ ان کی زندگی کے آخری عشرے جنرل مشرف اور تحریک انصاف سے قربت میں گذرے جس نے انہیں متنازعہ بنا دیا۔
ایسا ہی واقعہ لکھا ہے۔
کتاب کا نام ہے ”Surviving The Wreck”
Published by Readings, Lhore
حفیظ پیرازادہ کے پاس بین الصوبائی تعلقات کی وزارت کا اضافی چارج بھی تھا۔ وہ اکثر بلوچستان آتے تھے جہاں عراق، ایران پراکسی (Proxy) جنگ 1970کی دہائی کے اوائل سے جاری تھی کہ ایران اور اس کے بادشاہ شاہ ایران پر ’’ایٹمی طاقت‘‘ بننے کا الزام 1968میں لگایا گیا تھا۔ اپنے ایک دورے میں وزارتی امور نبٹانے کے بعد پیرزادہ نے بلوچستان میں پرندوں کا شکار کھیلنے کی فرمائش کی۔وفاق کے نمائندے کی خواہش کو چیف سیکٹری پورا کرنے میں جت گئے اوراس کا بندوبست کر دیا ۔ یوں وہ کوئٹہ سے نزدیک شکار کھیلنے گئے۔ بقول سید منیر حسین، جب ہم شام کو شکارکھیل کر واپس آئے تو مجھے کیبنٹ سیکرٹری وقار احمد کا فون آگیا۔ ان کے استفسار پر میں نے اقرار کیا کہ ہم شکار کھیلنے گئے تھے ۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کینیڈا کے سرکاری دورے پر تھے۔ وقار احمد نے مجھے کہا کہ بھٹو صاحب نے فون کرکے انہیں یہ بات بتائی ہے اور اب سید صاحب آپ پیرزادہ کو اس سے مطلع کردیں۔ یہ واقعہ بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ زیرک بھٹو نے حفیظ پیرزادہ کی اس حرکت کو پسند نہ کیاتھا۔ بلوچستان میں فراریوں کے خلاف کاروائیاں ہو رہی تھیں اور ایسے نازک حالات میں وفاق کے نمائندے کو خاص احتیاط برتنی چاہیے تھی۔ عبدالحفیظ پیرزادہ جولائی 1977 تک بھٹو کے ساتھ بھی رہے اور وزارتیں بھی نبھاتے رہے۔ جنرل ضیاالحق نے انہیں گرفتار کرلیا مگر جنوری 1978 کو پیرزادہ کو رہائی دے دی گئی۔ انھوں نے بطور وکیل بھٹو کے مقدمہ میں سرتوڑ کوششیں کیں مگر عدالتوں نے فوجی آمر کی منشاء کے مطابق فیصلہ دیا۔ 1982میں پیرزادہ اور بیگم نصرت بھٹو میں پیدا ہونے والے اختلافات کی وجہ سے وہ لندن چلے گئے مگر پیپلز پارٹی سے جزوی طور پر ان کی وابستگی برقرار رہی۔ اس دوران وہ امریکہ و برطانیہ کے تعلیمی اداروں اور علمی مباحث میں جمہوریت کے حق اور آمریت کے خلاف لیکچر بھی دیتے رہے۔ وہ امریکہ اور برطانیہ کے دانشوروں سے برملا ایک ہی سوال کرتے تھے کہ اگر امریکہ اور برطانیہ کے لیے جمہوریت نیک شگون ہے تو پھر وہ پاکستان کو کیوں اس سے مبرا سمجھتے ہیں۔ ان کا اشارہ واضح تھا کہ پاکستان میں بھٹو حکومت کی بے دخلی میں بیرونی قوتوں یعنی امریکہ، برطانیہ کا کردار تھا۔ جیو ٹی وی کو دیے اپنے انٹرویو میں بھی انہوں نے رفیع رضا کے حوالہ سے یہی بات دہراتے ہوئے کہا تھا کہ جب ہم نے بطور پارٹی ایک سال قبل انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا تو ہمارے خلاف بیرونی قوتوں کے اشارے پر ان کے مقامی ساتھیوں نے سازش تیارکرلی تھی اور بھٹوصاحب اس سے باخبر تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ1977میں انتخابی دھاندلیوں کا الزام اس چومکھی سازش کا حصّہ تھا جس کے تانے بانے پاکستان کی سرزمین سے باہر بُنے گئے تھے۔ ضیاالحق کے مرنے کے بعد جب جزوی طور پر جمہوریت بحال ہوئی تو محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں۔ بے نظیر بھٹو 10 اپریل 1986 کو جلاوطنی کے بعد لاہور اتری تھیں مگر ان کے ہمراہ عبدالحفیظ پیرزادہ نہیں تھے۔ بیگم نصرت بھٹو کی طرح اب ان کے بے نظیر بھٹو سے بھی اختلافات ہوچکے تھے۔ 1988سے1999تک پیرزادہ کو سیاست میں پذیرائی نہ ملی کہ اب وہ اپنا زیادہ وقت وکالت کو دیتے تھے۔ کوششیں تو انھوں نے بھرپور کیں مگر اب سیاست میں نئے کھلاڑی آچکے تھے۔ سیاست میں ٹائمنگ کی کتنی اہمیت ہوتی ہے، اسے پیرزادہ عبدالستار کے فرزند کبھی سمجھ نہ سکے۔ ان کی زندگی کے آخری عشرے جنرل مشرف اور تحریک انصاف سے قربت میں گذرے جس نے انہیں متنازعہ بنا دیا۔
جمہوریت، منتخب اداروں کی تکریم اور جمہوری رویوں کی ترویج کی جدوجہد انتہائی صبر آزما کام ہے کہ اس پر تسلسل سے پہرہ دینا جوئے شیر لانے سے بھی مشکل امر ہے۔ سیاست کا کھیل عجب ہے کہ کچھ لوگ جمہوریت کی لڑائی لڑتے لڑتے آمریت کی گود میں اتر جاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو آمریت کے دَور میں پل کر جوان ہوتے ہیں اور پھر جمہوریت کے بوجوہ اسیر ہوجاتے ہیں۔ عبدالحفیظ پیرزادہ کا شمار اوّل ذکر رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ سیاستدانوں پر تنقید اپنی جگہ جائز مگر اس تنقید کے بعد اگر آپ ڈکٹیٹر کی حمایت کرنے لگیں تو’’اندر کا چور‘‘ ظاہر ہوجاتا ہے۔ شو مئی قسمت ، 2013کے انتخابات کے بعدملک پاکستان میں 1977والا ڈرامہ دہرانے کی کوششیں ہوئیں ۔ صوبہ خیبر پی کے میں وزارت اعلیٰ لینے کے باوجود اْسی پارٹی نے انتخابات میں دھاندلیوں کا وایلا مچادیا۔ پیپلز پارٹی کے پرانے رہنما تو جانتے تھے کہ یہ وہی1977والا کھیل دہرایا جارہا ہے البتہ کچھ نسبتاً نئے رہنما ضرور اس چکر میں پھنس گئے۔ مگر پارٹی پالیسی یہی رہی کہ انھوں نے بے
ضابطگیوں اور دھاندلیوں میں فرق کو پہچانا اور جمہوری تسلسل کا ساتھ دینے کا اہم ترین فیصلہ کیا۔دوسری طرف 1977کی انتخابی دھاندلیوں کو ڈرامہ کہنے والے پیرزادہ اپنی رائے بدل چکے تھے۔ پیپلز پارٹی چھوڑنا ان کی پہلی ہمالائی غلطی تھی تو پرویز مشرف کی قربت اس سے بڑی غلطی مگر وہ جو کہتے ہیں کہ ایک قدم ڈگمگا جائے تو سنبھلنا مشکل ہوتا ہے کہ پیرزادہ جو ڈیشل کمیشن کے روبرو تحریک انصاف کا ’’منظم دھاندلی‘‘ والامقدمہ لڑنے جا پہنچے۔ پیپلز پارٹی کے لیے یہ تطہیر کوئی نئی بات نہیں کہ جتوئی ، لغاری، غلام مصطفی کھر سے لے کر صمصام بخاری تک جانے کتنے انجان گذرگاہوں کے مسافر بنے۔ اک پیرزادہ ہی نہیں بلکہ بہت سے ترقی پسند اور این جی اوز بھی پہلے مشرف اور بعدازاں تحریک انصاف کے بوجوہ اسیر ہوئے تھے۔ جوڈیشل کمیشن میں عبدالحفیظ پیرزادہ کی آئینی مہارتیں کارگر نہ رہیں کہ اب وہ سکھر کے آبائی قبرستان میں اپنا اعمال نامہ ساتھ لے کر گئے ہیں -
No comments:
Post a Comment